ہوم << استوان ہی استوان - حبیب الرحمن

استوان ہی استوان - حبیب الرحمن

ایک زمانہ تھا کہ ہم اپنے کورس کی کتابوں میں پڑھا کرتے تھے کہ ریاست کے تین اہم ستون ہوتے ہیں اور ان میں سرِ فہرست حکومت، دوسرے نمبر پر مقننہ اور تیسرے نمبر پر عدلیہ کا ستون ہوتا ہے۔

فلسفہ کچھ یوں تھا کہ حکومت کے بغیر کسی بھی ریاست کا کوئی تصور پایا ہی نہیں جاتا اس لئے ریاست کی تشکیل کے بعد سب سے پہلا کام حکومت سازی ہوا کرتا ہے۔ بتایا جاتا تھا کہ ریاست کی بنیادی شرائط میں پہلی شرط معقول خطہ زمین کا ہونا اور اس خطہ زمین پر مناسب آبادی کا پایا جانا۔ جب یہ دونوں شرائط پوری ہو جائیں تو پھر ریاست کی تصویر کو مکمل کرنے کیلئے حکومت کا ہونا لازم و ملزوم میں سے ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ ریاست کا اولین ستون حکومت کو شمار کیا جاتا ہے۔

کوئی بھی حکومت اس وقت تک چلائی ہی نہیں جا سکتی جب تک اسے چلانے کیلئے ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے اصول و ضوابط و قوائد طے نہ کر لئے جائیں۔ ان ہی اصول و ضوابط و قوائد کا نام آئین و قانون ہے اور ظاہر ہے کہ آئین و قانون بنانا مقننہ کا ہی کام ہو سکتا ہے لہٰذا ریاست کا دوسرا اہم ترین ستون مقننہ کو قرار دیا گیا ہے۔ حکومت اور مقننہ قائم اور بن جانے کے بعد ہر شعبہ زندگی میں توازن بر قرار رکھنے کیلئے جو بات سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے وہ عدل و انصاف کی ترازو ہے کیونکہ ان دونوں پلڑوں کو متوازن رکھنا ہی ریاست کے استحکام کیلئے ضروری ہے اور یہ کام بغیر عدلیہ کے ممکن نہیں۔

حقیقت میں ہر ریاست ان ہی تین ستونوں پر ہی استوار ہوتی ہے اس کے علاوہ جتنے بھی شعبہ ہائے ریاست ہوتے ہیں ان کا درجہ محکمہ جاتی ہوتا ہے۔ خرابی وہاں سے پیدا ہوتی ہے جب پہلے تین استوانِ حکومت یعنی، مقننہ اور عدلیہ کمزور اور بد عنوان ہونا شروع ہو جائیں۔ ان کا بگاڑ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کسی باغ یا گلستان کی انتظامیہ کا غیر فعال ہو جانا۔ باغ کتنا ہی پھل دار ہو یا کوئی گلستان کتنا ہی حسین اور دلکش، جب اس کے تمام نگراں غافل ہو جاتے ہیں تو وہ جنگل سے بھی کہیں زیادہ وحشتناک ہو جاتا ہے اور وہاں پرندوں کی چہچہاہٹ سے زیادہ درندوں کی غراہٹیں گونجنے اور سنائی دینی لگتیں ہیں۔ یہی نہیں کہ ان حسین مقامات پر وحشتوں کا راج ہو جاتا ہے بلکہ وہاں کا ہر جانور خود کو جنگل کا بادشاہ سمجھنے لگتا ہے۔

اگر ریاستِ پاکستان کا دیانتداری سے جائزہ لیا جائے تو ایک وحشت ناک جنگل کی شکل اختیار کرتی ہوئی نظر آئے گی اور یہاں کا ہر باسی، ہر محکمہ، محکموں کا ایک ایک اہل کار اپنے آپ کو پاکستان کا ستون سمجھتا ہوا لگے گا۔ کچھ محکمے تو اتنے طاقتور ہوتے جا رہے ہیں کہ اپنے منہ میاں مٹھو کے بطور خود کو ریاست کا ستون قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں۔ جب محکمے اپنے آپ کو ادارہ کہنے لگیں تو پھر کسی بھی ریاستی باغ یا گلستان کو جنگل میں تبدیل ہونے سے کون روک سکتا ہے۔ عالم یہ ہوتا جا رہا ہے کہ ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے جو پہلے محکمہ کہلایا کرتے تھے، اپنے آپ کو ادارہ کہلاتے کہلاتے آہستہ آہستہ استونِ ریاستِ پاکستان کا اہم ستون بن جانے کے دعویدار ہونے لگے ہیں اور ان کے تمام اہل کار خود کو جنگل کا بادشاہ سمجھتے ہوئے اس بات پر اپنا سارا زور صرف کرنے میں لگے ہوئے ہیں کہ پاکستان کے چپے چپے پر ان کی مرضی و منشا چلے۔

ایک محکمہ جس کا اپنے ننانوے ناموں میں سے سب سے بڑا نام "اسٹبلشمنٹ" ہے وہ بفضلِ تعالیٰ ہمیشہ ہی اپنے آپ کو محکمے کی بجائے "ادارہ" ہی کہتا آیا ہے اور اب ریاست کا اتنا بڑا ستون بن چکا ہے کہ وہ ہر "بادشاہ" کی موجودگی میں "نورجہاں" کا کردار ادا کرنا اپنا حق سمجھتا ہے۔ ستم یہ ہے کہ ہمارے بیشمار ٹی اینکروں نے کمالِ حد کرتے ہوئے اس بات کا فرق ہی ختم کر کے رکھ دیا ہے کہ ریاست "پاکستان" ہے یا "اسٹبلشمنٹ"۔

بات یہیں تک ہی رکی رہتی تو شاید پاکستان میں حکومتی استحکام میں کچھ ٹھہراؤ آجاتا لیکن جب حکومتیں کمزور ہوجاتی ہیں، مقننہ قانون سازی کی بجائے پیسہ سازی میں لگ جاتی ہے اور عدلیہ دنیا کی عدالتوں میں 1 سو 30 نمبر پر بھی اپنے آپ کو ٹھہرانے میں کامیاب نہیں رکھ پاتی تو پھر ریاست کسی خوبصورت باغ اور حسین گلستان بننے کی بجائے، جنگل ہی بن جایا کرتی۔ بات بڑھتے بڑھتے اب یہ عالم ہو گیا ہے کہ یہاں سارے کے سارے شعبہ زندگی خود کو استوانِ ریاست کہلانے پر لگے ہوئے ہیں۔ کوئی میڈیا کے کسی ایک فرد پر بھی حرف زنی نہیں کرسکتا، کسی صحافی کو غلط قرار نہیں دے سکتا، کسی اخبار یا ٹی وی چینل کے خلاف قدم نہیں اٹھا سکتا، وکلا بھڑ کا چھتہ بنے ہوئے ہیں، ججز خوفناک روپ اختیار کرتے جا رہے ہیں، پولیس ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتی اور پبلک ڈیلنگ کے محکمے اپنے فرائض ادا کرنے کیلئے تیار نہیں۔

ہر جانب ایک لوٹ مار کا سما ہے۔ پورا پاکستان مچھلی بازار کا ایک ایسا منظر پیش کرتا ہوا نظر آ رہا ہے کہ کان پڑی آواز تک سنائی دینا مشکل ہو گیا ہے۔ ہر محکمہ ستون پاکستان کا دعیدار اور ہر ادارے کے اہل کار جنگل کے بادشاہ بنے ہوئے ہیں لہٰذا جس کے خلاف بھی بات کی جاتی ہے وہ پھاڑ کھانے کو دوڑتا ہے۔ ڈر اس بات کا ہے کہ کہیں ریاست اتنے ستونوں پر مشتمل نہ ہو جائے کہ اس کی بنیادوں کا تصور ہی نہ رہے اور قریے قریے پر ستون ہی ستون دکھائی دینے لگیں.

لہٰذا اس سے قبل کہ ہر ستون ایک ریاست کی شکل اختیار کر لے، تین ضروری استون کو چھوڑ کر سارے استون مسمار کرکے، باقی سب کو شعبے اور محکموں میں تحلیل کردیا جائے بصورتِ دیگر قدرت اپنا راستہ پھر خود ہی نکال لے گی۔ یاد رہے کہ تاریخ میں کوئی پہلی بار ایسا نہیں ہوگا کہ (خدا نخواستہ) زمین اپنا جغرافیہ بدلنے پر مجبور ہو جائے۔

Comments

Click here to post a comment