ہوم << خدا ہم سے کیا چاہتا ہے؟ڈاکٹر جویریہ سعید

خدا ہم سے کیا چاہتا ہے؟ڈاکٹر جویریہ سعید

آپ آزمائش میں مبتلا ہیں اور خدا کی مرضی سے متعلق کچھ گستاخ سوال آپ کو مضطرب اور کبھی خفا کرتے ہیں۔
خدا ہم سے کیا چاہتا ہے؟
کیوں آزمائش ڈالتا ہے؟
کیا وہ ہماری اذیت کو انجوائے کرتا ہے معاذاللہ؟
پہلے اس نے بے بس بنایا پھر آرزو کے امتحان میں مبتلا کیا اور پھر مزید don'ts لگادیے۔ یہ نہ کرو وہ نہ کرو۔

میں نے ان سوالات کو دو طریقوں سے سمجھنے کی کوشش کی۔
1. قرآن کریم کے مطالعے سے۔ مجھے لگا کہ قرآن کریم انبیائے کرام اور منکرین حق کے قصے بیان کرکے ہمیں یہ بتاتا ہے کہ خدا کو کیسا تعلق اور کیسا عمل بلکہ ردعمل مطلوب تھا۔ انسان کس کس چیز کا مکلف تھا؟ اللہ کریم خود کیا چاہتے ہیں ۔ اور اس آزمائش کے دوران وہ کیا کرتے ہیں۔

2. انسانوں کے مطالعے سے۔ آزمائش دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک خارجی اور دوسری perceived۔ یعنی ایک طرف تو واقعی حالات اور لوگ مشکل ہوتے ہیں مگر دوسری طرف ہماری اپنی شخصی اٹھان، موڈ، ذہنی کیفیت بھی آزمائش کی شدت کا تعین کرتے ہیں۔ اسی لیے مختلف انسان ایک ہی جیسے حالات میں مختلف شدت کو محسوس کرتے ہیں ۔ تنہائی بھی دو طرح کی ہوسکتی ہے۔ حقیقی تنہائی اور perceived تنہائی۔ گویا کہ لوگ یا خدا موجود تو ہو مگر آپ کا اندروں اس قدر تاریک، تھکا ہوا، اداس اور درد سے بھرا ہو کہ آپ کو ان کا ہونا محسوس نہ ہوتا ہو۔ آپ کے اپنے اندر بھی رکاوٹیں ہوں۔

آدم، ابراہیم، یونس، موسی، عیسی، یوسف علیہم السلام کے واقعات سے چند نکات مختصرا بیان کروں گی۔

1. اللہ کریم آزمائش میں ڈال کر اکیلا نہیں چھوڑتا۔ وہ موسی کو کہتا ہے۔ ہم ساتھ ہیں، دیکھتے اور سنتے ہیں۔ اندھے کنویں میں بھی سنتا ہے اور زنداں میں بھی اور مچھلی کے پیٹ میں بھی اور جنت سے نکال کر بھی سنتا ہے۔

2. خدا خود رابطہ کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ خود کلمات سکھاتا ہے۔ یہ گویا perceived تنہائی سے نکالنے میں مدد ہے۔

3. وہ راستے نکالتا ہے۔ مدد بھیجتا ہے، حفاظت کرتا ہے۔ بڑھوتری کے سامان کرتا ہے۔

4. جس شے کو انسان مصیبت سمجھتا ہے وہ اس کے شخصی اور مادی ارتقا کا سبب بن جاتی ہے۔ کنعان سے نکالا جانا مصر کی بادشاہت عطا کرتا ہے، مصر سے نکالے گئے تو نبوت دینے کو کوہ طور پر بلا کر کلام کا اعزاز بخشاجاتا ہے، بے آب و گیاہ وادی میں رہنا پڑا تو وہ ساری دنیا کا مرکز اور دنیا کا سب سے جاگتا اور ہمہ وقت پر رونق مقام بنادیا۔

5۔ وہ جو چیز آپ سے مانگتا ہے اسے لیتا نہیں کہ اسے اس کی حاجت نہیں۔ صبر کا وقفہ گذار لیں تو اس سے بہتر لوٹاتا ہے۔ آتش نمرود، اسماعیل کا ذبح کیا جانا، ایک نوعمر تنہا۔عورت کا بیابان میں چھوڑا جانا ۔۔

7. جو اس کے بڑھائے ہاتھ کو تھام کر اس سے تعلق رکھتا ہے، مدد مانگتا ہے، صبر کرتا ہے اسے وہ عجیب سکینت عطا کرتا ہے۔ خود اس شخص کو تکلیف اس شدت سے محسوس نہیں ہوتی جیسا اس کو دیکھنے والوں کو ہوتی ہے۔ بلکہ وہ شخص شکر کرتا نظر آتا ہے۔ یہ بہت عجیب فنامنن ہے جس کا مشاہدہ اور تجربہ ہم میں سے اکثر کو ہوا ہوگا۔

8. کبھی ایک شخص کی قربانی آئندہ نسلوں کی بقا و فلاح کا پیش خیمہ بن جاتی ہے۔ ان تمام انبیائے کرام کے قصوں کو پڑھیے۔

اب سوچیے کہ جو خدا یہ سب کرتا ہے کیا وہ ہماری اذیت کو انجوائے کرتا ہوگا؟
کیا وہ ہمیں تنہا چھوڑتا ہوگا؟
کیا وہ ہمیں برباد کرنا چاہتا ہوگا؟
کیا اس نے ہمیں شکست خوردہ ہونے کو پیدا کیا ہوگا؟

Are we born to fail?

آخری بات ۔ ہم میں سے اکثر کہتے ہیں کہ یہ شخصیات اعلی معیارات ہیں ۔ ہم ان جیسے نہیں۔
مگر ذرا سوچیے، ان پر جیسی مشکلات آئیں کیا ہم پر ویسے بیتی ہیں؟ اور کیا ہم ان کے درد کی شدتوں کو محسوس کر پائے ؟ کسی درجے کی وجہ سے اس کے درد کو انڈر اسٹیمیٹ نہیں کرنا چاہیے۔

ہم ان کے انعامات کے بارے میں ان کی آزمائش سے پہلے پڑھ لیتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ ان کو تو یہ اور وہ مل گیا ہمیں تو نہیں ملا۔

مگر کیا ان کو وقت ابتلاء علم تھا کہ یہ نتائج ملیں گے؟

اور کیا خود ہمیں اپنے انعامات کا احساس ہے؟

ہمیں بھی صرف آزمائش نہیں نعمتیں بھی ملی ہوں گی مگر اپنے معاملات میں ہمارا فوکس صرف ابتلاء پر ہوتا ہے۔
اس کو میں
Cognitive distortions
سمجھتی ہوں۔

بات یہ ہے کہ آزمائش میں صرف بیرونی مشکلات سے ہی نہیں لڑنا ہوتا خود اپنے منفی اور توڑ دینے والے خیالات اور جذبات کو بھی مینج کرنا ہوتا ہے۔

یہ انسانی شخصیت کی تعمیر کا خدائی طریقہ ہے۔

تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے ،تیرا آئینہ ہے وہ آئینہ
کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہِ آئینہ ساز میں