ہوم << یوں لگا، خلوص کا انعام ملا ہو جیسے - عمیر محمود

یوں لگا، خلوص کا انعام ملا ہو جیسے - عمیر محمود

عمیر محمود مون نے مجھے مشکل میں ڈال دیا تھا۔ میں اس کا کھلونا ہاتھ میں پکڑے ہونق کھڑا تھا، اور وہ طمانیت بھری مسکراہٹ سے مجھے دیکھتا تھا۔
ٹھہریے۔
آپ کو برسوں پرانی یہ کہانی شروع سے سنانا پڑے گی۔ میں مون کے گھر گیا تو اس نے بہت شوق سے اپنے کھلونے مجھے دکھائے۔ پھر ایک ننھی سی گاڑی اٹھا کر پوچھنے لگا، کیسی ہے؟ گاڑی بہت ہی پیاری تھی، نہ بھی ہوتی تو دوست کو کیسے کہہ دیتا اس کا کھلونا اچھا نہیں۔
تعریف سنتے ہی کہنے لگا، یہ گاڑی تمہیں پسند آئی اس لیے تم رکھ لو۔ میں ہکا بکا رہ گیا۔ تعریف اس مقصد کے لیے تو نہ کی تھی، اس کا کھلونا میں کیسے رکھ سکتا ہوں (ہم دونوں عمر کے اس حصے میں تھے جب ہر بچہ اپنے کھلونے کو دنیا کی تمام چیزوں سے عزیز سمجھتا ہے)۔ میں نے منع کرنے کی کوشش کی، وہ مان کر نہ دیا۔ زیادہ انکار سے اس کا دل ٹوٹنے کا ڈر تھا، لیکن یوں کسی کا کھلونا ہتھیا لینا مجھے اچھا نہ لگتا تھا۔ شاید میں اس سے جلتا بھی تھا، کوئی اپنے کھلونوں کے بارے میں اتنا دریا دل کیسے ہو سکتا ہے؟
خیر وہ کھلونا گاڑی تو میں نے رکھ لی، مزید مشکل اس وقت آئی جب مون نے ایک اور کھلونا اٹھا کر مجھ سے وہی سوال کیا۔۔۔ یہ کیسا لگا تمہیں؟ کھلونے کی تعریف کرتا ہوں تو وہ اس سے بھی دست بردار ہو جائے گا، برائی کرتا ہوں تو دل ٹوٹے گا۔۔۔ عجیب کشمکش آن پڑی۔
یار اچھا ہے لیکن میں لوں گا نہیں۔۔۔ دیکھو نا ابھی تم نے مجھے ایک کھلونا تحفے میں دے تو دیا ہے۔۔۔ بہت تاویلیں باندھیں لیکن جواب میں اس نے کہا، “دیکھو ہم دوست ہیں، تمہیں ایک چیز پسند آئی، میں نے اپنی خوشی سے وہ دے دی۔ بات ختم۔”
لیکن بات ختم نہ ہوئی تھی۔ مون ہر دوسرا کھلونا اٹھا کر پوچھتا، یہ پسند آیا؟ میں کھلونا نہ رکھنے اور دوست کا دل رکھنے کے درمیان ڈولتا رہتا۔۔۔ اس ملاقات کے اختتام تک مون اپنے سبھی کھلونے مجھے تحفے میں دے چکا تھا۔
میں نے جاتے جاتے ایک چالاکی کی۔ نظر بچا کر چپکے سے وہ سبھی کھلونے اس کے بیڈ کے نیچے چھپا دیے۔
مجھے یقین تھا کہ مون کو کھلونوں کی اپنے بستر کے نیچے موجودگی کا علم ہو گا تو بہت ناراض ہو گا۔ ساری رات میں تاویلیں سوچتا رہا لیکن اگلے روز مون نے ذکر تک نہ کیا۔ شاید اس نے جھانک کر دیکھا ہی نہ ہو۔۔۔ اسی ادھیڑ بن میں ایک ہفتہ گزر گیا۔
اب مجھے پریشانی ہوئی۔ اگر مون کو اپنے کھلونوں کی واپسی کا علم نہیں ہوا تو وہ نئے کھلونے خریدنے میں اپنے والدین کا مزید خرچہ کرائے گا۔۔۔ علم ہو گیا ہے تو کیا ناراضی کے سبب اس کا ذکر نہیں کر رہا؟ یہ سوچتے سوچتے ایک دن اسے ساری کہانی جا سنائی ۔۔۔ کہ مجھے اس کے دیے تحفوں کی قدر تو تھی، اس کے جذبے کا بھی احساس تھا لیکن یوں تمام کھلونے ہتھیانا مناسب معلوم نہ ہوتا تھا۔
مون نے اس کا جو جواب دیا وہ برسوں بعد بھی اسی مٹھاس اور اپنائیت کے ساتھ مجھے یاد ہے۔ کہنے لگ، “اچھاتو وہ کھلونے تم نے واپس رکھے تھے، میں سمجھا چونکہ میں نے اتنے خلوص سے دیے ہیں تو اللہ میاں نے مجھے ویسے ہی کھلونے دوبارہ لوٹا دیے ہیں۔”