2011 میں ویشوا ہندو پریشد (VHP)کے عالمی سیکرٹری جنرل پروین توگڑیا نے ایک بیان میں کہا تھاکہ امرناتھ یاترا ایک روحانی اور حب الوطنی کا سفر ہے، کوہستانوں کو سر کرنے کا سفر ہے۔ یہ ہندئووںکی قومی یکجہتی اور علاقائی سالمیت کی یاترا ہے، جو بھارت کے کونے کونے سے لوگوں کو متحرک کر کے ہندو قومی یکجہتی کو مضبوط کرتی ہے۔
جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس یاترا کو ہندومت کی تاریخ میں وہ اہمیت حاصل نہیں تھی جس طرح آج اسے پیش کیا جا رہا ہے۔ اس سے اس بات کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں کہ ماضی میں ’’امرناتھ غار‘‘کے ساتھ ہندووں کی عقیدت اس درجے کی بالکل بھی نہیں تھی جس درجے میں آج اس کا اظہار کیا جاتا ہے۔ مقبوضہ کشمیرپرپنجہ ہنودکومضبوط کرنے کے لئے نہ صرف امرناتھ بلکہ نئی نئی یاترائیں کشمیر میں کرانے کی کوشش ہو رہی ہیں۔ بھارتی ہندووں کی طرف سے مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر میں نت نئی یاتراوں کی شروعات اور ہندودھرم کے نام پر مقبوضہ کشمیرکے پہاڑوں، غاروں،دریائوں ،چشموںاور جھیلوں پر قبضہ جمانا نہایت ہی قابل تشویش صورتحال ہے۔ دراصل یہ ہندو صیہونیت ہے۔
کیونکہ عرب دنیا میں یہودیوں کی صیہونی تحریک نے دوہزار سال بعد مذہب ہی کے نام پر فلسطین پر حق جتلایا اور فلسطینیوں کو اپنے وطن سے محروم کر دیا۔اس پس منظرمیںکشمیر ی مسلمانوں کو تشویش لاحق ہونا لازمی امر ہے ۔ بھارتی فوجی قیادت نے2001 میں بھارت نوازنیشنل کانفرنس کی کٹھ پتلی سرکار سے مل کر امرناتھ کے لئے ایک بورڈ تشکیل دلوایاجسے ’’امرناتھ شرائن بورڈ‘‘ کا نام دیا گیا اور دونوں کے درمیان یہ طے پایاکہ اس بورڈ کاصدر ہمیشہ دہلی کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں تعینات ہندوگورنر ہوگا۔ جب دونوں کے مابین یہ شرمناک بات طے پاگئی تو اس وقت مقبوضہ کشمیرمیں فسطائی ذہنیت کا حامل ایس کے سنہا گورنر تھا اوروہ اس بورڈ کا صدر نامزد ہوا ۔
اس خبیث نے سب سے پہلے جوکام کیا وہ یہ کہ امرناتھ یاترا جس کی مدت 15دن تھی، بڑھا کر 2ماہ کر دی۔ جب اس وقت کے کٹھ پتلی وزیراعلی نے عوامی دبائوپر اس پر اعتراض کیا تو اسکی کابینہ کے تمام ہندو وزیروں نے استعفی دے دیا جس کے باعث اسے اپنااعتراض واپس لیناپڑا۔ 2008 میں بھارت نواز نیشنل کانفرنس کی کٹھ پتلی حکومت کوہندووں کے سامنے جھکناپڑا،اوران کے کہنے پراس نے امرناتھ شرائن بورڈ کو 800 کنال اراضی دی تو پورے کشمیر میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے، بالآخرکشمیرکی کٹھ پتلی نیشنل کانفرنس حکومت کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا۔ کشمیرمیں حقوق انسانی کی پامالیوںکے خلاف بھارت سے ہمیشہ اٹھنے والی آوازگوتم نولکھا کہتے ہیں کہ امرناتھ یاترا ، ایک ’’ قومی انٹرپرائز‘‘ کی شکل اختیار کر چکی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ گورنر کا یاترا کی سربراہی کرنا اور ان کے پرسنل سیکرٹری کا یاترا کا CEO ہونا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ یہ یاترا براہِ راست حکومت ہند کی نگرانی میں کی جاتی ہے۔ گوتم نولکھاکہتے ہیں کہ امرناتھ یاترا کو قومی انٹرپرائز قرار دے کر اس کو فوج کے مورال کو بلند کرنے کا ذریعہ جانتی ہے۔ کئی برس قبل کشمیر میں سرگرم انسانی حقوق کی مقامی تنظیم کولیشن آف سول سوسائٹیز (Colation of Civil Socities) نے امرناتھ یاترا کے حوالے سے ایک رپوٹ جاری کی، جو کہ اس نے (Right To Information Act )کے تحت حاصل کردہ معلومات کی بنیاد پر مرتب کی۔ یہ رپورٹ اس لحاظ سے چشم کشا ہے کہ اس میں یاترا کے سیاسی، سماجی اور استعماری زاویوں پر پہلی بار ایک مبسوط نوعیت کی تحقیق پیش کی گئی ہے۔
تنظیم کی ایک خصوصی ٹیم جس نے یہ رپورٹ مرتب کی خودامرناتھ غارتک گئی ۔ ٹیم کے از خودمشاہدات پرمبنی اس رپورٹ میں کہا گیا کہ جگہ جگہ پوسٹر اور ہورڈنگ نصب ہیںجن پرلکھاہواتھاکہ ’’کشمیرسے کنیا کماری تک سب علاقہ ہندئووں کابھارت ہے‘‘ جبکہ ہندو یاتری بڑے جوش و خروش کے ساتھ یہ نعرے لگا رہے تھے کہ ’’ ہندوستان میں رہنا ہے، بھم بھم بھولے کہنا ہے‘‘۔اس رپورٹ میں کہاگیاکہ اس امر میں کوئی دو رائے نہیں کہ امرناتھ یاترا حدود کو عبور کر چکی ہے ۔
سال2018میں جموں میں بی جے پی کے ایک ممبر پارلیمنٹ نے امرناتھ یاتراپرآئے ہوئے ہندووں سے اپیل کی کہ وہ سری نگرسے اسلام ضلع تک کوئی بھی چیز کشمیر ی مسلمانوں کی دکانوں سے نہ خریدیں بلکہ وہ جموں سے ہی اشیاء خریداکریں۔ کشمیروادی میں وہ جوبھی چیزخریدتے ہیں تو اسے مسلمانوں کوفائدہ پہنچتاہے جوہمیں برداشت نہیں۔ جبکہ امرناتھ شرائن بورڈ نے پہلے ہی سے ایسے اقدامات کیے تھے کہ یاترا پر آئے ہوئے افراد سے مقامی مسلمانوں کو کوئی فائدہ نہ ہو۔ بورڈ کے فیصلے کے مطابق کشمیر کے ٹینٹ مالکان، ٹیکسی مالکان، مرکبان ،خچربان اور مزدور کو یہ اختیارنہیں ہے کہ وہ کرایہ اور اجرت طے کر سکیں۔ امرناتھ یاترا کی وجہ سے وادی میں ماحولیات پر کافی اثر پڑ رہا ہے۔
2005 میں مشہور ماہر ماحولیات پروفیسر ایس کول کی قیادت میں ہندوستان کے چوٹی کے ماہرین نے کہا کہ اگر بالی تل کے راستے امرناتھ کی گھپا تک ہزاروں یاتریوں کی آمدو رفت یوں ہی جاری رہے گی تو ماحولیات اور گلیشئرز کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس یاترا سے ہر روز پچیس ہزار ٹن ویسٹ ’’کچرا‘‘پیدا ہوتا ہے۔ زمین اور ہوا کی آلودگی اس سے مستزاد ہے۔ پریت پال سنگھ کے مطابق: امرناتھ یاترا کی ماحولیاتی گنجائش (Carrying Capacity) 7500 ہے، لیکن گزشتہ سال لاکھوں یاتریوں نے اس راستے پر سفر کیا جس کے نتیجے میں پورا راستہ تباہی کی طرف دھکیلا گیا۔مقبوضہ کشمیر میں پینے کے پانی کا 80فیصد حصہ لدر اور سندھ نالے سے آتا ہے۔
ان دونوں آبی ذخائر کا اصل منبع وہ گلیشئر ہیں جو یاترا کی راہ میں آتے ہیں۔ ماحولیاتی ماہرین کے مطابق یاتریوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے نتیجے میں انسانی مداخلت ماحولیاتی اعتبارسے ان نازک مقامات پر بڑھ رہی ہے جس سے مذکورہ قدرتی وسائل مخدوش ہو رہے ہیں اور یوں مستقبل میں اس کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔لیکن یہ خالص ماحولیاتی خدشات بھی نظرانداز کیے جاتے ہیں۔ ایسے وقت میں جبکہ دنیا موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے ایک نئی آفت سے دوچار ہونے والی ہے اور اس مصیبت کو ٹالنے کے لیے دنیا کے بیشتر ممالک پہاڑی علاقوں میں سیاحوں کی آ مد کو بھی ریگولیٹ کر رہے ہیں۔
ماحولیات کے بھارتی ماہرکہتے ہیں کہ بھارت کو بھی چاہیے کہ کشمیر کے قدرتی ماحول کو برقرار رکھنے کے لیے امرناتھ میں یاتریوں کی تعداد کو ریگولیٹ کرنے کی تجویز پر مذہبی نقطہ نگاہ کے بجائے سائنسی نقطہ نگاہ سے غورکرے۔
تبصرہ لکھیے