مجھے گلیاں شہر راستے دروازے اجنبی مکان ایسے ہی اپنی طرف کھینچتے ہیں جیسی کتاب خانوں کے شوکیسوں میں رکھی ان پڑھی ہوئی کتابیں اپنی طرف بلاتی ہیں،اجنبی گھروں کی قطاریں پراسراریت کی دھند میں لپٹی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔
اور اگر شہر میرے لیے اجنبی ہو تو پھر پراسراریت کی یہ دھند اور دبیز ہو جاتی ہے۔ یہ عجیب سی خواہش میرے اندر پیدا ہوتی کہ میں گھروں کے اندر بنتی بگڑتی کہانیوں کو جان سکوں۔ان کہانیوں کے کرداروں کو دیکھ سکوں۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ ایک طبقے کا رہن سہن کم وبیش ایک ہی طور پر آراستہ ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود مجھے خواہش رہتی کہ میں اس گھر اندر سے دیکھوں۔ مجھے ڈرائنگ روموں سے زیادہ باورچی خانے دیکھنے میں دلچسپی رہی ہے چولہے پہ پکتی چائے کیتلی سے نکلتا دھواں نمک مرچ کے ڈبے پراتیں پتیلے بظاہر یہ بے جان سی چیزیں ہیں مگر بولتی ہوئی گھر کے مکینوں کی ساری کہانی کہ رہے ہوتے ہیں۔
مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ بے جان سی چیزیں وہ کچھ بتا دیتی ہیں جو گھر کے مکین اپنے آپ سے بھی چھپانا چاہتے ہیں۔ یہاں میں روایتی باورچی خانوں کی بات کررہی ہوں امریکن سٹائل کے سجے سجائے کچن جس میں ڈرٹی کیچن الگ ہوتا ہے اور دکھاوے کا آراستہ پیراستہ کچن الگ ہوتا ہے اس کی بات نہیں کررہی۔ کچھ عرصہ پہلے میں نے کچن کے نام سے جاپان کی مصنفہ بانانا یوشی موتو کا ناول پڑھا۔کتابیں خریدتے ہوئے اس ناول کے نام کچن نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا۔یہ ناول ایک مختلف فضا میں لے جاتا ہے۔اس کا ترجمہ دنیا کی کئی زبانوں میں ہوا پاکستان میں خرم سہیل نے اس کا اردو ترجمہ کیا کچن ایک ناولٹ ہے جو دکھی تنہا لڑکی کی کہانی وہ اپنی دادی کے مرنے کے بعد اکیلی رہتی ہے ۔ وہ اپنی تنہائی اور غم کو کچن کی مصروفیات سے کم کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
وہ کچن کی کھڑکی سے دنیا کو سمجھنے کی کوشش کرتی ہے بانانا یوشی موتو کا کہنا ہے کہ اگر اپ آرٹسٹ ہیں تو پھر کچن آپ کے لیے ایک آرٹ گیلری ہے آپ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار اس میں کرسکتے ہیں۔ بات گھروں گلیوں اور باورچی خانوں سے چلی اور بانانا یوشی موتو کے کچن تک پہنچی۔ بات کا سرا پھر وہیں سے جوڑتے ہیں۔2008 کے الیکشن میں ہماری ڈیوٹی تھی اور ہم بازار حسن جسے ہیرا منڈی بھی کہا جاتا ہے کی پر پیچ گلیوں سے گزر رہے۔ ہمارے ساتھ ہمارے صحافتی ساتھیوں کی ایک ٹیم تھی ہیرامنڈی کی پر پیج گلیاں ان میں ساتھ ساتھ جڑے تنگ وتاریک سے مکان ان مکانوں کے اندر سجے ہوئے کمرے اور ان کے مکین۔بہت شدید خواہش ہوئی کہ الیکشن ڈیوٹی چھوڑ کر ان مکانوں کے اندر جائیں دہلیزسے دالان تک بکھری کہانیوں کے چہرے پڑھوں۔ جھروکوں کے پیچھے خواہشوں اور معاش کے بین لٹکی ہوئی زندگی کے کرب کو محسوس کروں۔
مگر خواہش کے باوجود ایسا نہ کرسکی۔وہ بند دروازے اور خاموش گلیاں آج تک میری یادداشت سے جونک کی طرح چمٹی ہوئی ہیں۔ایک دروازے پر لکھا تھا یہاں پر ایک شریف لوگ رہتے ہیں براہ کرم دستک دئے بغیر اندر نہ آئیں آف یہ فقرہ آج تک نہیں بھولا، سچ کہوں تو وہ بند دروازے بھی اندر کی ساری کہانی باہررہ گیروں پر انڈیل رہے تھے۔ گھروں کے اندر جھانکنے کی خواہش جب بھی دل میں آتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث قدسی مجھے بے اختیار سرزنش کرتی ۔ جس کا مفہوم یہ کہ : تمھیں حق ہے کہ گھر کے اندر بلا اجازت جھانکنے والے شخص کی آنکھ پھوڑ دو۔اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ ہمارے دین میں گھر کی پرائیویسی کا احترام کس قدر ہے ۔ مگر اب سوشل میڈیا نے ہمارے پورے معاشرے کی تصویر بدل ڈالی ہے وہ باتیں جن کا ہم پہلے تصور بھی نہیں کر سکتے تھے اب روز مرہ کا معمول بن کے ہمارے سامنے ہمیں حیران کرتی ہیں۔
پہلے یہ تہذیب ہوا کرتی تھی کہ اگر آپ کو کوئی بیٹھک میں بٹھا دے تو آپ بلا اجازت اٹھ کے ان کے باورچی خانے اور گھر کے اندر دوسرے کمروں نہ جائیں۔ مگر اب سوشل میڈیا کے سونامی میں سب کچھ بدل چکا ہے وی لاگنگ کے اس دور میں شوبز کے ستاروں کھلاڑیوں اور معروف معنوں میں ہر قسم کی"سلیبرٹیز"سے لے کر عام گھریلو خواتین امیر غریب مڈل کلاس یعنی ہر طبقے کے لوگ خود کیمرے پکڑ کر اپنے بیڈ روم ڈرائنگ روم لیونگ روم باورچی خانے باورچی خانوں کی الماریاں الماریاں کپڑوں کی وارڈروب غسل خانے الغرض ہر چھپی ہوئی پوشیدہ چیزیں دنیا والوں کو دکھا دکھا کر خوش ہورہے ہیں۔
وہ باتیں جو کبھی حجاب کے پردے میں ہوا کرتی تھی اپنے خاندان کے افراد بزرگوں اور بچوں کے سامنے جو باتیں اور حرکتیں کرنے میں کبھی تہزیب اور حیا مانع ہوتی تھی اب لائیو سٹریم میں نشر کی جاتی ہیں لائکس حاصل کرنے اور فالورز بڑھانے کے خبط میں مبتلا اپنے بیڈ روم کی کارگزاریوں کی ویڈیو بنا کر اپ لوڈ کرنے میں ذرہ برابر قباحت محسوس نہیں کرتے ۔ زندگی لائکس اور فالورز بڑھانے کی خواہش نے یرغمال بنا رکھی ہے۔ یہ تبدیلیاں اتنی تیزی سے ہو رہی ہیں کہ ہمارے پاس انہیں محسوس کرنے کا بھی وقت نہیں ہے۔ سمارٹ فون ہر ہاتھ میں ہے ہر شخص سوشل میڈیا سٹار بننا چاہتا ہے وہ شخص جو زندگی گزارنے کے بنیادی ادب آداب سے بھی پوری طرح واقف نہیں وہ بھی بھی سمارٹ فون استعمال کرتا ہے بندر کے ہاتھ میں ماچس آنے والی بات ہے۔
اب تو کسی کو گھر بلاتے یا کہیں جاتے ہوئے بھی خدشہ رہتا ہے کیونکہ لوگ سر راہ ہونے والی ملاقات کی بھی تصویریں سوشل میڈیا پر اپلوڈ کرنے کے خبط میں مبتلا ہیں۔ ان دھیمی دھیمی محبتوں کی کاسنی کہانیاں جو ہم قاسمی امرتا اور کرشن چندر کی تحریروں میں پڑھتے تھے اب خواب ہوچکی۔بات گھروں دروازوں گلیوں باورچی خانوں سے ہوتی ہوئی محبت کی دھیمی کہانیوں تک پہنچی جو سوشل میڈیا کے دور میں خواب ہوچکی ہیں۔اب ہر چیز بکتی ہے سو دکھائی دے رہی ہے اور دکھائی جارہی ہے۔
تبصرہ لکھیے