ضیاء الحق کے گیارہ سالہ دور کا اہم ترین ’’تحفہ‘‘ یہ تھا کہ پاکستان کی سول بیوروکریسی جو انگریز دور سے ’’سینئر پارٹنر‘‘ ہوا کرتی تھی اور اختیار و مراعات میں بھی بہتر تھی، اس کو زیرنگیں کرنے کا جو کام ایوب خان نے شروع کیا تھا وہ اس دَور میں مکمل ہو گیا۔
جنرل حمید گل سے انتہائی محبت اور احترام کے رشتے کے باوجود ان کے اس کردار سے شدید اختلاف کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے مرضی کے سیاست دانوں کو اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھانے کا کام اپنی مشہورِ زمانہ آئی ایس آئی کے ذمہ ڈال دیا۔ وہ ہر محفل میں اس کا دفاع کرتے ہوئے کہتے کہ یہ انہوں نے خالصتاً ’’قومی مفاد‘‘ میں کیا تھا۔ اس اہم ترین ’’تبدیلی‘‘ نے ’’دھاندلی‘‘ کو ایک سائنس، آرٹ اور سیاسی انجینئرنگ کا درجہ دے دیا۔ چونکہ وقت کے ساتھ ساتھ پولنگ کے دن دھاندلی کرنا مشکل ہوتا چلا جا رہا تھا، اس لئے قبل از انتخابات دھاندلی کے لاتعداد طریقے ایجاد کر لئے گئے۔ کسی کے خلاف مقدمے بنائے گئے تو کسی کو مقدموں سے گلو خلاصی دلائی گئی، کسی کو ڈرایا گیا تو کسی کو لالچ اور رشوت سے رام کر لیا گیا۔
آئی جے آئی کا بنانا اور تمام بھٹو مخالف ووٹ کو ایک ٹوکری میں جمع کر کے اس کو نواز شریف کے حوالے کرنا اسی ’’سیاسی انجینئرنگ ‘‘ کا کمال تھا۔ ہر الیکشن میں دھاندلی کو دو ’’ادوار‘‘ میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ایک پولنگ سے پہلے جس پر اجمالاً بات ہو چکی، جبکہ دوسری پولنگ کے دن دھاندلی۔ پولنگ کے دن دھاندلی کے لئے ضلعی انتظامیہ کو پہلے ہی سے ایک منظم منصوبے میں شریک کر لیا جاتا ہے۔ عام طور پر جس اُمیدوار کو جتوانا مقصود ہو، حلقے کے ووٹروں کے حساب سے اس کے حق اور مخالفت والے دو یا تین پولنگ سٹیشن منتخب کئے جاتے ہیں۔ جہاں اس کی مخالفت میں ووٹ پڑنے کی توقع ہو، وہاں صبح ہی سے دنگا فساد کروا دیا جاتا ہے اور پھر شام تک وہاں ووٹروں کو جمع نہیں ہونے دیا جاتا۔ جبکہ وہ پولنگ سٹیشن جہاں اس کے حامی ووٹ زیادہ ہوں، وہ پولنگ بوتھ محفوظ، بلکہ اس کے زیر تسلّط علاقوں میں بنائے جاتے ہیں۔
وہاں پریزائیڈنگ افسر مرضی کا لگایا جاتا ہے جس کے بعد جعلی شناختی کارڈوں اور اضافی جعلی ووٹر لسٹوں سے مُردوں تک کے ووٹ کاسٹ کروا کر مارجن پورا کر لیا جاتا۔ خواتین کے پولنگ سٹیشنوں کو خصوصی تختہ مشق بنایا جاتا ہے۔ اسی طرزِ عمل میں 1988ء اور 1990ء کے دو الیکشن بھگتا دیئے گئے۔ نوآموز وزیر اعظم نواز شریف کی جب اچانک رگِ حکمرانی پھڑکی تو جنرل کاکڑ فارمولے کے تحت غلام اسحاق خاں سمیت اسے اقتدار سے محروم کر دیا گیا اور حیرت انگیز یوٹرن سے ’’سکیورٹی رسک‘‘ چلے آنے والی بے نظیر کے وزیر اعظم بننے کا ایسا غلغہ بپا کیا گیا کہ جنرل وحید کاکڑ نے الیکشن سے پہلے ہی کوئٹہ کے ایک گھر کھانے پر خوش گپیاں کرتے ہوئے ارشاد فرما دیا کہ ’’اطلاعات ہیں کہ بے نظیر جیت رہی ہے‘‘۔
یہ اطلاعات کسی صاحبِ حال کی ’’سچی پیش گوئی‘‘ سے کم نہ تھیں۔ بے نظیر رومانس تین سال 18 دن تک چلا اور اسٹیلشمنٹ نے اپنی پوری قوت اور صلاحیت کو استعمال کرتے ہوئے ایک دو تہائی اکثریت والا طاقتور وزیر اعظم نواز شریف بنا ڈالا۔ اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے پتھر کے صنم، والے ’’بھاری مینڈیٹ‘‘ نے کل پرزے نکالنا شروع کئے تو سب سے پہلے اس نے سیف الرحمن کا احتساب بیورو بنا کر سیاسی انجینئرنگ کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کی اور پھر جب دیگر بڑے بڑے چھابوں کی طرف ’’میلی نظروں‘‘ سے دیکھنا شروع کیا تو جنہوں نے اسے تراش خراش کر کے سیاسی گلدان میں سجایا تھا، واپس سیاسی راہداری پر لا کر پھینک گئے۔ پرویز مشرف کا دور تکنیکی مہارتوں کی تیز رفتار ترقی کے آغاز کا دور تھا۔
ایسا دور جس میں تصویروں والے شناختی کارڈ سے لے کر میڈیا چینلوں اور انٹرنیٹ وغیرہ کی آمد نے دُنیا بدل ڈالی۔ اس ترقی نے الیکشن والے دن دھاندلی کو مشکل ترین بنا دیا۔ اب قبل از انتخاب ’’سیاسی انجینئرنگ‘‘ کا ہتھیار ہی باقی رہ گیا تھا جس کے لئے سیف الرحمن کے ’’احتساب بیورو‘‘ کی نوک پلک سنوار کر اسے ’’نیب‘‘ بنا دیا گیا۔ فائلیں بنیں اور پھر خوب استعمال ہوئیں۔ ایک واقعہ کا ذاتی گواہ ہوں۔ مشرف حکومت جان محمد جمالی کو دوبارہ وزیر اعلیٰ بلوچستان بنانا چاہتی تھی۔ اس کے بہت سے کیس داخل دفتر کر دیئے گئے تھے، مگر بلوچستان واسا میں ناجائز بھرتیوں کا مقدمہ عدالت میں ہونے کی وجہ سے باقی تھا۔ اس ناجائز حکم نامے کی فائل پر آخر میں انہوں نے بحیثیت وزیر اعلیٰ دستخط کئے تھے۔
میں نے بحیثیت ایم ڈی واسا یہ حکم ماننے سے انکار کیا، تو مجھے فوراً او ایس ڈی بنا دیا گیا تھا۔ میں نے حفظ ماتقدم کے طور پر اس حکم نامے کی ایک فوٹو کاپی اپنے پاس رکھ لی تھی۔ جان جمالی کی ’’صفائی‘‘ کے لئے عدالت میں پیشیاں شروع ہوئیں۔ میں جب گواہی کے لئے جج انور کانسی کی نیب عدالت میں حاضر ہوا تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ اصل حکم نامہ مثل سے غائب ہے اور اس کی جگہ اس کی فوٹو سٹیٹ موجود ہے جس پر واسا کے وزیر بسم اللہ کاکڑ کے دستخط تو موجود ہیں لیکن اس کے نیچے وزیر اعلیٰ جان جمالی کے دستخط غائب ہیں۔ اس سے وزیر کے جرم کی سنگینی مزید بڑھ گئی کہ اس نے وزیر اعلیٰ کا اختیار بھی خود استعمال کرتے ہوئے ناجائز بھرتیاں کی ہیں۔
میرے پاس جو جان جمالی کے دستخطوں سمیت والے حکم نامے کی فوٹو سٹیٹ تھی میں نے اسے عدالت کے روبرو پیش کیا، مگر ’’آزاد عدالت‘‘ نے میری فوٹو سٹیٹ یہ کہہ کر ماننے سے انکار کر دیا کہ یہ اصل نہیں فوٹو سٹیٹ ہے مگر نیب کی فوٹو سٹیٹ کو اصل مان کر جان جمالی کو باعزت بری اور بسم اللہ کاکڑ کو سزا سنا دی گئی۔ یوں جان محمد جمالی عدالتی حکم نامے سے پاک صاف ہو کر دوبارہ وزیر اعلیٰ بن گئے۔ یہ الگ کہانی ہے کہ نیب عدالت کا یہی جج انور کانسی بعد میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے منصب جلیلہ سے ریٹائر ہوا۔
یہ صرف ایک قصہ نہیں بلکہ 2002ء کے الیکشن ایسے لاتعداد قصوں اور وارداتوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ لیکن اتنا کچھ کرنے کے باوجود بھی اسٹیبلشمنٹ کی بے بسی کا عالم دیکھئے کہ 272 حلقوں میں سے ’’منظورِ نظر‘‘ قاف لیگ صرف 78 سٹیٹوں پر جیت سکی اور اسٹیبلشمنٹ کی زیر اثر لاتعداد چھوٹی پارٹیوں کے اتحاد سے بھی سادہ اکثریت نہ بن پائی تو پیپلز پارٹی کی کمال ’’شفقت‘‘ سے 12 عدد ممبران ’’پٹریاٹ‘‘ کی صورت علیحدہ ہوئے اور صرف ایک ووٹ کی اکثریت سے ظفر اللہ جمالی وزیر اعظم بن سکا۔ الیکشن ڈھکی چھپی ’’واردات‘‘ نہیں ہوتی۔ بچہ بچہ جانتا ہے کہ کون کیا کر رہا ہے اور یہ دور اسٹیبلشمنٹ کا طاقتور ترین دور تھا، دہشت گردی کی جنگ جاری تھی، امریکی اشیرباد موجود، مشرف کی وردی کی قوت اور نیب کی انجینئرنگ کے باوجود بھی الیکشنوں کا یہ ناکام نتیجہ ایک وارننگ تھی، کہ اب عوام ہوشیار ہو رہی ہے اس لئے آئندہ کے لئے خبردار ہو جائو ورنہ بدنامی آپ کے گلے کا طوق بن سکتی ہے۔
بے ایمانی کی عزت جلد ختم ہو جاتی ہے اور طاقتور کے خوف کے دن بھی تھوڑے ہوتے ہیں۔ 2008ئ، 2013ء اور 2018ء کے الیکشنوں میں کردہ اور ناکردہ دونوں گناہوں کی داستانیں زبان زد عام ہونے لگیں۔ طاقت کا کمال یہ ہے کہ وہ ہرگز تجربے سے نہیں سیکھتی بلکہ المیے سے سیکھتی ہے۔ جس ملک میں پانچ کروڑ ووٹروں کے مقابلے میں آٹھ کروڑ موبائل موجود ہوں، وہاں کوئی بھی ایڈوانچر بہت خطرناک ہو سکتا ہے۔بے بسی کے عالم میں آخری راستہ الیکشن والے دن کی بھونڈی سی دھاندلی کا رہ گیا ہے۔ سوچا یہ گیا ہے کہ اگر 17 جولائی کے دن مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہو رہے ہوں تو تمام حلقوں میں تصادم کے ذریعے پولنگ کو اتنا متنازعہ بنا دیا جائے کہ الیکشن کمیشن کو تمام حلقوں کے الیکشن کالعدم قرار دینا پڑ جائیں۔
الیکشن کالعدم ہوئے تو موجودہ سٹیٹس کو (Status quo) اور وزیر اعلیٰ کو تھوڑی سی مزید زندگی مل جائے گی۔ لیکن شاید کسی کو اندازہ نہیں کہ الیکشن ڈے کے اس تصادم کی کوکھ سے جو شعلہ برآمد ہو گا وہ سب کچھ جلا کر بھسم کر سکتا ہے۔ پورے ملک کا امن و امان بھی اور فیصلہ سازوںکی ’’عزتِ سادات‘‘ بھی۔(ختم شد)
تبصرہ لکھیے