ہوم << عام آدمی کے لیے کثرتِ عبادت - ادریس آزاد

عام آدمی کے لیے کثرتِ عبادت - ادریس آزاد

عام آدمی کے لیے کثرتِ عبادت مہلک ہے۔زیادہ عبادت انبیأ کے لیے ہوتی ہے یا اولیأ کے لیے، عام بندے کے لیے نہیں۔زیادہ عبادت عام آدمی کے لیے بنائی ہی نہیں گئی۔عام مسلمان کے لیے پانچ نمازیں اور تیس روزے ہی کافی ہیں۔

ہاں البتہ عام انسانوں میں ایسے لوگ جو بہت زیادہ حسّاس طبیعت کے مالک ہوتے ہیں، اُن کے لیے کثرتِ عبادت اتنی مہلک نہیں جتنی کہ کم حسّاس طبیعت کے مالک عام آدمیوں کے لیے ہے۔کم حسّاس طبیعت کے مالک عامۃ الناس بہت زیادہ عبادت سے تقریباً بے حس ہوجاتے ہیں۔ ان کے دِل مُردہ ، اور احساسِ زیاں کا مکمل طورپر خاتمہ ہوجاتاہے۔موٹی موٹی توندوں والے دکاندار یا رشوت خور سرکاری افسران کا غور سے مشاہدہ کریں تو صاف پتہ چلتاہے کہ یہ کم حسّاس لوگ ہیں۔ لیکن یہی لوگ کسی لَت کی طرح کثرتِ عبادت کو اختیار کرلیتے ہیں۔زیادہ عبادت ایسے لوگوں کو ظالم اور سفاک بنادیتی ہے۔

ایک خاص قسم کا احساسِ تفاخر ان کو اپنے گھیرے میں لیے رکھتاہے اور کم ترانسان ان کی نظر میں حقیرسے حقیر تر ہوتا چلاجاتاہے۔ اللہ آپ سے پوچھتا ہے، کہ کیا آپ نے ایسے لوگوں کو نہیں دیکھاجو دین کو جھٹلاتے ہیں؟ ایسے نمازی جو یتیموں کو دھکے دیتے ہیں یا ایسے نمازی جو مسکینوں پر ان کا کھانا تنگ کرتے ہیں، یا ایسے نمازی جو عام استعمال کی چیزیں مانگنے پر نہیں دیتے، یہ نمازی اپنی نمازوں کو بھلا بیٹھے ہیں اور یوں گویا یہ لوگ دین کو ہی جھٹلاتے ہیں۔ آپ اپنے آس پاس نظردوڑائیں کیا آپ نے ایسے نمازیوں کو کبھی نہیں دیکھا؟ کیا نماز جیسی نعمت ایسا کچھ کرسکتی ہے؟

خدا کے ہی بقول، نماز صرف فحاشی یا بُرے کاموں سے ہی تو نہیں روکتی، نماز تو خدا کی بغاوت سے بھی روکتی ہے۔اور خدا کی بغاوت اس سے زیادہ کیا ہوگی کہ آپ یتیموں کو دھکے دیں اور مسکینوں پر اُن کا کھانا تنگ کریں اور اس پر طرہ یہ ہو کہ آپ بہت زیادہ عبادت گزار بھی ہوں؟ تو پھر وہ کیسی نماز تھی جو آپ پڑھی؟ کہیں یہ وہی نمازتو نہ تھی جو بقول ایک حدیثِ مبارکہ کے، ’’لپیٹ کر آپ کے منہ پر ماردی جائے گی؟‘‘

اُوپر میں نےجو کچھ کہا، کارل مارکس جیسے بڑے دماغ نے اس بات کو ایک جملے میں یوں بیان کیا کہ گویا دریا کو کوزے میں بند کردیا۔ ’’مذہب عوام کے لیے افیون ہے.‘‘ غور سے دیکھیں! مارکس نے عوام کا لفظ استعمال کیا ہے، خواص کا نہیں۔ کوئی نبی تو خاص ہوتاہے۔ وہ ساری ساری رات اتنی زیادہ عبادت کرتاہے کہ قیام لیل کی وجہ سے اس کے پیر سُوج جاتے ہیں۔ اللہ کے اولیا بھی ایسی نمازیں پڑھیں تو ان میں اور زیادہ خشیت اور تقویٰ پیدا ہوتاہے۔ لیکن ہم جیسے عامۃ الناس جب بہت زیادہ مذہبی ہوجاتے ہیں اورکثرتِ عبادت میں مُبتلا ہوجاتے ہیں، تو ہمارا دماغ خراب ہوجاتاہے۔

بلکہ کارل مارکس کے الفاظ میں کہاجائےتو ہمیں اپنی ملامتوں اور ندامتوں کو چھپانے کے لیے افیون کا سا نشہ مل جاتاہے۔ یقین جانیے! میرے جیسے عام انسان کے لیے کثرتِ عبادت گویا گناہ کرنے کے اجازت نامے کے برابر ہے۔جب میں بہت زیادہ عبادت کرتاہوں تو ایک خاص وقت تک کے لیے میری تمام تر ملامت اور ندامت اور گِلٹ کا خاتمہ ہوجاتاہے۔ایسے ہی ہیں ہم عام لوگ۔ ہم نے اگر کسی بہت پیارے رشتے کی قدر نہیں تو اس کے مرنے پر ایصالِ ثواب کی محفلیں ہماری اپنی ملامت اور گلٹ کو کم کرنے کے لیے ہوتی ہیں، نہ کہ اس کو ثواب پہچانے کے لیے۔

دل زیادہ حساس نہ ہو تو ملامت ویسے بھی کم ہوتی ہے ۔ ایسے عالم میں عبادت کی کثرت ہوجائےتو سمجھ لیجیے ملامت کا وجود بھی باقی نہ رہے گا۔ اور اس کثرت ِ عبادت کی بھی کثرت رہے، یعنی تواتر سے جاری رہے تو پھر تفاخر پیدا ہونا شروع ہوجائےگا۔ ایسا تفاخر جو ہماری آنکھوں کو اندھا اور دلوں کو مُردہ کردیتاہے۔ ہمیں اپنے پڑوس میں بھوک سے مرجانے والا اپنا سگا بھائی بھی دکھائی نہیں دیتا۔ ہمیں دوسروں کے یتیم بچے اور بچیاں اپنے نوکر محسوس ہونے لگتے ہیں۔ وہ بچے ہمارے گھر کا سودا سلف لائیں گےاوران کی بچیاں ہمارے گھر کے برتن مانجھیں گی۔ زیادہ طویل سجدوں پر علامہ اقبال نے بھی اعتراض کیا ہے:
''طویل سجدہ ہیں کیوں اس قدر تمہارے امام''

عبادت بُری چیز نہیں۔ نماز ہرمسلمان پر فرض ہے۔ روزے سب مسلمانوں پر فرض ہیں۔ کثرتِ عبادت بھی اُس صورت میں بری نہیں اگر آپ پہلے سے قلبِ حسّاس کے مالک ہیں۔ قلبِ حسّاس کے مالک ہیں تو آپ اللہ کے اولیا ٔ میں سے ہیں۔ آپ کے لیے بھی زیادہ عبادت اچھی ہے۔ وہ آپ کو رقت دے گی، رلائےگی، احساس کو زندہ رکھے گی، دوسروں پر رحم کرنا سکھائےگی، برائی سے روکے گی، نیکی کی طرف مائل کرے گی۔ لیکن اگر آپ حسّاس طبیعت کے مالک نہیں ہیں تو زیادہ عبادت آپ کو برباد کرکے رکھ دےگی۔

خیر بہرحال، اب یہ بات تو ہرشخص خود ہی جانتا ہے اپنے بارے میں کہ وہ کس درجے کا حسّاس ہے۔