اللہ تو لوگوں پر کچھ ظلم نہیں کرتا لیکن لوگ ہی اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔ (سورہ یونس، 44)
خودغرضی اللہ کی بہترین نعمتوں میں سے ایک ہے۔ ایسی نعمت جس کی پہچان بہت کم کسی کے قلب و ذہن پر اُترتی ہے اور جو اِس کی اصل روح کو پا لے وہ ولی اللہ کے درجے کو چھو جاتا ہے۔ عام طور پر کسی کو خود غرض کہا جائے تو نہ صرف کہنے والا بلکہ سُننے والا اَسے طعنے یا گالی کے طور پر محسوس کرتا ہے۔ درحقیقت دونوں اِس کے اصل مفہوم سے ناآشنا ہیں۔
خودغرض یا خودغرضی کا عام مطلب ہے اپنے آپ سے غرض رکھنا۔ صرف اپنا بھلا چاہنا اور دوسروں کی قطعی پروا نہ کرنا۔ اِن معنوں اور اس مفہوم میں کوئی کجی نہیں اور یہی اصل مطلب بھی ہے۔ بات پلٹ کر وہیں آ جاتی ہے کہ ہم ہر چیز, ہر لفظ اور ہر احساس کو سرسری نگاہ سے دیکھ کر حرفِ آخر کا فیصلہ صادر کر دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنے دل و دماغ کی کھڑکیاں ہٹ دھرمی کی میخوں سے بند کر کے اُسی بات پر اڑے رہتے ہیں۔
خود غرضی کیا ہے؟ اپنی طلب سے غرض رکھنا, اپنا بھلا چاہنا۔ تو کیا کسی نے سوچا کہ اُس کی بھلائی کس میں ہے؟ اُس کی طلب کی نوعیت کیا ہے؟ اس کی بھوک اور پیاس کی حدیں کہاں تک پھیلی ہیں؟ اور سب سے اہم بات یہ کہ اس کی ”غرض“ اُس کے لیے کتنے وقت تک اور کتنا ساتھ دے سکے گی؟
سب سے پہلے بھوک کی بات کہ یہی وہ غرض ہے جوانسان کو اپنے پرائے رشتوں ناطوں حتیٰ کہ اپنے اہل و عیال سے بھی بیگانہ کر دیتی ہے۔ بھوک ایسا طاقتور اور بےرحم جذبہ ہے جس کے آگے اِبن ِآدم کی ساری تمیز اور تہذیب دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔ اگرچہ بھوک ایک آدم خور درخت ہے جس کی شاخیں انسان کے اندر ہر جگہ پھیلی ہیں جیسے ناشُکرا پن اور ہوس بھی بھوک کے کرشمے ہیں لیکن پیٹ کی آگ اور جنس کی طلب انسانی اخلاقیات کے لیے زہرِقاتل کا درجہ رکھتی ہیں۔ بھوک کوئی بھی ہو وہ کبھی اپنے اندر سے پوری نہیں پڑتی ۔اُس کے لیے اپنی ذات سے باہرآ کر ڈھونڈنا پڑتا ہے۔۔۔ خاموشی سے۔۔۔ چُپ چاپ دبے پاؤں۔
پیٹ کی آگ اورجنس کی بھوک بہت شور مچاتی ہے، اسے سنبھالنا بہت مشکل ہے جو اکثر اوقات ناممکن بن جاتا ہے۔ اس کو قابو کرنے کا فن زندگی کی ریاضت چاہتا ہے۔ ساری زندگی کی کمائی دینے کے بعد کب ملے، یہ کوئی نہیں جانتا اور اس جن کو بوتل میں بند کرنے کے بعد بھی آزمائش ختم نہیں ہوتی۔ جو اس پر قابو پا گیا، وہ ولی اللہ کے رُتبے کو پا گیا۔ جیسے جیسے اس بھوک کو سمجھتے جائیں، اس سے پنجہ آزمائی کرتے رہیں، اس کے گلے میں بانہیں ڈال کر اس سے باتیں کرتے رہیں، یہ سر پر سوار نہیں ہوتی۔
پیٹ کی آگ جسمِ انسانی کا وہ بھڑکتا الاؤ ہے جس میں انسان کی ساری اخلاقیات سوکھی لکڑیوں کی طرح لمحوں میں جل کر خاکستر ہو جاتی ہے۔ پیٹ کی ہوس وہ ضرورت ہے جس پر انسان ذرا سا بھی شرمندہ نہیں ہوتا اور نہ ہی اُسے اس طور اتنا بُرا محسوس کرتا ہے۔ انسان وقتی لذت کے چسکے اور اُس ذائقے کے لیے جو زبان پر چند لمحوں اور پیٹ میں چند گھنٹوں سے زیادہ نہیں ٹھہرتا، اپنے فہم اور شعور کو بہت کم قیمت پر فروخت کر دیتا ہے۔۔ جس طرح کہا جاتا ہے کہ نیند سولی پر بھی آ جاتی ہے اسی طرح پیٹ گھڑی بھی وقت بے وقت سے بے پروا اپنے وقت پر الارم بجانے لگتی ہے۔ عام زندگی میں ایسے مظاہرے کئی بار دیکھنے کو ملتے ہیں، خاص طور پر جب ہمیں مالِ مفت کے مصداق کھانے کو مل جائے تو ہم اس الارم کی ضرورت اور ہوس میں فرق بھول جاتے ہیں۔ خوشی کی تقریبات میں ”کھانا کھلنے“ کا اعلان ہو یا کسی کا جنازہ اٹھنے کے بعد کھانے کا منظر جسے پہلے زمانوں میں ”کڑوی روٹی“ کہا جاتا تھا، کھانے والوں کے انداز اور اطوار میں صرف کچھ ہی فرق ہوتا ہے لیکن نظروں میں رتی برابر فرق دیکھنے کو نہیں ملتا۔ خوشی کے موقع پر تو بہت کچھ خوشی خوشی نظرانداز کیا جا سکتا ہے اور کیا بھی جاتا ہے لیکن مرنے والے کے گھر میں چاولوں میں ”بوٹی“ اور سالن میں ”تری“ پر نظر رکھی جاتی ہے۔ اپنے گھروں میں روز ہی پیٹ بھر کر مرغِ مسلم کھانے والے ایسی بدنیتی کا مظاہرہ کریں تو اس بےحسی سے زیادہ اُن کی اپنی غرض کی ناسمجھی پر شدید تاسف ہوتا ہے۔
مال اور اولاد کو دُنیا کی زندگی میں سب سے بڑی آزمائش کہا گیا ہے۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں، گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو اس آزمائش کا سرا ”پیٹ“ سے جا ملتا ہے۔ انسان کی بھوک اس کے ہر احساس پر غالب آ جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ محبت سے پیٹ نہیں بھر سکتا لیکن یہ بھی سچ ہے کہ پیٹ بھر جائے تو پھردوسری ہر محبت کی طلب بیدار ہوجاتی ہے۔
پیٹ کی بھوک کی طرح جنس کی بھوک کی بدنمائی بھی انسان کاانسان پر سے اعتبار ختم کر دیتی ہے۔وہ ایسی ہوس ہے جو انسان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دوسروں کی نظر سےگرا دیتی ہے۔ جسم کی طلب کو اگر چھوٹے بچے کی ضدوں کی طرح سمجھا جائے تو اسے منانے میں آسانی ہو جاتی ہے۔ یہ فرمائشوں کو پورا کرنے کےعارضی وعدوں اورمحبت کے دو بول سے بہل جاتی ہے اور اپنی پوری معصومیت سے انتظار کرنے لگتی ہے اچھے وقت کا، خوبصورت موسم کا۔ اور اگر اسے سخت گیر اُستاد کے حُکم کی طرح سُن لیا اور اس سے سہم گئے تو یہ کبھی پیچھا نہیں چھوڑتی، نہ خوابوں میں اور نہ حقیقت میں۔ اپنی پوری کمینگی اور سفاکیت کے ساتھ یوں حملہ آور ہوتی ہے کہ اس کے نوکیلے پنجے روح میں شگاف ڈال دیتے ہیں اور جسم ہر طرف سے کیکر بن جاتا ہے جو قریب آنے والوں کو زخمی کر دیتا ہے۔
حرفِ آخر
بھوک وہ سانپ ہے جو ہر بار نئے رنگ سے نئے ڈھنگ سے بہروپ بدل بدل کر ڈستا ہے- زیادہ طلب بڑھے تو بھوک مرتی نہیں راستہ بدل لیتی ہے۔۔ لبادہ اُوڑھ لیتی ہے، کبھی صبر کا، کبھی قناعت کا، کبھی بہادری کا تو کبھی مذہب کا- بھوک فطرت ہے کہ جھولی خالی ہو تو خیرات ملتی ہے۔ طلب ہو تو بھوک ہوتی ہے پھر خواہش ضرورت بنتی ہے۔ بھرے پیٹ کی خواہش تو ہوس ہوتی ہے، بدنظری ہوتی ہے، خودغرضی ہوتی ہے، لُوٹ کھسوٹ ہوتی ہے، اجتماعی زیادتی ہوتی ہے۔گھاٹے کے سوداگر ایک لمحے کی خوشی، ایک پل کے عارضی سکون کی خاطر ہمیشہ کی آسودگی قربان کر دیتے ہیں۔ دنیا کی باتیں دُنیا میں سمجھ آ جائیں تو آگہی کی جنت دور نہیں۔ ہم اس حال کی فانی دنیا کو اپنی محدود عقل کے دائرے میں جاننے کی کوشش کیے بغیر نہ صرف اپنے لیے بلکہ دوسروں کے لیے بھی دوزخ بھڑکاتے ہیں۔ آگے کی اللہ جانے کہ وہ ایمان والوں کے ایمان کا معاملہ ہے۔ اللہ کی نعمت اور رحمت کا دائرہ کس قدر وسیع اور لامحدود ہے اور وہ کتنا بےنیاز ہے، ہم کبھی نہیں جان سکتے۔ لیکن اتنا ضرور محسوس کیا جا سکتا ہے کہ وہ خلوصِ نیت سے پلٹنے والوں، سوچنے والوں اور اس کے مطابق عمل کرنے والوں کو اس دنیا میں ہی جنت عطا کر دیتا ہے۔
تبصرہ لکھیے