ہوم << بزم ِمد حت رسولﷺ - محمد عمر فیاض

بزم ِمد حت رسولﷺ - محمد عمر فیاض

آغازِ آفرینش میں میں جب صناع ازل نے یہ قصد کیا کہ ایک ایسا پیکرِ حسن و جمال تخلیق کرے کہ جس پر قیامت تک بشر و ملائکہ اور جن و انس رشک کریں تو فضلِ ایزد نے آپؐ کا انتخاب کیا۔

عالمِ ارواح میں جب آپکے حسنِ دلپزیر کی منادی ہوئی تو نوائے سروش سے ایک ہلچل بپا ہوئی کہ یہ کون جلوہ گر ہونے کو ہے اور دنیائے ویراں کدہ باغِ ارم بننے کو ہے تو حکم ہوا کہ اس پیکرِ رشد و ہدایت کے طرزِ گفتار کیلئے کلامِ مجید کا رنگِ سخن , شبِ دیجور سے زلفوں کی سیاہی , لا مکاں سے گیسوئے رسا کی درازی , دھنک سے رخساروں کا عنابی رنگ , کبک و طائوس سی شوخی , باد صبا سا خرامِ ناز , صاعقہ و برق سے نظر کی شوخی , ریشم و اطلس و کمخواب جیسے دست عطا, مہتاب کی کرنوں سے شفاف بدن , اور سرو شمشاد سا قد رعنا بنانے کا قصد ہے تو اہلیانِ عرش فرطِ حیرت سے انگشت بہ دنداں ہو کر عرض کرنے لگے کہ اے مالکِ شش جہات یہ کس شاہکار کی تخلیق کے عناصر ہیں کہ ہمارا تصور بھی اس پیکرِ حسن و جمال کی حجلہ نشینی کے آگے خجل ہے تو ہاتف غیب سے صدا آئی کہ یہ حضرت محمد مصطفیٰ ؐکی آمد کا اہتمام ہے.

اور جب یوں آپ ؐکی عالمِ ارواح سے عالمِ تخلیق میں آمد ہوئی تو جبرائیل علیہ اسلام کو حکم ہوا کہ اطراف و جوانب میں میرے محبوب کی آمد کی خوشی میں جھنڈے لگا دو پس جبرائیل ؑنے ایسا ہی کیا اور تمام خلق یہ پکار اٹھی’’ مرحبا یا سیدی مکی مدنی العربی‘‘ یہ اس ذات کا ذکر ہے جس کا نام لکھتے ہوئے فرطِ ادب سے صریرِ خامہ سے فریاد کی آواز آتی ہے۔ اسی ذات کے ذکر کی محفل میں اوکاڑہ کی سر زمین غوثیہ قطبیہ میلاد کمیٹی کے نوجوانوں اور اہلِ گائوں کی حب سوزِ رسول ؐمیں احتراق انگیزیاں دیدنی ہوتی ہیں جو کہ محفلِ میلادِ مصطفیٰؐ کے نخلِ تمنا کی پورا سال خونِ دل سے آبیاری کرتے ہیں اور انکے پائے اسغنا میں ہلکی سی لغزش بھی ممکن نہیں ہو پاتی۔ یقیناً چنڑانوالہ گائوں کے افراد اور غوثیہ قطبیہ میلاد کمیٹی کا ہر فرد قابلِ صد تحسین و آفریں ہے۔ ان تمام سوزِ رسولؐ میں جلنے والے پروانوں کیلئے مجھ حقیر کا محبت نامہ ملاحظہ ہو۔

دیکھ تو رونق ذرا چرخِ کہن میلاد کی

شان و شوکت سے سجی ہے انجمن میلاد کی

حمد کرتے ہیں سبھی شیریں دہن میلاد کی

لاج رکھیں گے یونہی شاہ زمن میلاد کی

خلق کی آمد سے اک محشر بپا ہونے کو ہے

نعرہ ختمِ نبوت پھر سے وا ہونے کو ہے

مستعد ہیں خدمتِ حق میں یہ مردانہ صفت

کاوشِ میلاد میں پھرتے ہیں پیمانہ صفت

مرتے ہیں شمعِ رسالت پر یہ پروانہ صفت

انکو بھی اپنا بنایا جو تھے بیگانہ صفت

کس طرح یہ انجمن ہر دل سے ہم آغوش ہے

ساغرِ حب نبی سے اک جہاں مدہوش ہے

غوثیہ و قطبیہ کے نام سے موسوم ہیں

دردِ فرقت میں رسول اللہ کے مغموم ہیں

شیوہء بیداد میں زحمت کش مظلوم ہیں

حب احمد کے حسیں قرطاس پر مرقوم ہیں

ہر جگہ پر گرمیِ محفل بھی انکے دم سے ہے

اور تسکیں یاب ہر اک دل بھی انکے دم سے ہے

صاحبِ سیف و قلم ہیں روکشِ اغیار ہیں

مرتد و گستاخ سے یہ بر سر پیکار ہیں

معترض کے واسطے اک آہنی تلوار ہیں

پیکرِ عقل و فراست, خوگرِ پندار ہیں

اے عمر , اترے ہیں دل میں یہ حرارت کی طرح

چشمِ خلقت میں سمائے ہیں بصارت کی طرح

Comments

Click here to post a comment