ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف اٹھی نسل کشی کی تازہ لہر سب ہی کے لیے تشویش کا باعث ہے۔نسل کشی کے واقعات رپورٹ کرنے والے بیشتر بین الاقوامی ادارے پچھلے کئی سالوں میں ان خطرات سے باخبر کرچکے ہیں جو ہندوستانی مسلمانوں کو درپیش ہیں. لیکن اقوام متحدہ سمیت بیشتر ادارے ابھی تک کسی نتیجے پر پہنچنے میں ناکام رہے ہیں کیونکہ انڈیا بہرحال خطے کی بڑی طاقت ہے جسے امریکہ ناراض نہیں کرنا چاہتا۔
لیکن اس مضمون کا مقصد امریکہ اور موجودہ ہندوستانی حکومت کی پالیسیاں نہیں ہیں، بلکہ ہمارا مقصد حال میں پیش آئے ایک اندہوناک واقعے کے بعد ہندوستانی لبرلز کے بیانیے کا جائزہ لینا ہے۔
بی بی سی کے مطابق ایک ہندوستانی ٹرین پولیس اہلکار نے چلتی ٹرین میں بیٹھے کچھ مسلمانوں پر فائر کھول دیا جس کے نتیجے میں ایک ہندو پولیس انسپکٹر سمیت چار افراد جان کی بازی ہار گئے۔ دیگر میڈیا رپوٹس کے مطابق فائر کھولنے سے پہلے اہلکار نے ٹرین میں بیٹھے مسلمانوں کو پاکستانی ہونے کا طعنہ دیا اور کہا کہ یہ سب کچھ اس نے میڈیا پر سنا اور دیکھا ہے۔
پولیس اہلکار کی اسی بات کو لے کر ہندوستان کے سب تجزیہ نگاروں نے میڈیا کو آڑے ہاتھوں لیا اور رویش کمار سمیت تمام بڑے تجزیہ نگاروں نے ہندوستانی میڈیا کو ہی ریاست میں مسلمانوں کے خلاف پھیلی نفرت کی وجہ قرار دیا۔
سوال یہ ہے کہ کیا حقیقت میں ایسا ہی ہے؟ کیا ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی واحد وجہ میڈیا ہے؟
ہمارے خیال میں میڈیا اس نفرت کو پھیلانے اور بڑھانے کا آلہ کار تو شاید ضرور ہے، لیکن اصل وجوہات شاید اس سے کئی گنا بڑی ہیں۔
اگر ہم موجودہ ہندوستان کی تاریخ پر سرسری نظر دوڑائیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ وہاں مسلمانوں کی حالت کبھی بھی قابل ذکر نہیں رہی۔ کئی تاریخ دان تو یہاں تک کہتے ہیں کہ موجودہ ہندوستان کی داغ بیل تو نہرو صاحب اسی وقت ڈال گئے تھے جب انہوں نے کشمیر کے غاصبانہ قبضہ کو دوام بخشنے کے لیے آر ایس ایس کا سہارا لیا اور پونچھ میں مسلمانوں کے قتل عام کو ممکن بنایا ۔ اسی طرح بابری مسجد کی شہادت کے وقت بھی انڈین نیشنل کانگریس کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں تھا۔ اس وقت تو ہندوستان کا موجودہ میڈیا مسلمانوں کے خلاف نفرت نہیں اگل رہا تھا۔ اور حال ہی میں انڈین سپریم کورٹ کا بابری مسجد سے متعلق فیصلہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ حقیقت حال شاید یہی ہے کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت ہندوستان کے معاشرے میں رچ بس گئی ہے۔
اچھے اور برے ہندوستانی مسلمان کا فرق
اور اسکی وجہ ہماری نظر میں "اچھے اور برے مسلمان" کی تفریق ہےجس کی بنیادیں خود ہندوستان کے "سیکولر قانون " میں موجود ہیں.. ہندوستانی انٹیلیجنشیا کے مطابق اچھا ہندوستانی مسلمان صرف "لبرل مسلمان "ہے، جو اسلام کو بس ذاتی عبادات تک محدود رکھتا ہے اور اسکو اپنی شناخت نہیں بناتا، بلکہ اسکی ذاتی شناخت" ہندوستانی " ہوتی ہے۔ اسی لیے شرجیل امام، عمر خالد وغیرہ برے مسلمان ہیں، جنکی جگہ بس جیل کی کال کوٹھری ہے. جبکہ شاہ فیصل اور شیخ عبداللہ جیسے لوگ "اچھے مسلمان" ہیں کیونکہ انکی ہمدردیاں اسلام سے زیادہ ہندوستان کے ساتھ ہیں۔اور یہی وجہ ہے کہ ہندوستانی لبرلز جنکو ویسے تو مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے بہت فکر ہے، اور مسلمانانِ ہند کے خلاف بڑھتی نفرت پر افسوس اور تشویش بھی ہے، یہی لوگ شرجیل امام، یاسین ملک اور دیگر کے حقوق کے لیے بالکل بھی آواز نہیں اٹھاتے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انڈین کمیونسٹ پارٹی جیسی سیکولر جماعت نے بھی افضل گورو کی غیر قانونی پھانسی کی دبے لفظوں میں حمایت ہی کی۔یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اگر کشمیری مسلمانوں اور ان پر ہونے والے بدترین مظالم کا ذکر ہو تو کیا لبرل اور کیا ہندو انتہاپسند، سب ہی یک زبان نظر آتے ہیں اور سب ہی کے نزدیک کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عام آدمی پارٹی سمیت کسی بھی لبرل جماعت نے کبھی کشمیریوں کو حق خود اداریت دینے کی حمایت نہیں کی۔
اسی لیے ہمارے خیال میں صرف میڈیا کو مسلمانوں کے خلاف موجودہ نفرت کی لہر کی وجہ بتانا حقائق سے نظریں چرانے کے مترادف ہے،کیونکہ ہندوستان کا میڈیا ہندوستانی معاشرے کی ہی ایک شکل اور پرچھائیں ہے، جہاں مسلمانوں کو "ہندوستانی" بننے کے لیے "اسلام" کی قربانی دینا پڑتی ہے۔ افضل گورو سے لے کر شرجیل امام اور عمر خالد تک، تاریخ تو ہمیں یہی بتاتی ہے۔ ہندوستان کی سپریم کورٹ کا بابری مسجد کے متعلق فیصلہ بھی اسی بات کی نشاندہی کرتا ہے۔
تبصرہ لکھیے