ہوم << لبرل فکر کےشارحین کی غلطی - مجاہد حسین خٹک

لبرل فکر کےشارحین کی غلطی - مجاہد حسین خٹک

مجاہد حسین خٹک ایک دور تھا جب سوشلسٹ اور کمیونسٹ طبقہ ہر اس تہذیبی قدر کا مذاق اڑاتا تھا جو عوام کو عزیز تھی۔ یہ بہت بری حکمت عملی تھی کیونکہ اس کا ردعمل پیدا ہوا اور عوام نے اس فکر کے مثبت پہلوؤں کو بھی یکسر رد کر دیا۔ آج بہت سے سلجھے ہوئے کمیونسٹ دانشور اس غلطی کو تسلیم کرتے ہیں۔
اس احمقانہ طریق کار کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ فرسودہ سوچ کو اپنا بیانیہ معاشرے پرمسلط کرنے کے لیے زیادہ محنت نہیں کرنا پڑی۔ انہیں فکری میدان بالکل خالی مل گیا جس پر انہوں نے آسانی سے قبضہ جما لیا۔ ان کا یہ غلبہ آج تک قائم ہے۔
آج کمیونسٹ بیانیے کی جگہ لبرل فکر نے لے لی ہے اور اس کے شارحین ایک بار پھر وہی پرانی غلطی دہرا رہے ہیں۔ ان کے ہاں ہر اس تہذیبی قدر کا مذاق اڑایا جاتا ہے جو عوام کو محبوب ہے۔ اس رویے کی وجہ سے معاشرے میں پھیلی فرسودہ سوچ کا غلبہ آج بھی قائم و دائم ہے۔
پاکستان میں ایک ایسے ترقی پسند بیانیے کی گنجائش ہمیشہ موجود رہی ہے جو ہماری تہذیبی اقدار کا احترام کرتے ہوئے معاشرے کو دور جدید سے ہم آہنگ کر سکے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ اس فکری خلا کو اس گروہ نے پر کرنے کی کوشش کی جو یا تو ردعمل کی بیمار نفسیات کے تحت تلخی، فرسٹریشن اور غصے کا شکار رہا ہے یا جسے اپنے محدود حلقے میں واہ واہ کی طلب ہے۔ کیونکہ اسی واہ واہ کے جادوئی اثر سے ایک عام دانشور کے لیے بھی وہ بند دروازے کھل جاتے ہیں جن کے پیچھے شہرت اور دولت کی دیوی گھونگٹ اوڑھے منتظر بیٹھی ہوتی ہے۔
علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے معاملے پر جس طرح دھڑا دھڑ مضامین آ رہے ہیں اور ہماری روایات کا جس مضحکہ خیز انداز میں مذاق اڑایا جا رہا ہے، اسے دیکھ کر افسوس ہوتا ہے۔ یہی تو مواقع ہوتے ہیں جب عوام کا دل جیتا جا سکتا ہے۔ جب امتحان کے پرچے میں اپنی بہن کی جسمانی ساخت بیان کرنے کا سوال آ جائے تو اس پر لبرل ازم کے پیروکاروں کو بھی احتجاج میں شریک ہو جانا چاہیے تاکہ عوام کے دل تک انہیں رسوخ حاصل ہو سکے۔ وہ رسوخ جسے حاصل کرنے کے بعد منزل کا حصول بہت آسان ہو جاتا ہے۔
یہ وقت تھا جب وجاہت مسعود صاحب جیسے حقیقی دانشور اپنے طبقے کی رہنمائی کے لیے سامنے آتے۔ وہ سماج کی پیچیدہ ساخت کے تمام پہلوؤں سے بخوبی آگاہ ہیں۔ مجھے حیرت ہے کہ ان جیسے سلیم الفطرت لوگ اس معاملے پر خاموش کیوں ہیں؟ اور ان کے زیراثر لوگ اس پر خامہ فرسائی کیوں کر رہے ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ بھی اپنے طبقے کے انتہا پسندوں کے ہاتھوں یرغمال بن چکے ہیں؟ یا یہ سب ان کی رضامندی سے ہو رہا ہے؟