زندگی میں دو فیصلے بڑے اہم ہوتے ہیں، ایک کون سا پیشہ اپنایا جائے، دوسرا شادی کس سے کی جائے. دونوں فیصلوں کا اثر طویل مدت کا ہوتا ہے اور پوری زندگی پر اثرانداز ہوتا ہے۔ پیشے کا فیصلہ اہم تو ہے لیکن اس معاملے میں غلطی کی اصلاح کی گنجائش موجود رہتی ہے، پیشے بدلنے کے مواقع آتے رہتے ہیں، مگر شادی کا فیصلہ غلط ہو جائے، تو یہ باقی زندگی کو بری طرح متاثر کر سکتا ہے، کہ ساری زندگی اس کے ساتھ گزارنی ہے. معاشرے میں دوسری شادی کرنا بھی آسان نہیں ہے، بالعموم یہ بس ایک دفعہ ہی ہوسکتی ہے. برادری سسٹم ہے، طلاق کی صورت میں بدنامی ہوتی ہے، گلی محلے میں چلنا پھرنا دشوار ہو جاتا ہے، رشتہ دار ساتھ چھوڑ جاتے ہیں، قتل تک بھی نوبت آ جاتی ہے. اب بھی بہت سارے ایسے علاقے موجود ہیں جہاں منگنی یا شادی ٹوٹنے پر بندوق نکل آتی ہے. شادی کے بعد اگر جلدی بچے ہو جائیں تو پھر اس رشتہ کو باقی رکھنا مجبوری بن جاتا ہے. اس لیے یہ فیصلہ زندگی کا سب سے مشکل اور انتہائی اہم فیصلہ ہے. اب جبکہ شادی ہونی ہی ایک دفعہ ہے تو اس فیصلے میں نہایت احتیاط برتنی چاہیے. اس حوالے سے درج ذیل نکات کو پیش نظر رکھا جا سکتا ہے.
1. شادی کےلیے کوئی عمر 15 سال یا 30 سال مختص نہیں ہے. دیکھنا یہ چاہیے کہ آیا لڑکا یا لڑکی وہ ذمہ داری اٹھا سکتے ہیں؟ کیا ذمہ داریوں کی تفہیم ہے. اگر لڑکا یا لڑکی ذمہ دار نہیں ہے، تو اس کی عمر چاہے 30، 40 سال ہی کیوں نہ ہو، کامیابی کے چانسز کم ہوں گے۔ شادی دراصل ذمہ داریوں کا دوسرا نام ہے۔ ایک غیر ذمہ دار انسان کے ساتھ شادی تو شاید چل جائے مگر ایک خوبصورت تعلق نہیں بن سکے گا.
2. والدین ہمارے لیے نہایت قابل احترام ہیں. بہت سارے فیصلوں میں ان کی مرضی شامل ہوتی ہے. لباس سے لے کر سکول تک، سائنس پڑھنی ہے یا آرٹس، انجنئیرنگ میں جانا ہے یا میڈیکل اختیار کرنی ہے، سب فیصلوں میں ان کی پسند کا خیال رکھا جاتا ہے. شادی کے معاملے میں بھی ان کی رائے اہمیت کی حامل ہے مگر اپنی سوچ و عقل کا بھی استعمال کریں. اسلام نے بھی آپ کو اپنی رائے کا حق دیا ہے. دیکھیں کہ والدین کس نقطہ نظر سے میرے لیے رشتہ سوچ رہے ہیں۔ اگر اس میں کوئی کمی بیشی ہے تو ان کے ساتھ بیٹھ کر بات چیت کریں اور اپنا نقطہ نظر بتائیں. والدین کے ساتھ کبھی لڑائی مت کریں کیونکہ آج تک نہیں دیکھا گیا کہ لڑائی کرنے سے کوئی مسئلہ حل ہوا ہو۔ ان کی رضامندی اس لیے بھی ضروری ہے کہ انھیں ناراض کرکے بندہ خوش نہیں رہ سکتا۔ اگر آپ اور والدین کی مرضی کا اشتراک ہوجائے تو فیصلہ یقینا اچھا ہوگا.
3. سیرت یا صورت؟
ویسے تو سیرت کی بات کی جاتی ہے لیکن فیصلے کے وقت شروع صورت سے ہی کرتے ہیں۔ صورت کی اہمیت اپنی جگہ، لیکن اسے بہت زیادہ اہمیت دیں گے تو شاید یہ اچھا فیصلہ ثابت نہ ہو. کردار کو ترجیح نہ دینا پختہ سوچ کی علامت نہیں ہے، اور سوچ پختہ نہ ہو تو صحیح ٖفیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی سیرت اور کردار کو ترجیح دینے کی ہدایت فرمائی ہے
4. صنف مخالف کی نفسیات سمجھیں
مرد اور عورت کو اللہ تعالٰی نے بہت مختلف پیدا کیا ہے. دو نوں کی نفسیات، قول و فعل، سوچ و کردار، اظہار و انکار سب مختلف ہے. ذہنی تناؤ(Stress and tension) کے لیے دونوں کا رد عمل مختلف ہوتا ہے. اس تناظر میں دونوں کی نفسیات سمجھنا بہت ضروری ہے ورنہ غلط فیصلے کا امکان بڑھ جائے گا.
5. جذبات اور حقیقت؟
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرمان ہے کہ زیادہ خوشی یا غم کی حالت میں فیصلہ نہ کرو۔ سچی بات یہ ہے کہ آج کل معاشرے میں محبت کے جذباتی رواج کی وجہ سے اکثر غلط فیصلہ ہو جاتا ہے. جذباتی ہونے کی صورت میں ذہن ٹھیک طرح سے کام نہیں کرتا۔ ایک ہی چوائس سامنے رکھنے سے کئی چیزیں نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہیں. حقیقت پسندانہ سوچ سے تصویر کے دونوں رخ سامنے آ جاتے ہیں اور اچھے ٖفیصلے میں مدد دیتے ہیں. نوجوان لڑکے لڑکیاں جذبات میں چاند ستاروں کے توڑنے اور مرنے کی باتیں کرتے ہیں مگر حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہوتا، آج کل کوئی کسی کے لیے خلوص سے دعا نہیں کرتا، مرنا تو دور کی بات ہے.
6. انڈین فلمیں دیکھنا چھوڑ دیں.
فلموں کا مرکزی خیال، لڑکی اور لڑکے کی محبت یا شادی ہوتی ہے، اور یہ زیادہ تر شادی سے پہلے کی کہانی پر مبنی ہوتی ہیں۔ عمومی طور پر یہی دکھایاجاتا ہے کہ کس طرح لڑکا باقی لوگوں کی پٹائی کرکے لڑکی حاصل کرتا ہے، اس کی زندگی کا واحد اور سب سے بڑا مقصد لڑکی کو حاصل کرنا ہی ہوتا ہے. ولن بالعموم ہیروئن کا بھائی یا والد ہوتا ہے، اور ہیرو اسے مار کر لڑکی سے شادی کر لیتا ہے. ان سب باتوں کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے. کوئی عشق میں مبتلا ہو تو فلمیں اسے اور جذباتی بنا دیتی ہیں اور جذبات میں غلط فیصلہ ہو جاتا ہے. فلمی کہانیوں کا حقیقت کی دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے. مثال کے طور پر یہ یہ کم ہی ہوتا ہے کہ شادی کے بعد اس جوڑے کی کامیاب زندگی دکھائی گئی ہو حالانکہ اصل کہانی تو شادی کے بعد شروع ہوتی ہے
7. مفت کے مشورے سے بچیں-
عمومی طور پر مشکل فیصلہ کرتے وقت نزدیکی دوستوں سے مشورہ کیا جاتا ہے. اور دوست وہ ہوتے ہیں جنھیں ان معاملات کی سمجھ ہوتی ہے نہ وہ درست فیصلے میں کوئی مدد دے سکتے ہیں. مشورہ لینا لازمی ہو تو کسی دانا بندے سے لیں، جسے زندگی کی اونچ نیچ معلوم ہو.
میرے خیال میں ان امور کا خیال رکھا جائے تو ایک اچھے جیون ساتھی کی تلاش میں آسانی اور بہتر فیصلے کی توقع کی جا سکتی ہے.
تبصرہ لکھیے