ہوم << ویل ڈن پاکستانی کرکٹ ٹیم - حبیب الرحمن

ویل ڈن پاکستانی کرکٹ ٹیم - حبیب الرحمن

کھیل کوئی سا بھی ہو، اس میں بہت ہی کم ایسا ہوتا ہے کہ وہ بنا کوئی نتیجہ اختتام پذیر ہو لیکن ایسا کھیل جو بالکل ہی یک طرفہ ہو کر رہ جائے وہ سامعین و ناظرین کے دل و دماغ میں کوئی اچھا تاثر نہیں چھوڑتا۔

آج 5 دسمبر 2022 کو انگلینڈ کے ساتھ کھیلا جانے والا ٹسٹ میچ اختتام پذیر ہوا۔ اس ٹسٹ کا آغاز بہت ہی دھماکا خیز تھا۔ کرکٹ کے شائقین اچھی طرح جانتے ہیں کہ ٹسٹ میچز میں رنز بنانے کی اوسط عام طور پر تین ساڑھے تین رنز پر اوور سے زیادہ نہیں ہوا کرتی۔ پانچ دن تک جاری رہنے والے ٹسٹ میچ کو ہر کھلاڑی بہت ہی سکون اور محتاط طریقے سے کھیلتا ہے۔ جہاں اس میچ میں لمبا اسکور کرنا ہر ٹیم کا ہدف ہوتا ہے وہیں وقت کو بھی اپنے حق میں لپیٹنا ہر ٹیم ضروری سمجھتی۔

ہر ٹیم کی جیت جانے کی خواہش اپنی جگہ لیکن وہ اس بات کو بھی مدِ نظر ضرور رکھتی ہے کہ جلد بازی کی وجہ سے میچ اس کے ہاتھ سے نہ نکل جائے لیکن جس انداز میں انگلینڈ نے بلے بازی کا مظاہرہ کیا ٹسٹ کرکٹ کے شائقین یہ مظاہرہ شاید ہی دوبارہ دیکھ پائیں۔ ایک ہی دن میں متعدد رکارڈ بنتے اور ٹوٹتے رہے، ایک دن کا اتنا بڑا اسکور، لنچ سے پہلے سنچری، لنچ کے بعد سنچری، ایک ہی دن میں چار چنچریاں، اس طرح ٹسٹ کا پہلادن بالکل ہی ایک ناقابلِ یقین دن بن کر رہ گیا۔ پانچ سو سے اوپر اسکور کا ہوجانا اور وہ بھی کم روشنی کی وجہ سے 20 اوور پہلے میچ ختم ہونے کے باوجود، ایک ایسا کارنامہ ہے جس کو بہت عرصے تک یاد رکھا جائے گا۔ انگلینڈ کا دوسرے دن کا میچ اس پائے کا ثابت نہ ہو سکا اور 657 رن پر باقی ماندہ ٹیم آؤٹ ہو گئی۔

خیال یہی تھا کہ ایسا پہاڑ جیسا اسکور پاکستان کے کھلاڑیوں کو ذہنی دباؤ میں لے لے گا اور ممکن تھا کہ پاکستان کو نہ صرف فالوآن کا سامنا کرنا پڑے بلکہ شاید انگلینڈ کو دوبارہ بیٹنگ ہی نہ کرنا پڑے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی کھلاڑیوں نے اس میچ کو تاریخ کا ایک بہترین میچ بنا کر رکھ دیا۔ بے شک ٹیم انگلینڈ کی طرح بہت تیز اسکور تو نہ کر سکی لیکن اس نے ثابت کر دیا کہ وہ ٹسٹ کی بھی ایک بہترین ٹیم ہے اور سخت سے سخت دباؤ میں بھی وہ میچ کو اپنے ہاتھ میں لینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ پہلی اننگ میں پاکستانی کھلاڑیوں نے نہ صرف تین سنچریاں اسکور کیں بلکہ 657 رنز کے مقابلے میں 579 رنز بنا کر نہ صرف اپنی ٹیم کو فالوآن سے بچایا بلکہ دیکھا جائے تو 657 رنز کے ہدف کو بھی بہت ریڈیوس کر کے انگلینڈ کو دوبارہ میدان میں اترنے پر مجبور کر دیا۔

بہت کم ایسا دیکھا گیا ہے کہ بہت ہی بڑے ہدف کے بعد کوئی ٹیم اپنے آپ کو فالوآن سے بچا سکی ہو۔ انگلینڈ بھی یہی سوچ رہا ہوگا کہ اس نے پہلی شاندار اننگ کھیل کر اپنے حصے کا کام مکمل کر دیا ہے لیکن جو کچھ بھی ہوا وہ اس کی سوچوں سے یقیناً بہت مختلف ہوا ہوگا۔ اب اس کے سامنے پاکستان کو دوسری اننگ کا ہدف دینا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ جو ٹیم 657 رنز کا ہدف تقریباً عبور کر لینے کی صلاحیت رکھتی ہو اس کیلئے تین یا سوا تین سو رنز کے ہدف کو پورا کر لینا ناممکن بات نہیں ہو سکتی لیکن اس کے باوجود بھی انگلینڈ نے کھیل کو دلچسپ بنانے کیلئے جو بھی فیصلہ کیا اس کی تعریف اگر نہ کی جائے تو یہ زیادتی ہوگی۔ انگلینڈ نے 264 رنز کی اننگ کھیل کر اسپورٹس میں اسپرٹ کا جو مظاہرہ کیا وہ بہر صورت قابل تعریف ہے۔

ایک بڑا وقت دے کر کسی ٹیم کیلئے ففٹی ففٹی چانس دینا کوئی آسان فیصلہ نہیں تھا۔ پاکستان نے بھی اس رعایت کا پورا پورا فائدہ اٹھانے کی بھر پور کوشش کی اور پانچویں دن کے لنچ کے بہت بعد تک یہ کہنا مشکل تھا کہ فیصلہ کس کے حق میں جائے گا۔ اس موقع پر یقیناً انگلینڈ کی ٹیم میں کسی حد تک پریشانی کی لہر ضرور دوڑی ہوگی اور کپتان نے کئی مرتبہ یہ ضرور سوچا ہوگا کہ اس کا کیا گیا فیصلہ شاید اس کے گلے پڑنے والا ہے۔

کرکٹ ایک ایسا کھیل ہے جس کے متعلق بہت زیادہ پیش گوئیاں کی نہیں جا سکتیں۔ کسی بھی لمحے کھیل کی بساط کسی کے خلاف بھی الٹ سکتی ہے۔ پاکستان کھیل کے آخری گھنٹوں تک اس پوزیشن میں نہیں تھا کہ اسے ہارا ہوا کہا جا سکے۔ خصوصاً پاکستان کے بالکل آخری کھلاڑیوں نے کمال اننگ کھیل کر اس میچ کو یاد گار بنانے کی پھر پور کوشش کی۔ پینتیس چالیس اوورز کو کھیل جانا کوئی آسان کام تو نہ تھا لیکن ٹیل اینڈرز نے بہت کوشش کی کہ اوورز اور وقت کا خاتمہ کیا جا سکے۔ اِدھر اوورز کم سے کم ہوتے جا رہے تھے اُدھر شام کے سائے گہرے ہونے لگے تھے لیکن خوشبختی کا بالِ ہما اس وقت انگلینڈ کے کپتان کے سرپر لہرا رہا تھا۔ وقت اتنا کم رہ گیا تھا کہ اگر پہلے دن کے کھیل کے دوران کم روشنی جیسا معاملہ ہو جاتا تو یہ میچ بغیر نتیجہ بھی ختم ہو سکتا تھا۔

مختصر طور پر یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ بے شک پاکستان کو اپنے پہلے ٹیسٹ میچ میں فتح نصیب نہ ہو سکی لیکن جو بھی ناکامی ہاتھ آئی اس کو میں ایک پُر وقار ناکامی کہہ سکتا ہوں۔ یہ ٹسٹ انگلینڈ کے حق میں ضرور گیا لیکن پاکستان نے بھی پورے پانچ دن انگلینڈ کے کھلاڑیوں کے اعصاب کو جھنجوڑ کر رکھا۔ ٹسٹ میچ کی پہلی اننگ جس انداز میں ون ڈے میچوں سے بھی اچھی کھیل کر انگلینڈ نے جو اسکور بنایا تھا، اس قسم کے اسکور کے بعد کھیل بہت کم ہی پانچویں دن تک جایا کرتا ہے۔ لہٰذا ہار کے باوجود بھی پاکستان کے سارے کھلاڑی دادِ تحسین کے قابل ہیں۔ امید ہے کہ آئندہ کھیلے جانے والے میچوں میں بھی پاکستان کی کرکٹ ٹیم اس سے بھی اعلیٰ کھیل کا مظاہرہ کرتی نظر آئے گی۔

Comments

Click here to post a comment