ہوم << نو گیارہ: جس کے اثرات آج تک نہ تھم سکے -اویس چوہدری

نو گیارہ: جس کے اثرات آج تک نہ تھم سکے -اویس چوہدری

OLYMPUS DIGITAL CAMERA

فتح اور شکست کے ملے جلے نعروں کی بازگشت میں نائن الیون واقعے کو آج اکیس برس بیت گئے۔ دنیا میں بہت سے ایسے واقعات رونما ہوئے جنہوں نے بین الاقوامی نظام اور ایک عام آدمی کی زندگی کو 180 ڈگری کے زاویے پر تبدیل کر دیا۔ ان میں سے ایک واقعہ 11 ستمبر 2001 کی صبح امریکی شہر نیویارک میں پیش آیا جب القاعدہ نامی دہشتگرد تنظیم کے خودکش حملہ آوروں نے چار امریکی مسافر طیاروں کو اغوا کر لیا۔ پہلا طیارہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے جنوبی ٹاور، دوسرا طیارہ شمالی ٹاور اور تیسرا طیارہ پینٹاگون کے جنوب مغربی حصے سے جا ٹکرایا۔ چوتھی فلائٹ جو کہ ابھی پرواز میں ہی تھی تو خدشہ تھا کہ یہ وائٹ ہاؤس سے ٹکرا سکتی ہے لیکن وہ مسافروں کی مزاحمت کے باعث پینسلوانیا میں کریش کر گئی۔

لیکن پوری دنیا میں ایک عام آدمی کی زندگی پر ان حملوں کا کیا اثر پڑا؟ اس 9/11 واقعے کے صرف چھ ہفتوں بعد امریکی کانگریس میں ایک حب الوطنی ایکٹ پاس کیا گیا۔ امریکی کانگریس میں موجود بہت سے سیاستدانوں نے اس ایکٹ کو پڑھا تک نہیں تھا لیکن اسے پاس کر دیا گیا۔ یہ ایکٹ امریکی حکومت کو اختیار دیتا تھا کہ وہ اپنے ہی لوگوں پر نظر رکھتے ہوئے ان کی جاسوسی کر سکے۔ وہ خفیہ طور پر کسی بھی کتاب، پیپرز ، ڈاکومنٹس تک رسائی حاصل کر سکے۔ اس نے عدلیہ کی طاقت کو کم کیا اور اختیارات کو اپنے ہاتھ میں لے کر ہر طریقے سے معاملات کو اپنے کنٹرول میں کرنا شروع کر دیا۔

القاعدہ کے ان حملوں کے پسِ پردہ مقاصد یہ تھے کہ مسلمانوں پر پوری دنیا میں بہت ظلم ہو رہا ہے اور امریکہ مشرقی وسطیٰ میں مداخلت کر رہا ہے۔ لیکن 2001 کے بعد سے ہم نے دیکھا کہ مسلمانوں پر سختیاں، مشرقی وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں امریکی مداخلت بہت زیادہ بڑھ گئی۔ 20 سال امریکہ ان دہشتگردوں کا خاتمہ کرنے کے لیے اپنے آپریشنز جاری رکھتا ہے جس سے امریکی شہریوں کا کھربوں ڈالرز ضائع ہو جاتا ہے اور لاکھوں شہری بےقصور مارے جاتے ہیں۔

مذہبی منظرنامہ بھی ہمیں خاصہ متنوع ہوتا دیکھائی دیا۔ اور اسلاموفوبیا کی ایک نئی لہر دیکھنے کو ملتی ہے۔ ایک شخص کی وجہ سے پوری امت مسلمہ پر دہشتگردی کا ٹیگ لگا کر مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم پوری دنیا میں شروع ہو گئی۔ 2001 میں ہی مسلمانوں کے خلاف 481 نفرت پسندانہ کرائم ہوتے ہیں۔ سنہ 2017 میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ کے 48 فیصد مسلمانوں کا ماننا ہے کہ انہیں ذاتی طور پر امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن ایک حیرت ناک واقع یہ ہوتا ہے کہ یہ کرائم سکھوں کے خلاف بھی منظر عام پر آتے ہیں۔ کیونکہ لوگ سکھوں اور اسامہ بن لادن کی داڑھی اور پگڑی میں فرق نہیں سمجھ سکے۔ اور اس کا سب سے پہلا شکار بنے بلبیر سنگھ سوڈھی۔ 15 ستمبر 2001 کو انہوں نے 9/11 کے متاثرین کے لیے پیسے عطیہ کیے تھے لیکن ایک دن وہ ایریزونا میں اپنے گیس اسٹیشن کے باہر پھول لگانے میں مصروف تھے جب انہیں مار دیا گیا اور ان کا قاتل فرینک راک پکڑا گیا اور آج تک جیل میں ہے۔ اس کے بعد کچھ سکھ لوگوں نے اپنی داڑھیوں کو تبدیل کرنے کے بعد اپنی پگڑیوں کو بھی پہننا بند کر دیا۔ انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیاں کی گئیں اور امریکہ میں لوگوں کی جاسوسی اور بلاوجہ انہیں اٹھا کر ان پر تشدد عام تھا۔

9/11 حملے کے بعد ایئرپورٹ اور مسافروں کی سیکیورٹی میں ایک بہت بڑی تبدیلی سامنے آئی۔ 2001 سے پہلے دنیا کے زیادہ تر ایئرپورٹس پر سیکیورٹی چیکنگ نہیں کی جاتی تھی۔ لیکن 9/11 کے بعد فل باڈی سکین، ذاتی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ چیک کرنا لازمی قرار دے دیا گیا۔ نا کہ صرف جیبیں خالی کرنے کا کہا جاتا بلکہ چیکنگ کے دوران جوتے، جیکٹس، حتی کے پینٹ اتارنے کا بھی کہا جاتا۔ بیگ چیک کرنے کے دوران آپ کو الیکٹرانک ڈیوائسز باہر نکال کر رکھنی پڑتی۔ دسمبر 2002 کے بعد سے پوری دنیا کے ایئرپورٹس پر ایکسپلوسو ڈٹکشن سسٹم (Explosive Detection System) نصب کیے گئے. اپریل 2003 کے بعد سے پائلٹس کو ہتھیار دیئے گئے تھے کہ وہ اپنی حفاظت خود کر سکیں۔ اس واقعے کے چند روز بعد امریکہ نے ٹرانسپورٹیشن سیکیورٹی ایڈمنسٹریشن نامی ادارہ قائم کیا اور ہوم لینڈ سکیورٹی کا محکمہ بھی جس نے ان تمام اقدامات میں اضافہ کیا جو پہلے سے رائج تھے۔ نائن الیون کے فوراً بعد ایڈوانسڈ پیسنجر انفارمیشن بھی رائج کر دیا گیا۔

اس ایک واقعے کے بعد پوری دنیا میں نسلی، لسانی، علاقائی، سیاسی، نظریاتی بنیادوں پر بڑے پیمانے پر تفریق دیکھنے کو سامنے آئی۔ 9/11 واقعے کے بعد اس وقت کے امریکی صدر جارج بش نے پوری دنیا میں دہشتگردوں کے خاتمے کے لیے جنگ کا آغاز کر دیا۔ دہشتگردوں کے خلاف افغانستان میں شروع ہونے والی یہ جنگ نے شام، عراق، لبنان اور لیبیا کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ دہشتگردوں کے خاتمے کے لیے شروع کی جانے والی "وار آن ٹیرر" نے بہت سی اور دہشتگرد تنظیموں کو جنم دیا۔ دہشتگردوں کے خلاف جنگ کی آڑ میں امریکہ نے بہت سے ممالک میں رجیم چینج آپریشن شروع کر دیے۔ اس واقعے کے بعد اقوام متحدہ کے کردار پر بھی سوالات اٹھنے شروع ہو گئے کہ کس طرح اقوام متحدہ کی مدد سے نیٹو افواج دوسرے ممالک میں جا کر کاروائیاں کرتی ہیں اور حکومتوں کے تختے الٹائے جاتے ہیں۔ ہوائی اڈوں کے اندر اور باہر سیکیورٹی دگنی کر دی گئی۔ فن پاروں کے حوالے سے سینسر شپ میں اضافہ ہوا۔ خاص طور پر وہ جن میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کا ذکر ہو چاہے ان کی تخلیق اس واقعے سے پہلے ہی کیوں نہ کی گئی ہو۔ نائن الیون فلم اور میڈیا کا ایک طویل عرصے تک مرکز بنا رہے لیکن اسے میڈیا کی صنعت کا ایک اہم موڑ بھی کہا جا سکتا ہے۔

بش انتظامیہ نے نائن الیون حملوں کے فوراً بعد ہی دہشتگردوں کے خلاف عالمی جنگ کا آغاز کر کے پوری دنیا کو ایک اور دہشتگردی کی لپیٹ میں دھکیل دیا تھا۔ جس معاملے کو پولیس کیس بنا کر تفتیش ممکن تھی، اسے بڑے پیمانے پر فوجی کارروائی کا ہدف بنا دیا گیا۔ چونکہ دنیا کی اُس وقت کی بلند و بالا عمارتوں کا چند منٹوں میں ہی زمین بوس ہو جانا امریکی سپر پاور اتھارٹی کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔ تو امریکہ کا یہ ردعمل ممکن تھا۔ نائن الیون حملوں کے بعد سے ہونے والے انسانی جانوں اور وسائل کے ضیاع کا اندازہ لگانا آسان نہیں۔ اس ہولناک تباہی کو نقصان قرار دینا انسانیت کی توہین ہے کیونکہ بنی نوع انسان تادم تحریر ان حملوں کی بے حساب اجتماعی قیمت ادا کر رہے ہیں۔ ایسی ہلاکت خیزی کی مثال دونوں عالمی جنگوں کے دوران دیکھنے کو نہیں ملتی۔

اس واقعے کے بعد ایک عام انسان نے اپنی زندگی کے مختلف پہلوؤں میں واضح تبدیلی دیکھی۔ بہت سے نئے الفاظ سننے اور بہت سے نئے پروٹوکول دیکھنے کو ملنے لگے اور معاشرے میں ایک ڈر خوف اور عدم اعتماد کی کیفیت بھر گئی۔ مخصوص نظریات، سوچ اور فکر ہی نائن الیون حملوں کی بنیاد بنی۔ ان خیالات کو عملی جامہ پہنانے کی خو میں یہ تباہ کن واقعہ رونما ہوا جسے آج تک ذہن سے کھرچا نہیں جا سکا۔ بدقسمتی کی بات ہے کہ حملوں کے محرک اور انہیں عملی جامہ پہنانے والے افراد کا تعلق عرب دنیا سے نکلا۔ وہ دہشت گردی کو اس کے حقیقی معنی پہنا کر ظالمانہ خواہشات کی تکمیل چاہتے تھے، لاکھوں گھروں کے چراغ بجھے لیکن بے گناہ انسانوں کی تباہی کے سوا ان کے ہاتھ کچھ نہ آیا۔