ہوم << ہماری قومی زبان- حبیب الرحمن

ہماری قومی زبان- حبیب الرحمن

دنیا میں جتنے بھی ممالک ہیں ان سب کی ایک "قومی" زبان ہوتی ہے۔ یہ بات تو نہیں معلوم کہ جس ملک میں بھی اس ملک کی قومی زبان ہوتی ہے وہ اس کی سرکاری زبان بھی ہوا کرتی ہے یا نہیں .

لیکن اتنا ضرور معلوم ہے کہ دنیا کے ہر ترقیاتی ملک کی سرکاری زبان بھی وہی ہے جو اس کی قومی زبان ہے۔ رشیا، چین، جاپان، جرمنی، کوریا، اٹلی، امریکا اور برطانیہ ایسے ممالک ہیں جہاں قومی اور سرکاری زبان ان ممالک کی قومی زبانیں ہیں۔ دنیا میں جتنے بھی ممالک اور ان کی جو بھی قومی زبان ہے وہ وہاں کی ایک بہت واضح آبادی کی مادری زبان ہوا کرتی ہے جیسے ایران میں فارسی زبان، تمام عرب ممالک میں عربی زبان، چین کی چینی، روس کی روسی، جرمنی کی جرمنی یا جاپان کی جاپانی۔ ان ممالک کی آبادی کی بہت واضح اکثریت کی مادری زبان ان ہی ممالک کی قومی زبانوں سے وابستہ ہے۔

پاکستان بننے سے بہت قبل پورے برِ صغیر کی آبادی مذہبی اعتبار سے دو واضح گروہوں پر مشتمل تھی۔ اس پورے خطے میں بلحاظ مذہب کثیر آبادی یا تو ہندوؤں کی تھی یا مسلمانوں کی اور بلحاظِ زبان دو بڑی زبانیں بولی اور سمجھی جاتی تھیں، ایک اردو اور ایک ہندی۔ تاریخ گواہ ہے کہ برِ صغیر کے جتنے بھی مسلمان تھے انھوں نے اردو کو اپنایا تھا۔ اسی کو بول چال کیلئے اختیار کیا ہوا تھا اور اسی زبان میں وہ تعلیم حاصل کیا کرتے تھے۔ اس کے برعکس ہندو اور دیگر مذاہب کے حامل قوموں نے ہندی کو بطورِ زبان اختیار کیا ہوا تھا۔ اگر باریک بنی سے جائزہ لیا جائے تو مذہبی تفاوت کے علاوہ، زبان کی یہ تفریق بھی پاکستان کی تحریک کا ایک جزوِ لاینفک کی صورت اختیار کر چکی تھی۔

14 اگست 1947 میں پاکستان کا بننا بے شک ایک معجزہ تھا لیکن بد قسمتی سے پاکستان کے حصے میں جو خطے آئے ان میں کہیں سے کہیں تک ایسی آبادیاں نہیں پائی جاتی تھیں جن کی علاقائی یا مادری زبان "اردو" ہو۔ مشرقی خطے میں بسنے والے سارے کے سارے بنگلہ بھاشا بولتے تھے جبکہ مغربی خطے کی چار بڑی زبانیں، پنجابی، سندھی، پشتو اور بلوچی تھیں۔ اتنی بڑی حقیقت کے باوجود مسلمانوں کی اردو سے عقیدت کا یہ عالم تھا کہ بانی پاکستان نے جب مغربی اور مشرقی پاکستان میں یہ اعلان کیا کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہوگی تو پورے پاکستان میں کسی جگہ بھی کوئی صدائے احتجاج بلند نہیں ہوئی۔

پاکستان اُس وقت بھی اور آج بھی دنیا کا شاید وہ واحد ملک ہے جس کی قومی زبان کا تعلق مذہب کے حوالے سے تو جوڑا جا سکتا ہے لیکن ماضی و حال کے وہ خطے جو پاکستان کہلائے، وہاں کسی بھی مقامی کی مادری زبان سے ان کا کبھی کوئی تعلق نہیں رہا البتہ تقسیم کے وقت مشرقی اور مغربی خطوں کی جانب جن لاکھوں لوگوں نے ہجرت کی ان میں ایک بہت واضح اکثریت اردو بولنے والوں کی تھی۔ گویا ایک لحاظ سے پاکستان کی قومی زبان کو جن کی مادری زبان کہا جا سکتا ہے وہ تقسیم سے قبل ماضی اور موجودہ پاکستان سے مقامی تعلق نہیں رکھتے تھے۔

پاکستان کی قومی زبان بے شک اردو ہی ہے لیکن شاید پاکستان کے موجودہ خطے میں بسنے والے اسے "قومی" ماننے کیلئے اُس انداز میں ذہنی طور پر تیار نہیں جس طرح دنیا کے دیگر ممالک اپنی قومی زبان کو قومی زبان مانتے اور سمجھتے ہیں۔ میں یہ تو نہیں کہتا کہ میں نے پاکستان کا چپہ چپہ دیکھا ہوا ہے لیکن جتنا پاکستان بھی دیکھا ہے وہاں کے مدارس میں زیادہ تر ابتدائی تعلیم ان کی مقامی زبان میں ہی دی جانے کو ہی ترجیح دی جاتی ہے۔ شاید یہ غیر مناسب بات بھی نہیں لیکن قومی زبان کے فروغ کی بجائے الیکٹرونک ہو یا پرنٹ میڈیا، اردو کو اس کی اصل شکل و صورت کی بجائے جس جانب لے جا رہا ہے، آنے والے دور میں اردو زبان میں لکھے جانے والے ہر قسم کے علمی ذخائر کا مطالعہ، مستقبل کے طالبعلموں کیلئے نہ صرف دشوار ہو جائے گا بلکہ خطرہ ہے کہ سارے کے سارے علمی، مذہبی اور ادبی ذخائر دریا برد ہو جائیں گے۔

املا سے لیکر تلفظ، اس کی ادائیگی، لہجے، زیر زبر اور تشدید کا استعمال، بہت سارے حروف جیسے س، ص، ث، ز، ذ، ض، ظ، ق، ک، ہیں ان کا کن جگہ استعمال ہوتا ہے یا "نے" اور "کو" جیسے لفظوں کو کہاں کہاں لگانا مناسب ہے، جیسے اصول جب بالکل ہی خلط ملط ہو جائینگے تو مستقبل کا طالبِ علم کتابوں کا مطالعہ کیسے کر سکے گا۔ کس تلفظ اور کس املے کو درست یا غلط مان سکے گا۔ اردو کو اس کی مکمل صحت کے ساتھ نافذ کرنے کیلئے یہ بہت ضروری ہے کہ ان لوگوں سے بھی قربت اور محبت کی جائے جن کی وجہ سے کسی ملک کو اردو جیسی دنیا کی ایک بہت بڑی زبان کو قومی زبان کہلانے کا شرف ملا۔

یہ وہ زبان ہے جس کو بولنے اور سمجھنے والے دنیا میں دو ارب سے زیادہ لوگ ہیں اور ہندوستان، پاکستان، افغانستان، بنگلہ ڈیش کے لوگ جن جن ممالک میں بھی رہتے ہیں، ان سب کی رابطے کی زبان اردو ہی ہے۔ دنیا کے بہت سارے ممالک جیسے مڈل ایسٹ کی امارات، سنگا پور، مالئیشیا، یورپ کے بیشتر ممالک اور امریکا، ان سب کے بازار پاکستان سے جانے والوں کیلئے ایک دم اجنبی نہیں بلکہ کچھ ممالک تو ایسے ہیں جہاں پاکستانیوں کو اس بات کا احساس بھی نہیں ہو پاتا کے وہ کسی غیر ملک میں خریداری کر رہے ہوں۔

ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ہر قسم کا میڈیا اور ان سے وابستہ اینکرز، شعرا، ادبا،سیاسی و مذہبی اکابریں اور اساتذہ کرام اردو کی جانب بھرپور توجہ دیں اور کوشش کریں کہ جو اردو کا چہرہ ہے وہ اپنی پوری شکل و صورت کے ساتھ عوام کے سامنے آئے۔ اسی میں پاکستان کی عزت اور وقار ہے اور عزت و وقار ہر پاکستانی کو عزیز از جان و دل ہونا چاہیے۔

Comments

Click here to post a comment