امیر عبدالرحمان نے اپنے دور حکومت میں جگہ جگہ جاسوس چھوڑ رکھے تھےجو معاشرے کے ہر طبقے میں پھیلائے گئے۔ کہا جاتا ہے کہ امیر نے ایک دفعہ ایک شخص کے ہونٹ بھی سلوائے تھے۔ وہ شخص ملکی سیاست میں مداخلت کرنے کی بات کرتا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ ان کے دور حکومت میں مرکز اس قدر قوت میں تھا کہ مخالفین سر نہ اٹھا سکیں۔ ان کی وفات پرامن طریقے سے ہوئی۔ آنے والا وقت اس بات کا منتظر تھا کہ کیا افغانستان کی یہ سیاسی بالادستی اور اندرونی معاملات میں یہ مرکزی قوت برقرار رہ پائے گی یا نہیں؟
پھر یہ سوال بھی تھا کہ افغانستان بیسویں صدی کے تقاضوں سے کیونکر ہم آہنگ ہوسکے گا کہ اس نے نئے ڈگر پر چلنا ابھی سیکھا نہیں تھا ۔
امیر عبدالرحمان 1901 میں فوت ہوئے تو یہ افغانستان کی تاریخ کی پہلی سیاسی منتقلی تھی جو پرامن طریقے سے ہوئی۔ان کے بیٹے امیر حبیب اللہ کی بغیر جنگ و جدل تخت نشینی عبدالرحمان کی سیاسی جارحانہ پالیسی کا نتیجہ تھی۔ ان کا اس قدر طاقتور تاثر تھا کہ 194 اقرار ناموں پر مختلف طبقوں کے لوگ دستخط کرکے یہ عہد کرتے کہ "وہ امیر کی خواہش سے اختلاف نہیں کرینگے اور اس کی زندگی میں اور موت کے بعد بھی اس کے وفادار رہیں گے اور یہ کہ سیاست و تخت کے اس معاملے میں ہمارا کوئی دخل نہیں ہوگا"۔مگر یہی اقرار نامہ لکھنے والوں کی اولاد نے 30 سالوں کے اندر اندر اس اجارہ داری کا خاتمہ کردیا۔
امیر حبیب اللہ نے جب زمام اقتدار سنبھالی تو افغانستان اس وقت اندرونی طور پر مستحکم تھا۔ انہوں نے ایسے بہت سے خاندانوں کے افراد کو اپنے دربار کا حصہ بنایا جنہیں ان کے والد گرامی نے ملک بدر کیا تھا ۔ان لوگوں نے افغانستان کی سیاست پر گہرا اثر ڈالا۔ یہ لوگ بیرون ملک مختلف تہذیبوں کے زیر اثر رہے تھے، جس میں خلافت عثمانیہ اور ہندوستان سرفہرست ہیں۔ یہ لوگ نئے نئے خیالات اور تصورات کے ساتھ وارد ہوئے جس میں مذہبی اور غیر مذہبی آئیڈیاز شامل تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب افغانستان میں اندرونی نظریاتی تصادم نے جنم لیا اور قوم پرستی کی فاختائیں بھی اڑنے لگیں۔
امیر حبیب اللہ کے دور حکومت میں دو سیاسی طبقات تھے جو امیر سے تبدیلی کا مطالبہ کرتے تھے۔ پہلا طبقہ علماء اور صوفیا پرمشتمل تھا جس میں توانا آواز امیر کے چھوٹے بھائی نصراللہ کی تھی۔ ان کا موقف تھا کہ افغانستان کی برطانوی تسلط سے آزادی کے لئے ضروری ہے کہ جہاد کیا جائے۔ یہ لوگ افغانستان کے اسلامی تشخص کے لیے سب سے بڑا خطرہ برطانیہ کی مداخلت کو سمجھتے تھے۔ دوسرا طبقہ قوم پرستوں اور جدیدیت کے حامیوں کا تھا جس میں زیادہ تر نوجوان تھے۔ اس طبقے میں امیر کے بیٹے امان اللہ بھی شریک تھے۔ یہ مطالبہ کرتے تھے کہ افغانستان کو جدت اختیار کرتے ہوئے ترقی کی راہ پر گامزن ہونا چاہیے کہ ایسے ہی دشمن کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ یہاں پر دلچسپ بات یہ تھی کہ ایک تیسرا طبقہ بھی اپنا وجود رکھتا تھا اور وہ امیر حبیب اللہ بذات خود تھے ۔ البتہ امیر نے برطانوی حمایت کو ترجیح دیتے ہوئے بتدریج جدیدیت کی حمایت کی۔
ان دونوں طبقوں کو امیر نے آزادانہ کام کرنے دیا کیونکہ وہ شاید دین اور ترقی دونوں سے محبت کرتے تھے۔ آغاز میں یہ دو طبقے برطانیہ مخالف پالیسی کے تحت ایک تھے مگر افغانستان کے مستقبل کے نظریات اور نظام سے متعلق ایک خلاء تھا جو آج تک پر نہیں ہوسکا۔
تبصرہ لکھیے