ہوم << اردگان کی مجبوریاں سمجھیں - اسامہ معاذ شاہ

اردگان کی مجبوریاں سمجھیں - اسامہ معاذ شاہ

10403479_779746375424988_2927876186026520581_nجو فرد ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا ہو، اسی کی گاڑی میں آپ سوار ہوں اور اسی کے دیے گئے پلان پر آپ نے اعتماد کیا ہو اور اسی کے ساتھ تعاون کا عہد باندھا ہو تو جب تک گاڑی منزل پر نہ پہنچے، اسے ہی ڈرائیونگ کا حق دینا چاہیے ورنہ پیچیدہ راہوں میں منزل سے دور جا پڑنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
یہ فطری امر ہے کہ افراد اپنی لیڈرشپ سے اختلاف کرتے ہیں لیکن ترکی میں جس قسم کی آئینی پیچیدگیاں اسلام پسندوں کے راستے میں حائل ہیں، ان سے نبردآزما ہونے کے لیے اردگان کا متبادل لیڈر موجود نہیں ہے۔ ترکی میں جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کو ادراک ہے کہ اردگان کے علاوہ کوئی بھی شخص ایسا نہیں ہے جسے پارٹی و عوام دونوں میں بیک وقت بہترین اعتماد حاصل ہو ۔گذشتہ صدارتی الیکشن میں انھوں نے 50% سے زائد ڈائریکٹ ووٹ حاصل کیے، لیکن اس کے کچھ عرصہ بعد ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں جسٹس پارٹی کو کم ووٹ پڑنے کی ایک بڑی وجہ اردگان کا پارلیمانی انتخابات کی کمپین میں ( صدارت کے نتیجہ میں عائد آئینی و اخلاقی مجبوریوں کی وجہ سے) بذاتِ خود شریک نہ ہونا بھی تھا۔ آئینی پیجیدگیوں کے باوجود جب جب انھیں موقع ملتا ہے کچھ بھی کرنے کا وہ کر گذرتے ہیں، مخالفین ششدر رہ جاتے ہیں اور ساتھ ہی تنقید کے پہاڑ بھی کھڑے کر دیتے ہیں اور ان کے اس عمل کو ان کا آمرانہ طرزِ عمل گردانتے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل اردگان نے جن میڈیا گروپس پر سختی کی تھی، وہ فتح اللہ گولن صاحب کے گروپ کے تھے، اور جو مسلسل ترک اجتماعی ضمیر کے خلاف پراپیگنڈہ کر رہے تھے۔ ان پر سختی کسی بھی منتظم کے لیے ضروری تھی ورنہ اجتماعی نظم متاثر ہونے کا خدشہ تھا۔ ان سختیوں کی وجہ سے اردگان پر شدید تنقید کی گئی اور پراپیگنڈہ کر کے عالمی میڈیا نے اس بغاوت کو راہ دی ورنہ وہ جس حکمت سے چل رہے تھے وہ اس کی نوبت ہی نہ آنے دیتے۔
حالیہ سازش کے نتیجہ میں سب سے زیادہ نقصان ترک آرمی کے نظم و ضبط کا ہوا ہے اور یہ نقصان کسی بھی ریاست کے لیے بڑے سانحے جیسا ہے۔ بنگلہ دیش کی مثال سامنے ہے، ایک دفعہ ایسٹ بنگال رائفلز نے فوج میں بغاوت کی اور اس کے بعد سے آج تک نظم وضبط بحال نہیں ہوا اور بغاوتیں بھی وقوع پذیر ہوئیں
امید کی جا سکتی ہے کہ طیب اردگان اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے نہ صرف ایسے عناصر کا خاتمہ کریں گے بلکہ عدل کا دامن تھامتے ہوئے احتساب کے ذریعہ سسٹم مزید مضبوط کریں گے. ان کا یہ اعلان کہ جن فوجیوں نے عوام کے سامنے بغیرکسی مزاحمت کے ہتھیار ڈالے، ان کے لیے عام معافی ہے اور جنھوں نے ہتھیار ڈالنے کے بجائے گولیاں برسائیں، ان کا کڑا احتساب فوج کا ادارہ خود کرے، ترک فوج میں مارشل لا اور بغاوت کے جذبے کی تخریج کرے گا اور ان شاء اللہ فوج کا روایتی نظم ونسق پھر سے بحال ہو جائے گا