ہوم << گیارہ برس بھی کوئی عمر ہوتی ہے- سعدیہ قریشی

گیارہ برس بھی کوئی عمر ہوتی ہے- سعدیہ قریشی

اس کی عمر بھی گیارہ برس تھی وہ بہاولپور کے ایک پسماندہ گاؤں سے لاہور جیسے بڑے شہر میں کام پر بھیج دیا گیا۔کام کرتے کرتے بھوک بھی تو لگتی ہے اسے بھوک لگی اس نے فرج کھول کر کچھ کھالیا اور وہ اس جرم کی پاداش میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔

غربت ،،بھوک ،بیگار ظلم، تشدد اور موت۔۔۔ اذیت اور کرب کے یہ صحرا اس نے صرف گیارہ سال کی عمر میں پار کرلیے۔ گیارہ سال بھی کیا عمر ہوتی ہے یہ سوال میری سوچ کو میرے بیٹے کی طرف لے جاتا ہے جس کی عمر بھی گیارہ سال ہے ۔زندگی ابھی بچپنے کی دہلیز پر بے فکری کی جھولے میں کھیلتی ہے۔اسے رب کی نعمتوں میں سے سب کچھ میسر ہے، پسند کے کھانے کھلونے ، آرام اور آسائش سے بھری زندگی کام کیا ہوتا ،ہے اس کی خبر نہیں۔اس عمر میں بچوں کو بھوک لگی رہتی ہے۔اور ہر وقت کھانے کو کچھ مزے کا چاہیے۔

مگر ہائے وہ کم قسمت بچے جو غربت کے گہوارے میں پلتے ہیں۔ بھوک ان کی سدا کی سنگی ساتھی ہوتی ہے۔ان پہ بچپن کبھی آتا ہی نہیں کہ جھونپڑیوں میں ہر اک تلخی پیدا ہوتے مل جاتی اسی لیے تو وقت سے پہلے طفل سیانے ہوجاتے ہیں ۔ گیارہ سال کا کامران ،جو اپنے ماں باپ کی غربت کاٹنے اپنے سے بھی پانچ برس چھوٹے بھائی کے ساتھ لاہور کے ایک خوشحال گھر میں نوکری کرنے آیا تھا ،پتہ نہیں کتنی صدیوں کا بھوکا تھا۔گیارہ برس کی عمر میں صدیوں کی بھوک لیے گھر کا فریج کھول کر وہ کچھ کھالیتاہے اور اپنے کمسن بھائی کو بھی کھلا دیتا ہے ۔اس گھر کے پتھر دل بدبخت مالک کے لئے اس بچے کا فرج کھول کر کھانا کھانا اس دنیا کا سب سے بڑا جرم بن جاتا ہے۔باقی کی دلسوز کہانی میڈیا میں آچکی۔

یہ سانحہ عید الاضحی کے موقع پر ہوا جب اس شہر میں اربوں روپے کے جانور خرید و فروخت کئے گئے ۔اور اللہ کی راہ میں قربان کیے گئے۔ ان کا گوشت بھی ڈیپ فریزروں میں بھر دیا گیا اور پھر اس گوشت کے نت نئے پکوان سجاکر دسترخوانوں کو سجا دیا گیا۔گنجائش سے عاری معدوںمیں ان کھانوں کو ٹھونس کر اس طرح بھرا گیا کہ گویا کل کچھ میسر نہیں آنے والا!سو ایک ایسے وقت میں جبکہ پوری قوم کھانے اور مزید کھانے کی سرگرمی میں مصروف تھی لاہور شہر کے خوشحال پوش علاقے میں دو گھریلو مزدور بچے بھوک سے نڈھال تھے۔ اس خطے میں غربت اور بھوک کا ایک پچھلی صدی میںساحر لدھیانوی نے بھی لکھا تھا جس کا ایک مصرع ضرب المثل بن گیابھوک آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھل سکتی۔

خوفناک معاشی تقسیم کے اس ظالم دنیا کاالمیہ یہی ہے کہ یہاں تمام ضابطے بھوکوں کو آداب کے سانچے میں ڈھالنے کی ایک لایعنی کوشش ہے۔ورنہ یہ سوال تو ہم پوچھنے کی جرأت رکھتے ہیں کہ اس پاک سرزمین پر پیدا ہونے والے کامران نے اپنی زندگی کے گیارہ برس غربت اور مسلسل غربت ،بھوک اور مزید بھوک میں کیوں گزار دیئے۔ اس ریاست کا آئین و قانون نے اسے ایک بہتر زندگی کا حق کیوں نہ دیا۔اس ملک کے آئین کے مطابق چائلڈ لیبر منع ہے لیکن اس کے باوجود کم سن بچے گھروں ،فیکٹریوں اور کارخانوں میں کام کرتے ہیں۔

قانون کی عملداری ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔کامران اور رضوان کے ساتھ ہونے والا وحشیانہ ظلم ہوا، یہ اس ملک کا پہلا سانحہ نہیں۔ اس سے پہلے بھی گھریلو ملازم بچے بدبخت مالکوں کے وحشیانہ تشدد سے موت کے گھاٹ اترتے رہے ہیں۔بھوک غربت اور ظلم کی تاریک راہوں میں مارے جانے والی ان بچوں کے مرنے سے کار ریاست پر کچھ فرق نہیں پڑتا ۔عدل و انصاف کے ایوانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔بس چند روز خبریں آتی ہیں میڈیا میں کچھ پوسٹیں شیئر ہوتی ہیں، ایک آدھ کالم لکھ دیا جاتا ہے اور اللہ اللہ خیر صلا۔ کون ان بچوں کا والی وارث ہوتا ہے؟ان کے پیدا کرنے والے بھی ان کے والی وارث نہیں بنتے۔ وہی تو انہیںاپنی غربت مٹانے کے لئے بیگار کیمپوں میں چھوڑ آتے ہیں۔

مالکوں سے چھ چھ مہینے کا اکٹھا معاوضہ وصول کرکے پلٹ کر بچوں کی خبر نہیں لیتے۔کامران کو موت کے گھاٹ اتارنے والے ڈی ایچ اے تھری کے رہائشی محمود ،اس کے والد نصر اللہ، اس کی ماں پولیس کی حراست میں ہیں جبکہ گھر کے دو مکین فرار ہوچکے ہیں۔اس قسم کے کیسوں میں صاحب حیثیت مجرم ہمیشہ خون بہا دے کر غریب مظلوموں سے معافی تلافی کروا لیتے ہیں اور کیس ختم ہوجاتا ہے ۔ ریاست میں عدل اور انصاف کا نظام اتنا مضبوط نہیں کہ طاقت ور اور اثر و رسوخ رکھنے والے مجرموں کو عبرتناک سزا دے کر ایک مثال بنا دیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ گھریلو ملازم بچوں کے بہت برے حالات میں گھروں میں کام کرتے ہیں۔ضروری نہیں کہ تشدد صرف مار پیٹ ہی کو گردانا جائے۔

کم سن بچوّں سے بیگار کروانا بھی تشدد کے زمرے میں آنا چاہیے۔ اس پر ان کے والدین کو جرمانہ ہونا چاہیے۔ملک میں چائلڈ لیبر لاز کا اطلاق گھریلو ملازم بچوں پر کیوں نہیں ہوتا؟چیف جسٹس آف پاکستان اس کیس پر خصوصی توجہ دیں اس پر سوموٹو لیں اور بدبخت مجرم کو قرار واقعی سزا سنائیں۔میں صدقے جاؤں میرے بچے تم گیارہ برس کی عمر میں صدیوں کی بھوک کاٹ کے وحشیانہ تشدد سہہ کر موت کے گھاٹ اتار دئیے گئے۔

یہ سب ظلم تم نے پاک سر زمین پر سہا جہاں کا قانون تمہاری زندگی اور تمہارے حقوق کا تحفظ کرنے میں ناکام رہا۔غربت ،بھوک ،بیگار، ظلم ،تشدد اور موت۔۔۔ اذیت اور کرب کے یہ صحرا اس نے صرف گیارہ سال کی عمر میں پار کرلیے۔۔گیارہ برس بھی کوئی عمر ہوتی ہے!

Comments

Click here to post a comment