پاکستان کا تعلیمی نظام آزادی کے بعد سے آج تک نوآبادیاتی اثرات سے آزاد نہیں ہو سکا۔ برطانوی دورِ حکومت میں تعلم کو ایک مخصوص مقصد کے تحت ترتیب دیا گیا تھا: ایک ایسی مڈل کلاس پیدا کی جائے جو انگریز حکمرانوں کے لیے کلرک، مترجم، اور معاون افسران کی حیثیت سے کام کر سکے۔ لارڈ میکالے کی 1835 کی مشہور "Minute on Indian Education" میں واضح طور پر کہا گیا کہ ہندوستانیوں کو انگریزی تعلیم دی جائے تاکہ وہ "رنگ، خون اور نسل میں ہندوستانی، مگر ذوق، رائے، اخلاق اور فہم میں انگریز" ہوں۔
یہی طرز فکر پاکستان کے تعلیمی نظام میں بھی منتقل ہوئی۔ آزادی کے بعد 1947 میں پاکستان کے پہلے وزیر تعلیم فضل الرحمٰن کی سربراہی میں 1947 کی تعلیمی کانفرنس منعقد ہوئی، مگر برطانوی ساختہ نظام میں جوہری تبدیلی نہ آ سکی۔ اس کے بعد 1959 کی پہلی قومی تعلیمی کمیشن نے کچھ ترقی پسند تجاویز ضرور دیں مگر ان پر عملدرآمد محدود رہا۔ اس پالیسی میں معیارِ تعلیم بلند کرنے، سائنس اور ٹیکنالوجی کو فروغ دینے، اور قومی زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے کی بات کی گئی تھی، مگر انگریزی زبان بدستور برتری پر رہی۔
2021 میں "یکساں قومی نصاب" (Single National Curriculum - SNC) کا تصور پیش کیا گیا تاکہ طبقاتی تقسیم کا خاتمہ کیا جا سکے۔ یہ پالیسی بنیادی نکتہ نظر کے لحاظ سے مثبت قدم تھی مگر اس پر شدید تنقید بھی ہوئی، خصوصاً اس بات پر کہ یہ نصاب عملی سطح پر ایلیٹ اسکولوں میں نافذ نہیں ہوا اور نہ ہی اساتذہ کی تربیت، وسائل کی فراہمی، اور تعلیمی ڈھانچے کی بہتری کے لیے خاطر خواہ اقدامات کیے گئے۔
2023 کی عالمی تعلیمی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پانچ سے سولہ سال کی عمر کے لگ بھگ 2 کروڑ 60 لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ یہ تعداد دنیا بھر میں اسکول سے باہر بچوں کی دوسری سب سے بڑی آبادی ہے۔ وہ بچے جنہیں تعلیمی مواقع سے محروم رکھا گیا، نہ ان کی غلطی، نہ ان کی صلاحیت کی کمی بلکہ ایک ایسے تعلیمی نظام کی وجہ سے جو آج بھی نوآبادیاتی ڈھانچے پر کھڑا ہے جو قومی ضروریات اور ترجیحات سے قاصر ہے۔
پاکستان کا تعلیمی منظرنامہ بظاہر تین بڑے حصوں میں تقسیم ہے، سرکاری اسکول، نجی اسکول، اور مدارس۔ نجی اسکولوں میں بھی ایک واضح درجہ بندی موجود ہے: ایلیٹ اسکول، جہاں بچوں کو بیرونی یونیورسٹیوں کے معیار کے مطابق تعلیم دی جاتی ہے۔ اور کم فیس والے اسکول، جہاں وسائل، تربیت اور معیار کی کمی شدید ہے۔ اسی طرح مدارس کا نظام بھی اپنا الگ نصاب اور تربیتی زاویہ رکھتا ہے۔ ان تینوں نظاموں کے درمیان نہ کوئی ربط ہے، نہ ہم آہنگی، اور نہ ہی کوئی قومی وژن۔ یوں تعلیمی نظام مختلف طبقات میں تقسیم ہو کر معاشرے میں مزید خلیج پیدا کر رہا ہے۔
ایلیٹ تعلیمی ادارے، جو بڑی حد تک مغربی تعلیمی ماڈلز پر مبنی ہیں، ملک کے طاقتور طبقے کے بچوں کو وہ تمام مواقع فراہم کرتے ہیں جو غریب کا بچہ خواب میں بھی نہیں دیکھ سکتا۔ انگریزی زبان، جدید نصاب، بیرون ملک یونیورسٹیوں میں داخلے، اور بہتر نوکریوں تک رسائی صرف اسی طبقے کو میسر ہے۔ جبکہ سرکاری اسکولوں کا حال یہ ہے کہ نہ تو بنیادی سہولیات دستیاب ہیں، نہ ہی اساتذہ کی معیاری تربیت، اور نہ ہی سیکھنے کا ماحول۔ یوں باصلاحیت مگر غریب بچے اپنے خوابوں کو اپنی معاشی حیثیت کی دیوار سے ٹکرا کر چکناچور ہوتا دیکھتے ہیں۔
انگریزی زبان میں ہونے والے مقابلے کے امتحانات، خاص طور پر سی ایس ایس، آج بھی نوآبادیاتی ذہنیت کے تسلسل کی علامت ہیں۔ یہ امتحانات ایک خاص طبقے کو ریاستی طاقت کے اعلیٰ ایوانوں تک رسائی دیتے ہیں۔ ایسے افسران کو وہی پروٹوکول، وہی مراعات اور وہی "حاکم رعایا" والا ذہنی رویہ وراثت میں ملتا ہے جو انگریزوں نے برصغیر کے لیے وضع کیا تھا۔ یہ بیوروکریسی خود کو عوام کا خادم نہیں، بلکہ نگران اور مالک تصور کرتی ہے۔ دفتر، عدالت، تھانے یا کسی بھی سرکاری محکمے میں عام شہری کی رسائی، عزت اور مسائل کا حل آج بھی ایک خواب ہے۔
حکومتی سطح پر تعلیم کو جو اہمیت ملنی چاہیے تھی، وہ کبھی نہ دی گئی۔ اقوام متحدہ کے تجویز کردہ 4 سے 6 فیصد جی ڈی پی کے برعکس، پاکستان بمشکل 1.7 فیصد تک خرچ کرتا ہے۔ اس کمزور سرمایہ کاری کا نتیجہ یہ ہے کہ 2024 میں دنیا کی یونیورسٹیوں کی عالمی درجہ بندی (QS Rankings) میں پاکستان کی کوئی یونیورسٹی ٹاپ 300 میں شامل نہیں۔ یہی نہیں، عالمی تعلیمی اشاریے ہمیں دنیا کے پسماندہ ترین ممالک کے ساتھ کھڑا کرتے ہیں۔ اس نظام میں غریب کا بچہ چاہے جتنا ذہین ہو، نہ وہ اچھی یونیورسٹی تک پہنچ سکتا ہے، نہ ملازمت کے اعلیٰ مواقع حاصل کر سکتا ہے۔
اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی اہدافSustainable Development Goals کے تحت پاکستان نے 2030 تک تعلیم میں بہتری، خواندگی کی شرح میں اضافہ، اور تعلیم تک یکساں رسائی کے اہداف مقرر کیے تھے، مگر موجودہ حالات میں یہ اہداف خواب بنتے جا رہے ہیں۔ SDG-4، جو تعلیم کے فروغ سے متعلق ہے، اس کے تمام ذیلی اہداف — بشمول معیاری تعلیم، مساوی مواقع، اور عمر بھر سیکھنے کے نظام پر پاکستان کی پیش رفت انتہائی سست، غیر مربوط اور ناکافی ہے۔
تعلیم کو ایک متحرک سماجی قوت بنانے کے بجائے اسے ایک اشرافیہ کے ہاتھوں میں یرغمال بنا دیا گیا ہے۔ رائج نظام نے شہریوں کو باشعور، تنقیدی اور تخلیقی افراد بنانے کے بجائے محکوم، فرمانبردار اور کنفیوژ افراد میں تبدیل کر دیا ہے۔ اصل المیہ یہ ہے کہ جنہیں تبدیلی لانا ہے، وہی اس نظام کے سب سے بڑے محافظ ہیں — خواہ وہ بیوروکریسی ہو یا حکمران طبقہ۔
اگر ہمیں واقعی ایک آزاد، ترقی یافتہ اور خودمختار قوم بننا ہے تو ہمیں اس استعماری تعلیمی نظام کے ساتھ ساتھ اس کے محافظ ڈھانچے کو بھی تبدیل کرنا ہوگا۔ تعلیم صرف نصاب بدلنے سے بہتر نہیں ہوتی، بلکہ اس کے پیچھے موجود طاقت کے ڈھانچوں، مالی ترجیحات، اور سماجی رویوں میں انقلابی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنی تعلیمی پالیسیاں عوام کی امنگوں اور قومی ضروریات کےمطابق تشکیل دینی ہوں گی، اور بیوروکریسی کو عوامی خدمت کا حقیقی شعور دینا ہوگا۔ ورنہ ہم علم، ترقی اور آزادی کے نعرے لگاتے رہیں گے، اور نسل در نسل نوآبادیاتی ذہنیت کے غلام رہیں گے۔ اور غلام قوم کی دنیا میں کوئی وقعت نہیں ہوتی۔ بقول شاعر مشرق
غلامی کیا ہے؟ ذوقِ حسن و زیبائی سے محرومی
جسے زیبا کہیں، آزاد بندے، ہے وہی زیبا
بھروسا کر نہیں سکتے، غلاموں کی بصیرت پر
کہ دنیا میں فقط مردانِ حُر کی آنکھ ہے بینا
تبصرہ لکھیے