ہوم << مکافات عمل- حمیراعلیم

مکافات عمل- حمیراعلیم

بارہ سالہ نافلہ اپنی دو ماہ کی بہن فکیھہ کو گود میں لیے کبھی ایک بہن کو چپ کرواتی تو کبھی دوسری کو۔دو سالہ بھائی ہدم بھی چارپائی کے پاس کھڑا ماں کو اٹھانے کی کوشش کر رہا تھا۔" امی! امی! بھوک لگی ہے اٹھیں نا۔پراٹھا بنا دیں۔نافلہ نے اپنی سسکی دباتے ہوئے اسے ہاتھ سے پکڑ کر چارپائی سے دور ہٹایا اور پچکارتے ہوئے بولی:" آو میں تمہیں پراٹھا بنا دیتی ہوں۔"
دس سالہ رملہ، آٹھ سالہ عربا اور چھ سالہ سبیعہ بھی ہچکیاں لے لے کر رو رہی تھیں۔

ان کی پھوپھیاں عائلہ اور ازکی ان کے پاس بیٹھیں انہیں سنبھالنے کی کوشش کر رہی تھیں مگر ماں کی میت دیکھ کر صبر کسے آتا ہے۔ چوہدری فہر لاہور سے کچھ دور مریدکے میں رہتے تھے۔اچھے کھاتے پیتے زمیندار تھے۔کئی مربعوں کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ پڑھے لکھے بھی تھے۔ اس لیے روایتی زمینداروں سے ہٹ کر تھے۔ان کی شادی کو چودہ سال ہو چکے تھے بیگم ان کی کزن تھیں اور خاصی خوبصورت اور وضع دار خاتون تھیں ۔ان کے چچا کی بیٹی تھیں ۔ان کی شادی شدہ زندگی نہایت خوشگوار اور پرسکون تھی۔پانچ بیٹیاں اور ایک بیٹا اللہ نے انہیں نعمت اور رحمت دونوں سے ہی نوازا تھا۔سب کچھ ایسے ہی رہتا جو اگر ان کی بیگم کی زندگی وفا کرتی۔رات کو سب سے چھوٹی بیٹی فکیھہ کو دودھ پلا کر سلایا اور چوہدری صاحب کے پاس بیٹھ گئیں۔" کیا بات ہے نیک بخت کوئی کام ہے؟" فہر نے پوچھا۔

" نہیں کام تو کوئی نہیں بس ایسے ہی دل9 چاہ رہا تھا آپ کے ساتھ باتیں کرنے کا۔" بیگم نے عجیب سے لہجے میں کہا تو فہر نے شرارت سے مسکرا کر دیکھتے ہوئے کہا:" صرف باتیں کرنے کا دل چاہ رہا ہے؟"" آپ بھی نا! بس ہر وقت ایک ہی موڈ میں رہتے ہیں۔" بیگم بھی مسکرائیں اور جھینپتی ہوئی بولیں:" سنیں میرا دل گھبرا رہا ہے باہر لان میں چلیں ذرا چہل قدمی کرتے ہیں۔" اور یہ کیسے ممکن تھا کہ چوہدری صاحب اپنی لاڈلی بیگم کا حکم ٹالتے۔فورا سے اٹھے اور ان کا ہاتھ پکڑ کر باہر چل دئیے۔کافی دیر تک دونوں ٹہلتے رہے اور دنیا جہان کی باتیں کرتے رہے۔پھر چوہدری صاحب کے کہنے پہ وہ واپس کمرے میں آ کر بیڈ پہ لیٹ گئے مگر بیگم کی آنکھیں کھلی دیکھ کر انہوں نے پوچھا:" طبیعت تو ٹھیک ہے نا تمہاری اگر کہو تو لاہور لے جاوں ڈاکٹر کو دکھا آتے ہیں۔"

" ارے نہیں! بس نیند نہیں آ رہی آپ پریشان نہ ہوں اور سو جائیں۔" یہ سن کر فہر نے آنکھیں موند لیں اور جلد ہی سو گئے۔لیکن اگلی صبح ان کی آنکھ فکیھہ کی چیخ سے کھلی۔آنکھیں کھول کر دیکھا تو بیگم گہری نیند میں تھیں اور بچی بلک بلک کر رو رہی تھی۔انہوں نے دو تین آوازیں دیں اور جب وہ ٹسٹ سے مس نہ ہوئیں تو ہاتھ بڑھا کر انہیں ہلا کر جگانے کی کوشش کی مگر ان کے بازو پہ ہاتھ رکھتے ہی وہ ہڑبڑا کر اٹھے۔بیگم بالکل ٹھنڈی پڑی تھیں۔جلدی سے نبض دیکھی دل ناک کے آگے ہاتھ رکھ کر سانس چیک کی تو دونوں ندارد۔" انا للہ و انا الیہ راجعون۔" پڑھتے ہوئے انہوں نے نوکر کو آواز دی۔" اشرف جلدی آو۔" اشرف بھاگا ہوا آیا تو اسے چند ہدایات دے کر فون اٹھایا اور اپنے گھر والوں کو اطلاع دی۔ فہر کا خاندان خاصا بڑا تھا دو بہنیں اور چار بھائی سوائے چھوٹی بہن کے سب شادی شدہ تھے۔کچھ ہی دیر میں سب آ پہنچے اور گھر میں کہرام مچ گیا۔

بچے تو رو رو کر بے حال ہو گئے تھے۔نافلہ جو خود بھی بچی ہی تھی مگر ماں کی بہترین تربیت کی وجہ سے نہایت سمجھدار تھی اس نے بہن بھائیوں کو تسلی دی اور بہانے سے اپنے کمرے میں لے گئی وہاں جا کر سمجھایا: " دیکھو امی اللہ تعالٰی کے پاس گئی ہیں اگر تم سب روو گے تو وہ پریشان ہو جائیں گی۔اس لیے سب چپ کر جاو شاباش ۔چلو اٹھو منہ دھو کے آو ۔" سب بچے فرمانبرداری سے بڑی بہن کی بات مان کر نہ صرف چپ ہو گئے بلکہ منہ بھی دھوآئے۔بھابھی کے چالیسویں تک تو ازکی ان کے ساتھ ہی رہیں پھر انہیں واپس ہاسٹل جانا تھا کیونکہ ان کے پیپرز تھے وہ لاہور سے گریجویشن کر رہی تھیں۔چنانچہ عائلہ اور ازکی نے بھائی سے بات کرنے کی ٹھانی:" فہر بھائی! کیا سوچا ہے آپ نے؟"" کس بارے میں ؟" انہوں نے غائب دماغی سے پوچھا۔من چاہی شریک حیات کی جوان موت نے ان کے اعصاب پہ بہت بڑا اثر ڈالا تھا۔" میں سوچ رہی تھی کہ بچوں کا کیا ہو گا؟" عائلہ نے دکھ سے کہا تو وہ چونکے:" کیوں کیا ہوا ہے بچوں کو؟" " اللہ نہ کرے کچھ ہو۔" عائلہ نے دہل کر کہا" مجھے ان کی فکر ہو رہی ہے۔

سب ہی چھوٹے ہیں مگر فکیھہ تو صرف تین ماہ کی ہے آپ کیلے کیسے ان کی پرورش کریں گے؟"" اکیلے کیوں تم سب ہو پھر یہ نوکروں کی فوج کس کام کی ہے۔" انہوں نے سکون سے کہا تو عائلہ نے بہن کو دیکھ کر دھیرے سے کہا:" میرا اپنا گھر اور بچے ہیں بھائی۔اور ازکی نے بھی ہاسٹل واپس جانا ہے۔کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ آپ کوئی اچھی سی عورت دیکھ کےنکاح کر لیں۔بچیاں بہت چھوٹی ہیں انہیں ماں کی ضرورت ہے۔"فہر نے تڑپ کر انہیں دیکھا:" یہ کیا کہہ رہی ہو عائلہ؟ تمہاری بھابھی کو گئے دن ہی کتنے ہوئے ہیں۔نہیں ہرگز نہیں میں یہ نہیں کر سکتا۔بچوں کا اللہ مالک ہے پل ہی جائیں گے۔" بہنیں یہ سن کر چپ ہو رہیں۔مگر وقت نے ثابت کر دیا کہ بہنوں کو مشورہ سائب تھا۔چار سال میں کبھی کوئی بچہ بیمار ہو جاتا تو کبھی کسی کو چوٹ لگ جاتی۔گھر نوکروں کے ذمے تھا اس لیے ہر چیز چوپٹ ہو گئی تھی۔

سب سے زیادہ مسئلہ تو فکیھہ کا ہوا کن جتنوں سے اسے پالا تھا انہوں نے ۔راتوں کو خود اس کے ساتھ جاگتے رہے۔عائلہ جب مریدکے آتیں بھائی کی حالت دیکھ کر کڑھتیں۔آخر انہوں نے ایک غریب گھرانے کی یتیم لڑکی پسند کی اور بھائی سے دوبارہ بات کی:" فہر بھائی آپ ابھی صرف چالیس کے ہیں جوان جہاں مرد ہیں۔اور بچیاں بھی بڑی ہو رہی ہیں میری مانیں تو اب نکاح کر لیں۔" فہر بھی اس عرصے میں سمجھ گئے تھے کہ بہن ٹھیک کہہ رہی ہے اس لیے رضامندی ظاہر کر دی۔عائلہ نے شام کو ہی سب خاندان والوں کو بلا کر پچیس سالہ شازیہ سے ان کا نکاح کر دیا۔ ان کا خیال تھا کہ یتیم لڑکی ہے بچوں کا دکھ سمجھے گی اور انہیں ماں کا پیار دے گی۔لہذا عروسی جوڑے میں ملبوس دلہن بنی شازیہ کو نصیحت کی:" دیکھو شازیہ تم میری چھوٹی بہن کی طرح ہو۔اس لیے تمہیں بتا رہی ہوں۔بچے بہت چھوٹے ہیں تم انہیں ماں کا پیار دو گی تو یہ بھی تمہیں ماں ہی سمجھیں گے۔اللہ کا دیا سب کچھ ہے بس بھائی کو ایک ہی کمی تھی تمہارے آنے سے پوری ہو گئی۔ہم بھی مطمئن ہیں کہ اب تم اس گھر اور بچوں کی دیکھ بھال کرو گی۔

"عائلہ نے ہولے سے سر ہلایا تو وہ اور بھی پرسکون ہو گئیں۔ رات سب و اپنے اپنے گھر واپس چلے گئے۔ دوسرے دن صبح شازیہ نے اٹھ کر حویلی کا جائزہ لیا چار پانچ کنال پہ محیط کشادہ حویلی جس کے درمیان میں شہری طرز کا بڑا سا گھر بنا ہوا تھا چاروں طرف پھلوں کے اور پام کے درخت جبکہ سامنے موجود لان میں گھاس کے قطعوں کے کنارے کیاریوں میں مختلف اقسام کے پھول دار پودے لگے ہوئے تھے۔گھر کی پرانی نوکرانی رقیہ نے دلہن کو دیکھا تو فورا پاس آ کر پوچھا :" کچھ چاہیے تھا چوہدرائن؟"شازیہ نے حیرت سے ادھر ادھر دیکھا:" کس سے پوچھ رہی ہو؟" " آپ سے مالکن!" اس کے جواب پہ شازیہ کو اپنی حیثیت بدلنے کا ادراک ہوا۔راتوں رات وہ ایک کچے کمرے سے نکل کر اس محل نما حویلی کی بلاشرکت غیرے مالک بن گئی تھی ابھی وہ اپنے خواب نگر میں پہنچی ہی تھی کہ فکیھہ کے رونے کی آواز اسے حقیقت کی دنیا میں واپس لے آئی۔

" یہ کون رو رہا ہے؟" اس نے رقیہ سے استفسار کیا۔" مالکن چھوٹی فکیھہ ہے اسے بھوک لگی ہو گی میں دیکھتی ہوں۔" یہ کہہ کر وہ بچوں کے کمرے کی طرف بھاگی۔فہر بھی کمرے سے باہر نکل کر رقیہ کے پیچھے گیا تو شازیہ نے جلن سے دیکھا اور سوچا:" ہنہ نئی نویلی دلہن کو تو دیکھا تک نہیں اور بھاگ بھاگ کے بچوں کی خدمیتں ہو رہی ہیں۔"کچھ دیر بعد فہر فکیھہ کی انگلی پکڑے باقی بچوں کے ساتھ شازیہ کے پاس آیا اور بولا:" بچوں یہ آپ کی امی ہیں۔سلام کرو۔" سب نے نہایت تمیز سے سلام کیا تو شازیہ نے بھی ہولے سے جواب دے دیا۔فہر نے سب کا تعارف کروا کے رقیہ سے کہا کہ وہ بچوں کو تیار کروا کے ڈرائیور کے ساتھ اسکول بھیج دے۔اور ان دونوں کو بھی ناشتہ یہیں بھجوا دے۔کچھ دن گزرے فہر شازیہ کے ساتھ اپنے کمرے میں ٹی وی دیکھ رہا تھا رات کے دس بجے تھے کہ دروازے پہ زوردار دستک ہوئی۔" ابو! ابو! دروازہ کھولیں ہدم کی طبیعت بہت خراب ہے۔" نافلہ کی گھبرائی ہوئی آواز سن کر فہر بھاگے ۔ہدم بستر پہ نڈھال پڑا تھا اسے بہت تیز بخار تھا۔فہر نے اسے اٹھایا گاڑی میں ڈالا شازیہ کو بچوں کا دھیان رکھنے کا کہا اور ہدم کو ہاسپٹل گئے۔ڈاکٹر نے بتایا : " اسے فوڈ پوائزننگ ہو گئی ہے۔کچھ دن ہاسپٹل میں ہی رکھنا پڑے گا۔" فہر نے ریسیپشن پہ سے فون کر کے گھر اطلاع دے دی۔

شازیہ جو پہلے ہی جلی بھنی بیٹھی تھی کہ اس کے پہلو سے اٹھ کر شوہر بیٹی کی ایک آوازپہ چلا گیا۔اس کے ہاسپٹل رکنے کا سن کر اس کا پارہ اور ہائی ہو گیا۔یہ پہلی گرہ تھی جو اس کے دل میں بچوں کے خلاف پڑی تھی۔وہ کمرے میں گئی اور سو گئی۔بچے حسب سابق نوکروں کے ہی رحم و کرم پر تھے شازیہ کے آنے کا کسی کو کوئی فائدہ تھا تو وہ فہر تھا اب اس کی تنہائی کا کوئی ساتھی تھا وہ اکیلا نہیں تھا۔شازیہ نے اپنے پیار کی پٹی فہر کی آنکھوں پہ کچھ ایسی مضبوطی سے باندھی کہ اسے سوائے شازیہ کے کچھ نظر ہی نہیں آتا تھا۔شادی کے چھ ماہ بعد شازیہ کو جب یہ خوشخبری ملی کہ وہ امید سے ہے تو اس کے تو پاوں ہی زمین پر نہ ٹک رہے تھے۔ اب وہ پراعتماد تھی کہ اس کا کھونٹا مضبوط ہو چکا ہے چنانچہ اس نے پر پرزے نکالنے شروع کر دئیے۔پہلے تو وہ فہر کے بچوں کو نظر انداز کرتی تھی بس فہر اور اس کے خاندان والوں کے سامنے کبھی کبھار بات چیت کر لیتی تھی۔مگر اب وہ چھ بچے اسے اپنے بچے کے رقیب لگنے لگے تھے:" کاش یہ سارے مر جائیں تو یہ سب زمین جائیداد میرے بچے کی ہو گی۔" وہ سوچتی۔انہیں مارنے کی ہمت تو اس میں نہیں تھی مگر سوتیلا پن اپنے عروج پہ تھا وہ کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہ دیتی کہ انہیں ذلیل کر سکے۔

اس نے بچوں سے ان کا کمرہ لے کر انہیں اسٹور میں شفٹ کر دیا۔نافلہ نے احتجاج کرنا چاہا تو بولی:" یہ کمرہ مجھے بچے کی نرسری بنانا ہے ہمارے کمرے سے قریب ہے نا۔تم لوگ تو اب بڑے ہو گئے ہو اور پچھلے کمرے میں رہ سکتے ہو۔" نافلہ چپ ہو رہی۔شازیہ نے نوکروں کو بھی سمجھا دیا تھا:" خبردار جو کسی نے چوہدری صاحب سے کچھ کہا تو فورا نوکری سے نکال دوں گی۔" نوکر بیچارے کیا کہہ سکتے تھے۔رہ گیا فہر تو شازیہ اس کے گھر آتے ہی اسے اپنی طرف ایسا لبھاتی کہ اسے کسی چیز کا ہوش ہی نہ رہتا۔بچے بیچارے تو اتنی سمجھ ہی نہ رکھتے تھے کہ وہ شازیہ کی چالیں سمجھ سکتے۔وہ اپنی پڑھائی میں مگن تھے۔فکیھہ کبھی کبھار امی امی کرتی شازیہ کی طرف لپکتی تو وہ نفرت سے اسے جھٹک دیتی چھوٹی سی بچی پریشان ہو جاتی کہ ماں اسے پیار کیوں نہیں کرتی۔وہ جب اسکول میں دوسرے بچوں کی ماووں کو دیکھتی تو اسے بھی دل کرتا کہ اس کی ماں بھی اس کے لاڈ اٹھائے اسے اسکول۔سے پک کرے اس کی پی ٹی ایم پہ آئے۔مگر شازیہ اس کی ماں ہوتی تو یہ کرتی نا۔

جب شازیہ کے ہاں بیٹے کی پیدائش ہوئی تو وہ نہال ہی ہو گئی:" اب ان سب سنپولیوں کا کچھ بندوبست کرنا ہی پڑے گا۔" اس نے پاس لیٹے بیٹے کو پیار سے دیکھتے ہوئے سوچا۔اور جو کچھ اس نے سوچا تھا نہایت ہی خوفناک تھا۔شازیہ گھر آئی تو فہر نے اس کا شاندار استقبال کیا۔پھولوں سے کمرہ بھر دیا اور سونے کا بھاری سیٹ اس کی نذر کیا۔" یہ میرے لیے ہے۔" اتنا قیمتی اور بھاری سیٹ دیکھ کے شازیہ کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔" تو اور کس کے لیے؟" فہر نے ہنستے ہوئے کہا:" آج میرے ہدم کا بھائی گھر آیا ہے میں بہت خوش ہوں۔ارے یہ بچے کدھر ہیں بھائی سے ملنے نہیں آئے۔" فہر نے رقیہ سے پوچھا تو اس نے نظریں جھکا لیں۔شازیہ فٹ سے بولی:" اسکول سے تھکے ہارے آئے ہوں گے آرام کر رہے ہوں گے۔" اور رقیہ کو آنکھ سے اشارہ کیا تو وہ باہر نکل گئی۔حالانکہ وہ جانتی تھی کہ شازیہ نے بچوں کو سختی سے منع کیا تھا کہ وہ اس کے بیٹے اخرم کے نزدیک بھی نہ پھٹکیں ورنہ وہ انہیں بری طرح پیٹے گی۔مگر وہ یہ سب مالک کو نہیں بتا سکتی تھی۔کیونکہ اس کے گھر کا چولہا اسی نوکری کی وجہ سے چلتا تھا۔

اپنے بیٹے کے ناز اٹھانے میں مصروف شازیہ نے اپنے منصوبے پہ عمل درآمد بھی شروع کر دیا تھا۔اب وہ گاہے بگاہے فہر کے کان میں یہ بات انڈیلتی رہتی کہ بچے بہت بدتمیز ہوتے جا رہے ہیں اس کی بات نہیں مانتے۔فہر سن کر اسے سمجھاتا:" تم ماں ہو بہتر جانتی ہو کہ کیسے ان کی تربیت کرنی ہے۔سختی کرو تو سدھر جائیں گے۔" اور یہی تو وہ چاہتی تھی کہ فہر خود اسے اس بات کی اجازت دے۔اس کے بعد بچوں کے لیے زندگی مزید جہنم بن گئی۔نافلہ ، رملہ، عربا اور سبیعہ اسکول سے آ کر ابھی یونیفارم بھی تبدیل نہیں کر پاتیں تھیں کہ شازیہ ان کے سر پہ پہنچ جاتی۔" سنو لڑکیوں! جلدی سے کچن میں جاو تم بڑی والی روٹیاں بنا لو۔اور تم دوسرے نمبر کی برتن دھو لو۔اور تم تیسری والی جاو اور اخرم کے کپڑے دھو دو اس نے الٹی کر دی تھی۔اور تم" اس نے سبیعہ کی طرف دیکھتے ہوئے حکم دیا" جا کر میرے کمرے کا باٹھ روم دھو دو۔" وہ ان کے نام لینا بھی پسند نہیں کرتی تھی۔" امی سبیعہ اور عربا کو رہنے دیں وہ چھوٹی ہیں میں سب کام کر لوں گی۔

" نافلہ نہ رہ سکی تو کہ دیا ۔یہ سن کر شازیہ سیخ پا ہو گئی اور نافلہ کو بری طرح پیٹ دیا:" زبان چلاتی ہے اب تو مجھے بتائے گی کہ مجھے کیا کرنا ہے۔ایک تو چوبیس گھنٹے بچوں کا ڈھیر میرے سر پہ سوار رہتا ہے اوپر سے نخرے دیکھو ان نوابزادیوں کے۔" بچیوں نے خوفزدہ ہو کر زور زور سے رونا شروع کر دیا تو شازیہ غصے سے پاگل ہو گئی اور جو ہاتھ میں آیا ان سب پہ برسانا شروع کر دیا ساتھ ساتھ وہ ان کی مری ہوئی ماں کو گالیاں بھی بک رہی تھی۔چیخ و پکار سن کر مالی، ڈرائیور اور رقیہ دوڑے ہوئے آئے اور شازیہ کو پاگلوں کی طرح بچیوں کو مارتے دیکھ کر دنگ رہ گئے۔آخر رقیہ آگے بڑھی اور بچیوں کو بچایا:" بس کر دیں مالکن کیا جان لیں گی ان کی۔" شازیہ شاید اپنا غصہ اتار چکی تھی یا تھک گئی تھی اس لیے پاوں پٹکتی ہوئی کچن سے نکل گئی۔ رقیہ بچیوں کو ان کے کمرے میں لے گئی اور دوا لگائی۔" بیٹا! تم لوگ مت جواب دیا کرو ۔یہ عورت تو لگتا ہے دل کی جگہ پتھر رکھے ہوئے ہے۔کس بیدردی سے مارا ہے اس نے تم سب کو۔" رقیہ کے آنسو نکل آئے وہ اس حویلی میں تب سے کام کر رہی تھی جب فہر کی شادی بھی نہیں ہوئی تھی۔

اس لیے اسے بچوں سے ہمدردی تھی۔" کبھی کبھی تو جی چاہتا ہے چوہدری صاحب کو سب بتا دوں۔"" نہیں خالہ آپ ابو سے کچھ مت کہیے گا ۔کیا انہیں نظر نہیں آتا کہ ہم اپنے ہی گھر میں کیسے غلاموں والی زندگی گزار رہے ہیں۔کیا ہم ان کی اولاد نہیں ہیں؟ کیا انہیں ہماری پرواہ ہے؟انہیں تو بس اپنی نئی بیگم اور اس کے بیٹے کے علاوہ کچھ دکھائی ہی نہیں دیتا۔کتنے مہینے ہو گئے نہ تو وہ کبھی ہمارے کمرے میں آئے نہ ہم سے پڑھائی کا پوچھا۔" نافلہ تھی تو صرف تیرہ سال کی لیکن حالات اور وقت نے اسے اپنی عمر سے زیادہ سمجھدار کر دیا تھا۔رقیہ بیچاری بھی ان کے لیے دکھی تھی۔نوکر سب دیکھتے سنتے مگر اندھے بہرے بن جاتے ۔جانتے تھے کہ مالکن کے سامنے ان کی ایک نہیں چلنی۔ وقت گزرتا گیا۔شازیہ کے ہاں دو بیٹیاں اور ایک بیٹا اور پیدا ہوئے۔مگر فہر کے بچوں کے لیے وہ حقیقتا ظالم سوتیلی ماں واقع ہوئی تھی۔نافلہ نے میٹرک کر لیا تو ازکی نے ، جو ماسٹرز کے بعد اب عائلہ کی طرح گورنمنٹ ٹیچر کی جاب کر رہی تھی ،بھائی سے کہا:" بھائی میرے خیال میں اب نافلہ کو بھی لاہور ہی میں داخل کروا دیں۔"

" کیوں؟ یہاں بھی اچھا کالج ہے پھر لاہور ہی کیوں؟" اس سے پہلے کہ فہر کچھ بولتا شازیہ نے کھٹاک سے کہا تو ازکی نے ناگواری سے بھابھی کو دیکھا اور روئے سخن دوبارہ سے بھائی کی طرف کر کے بولی:" آپ جانتے ہیں وہ میڈیکل میں جانا چاہتی ہے اور یہاں کے کالج میں پڑھائی اتنی اچھی نہیں۔پھر میں نے بھی اسی کالج سے پڑھا ہے آپ واقف ہیں وہاں کی پڑھائی میں اور یہاں کی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔"" تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔اچھا ایسے کرو نافلہ سے پوچھ لو وہ مان جائے تو لے جاو اسے۔" فہر نے لاپرواہی سے کہا اور ٹی وی پہ خبریں دیکھنے لگا۔مگر شازیہ کو بے حد تکلیف ہوئی:" کیا ضرورت ہے چوہدری صاحب! بچی کی ذات ہے اتنی دور شہر میں بھیجنے کی اور ہمارے خاندان میں کون سا پڑھنے پڑھانے کا اتنا رواج ہے کہ لڑکی کو ڈاکٹر بنائیں ہم نے کون سا اس سے نوکری کروانی ہے۔" ازکی کو تو یہ سن کر مانو سر سے لگی تو پاوں پہ رکی اس سے برداشت نہ ہوا تو کہہ اٹھی:" بھابھی آپ کے ہاں واقعی ایسا کوئی رواج نہیں مگر ہمارے ہاں لڑکیوں کی تعلیم پہ کوئی پابندی نہیں آپ کے سامنے ہی ہے عائلہ باجی اور میں دونوں ہی ماسٹرز ہیں۔

تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ میری بھتیجیاں ان پڑھ رہیں۔بھائی میں نافلہ سے خود بات کر لوں گی۔آپ بس ہمارے شہر جانے کا انتظام کر دیجئے گا۔" یہ کہہ کر وہ کچھ بھی سنے بنا کمرے سے چلی گئی اور نافلہ کے پاس گئی۔" نافلہ بیٹا! آگے کیا ارادہ ہے؟"" کچھ نہیں پھپھو کالج میں ایڈمشن لوں گی۔اگر امی نے لینے دیا تو۔" نافلہ نے تلخی سے جواب دیا تو ازکی نے اسے بازوؤں میں بھرتے ہوئے کہا:" تم ایسا کیوں سوچتی ہو میری جان۔تم ضرور کالج جاو گی اور نہ صرف کالج جاو گی بلکہ اس کالج میں جاو گی جہاں سے میں نے ماسٹرز کیا ہے۔"نافلہ نے حیرت سے پھوپھی کو دیکھاپھر نفی میں سر ہلاتے ہوئے بولی:" نہیں پھپھو میں اپنے بہن بھائیوں کو چھوڑ کے لاہور نہیں جاوں گی۔"" مگر نافلہ جانی یہ سب تو ہاسٹل میں نہیں رہ سکتے نا!" ازکی نے الجھن کر کہا تو نافلہ بولی پھر میں بھی یہیں داخلہ کے لوں گی۔اگر میں لاہور جاوں گی تو سب کے ساتھ ورنہ نہیں۔"

ازکی کچھ سوچتی ہوئی اٹھ گئی۔شام میں اس نے عائلہ کو کال کر کے ساری سچویشن بتائی تو عائلہ نے مشورہ دیا:" ازکی اب تو تم ٹیچرز کالونی میں فلیٹ لے سکتی ہو تو ایسا کرو تم فلیٹ لے لو اور بچوں کو ساتھ ہی لے آو۔نافلہ ٹھیک کہتی ہے ابھی تو وہ بہن بھائیوں کی ڈھال بن جاتی ہے انہیں شازیہ کے عتاب سے بچا لیتی ہے وہ نہ ہوئی تو نجانے شازیہ ان معصوموں کے ساتھ کیا کرے گی۔ہدم اور فکیھہ تو پہلے ہی اتنے ڈرے سہمے رہتے ہیں۔"" مگر آپا کیا بھائی ماں جائیں گے؟"" تم فکر مت کرو میں خود بات کروں گی فہر سے۔بلکہ کچھ ایسا چکر چلانا پڑے گا کہ شازیہ خود انہیں تمہارے ساتھ بھیجنے پہ تیار ہو جائے گی۔" عائلہ نے بہن کو تسلی دے کر فون بند کر دیا۔

پھر نجانے عائلہ کی بھائی بھابھی سے کیا بات ہوئی کہ فہر نے ازکی کو کہا :"تم سب بچوں کو ساتھ لے جاو اچھا ہے سب لاہور میں رہ کر تعلیم حاصل کریں۔میں نے وہاں عائلہ آپا کے گھر کے نزدیک ہی ایک بلڈنگ میں فلیٹ لے لیا ہے۔سامان بھی کچھ دن میں سیٹ ہو جائے گا۔پھر تم لوگ بھی چلے جانا۔" یہ کہہ کر اس نے ایک پھولا ہوا لفافہ بہن کی طرف بڑھایا:" یہ رکھ لو بچوں کے ایڈمشنز اور کتابوں وغیرہ کے کام آئے گا۔"" نہیں بھائی اس کی ضرورت نہیں ہے میری پے ساری بینک میں ہی پڑی رہتی ہے میں بآسانی اپنا اور ان کا خرچہ چلا لوں گی۔"ازکی کے کہنے پہ فہر نے مسکراتے ہوئے کہا:" مجھے معلوم ہے چھٹکی اب تو کمانے لگی ہے۔پر بیٹا یہ میرے بچے ہیں اور میری ذمہ داری ہیں۔رکھ لو۔" اور لفافہ اس کے نزدیک رکھ کر چلا گیا۔یوں سب بہن بھائی لاہور چلے گئے۔ازکی نے ان کا داخلہ نزدیکی اسکولز میں اور نافلہ کا داخلہ کالج میں کروا دیا۔عائلہ بھی روز ان کی طرف چکر لگا لیتی ۔بچے خوش تھے اور پوری یکسوئی سے پڑھائی میں مگن تھے۔ فہر کو شازیہ نے گھرداری میں ایسا الجھایا کہ وہ کبھی کبھار بچوں کے پاس آ پاتا اور انہیں پیسے بھی چوری چھپے دے سکتا ۔مگر شکر ہے کہ اسے احساس ذمہ داری تھا۔بچوں کے لیے یہ بھی بہت تھا کہ والد انہیں بھولے نہیں وہ اس میں بھی خوش تھے۔

ازکی کی شادی یو گئی تو نافلہ نے اپنے ڈاکٹر بننے کے خواب کی قربانی دیتے ہوئے ایف ایس سی کے بعد سی ٹی کی اور گورنمنٹ ٹیچر کے طور پر کام کرنا شروع کر دیا۔اور والد کا دلایا فلیٹ چھوڑ کر ٹیچرزکالونی میں شفٹ ہو گئی۔ سب بہن بھائی خوش تھے کہ آہستہ آہستہ وہ اپنے پاوں پہ کھڑے ہو رہے تھے۔اسی اثناء میں نافلہ کے لیے عائلہ نے اپنے بیٹے کا رشتہ بھیجا تو اس کی بھی شادی ہو گئی۔اگرچہ بہنوئی اور پھوپھو بہت اچھے تھے مگر بچیاں سمجھ دار تھیں وہ جانتی تھیں کہ انہیں دوسروں کے لیے آزمائش نہیں بننا چنانچہ رملہ نے بھی بی ایڈ کر کے ٹیچنگ شروع کر دی اور نافلہ والا فلیٹ اپنے نام پہ ہائر کروا لیا۔اتفاق سے رملہ کے کے لیے جو رشتہ آیا وہ لڑکا انگلینڈ میں جاب کرتا تھا اور اس کی سسرال بھی بہت اچھی تھی لہذا وہ بد دستور بہنوں اور بھائی کے ساتھ رہ رہی تھی۔

شازیہ نہ تو ان کی شادیوں میں خود آئی نہ ہی اپنے بچوں کو آنے دیا۔بچوں کے لیے یہی غنیمت تھا کہ ان کے والد موجود تھے۔شازیہ کی بیٹیاں تو ماں کا پرتو تھیں سوتیلے بہن بھائیوں سے نفرت ان کے ہر عمل سے چھلکتی تھی۔مگر بھائی ان سے مختلف تھے۔جب کبھی چھٹیوں میں یا عید وغیرہ پہ گھر جاتے تو شازیہ کبھی برتن چھپا دیتی کبھی کھانے پینے کا سامان چھپا دیتی فریج کو تالا لگا دیتی۔بستر گندے اور پرانے دیتی۔ اب سب بڑے یو چکے تھے انہیں ماں کا طرزعمل تکلیف دیتا تھا اور وہ احتجاج کرتے تھے خصوصا عربا کو بیحد غصہ آتا:" نافلہ باجی ہم کیوں یہاں آتے ہیں۔یہ عورت ہمیں دیکھنا نہیں مانگتی اور آپ ہم سب کو لے کر پہنچ جاتی ہیں عید بھی خراب کر دیتی ہیں ہماری۔میں بتا رہی ہوں آپ کو آئندہ نہیں آوں گی میں۔" وہ منہ پھلا کر کہتی تو وہ اسے سمجھاتی:" دیکھو چندا ہم ابو اور بہن بھائیوں کی وجہ سے آتے ہیں۔ابو بیچارے دو حصوں میں بٹ کر رہ گئے ہیں۔اگر لاہور میں عید کریں گے تو یہاں سب بہن بھائی انہیں مس کریں گے اور اگر یہاں کریں گے تو وہ ہمارے لیے پریشان ہوں گے۔بس یہی سوچ کر میں زبردستی تم سب کو لے آتی ہوں۔ورنہ تمہارا کیا خیال ہے مجھے یہاں آنا اچھا لگتا ہے۔تمہیں شاید یاد نہیں مگر ہماری امی کے دور میں سب پھوپھو، چچا، ابو کے سب رشتے دار کسی بھی تقریب یا عید وغیرہ پہ ہمارے ہاں ہی اکھٹے ہوتے تھے۔ خوب رونق لگتی تھی۔اگر چچا یا پھوپھو میں سے کوئی سب کو اپنے گھر چلنے کا کہتا بھی تو کوئی نہ مانتا تھا۔

مگر اس ماں نے تو نہ صرف ہمارا یہاں رہنا محال کر دیا تھا بلکہ سب کا ناطقہ بند کر رکھا ہے۔بھرے پرے گھر کو ویران کر دیا ۔اب تو عید پہ بھی سب مہمانوں کی طرح آتے ہیں اور چند منٹ بیٹھ کر چلے جاتے ہیں۔" بہن کو اداس دیکھ کر عربا بھی دکھی ہو گئی۔یہ وہ بہن تھی جس نے ماں کے مرنے کے بعد انہیں ماں بن کر پالا تھا۔وہ اسے اداس نہیں کرنا چاہتی تھی۔اس لیے ہاتھ پکڑ کر بولی :" چلیں آئیں کیک بناتے ہیں۔ہدم کو چاکلیٹ کیک پسند ہے نا۔" دونوں بہنیں کچن کی طرف گئیں۔اور کیبنٹ کھولی تو حسب معمول کیبنٹس بند تھی۔
" لیں دیکھ لیں۔اب بھلا عید والے دن بھی یہ خاتون ہمارے کھانے پینے پہ پابندی لگائیں گی۔" ابھی عربا نے یہ جملہ کہا ہی تھا کہ شازیہ کچن میں داخل ہوئی اور تنک کر بولی:" ہاں لگاوں گی پابندی۔تمہارے باپ کا گھر ہے جو یوں حق جما رہی ہو۔"

" امی آپ شاید بھول رہی ہیں کہ یہ ہمارے باپ کا ہی گھر ہے یہ اور بات کہ آپ نے ہمیں یہاں سے بے دخل کر دیا ہے۔لیکن ہماری ولدیت سے ہمارے باپ کا نام کوئی بھی نہیں مٹا سکتا۔" نافلہ۔اب شادی شدہ تھی اس لیے اب بھائی بہنوں کے لیے آواز اٹھانے لگی تھی۔شازیہ یہ سن کر غصے سے باہر نکل گئی۔مگر جا کر فہر کو ایک کی چار لگائیں۔فہر اب شازیہ کی فطرت کو سمجھ چکا تھا مگر فطرتا صلح جو شخص تھا اس لیے خاموش رہتا تھا۔عید گزار کر وہ لوگ واپس لاہور چلے گئے۔عربا نے بھی بی ایڈ کر لیا تو رملہ نے اسے بھی ٹیچنگ ڈیپارٹمنٹ جوائن کروا دیا۔رملہ کے چچا سسر کے بیٹے کا رشتہ عربا کے لیے آیا تو اس کی شادی بھی ہو گئی۔عربا کے شوہر بھی انگلینڈ تھے لہذا وہ بھی وہیں چلی گئی۔سبیعہ اور فکیھہ کی بھی ماسٹرز کے بعد بہت اچھے گھروں میں شادیاں ہو گئیں۔ہدم نے بھی پراپرٹی کا بزنس شروع کر دیاسب بہنوں نے اس کی پسند کی ایک لڑکی سے اس کی شادی کروا دی۔

اب جب کہ سب بہنیں اور بھائی اپنی اپنی زندگیوں میں سیٹل یو چکے تھے۔ تب بھی شازیہ نہ بدلی۔لیکن اب سب نے مریدکے جانا کم کر دیا تھا۔شازیہ کی دونوں بیٹیوں نے بھی ماسٹرز تو شاید بہنوں کی خار میں کر لیا تھا مگر شادی کے بعد ان کی طرح گھر بسا نہ سکیں۔روز لڑ جھگڑ کر گھر آ بیٹھتیں۔شازیہ کے مجبور کرنے پہ فہر ان کے سسرال صلح صفائی کروانے جاتا تو بے عزتی کروا کے آ جاتا۔شازیہ کی بہویں بھی اسی کی طرح زبان دراز اور لڑاکاتھیں۔جیسے کبھی شازیہ نے فہر کے گھر کو جہنم بنایا تھا ویسے ہی اب اس کا گھر دوزخ کا منظر پیش کرتا تھا۔ اس بار جب فہر بیٹیوں کے سسرال سے بے عزت ہو کر گھر آیا تو صوفے پہ نڈھال سا ڈھے گیا۔" کیا ہوا طبیعت تو ٹھیک ہے آپ کی؟" شازیہ نے متفکر لہجے میں پوچھا تو فہر پھٹ پڑا:" کاش میں مر جاوں۔اس ذلت سے تو بہتر ہے میں خودکشی کر لوں۔" فہر کی اس بات پہ شازیہ نے بیٹیوں کے سسرال کو کوسنا شروع کر دیا:" ہائے اللہ! میری معصوم بچیوں کو ان کے ظالم سسرال نے عذاب میں ڈال رکھا ہے۔"" بند کرو اپنی بکواس! " فہر دھاڑا:" جیسی بدزبانی ماں ویسی بیٹیاں۔عذاب میں تو ان بیچاروں کو تمہاری بیٹیوں نے ڈال رکھا ہے۔"

" آپ اپنی بچیوں کو برا کہہ رہے ہیں؟" شازیہ اس کے تیور دیکھ کر حیران تھی۔" ہاں میں کہہ رہا ہوں۔ میری پانچ شادی شدہ بیٹیاں تھیں اتنے سالوں میں کبھی تم نے دیکھا کسی کے سسرال سے کوئی شکایت آئی ہو۔میں جب بھی ان کےگھر گیا مجھےسر آنکھوں پہ بٹھا یا گیا۔جانتی ہو کیوں؟ اس لیے نہیں کہ میں چوہدری فہر حسین تھا۔بلکہ اس لیے کہ میری بیٹیوں نے سسرال میں ایسا رویہ رکھا کہ میرا شملہ ہمیشہ اونچا رکھا۔وہ اپنی ماں کا پرتو ہیں۔اور تمہاری بیٹیاں تمہارا۔"شازیہ صدا کی کم عقل نے اب بھی اپنی بے وقوفی کا ثبوت دیا:" ہائے ربا! پچیس سال ہو گئے مجھے اس شخص اور اس کے بچوں کی خدمت کرتے ہوئے اور آج یہ صلہ دے رہا ہے یہ مجھے۔آج بھی تمہارے دل سے پہلی بیوی کی محبت نہ نکلی۔" فہر نے تاسف سے شازیہ کو دیکھا اور باہر نکل گیا۔

اب شازیہ کو احساس ہوا کہ فہر کے پہلے بچوں سے بنا کر رکھنے میں ہی بہتری ہے۔کیونکہ خاندان اور علاقے کا ہر شخص ان بہنوں اور بھائیوں کی مثالیں دیتا تھا۔کہ کیسے ان بن ماں کے بچوں نے نہ صرف پڑھائی کی، جاب کی بلکہ شادی کے بعد سسرال کو بھی گرویدہ کر لیا۔جس سے ملتے اس کی عزت کرتے۔جب کہ شازیہ کے بچے نہ خاندان سے نہ ہی علاقے کے کسی شخص سے ملتے جلتے تھے۔چنانچہ اس نے فون پہ بات چیت شروع کر دی۔ہر دوسرے تیسرے ہفتے انہیں گھر مدعو کرتی۔یہ اور بات کہ جب بھی وہ ایسا کرتی مقصد نافلہ اور رملہ کو اپنی بیٹیوں کے سسرال کی منتیں کر کے انہیں واپس بھجوانا ہوتا تھا۔عربا اور سبیعہ چڑتیں اور بہنوں سے لڑتیں: " وہ تو ہماری شادیوں تک پہ نہیں آئیں اور آپ بھول گئیں انہوں نے ہمارے ساتھ کیا کچھ کیا اور ابھی تک کر رہی ہیں۔اب اپنی دم پہ پاوں آیا ہے تو ہم یاد آ گئے۔

کوئی نہیں جا رہیں آپ عاتکہ اور ثویبہ کی سسرال۔خود جائیں نہ اور جا کر لڑیں ان سے ۔"مگر نافلہ اور رملہ انہیں سمجھاتیں:" دیکھو چندا ! ان کا فعل ان کے ساتھ ۔ہم ان کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی چھوٹی بہنوں اور باپ کی وجہ سے جاتی ہیں۔آج اگر عاتکہ یا ثویبہ کو خدانخواستہ طلاق ہو جاتی ہے تو باتیں تو ابو کو سننی پڑیں گی نا۔اس لیے تم بھی بھول جاو سب۔اللہ کا شکر ہے ہم سب اپنے اپنے گھروں میں خوش ہیں کیا یہ کافی نہیں؟

امی کے ہر ظلم اور زیادتی کے باوجود ابو نے کبھی ہمیں اکیلا نہیں چھوڑا۔تو ہم کیسے انہیں اس وقت میں تنہا کر دیں جب انہیں ہماری ضرورت ہے۔" عربا اور سبیعہ یہ سن کر خاموش ہو گئیں۔ شازیہ جو کبھی فہر کےپہلے بچوں کی شکل دیکھنے کی روادار نہیں تھی ان کو پلکوں پہ بٹھاتے تھی۔اپنے دکھ تکالیف ان سے کہتی تھی۔مکافات عمل کا سلسلہ جاری ہو چکا تھا۔شازیہ نے جو بویا تھا وہ کاٹ رہی تھی۔جن بچوں کی زندگیاں وہ تباہ کرنے پہ تلی تھی وہ سب تو خوش و خرم تھے جب کہ جو گڑھا اس نے دوسروں کے لیے کھودا تھا اس میں خود اس کے بچے گر گئے تھے۔

Comments

Click here to post a comment