ہوم << وہ دن کہاں سے لاؤں‎‎ - آسماء نورین

وہ دن کہاں سے لاؤں‎‎ - آسماء نورین

کچھ دنوں سے دماغ میں مسلسل ایک ہی نکتہ چل رہا ہے، کہ پرانے وقتوں کی امیاں اتنی فعال کیسے ہوا کرتی تھیں؟اس دور میں تو زیادہ بچوں کا رواج ہوا کرتا تھا. ہم تو ایک سے دوسرا بچہ ایا نہیں اور دماغ گھوما نہیں. جتنی مرضی پیرنٹگ ویڈیو دیکھ لو، اچھے والدین بننے کے چکر میں چاہے بیسیوں کتابیں رٹ لو، رہنا ہم نے وہی دیسی امی ابو ہی ہے. تو پھر اس وقت کی امیوں کے پاس وہ کون سی جادو کی چھڑی ہو گی کہ ان کے سب کام بھی ہو جایا کرتے تھے ، ملنے ملانے میں بھی خوب تھیں.

انا جانا مہمان داری سب عروج پہ تھا.انے جانے سے یاد ایا، اس وقت تو بندہ پڑوس میں بھی دن میں دو چکر مار ایا کرتا تھا، کبھی چینی لینے، کبھی پتی مانگنے اور کبھی بس یونہی، باجی آج سارا دن نظر نہیں آئی، خیر ہو دیکھوں کہیں طبیعت تو خراب نہیں. ہماری ساتھ والی پڑوسن خالہ کو تب دق ہوا، وہ مارے کمزوری کے بستر سے اٹھنے جوگی نہ تھیں، گلی کے ہر گھر سے ان کے لیے کھانا جاتا تھا، بیٹی کوئی تھی نہیں اور بیٹے روزگار کے مارے صبح کے گیے شام کو واپس آتے تھے. اجکل اپ دیکھ لیں دو دن کسی قریبی مہمان کی میزبانی کرنی پڑ جائے تو ہمیں وہ وہ مسائل یاد آجاتے ہیں جو مہمانوں کے نہ آ نے کی صورت میں اگلے دس سالوں میں بھی ہم نہ سوچتے بلکہ آج کل تو اپ بنا اطلاع کیے کسی بہت شدید قریبی دوست کے گھر بھی نہ جا پاتے ہوںگے ،اور اگر کبھی شامت کے مارے چلے بھی جایں گے تو یقین مانیںاگلے دس منٹ میں آپ کو آپکی اہلیہ گھوریاں مار مار کر واپسی کا کہیں گی اور پھر واپسی میں سارے راستے آپ یہ افسوس کرتے آہیں گے کہ بنا بتائے گیے ہی کیوں؟ ویسے آپس کی بات ہے بتا کے جانے سے بھی کوئی خاص فرق نہیں تھا پڑنا.

وہ ایک بلا ہے نا جس کا نام ہے پرائیویسی. وہ برا منا جاتی ہے ناں.خیر ہم بات کر رہے تھے پرانے وقتوں کی امیوں کی. واہ واہ کیا ہی بات تھی، گھر کے سلے کپڑے، گھر کے بنے سویٹر. واہ واہ سوادی قسم کے کھانے. مجھے یاد پڑتا ہے سردیوں میں امی دس کلو گاجروں کا حلوہ بنایا کرتی تھیں. اور خوش ہو کر بناتی تھیں. ادھر ابھی دسمبر میں، کوشش کی تھی ، تین کلو گاجریں کش بھونتے ہوے ہی بازو شل ہو گیے تھے اور محض کھانے کا ہی نہیں، اکثر چھٹی وال دن اون کے گولے سلجھانے کی ڈیوٹی ہم بچوں کی ہوا کرتی تھی، اور راتوں رات اماں سویٹر، مفلر بن کے سویرے وہی لال سویٹر پہنا کر اسکول بھیجا کرتی تھیں.نہ مایکرو ویو ہوتا تھا، نہ ٹوسٹر، لپک جھپک پراٹھے روٹی بنائےجاتے تھے سب کے لیے.اب آجائیں صفائی ستھرائی کی جانب، تو ادھر بھی کم و بیش یہی حال تھا.

نہ ویکیوم کلینر عام تھا، نہ ہی جدید طرز کے موپ، بس کوئی موٹا سا سویٹر ہوتا تھا جس کو دھو کے خوب نچوڑ کر فرش پہ پچارا مارا جاتا تھا.واشنگ مشین کے نام پر ایک ڈب کھڑبی سٹیل کی بنی ہوئی مشین ہوا کرتی تھی.، اور کپڑوں کے ڈھیر کھنگالنا نچوڑنا اور تار پر پھیلانا جوے شیر لانے کے مترادف ہوا کرتا تھا لیکن آفرین ہے امی ایک تواتر کت ساتھ لر جمعرات کو کسی مزہبی فریضے کی طرح یہ معمول انجان دیتی تھیں، اور محلے کے قریب قریب سارے گھر کی چھت بالکونی یا صحن ہی دھلے ہوے کپڑوں سے بھرے ہوتے تھے.

بس کام کام اور کام ہی ہوا کرتا تھا گویا. آج کل تو آٹومیٹک واشنگ مشین سے کپڑے دھونے کو بھی ہم نے ویک اینڈ کی ٹو ڈو لسٹ میں ٹاپ پہ رکھا ہوا ہے.تو بس سوچ گھوم پھر کے واپس وہیں اجاتی ہے، اس دور کی امیوں کو سلام، سلام دونوں ہاتھ جوڑ کر. ہم تو آپ کی قدموں کی خاک ہیں.

Comments

Click here to post a comment