ہوم << ایک ناقابل یقین واقعہ - عظیم الرحمن عثمانی

ایک ناقابل یقین واقعہ - عظیم الرحمن عثمانی

عظیم عثمانی شادی کے بعد کے ابتدائی سالوں میں میرے مالی حالات مستحکم نہیں تھے. جتنا کماتا تھا، اس سے الحمدللہ بس ضروریات زندگی کی گاڑی چل رہی تھی. میں، میری بیوی اور میری بیٹی ایک چھوٹے سے نہایت خستہ حال فلیٹ میں مقیم تھے. یہ فلیٹ سستا ضرور تھا مگر اس کی حالت یہ تھی کہ ایک بوسیدہ قبرستان سے ملا ہوا اور بے ہنگم درخت سے گھرا ہوا تھا. دیواروں میں پانی سے سیلن اتر آئی تھی اور گھر میں ہیٹنگ یعنی گھر گرم کرنے کا انتظام نہ ہونے کے برابر تھا. رات کے دوران جب سردی بڑھ جاتی تو اکثر میری بیٹی روتے ہوئے اٹھ کر شکایت کرتی کہ اس کے پیروں میں درد ہورہا ہے. میں اور میری بیوی اٹھ کر اسے ایک اور کمبل اوڑھاتے اور اس کے پیر دابتے رہتے. یہاں تک کہ وہ دوبارہ سو جائے. اس تنگی کے باوجود ہمیں سکون اور خوشی کی دولت ایسے ہی میسر تھی جیسے الحمدللہ آج میسر ہے. لیکن ایک بہتر گھر میں رہنے کی خواہش میرے دل میں ضرور دفن تھی. ان ہی دنوں علاقے میں ایک زبردست فلیٹس کی اسکیم کا اعلان کیا گیا. یہ فلیٹس قیمت میں دوسرے گھروں سے بہت زیادہ مہنگے مگر سہولیات سے مزین تھے. میرے دل میں کسی ندیدے بچے کی طرح یہ خواہش پیدا ہوئی کہ کاش کبھی میں بھی ان فلیٹس میں رہ سکوں. تعمیر کی ابتدا میں وہاں تین جناتی قامت کی کرینیں لگائی گئیں. میں جب اپنی فیملی کے ساتھ ان کے پاس سے گزرتا تو اپنی بیٹی سے مخاطب ہو کر کہتا کہ "یہ سب سے بڑی والی کرین میں ہوں، یہ درمیانی والی کرین تمھاری ماما ہیں اور یہ چھوٹی والی کرین تم ہو" میرے اس بار بار کئے جانے والے مذاق سے چڑ کر میری بیٹی جواب دیتی کہ "او گاڈ آپ کو تو ہمیشہ ایک ہی جوک کرنا ہوتا ہے". میں مسکرا دیتا مگر اگلی بار پھر بے ساختہ یہی جملہ اسے کہتا.
.
تعمیر کا کام آگے بڑھا تو دل سے مجبور ہوکر ایک روز میں قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فلیٹس میں چھپ کر داخل ہوگیا تاکہ انہیں اندر سے دیکھ سکوں. یہاں فلیٹوں کے چھ بڑے بڑے بلاکس تھے اور ان میں سینکڑوں کی تعداد میں فلیٹس تھے. ان بلاکس میں جو بلاک مجھے سب سے دلنشین لگا، میں اس میں کود گیا اور پھر اپنے پسندیدہ پہلے فلور پر پہنچا. اس فلور پر آٹھ فلیٹس موجود تھے. ان میں سے جو فلیٹ مجھے سب سے بہتر جگہ پر لگا، میں اس میں چھپ کر اندر چلا گیا. دو کمروں کا یہ فلیٹ مجھے اپنے دل سے بہت قریب محسوس ہوا. کافی دیر گزرارنے کے بعد اپنا دل تھامے واپس آگیا اور اپنی بیگم کو روداد سنائی. اسے بھی شوق ہوا تو میری حماقت کی حد دیکھیئے کہ مزدوروں اور سیکورٹی سے چھپ کر اسے بھی وہاں لے گیا. اپنا دیکھا ہوا فلیٹ اسے دکھایا اور دونوں ایک دوسرے سے تعریفیں کرتے یہ کہتے واپس آگئے کہ کتنا اچھا ہوتا اگر ہم یہاں رہ پاتے؟ .. اسی طرح کچھ اور دن گزرے اور فلیٹس کی تعمیر اپنے اختتام کو پہنچ گئی. ایک روز بہت صبح مجھے فون آیا. دوسری طرف گورنمنٹ کونسل کی کوئی خاتون مخاطب تھیں. انہوں نے بتایا کہ گورنمنٹ نے ایک اسکیم کے تحت ان سینکڑوں نئے فلیٹس میں سے چند گنتی کے فلیٹس خرید لئے ہیں جو وہ ان لوگوں کو دے رہی ہے جنہوں نے گورنمنٹ گھروں کے لیے درخوست دے رکھی تھی. آپ کی درخوست ہمارے پاس موجود ہے تو کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم وہاں موجود ایک فلیٹ آپ کو دے دیں اور آپ موجودہ کرائے سے کافی کم کرائے پر وہاں شفٹ ہوجائیں ؟ میں نے بوکھلاتے ہوئے خوشی سے نہال ہوکر لڑکھڑاتی آواز میں جواب دیا کہ ضرور !
.
اسی روز ہمیں دعوت دی گئی کہ ہم جا کر اپنا فلیٹ دیکھ لیں. وہاں بھاگم بھاگ پہنچے تو چھ بلاکس میں سے اسی بلاک میں، سات فلوروں میں سے اسی فلور پر اور سینکڑوں فلیٹوں میں سے وہی فلیٹ ہمارے نام نکلا تھا. آج الحمدللہ ثم الحمدللہ میں کوئی سات آٹھ برس سے اسی فلیٹ میں بخوشی مقیم ہوں اور اپنے رب کی عطا کو سوچ کر شکرگزار ہوں. میں حیران ہوتا ہوں جب لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ دعا کی کوئی حقیقت نہیں. میں مسکرا دیتا ہوں جب لوگ مصر ہوتے ہیں کہ اب معجزات نہیں ہوتے. اللہ اکبر. اللہ اکبر. لا الہ الا اللہ. واللہ اکبر. اللہ اکبر. وللہ الحمد.

Comments

Click here to post a comment