ہوم << افغانستان کا غمخوار پاکستان (حصہ دوم)-شبیر احمد

افغانستان کا غمخوار پاکستان (حصہ دوم)-شبیر احمد

پاکستان اور افغانستان ہمسایہ ممالک ہونے کے ساتھ اسلامی رشتے میں بھی باہم پیوستہ ہے۔ پاکستان کی ترجیحات میں سر فہرست یہ بات شامل رہی ہے کہ افغانستان میں ایک مستقل اور مستحکم حکومت کا قیام ہو، جو اقوام عالم کے لئے خطرہ بننے کے بجائے عوامی فلاح بہبود اور تعمیر ترقی میں اپنا لوہا منوائے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں پاکستان نے اپنے تئیں افغانستان کی مدد و معاونت کی۔ تعلیم، تجارت، صحت، مہاجرین عرض ہر شعبے میں پاکستان نے اپنے برادر اسلامی ملک کی دستگیری کی۔

ذیل میں افغانستان کے پانچ اہم شعبہ جات کا ذکر کیا جا رہا ہے جس میں پاکستان نے سب سے زیادہ سہارا دیا۔

افغان قومی اثاثوں کی بحالی کا مطالبہ
پچھلے سال اگست 2021 میں طالبان نے جب کابل پر قبضہ کیا تو امریکہ نے مختلف پابندیاں لگا دی۔ جس میں افغانستان مرکزی بنک کے 7 ارب اثاثے بھی منجمد کردیے۔ اس وقت افغان قومی اثاثوں کی بحالی کے لئے سب سے زیادہ توانا آواز پاکستان کی ہے ۔ یہ آواز اس قدر موثر ہے کہ پاکستان نے اس کو باقاعدہ ریاستی پالیسی کا حصہ بنایا ۔

اعلی تعلیم میں وظائف کی سہولت
خونی اور جنگ وجدل سے بھرپور تاریخ میں اقتدار کی جنگوں نے افغانستان کے تعلیم اور خواندگی پر توجہ نہیں دی۔ افغان نوجوان تعلیمی مواقع تلاش کرتے رہے، اور بہتر مستقبل کا خواب دیکھتے رہے۔ ایسے میں پاکستان کی کوششیں قابل داد ہیں۔ پچھلے سال چار ہزار طلبہ کو سکالرشپ کی سہولت فراہم کی گئی جس میں تین ہزار مکمل وظائف پر مشتمل تھی۔ اس کے ساتھ پاکستان نے کابل میں رحمان باباکے نام سے سکول اور ہاسٹل کی تعمیر کی ۔علاوہ ازیں جامعہ کابل میں علامہ اقبال فیکلٹی آف آرٹس، ننگرہار یونیورسٹی میں سرسید احمد خان بلاک،بلخ یونیورسٹی میں لیاقت علی خان انجینئرنگ بلاک کی تعمیر اسی تعلیمی معاونت کا حصہ ہیں۔اس وقت 50,000 افغان طلبہ پاکستان کے جامعات سے پڑھ کر اپنے قوم کی خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔علامہ اقبال سکالرشپ فیز 3کا آغاز بھی جلد ہی ہوگا جس کے تحت 4,500نئے سکالرشپس دیئے جائیں گے۔

ٹرانزٹ اور تجارت میں سہولیات
افغان خانہ جنگی اور بیرونی حملوں کے باعث ٹرانزت اور ٹریڈ کا شعبہ بھی سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ اس بناء پر ملک میں انسانی اور معاشی بحران نے جنم لیا اور تاریخ کی بدترین معاشی پسماندگی نے اپنے پنجے گاڑ دیئے۔ ان مسائل کی بیخ کنی کے لئے پاکستان نے اسلام آباد انٹرنیشنل ایئر پورٹ کھول دیا ۔ اس کے علاوہ دو طرفہ ٹرانزٹ معاہدے کے تحت افغانستان اس کا مجاز ہے کہ پاکستان کے ہوائی اڈوں، بندرگاہوں اور زمینی راستے بری الزمہ محصول کے ساتھ عالمی ٹریڈ کے استعمال کر سکتا ہے۔پھلوں کی درآمدات پر سیل ٹیکس کو پچھلے سال ہی ختم کیا تھا جبکہ پولٹری مصنوعات پر سے پابندی بھی ہٹادی گئی تھی۔افغانستان مرکزی ادارہ شماریات کے مطابق مالی سال 2018میں پاک افغان دو طرفہ تجارت بلند ترین سطح پر تھی جس کا کل حجم1,437 ملین ڈالر تھا۔افغانستان کے ساتھ ٹرانزٹ ٹریڈ کے فروغ کے لئےپاکستان کے مختلف ادارے بھی کام کر رہےہیں۔جن میں افغانستان پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ کوآپریشن اتھارٹی،پاک افغان جوائنٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری،پاکستان افغانستان،جوائنٹ بزنس کونسل،مشترکہ اقتصادی کمیشن اور افغان پاکستان ایکشن پلان برائے امن اور یکجہتی شامل ہیں۔

افغان مہاجرین کو پناہ
بیرونی فوجوں اور ملکی خانہ جنگی کا ایک نقصان یہ بھی تھا یہ لاکھوں افغانیوں نے اپنی زمین کو غیر محفوظ تصور کیا ۔ کثیر میں تعداد میں لوگوں نے پناہ اور محفوظ زندگی کی خاطر پاکستان کا رخ کیا۔ پچھلے چار دہائیوں میں پاکستان نے لاکھوں افغانیوں کو پناہ دی۔اس وقت پاکستان میں افغان مہاجرین کی کل تعداد 30 لاکھ ہیں۔ اقوام متحدہ پروگرام برائے مہاجرین کے مطابق طالبان کا کابل پر قبضہ کرنے کے بعد 2,50,000 افغانی پاکستان منتقل ہوئے۔ پاکستان نے نہ صرف ان مہاجرین کو پناہ دی بلکہ خوراک اور تعلیم کا بھی انتظام کیا۔
ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل
گزشتہ سال جون میں افغانستان کے لیے پاکستان کی ترقیاتی امداد ایک ارب امریکی ڈالر تک پہنچ گئی۔ ملک کی ترقیاتی امداد انفراسٹرکچر، تعلیم، صحت، زراعت اور افغان پیشہ ور افراد کی صلاحیتوں میں اضافے کے لیے سرمایہ کاری کے لیے استعمال کی گئی۔ پاکستان نے افغانستان میں صحت کی دیکھ بھال کی سہولیات قائم کی ہیں جن میں تین ہسپتال شامل ہیں، یعنی 200 بستروں کا جناح ہسپتال کابل، 80 بستروں کا نشتر کڈنی سنٹر جلال آباد میں اور 100 بستروں کا نائب امین اللہ خان لوگر ہسپتال۔ جناح ہسپتال کابل اور نشتر کڈنی سنٹر افغانستان کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ افغانستان میں پاکستان کے بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں میں طورخم-جلال آباد روڈ (75 کلومیٹر)، طورخم-جلال آباد ایڈیشنل کیریج وے (73 کلومیٹر)، 15 وزنی پل، سڑک کی تعمیراتی مشینری کا عطیہ، جلال آباد میں اندرونی سڑک کی تعمیر اور ٹیلی کام اور بجلی کے نظام کا عطیہ شامل ہیں۔
پاکستان کی غمخواری کی یہ تاریخ اس قدر قوی اور طویل ہے کہ اوراق کی قلت محسوس ہونے لگتی ہیں۔پاکستان کے یہ امدادی احسانات ہیں جو اس رشتے کے تسلسل کا باعث ہے۔ جب بھی بیسویں اور اکیسویں صدی کی تاریخ لکھی جائے گی مورخ پاکستان کو اپنے افغان بھائیوں کے شانہ بشانہ کھڑا پائے گا۔