ہوم << قائداعظم ؒ بحیثیت وکیل - محمد اعجاز سمرا جٹ

قائداعظم ؒ بحیثیت وکیل - محمد اعجاز سمرا جٹ

وکیل کی حیثیت سے قائد اعظم اپنے پیشے کے ضابطہ اخلاق پر سختی سے عمل کرتے تھے۔ وکالت کے پیشے میں اعلیٰ فکر، غیر معمولی ذہانت اور حاضر دماغی کے ساتھ ساتھ قناعت، صبر استقلال اور تحمل کی بھی ضرورت ہوتی ہے .

یہ تمام خوبیاں قائد اعظم میں موجود تھیں’’لنکن ان’’سے فارغ التحصیل ہوکر بیرسٹر کی حیثیت سے قائد اعظم واپس ہندوستان پہنچے تو انہوں نے وکالت کے پیشے میں عملاً قدم رکھنے سے پہلے حالات کاجائزہ لیا۔ سندھ اس زمانے میں علیحدہ صوبہ نہیں تھا بلکہ بمبئی پریذیڈنسی کا ایک حصہ تھا۔ عدالتِ عالیہ کا صدر مقام بمبئی تھا وکالت کے پیشے میں داخل قائد اعظم نے پیشے کے نوواردوں کی ایسی روایت سے الگ ہٹ کرنیاتجربہ کیا اور بمبئی کو اپنا ٹھکانہ بنا کر وکالت کا آغاز کیا۔

ایک کامیاب وکیل کے طور پر اُن کی بڑھتی شہرت نے کانگریس کے معروف رہنما بال گنگا دھرتلک کی توجہ اُن کی جانب مبذول کرائی اور یوں 1905ء میں بال گنگا دھر تلک نے جناح کی خدمات بطور دفاعی مشیرِ قانون حاصل کیں تاکہ وہ اُن پر سلطنتِ برطانیہ کی جانب سے دائر کیے گئے نقصِ امن کے مقدمے کی پیروی کریں۔ جناح نے اس مقدمے کی پیروی کرتے ہوئے اپنے موکل کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ایک ہندوستانی اگر اپنے ملک میں آزاد اور خود مختار حکومت کے قیام کی بات کرتا ہے تو یہ نقصِ امن یا غداری کے زمرے میں نہیں آتا لیکن اس کے باوجود بال گنگا دھر تلک کو اس مقدمے میں قید با مشقت کی سزا سنائی گئی۔

بطور وکیل جناح کی وکالت نے 1907ء میں بے پناہ شہرت پائی جس کی وجہ ماہرانہ طور پر کاوکس کا مقدمہ لڑنا تھا۔ یہ مسئلہ بمبئی کے میونسپل انتخابات میں کھڑے ہوئے جب یورپیوں نے اپنے کاوکس (سیاسی جماعت کا نمائندہ) کے ذریعے ہندوستانی عہدیداروں کو دھاندلی پر مجبور کیا تاکہ سرفیروز شاہ مہتہ کو کونسل سے باہر رکھا جاسکے۔ اگرچہ وہ اس مقدمہ کو جیت نہ سکے لیکن ان کے قانونی منطقوں اور وکالتی انداز نے انہیں مشہور کر دیا۔نازک موقعوں پر وہ اصولوں، پیشے کے احترام اورعزت ِ نفس کی قیمت پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرتے تھے خواہ اس کے نتائج کتنے ہی سنگین ہوتے ایک بار ایسا ہی ایک نازک موقع ہائیکورٹ میں کسی مقدمے کی پیروی کے دوران پیش آگیا تھا۔ اثنائے بحث،قائد اعظم کے اندر خطابت میں کسی قدر تُرشی اور سختی آگئی جج صاحب (جسٹس مارٹن) کو یہ بات ناگوار گزری انہوں نے اسی وقت قائد اعظم کو تنبیہہ کی’’مسٹر جناح!آپ اس وقت کسی تیسرے درجے کے جج کی عدالت میں خطاب نہیں کررہے ہیں’’۔ قائد اعظم نے برجستہ جواب دیا….جناب آپ کے سامنے بھی کوئی تیسرے درجے کا وکیل نہیں کھڑا ہے۔

اسی طرح جب 1900میں تین ماہ تک مجسڑیٹی کی ۔ سر اونیٹ نے مزید نوکری کی آفر 1500 روپیہ کی دی، تو آپ ؒ نے جواب دیاکہ جناب والا اس پیشکش کے لیے ممنون ہوں لیکن میری خواہش ہے کہ اتنی رقم میں روزانہ کماؤں۔ایک روز جب قائد اعظمؒ دہلی میں لیاقت علی خاں کے گھر "گل رعنا "میں ٹھہرے ہوئے تھے ، کھانے کے بعد کسی طرح فضول خرچی کا ذکر چھڑ گیا،مسز رعنا لیاقت علی خاں اس معاملے میں آپؒ کی احتیاط پروری کو دیکھ کر حیرت ہوئی ہے۔قائد اعظمؒ نے فرمایا کہ میں سٹریٹ لائٹ میں پڑھا ہوں، اس لیے میں پیسوں کی قدر کرتا ہوں۔جب وہ لنکن ان لندن پہنچے تو دیکھا کہ اس کے صدر دروازے پر لاطینی زبان میں کچھ عبارت کندہ ہے، اس وقت ان کی اپنے گائیڈ سے گفتگو ہوئی۔جناح یہ کیا ہے؟ گائیڈ! یہ فریسکو (Fresco) ہے (دیواری نقش و نگار) جناح! اس پر لکھا کیا ہے؟گائیڈ! دنیا میں جتنے عظیم مقنن (Great Law Givers) آئے ہیں ان کے نام کندہ ہوئے ہیں۔ محمد علی جناحؒ نے دریافت کیا کہ سب سے پہلا کس کا نام ہے؟ گائیڈنے جوابا! کہا کہ پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم۔ 1947 میں کراچی بار کے وکلا سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم ؒ نے یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے کہا بلاشبہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کے عظیم ترین مقنن اور مدبر تھے، یہ دیکھتے ہی کہ ان کا نام مقنن کی فہرست میں سب سے اوپر درج ہے میں نے لنکزان میں داخلہ لینے کا فیصلہ کر لیا۔

عطار بانی ائیر فورس کی طرف سے قائد اعظم کے پہلے اے ڈی سی تھے، قائد اعظم ؒاپنے اے ڈی سی کا بہت خیال رکھتے تھے۔ناشتے اور کھانے پر محترمہ فاطمہ جناحؒ کے علاوہ اے ڈی سی بھی قائد اعظمؒ کے ساتھ میز پر بیٹھتے تھے ۔ایسے مواقع پر قائد اعظمؒ اکثر ہلکی پھلکی باتیں کرتے۔کبھی کبھار اپنی زندگی کے حالات اور تجربات بھی بیان کرتے، اسی طرح ایک موقع پر جب عطاربانی، قائد اعظمؒکے سامنے بیٹھے تھے تو یہ گفتگو ہوئی۔قائد اعظمؒ نے فرمایا کہ "مجھے یہ بتانے میں کوئی عار نھیں کہ جب میں نے بمبئی میں پریکٹس شروع کی تو ہر صبح گھر سے چیمبر تک پیدل جانا پڑتا، بس کا کرایہ ایک آنہ تھا۔ ہر صبح یہ فیصلہ کرنا ہوتا، بس پر جانا چاہیے یا پیدل۔

چناںچہ100 میں سے 90 دفعہ میں نے پیدل ہی سفر کیا، تم لوگ ہو کہ پیسے کی پروا ہی نھیں۔ انگریز جج، عمومی طور پر ہندوستان کے مسلمان وکلا کو اتنی اہمیت نھیں دیتے تھے۔ محمد علی جناحؒ لنکن اِن کے بیرسٹر تھے، قابل تھے، قانون پر گرفت تھی۔ اے سی وائلڈ اور جسٹس آربی ملن پر مشتمل ایک ڈویژن بینچ بڑے پیر صاحب کی طرف سے دلائل دے رہے تھے ۔جسٹس ملن نے کہا کہ مسٹر جناح، ذرا زور سے بولیے۔ میں آپ کو سن نھیں سکتا۔آپؒ نے جواب دیا، جناب والا! میں بیرسٹر ہوں ایکٹرنھیں۔بیرسٹر محمد علی جناح ؒکی عدالتوں میں غیر معمولی کامیابی کی شہرت دور دور تک پھیلی جارہی تھی۔آپ 1941 میں سندھ چیف کورٹ کراچی میں اپنا کیس پلیڈ کر رہے تھے۔قائداعظمؒ کو سننے کے لیے بے شمار لوگ جمع ہوگئے، کمرہ عدالت بھر گیا تو جج نے دروازے بند کرنے کا حکم دیا۔جسٹس ڈیوس (پیش کار سے) دروازے بند کر دو ۔

محمد علی جناحؒ (مسکراتے ہوئے) گویا ہوئے کہ جناب والا! انصاف کے دروازے کھلے رہنے چاہییں۔ جسٹس ڈیوس نے کہا کہ دروازے کھلے رکھنے کے لیے تیار ہوں بشرطیکہ مجمع خاموش رہے ۔ آپ ؒ نے فرمایا کہ امید ہے کہ یہ لوگ خاموش رہیں گے۔

Comments

Click here to post a comment