ہوم << گالی اور گولی کی سیاست-شبیر احمد

گالی اور گولی کی سیاست-شبیر احمد

جمہوریت کا شیرازہ جب بکھرتا ہے تو اس کی تباہی کے ذمہ داران میں عسکری قیادت کی مداخلت سر فہرست سمجھی جاتی ہے۔ جب کہ درحقیقت یہ کہانی کا نصف بھی نہیں۔ جو ملک جمہوریت کا علمبردار ہوتا ہے وہ اس کی بقا اور استحکام کی خاطر تگ ودو کی کوشش کرتا ہے۔ اس کو مجموعی طور پر آئینی فریضہ قرار دے کر ایسے تمام عناصر کا قلع قمع کیا جاتا ہے جو تباہی کا سبب بنتے ہیں۔
کوئی بھی جمہوری ملک دو طرح کی روایات کا حامل ہوتا ہے۔ اول ملک و قوم میں رائج وہ تحریری روایات جو کسی کاغذ پر درج ہوتے ہیں۔ جنہیں ہم عمومی طور پر آئین یا دستور کا نام دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کچھ غیر تحریری روایات یا قوانین(Unwritten laws or Norms) بھی ہوتے ہیں جن کا کلیدی کردار تحریری روایات سے کسی طور بھی کم نہیں ہوتا۔ کسی بھی آئیڈیل جمہوریت کے اندر دونوں روایات کے امین جمہوری نمائندگان ہوتے ہیں۔

عمومی طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ تحریری روایات کو پامال کرنے سے جمہوریت کا جنازہ نکل جاتا ہے۔ مگر دراصل جمہوریت صرف لکھے ہوئے آئین کی پاسداری کا نام نہیں اور صرف اس کے نفاذ سے یہ مستحکم نہیں ہوسکتا۔ بلکہ غیر تحریری روایات پر عمل درآمد بھی اتنا ہی اہمیت کا حامل ہے جتنا کوئی آئین۔ ان غیر تحریری روایات میں باہمی رواداری (mutual tolerance) سر فہرست ہے۔ یہ باہمی رواداری جمہوری نمائندگان اور قومی اداروں کے مابین ہوتی ہے۔

جمہوری نمائندگان کی اولین ذمہ داری انہی روایات کو برقرار اور تر و تازہ رکھنے کی ہوتی ہے۔ جب تک اس پر عمل درآمد کو یقینی نہیں بنایا جاتا جمہوریت کو واضح طور پر خطرہ لاحق رہتا ہے۔ وینزویلا، جرمنی اور اٹلی کی مثالیں اس کی توضیح کے لئے کافی ہیں۔ جمہوری نمائندگان اور قومی اداروں کی طرف سے ان روایات کا عدم احترام کسی بھی جمہوری ملک کے لئے سوہان روح ہے۔

بدقسمتی سے وطن عزیر پاکستان نے دنیا کے نقشے پر نمودار ہوتے ہی عدم رواداری کا سامنا کیا۔ آزادی کے چند سالوں بعد باہمی رواداری کے بجائے ہم نے عدم برداشت کو اپنا نصب العین بنا لیا۔ گالی اور گولی کی سیاست اس کی بنیادوں میں اس وقت سرایت کر گئی، جب پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو 16 اکتوبر 1951 کو کمپنی باغ(موجودہ لیاقت باغ) راولپنڈی میں ایک جلسۂ عام میں قتل کردیا گیا۔ وہ دن اور آج کا دن، قاتلوں کا کوئی سراغ نہ لگایا جا سکا۔ گولی کی اس سیاست نے عدم برداشت کا باقاعدہ آغاز کرکے پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کی جان لے لی۔

اس واقعے کے بعد سے یہ روایت پاکستان کی سیاست کا خاصہ بن گئی کہ مخالف گالی سے نہیں دبتا تو اسے گولی سے دبا دو۔ ایک اور ہائی پروفائل قتل صوبہ سرحد(موجودہ خیبر پختونخوا) کے ایک اہم سیاست دان ڈاکٹر عبدالجبار خان کا تھا۔ 1963 میں بھاٹی گیٹ کے کل پاکستان اجتماع عام کے دوران مولانا مودودی پر بھی حملہ ہوا جس کے نتیجے میں ایک کارکن اللہ بخش شہید بھی ہوا۔ سابق گورنر کے پی حیات خان شیرپاؤ، سابق وزیر اعلی پنجاب غلام حیدر، مرتضی بھٹو اور سابق گورنر سندھ حکیم سعید سمیت نجانے کتنی جانیں گولی کی اس سیاست کی نذر ہوئیں۔

یہ تو وہ لوگ تھے جن کا تعلق بیسویں صدی کے آواخر سے تھا۔ اکیسویں صدی کی پہلی دہائی نے بے نظیر بھٹو کا قتل سر بازار دیکھا۔ کچھ ایسے حملے بھی ہوئے جو ناکام رہے مگر اپنی غیر رواداری کا پیغام ببانگ دہل دیا۔ سابق وزیر اعظم پاکستان پر وزیر آباد میں ہونا والا قاتلانہ حملہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

خدارا، گالی اور گولی کی اس سیاست کو اب خدا حافظ کہہ دیجیے۔ یہ ملک مزید عدم استحکام کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ گولی کی بجائے احتساب اور گالی کی بجائے بحث و مباحثہ کا کلچر عام کرنے میں ہی جمہوریت کی بقا کا راز مضمر ہے۔

مرتضیٰ برلاس نے کہا تھا:
"کتاب سادہ رہے گی کب تک
کبھی تو آغازِ باب ہوگا
جنہوں نے بستی اجاڑ ڈالی
کبھی تو ان کا حساب ہوگا"