کوئی مجھے ایک اربکان لا دے
اور
سینکڑوں اردگان تیار لے لے
میرا اربکان ذہین انجینئر تھا
کامیاب انجینئر!
ملک سے باہرایک بڑی کمپنی میں
خوشحال، کامیاب ،بھرپور ،آسودہ
مگر اسے اپنی قوم سے محبت تھی بے پناہ، بے غرض، بھرپور اور شدید محبت
اسےاپنے رب سے اس سے بھی زیادہ بے پناہ بھرپور شدید اور گہری محبت تھی
یہ محبتیں اسے واپس ترکی لے آئیں کہ قوموں کو اس کے ذہین لوگ اوپراٹھاتے ہیں نا کہ کنارے پر بیٹھ کر تبصرے اور تعاون کر دینے کو کا فی سمجھنے والے اور نہ بیمار مظلوم مجبور دھرتی ماں کو چھوڑ جانے والے
اور وہ بھی نہیں جن کا مشن ان کے لیے بس ایک اچھا معاش بن کر رہ گیا ہو
اور نہ ہی وہ جن کو کوئی اور کام نہیں ملتا تو وہ اوسط صلاحیت کے لوگ خود کو مشن سے وابستہ کرکے زندگی کی گاڑی گھسیٹ لیتے ہیں اور زندگی بھر مناصب پر باصلاحیت لوگوں کی جگہ روکے رکھتے ہیں، اسٹیریو ٹائپ کام کرتے اور خوش رہتے ہیں کہ اللہ کو بھی خوش کر لیا اور بندوں کو بھی خوش کر دیا
اربکان واپس لوٹا اور اس کے انجینئر دماغ نےایک سے ایک کریٹو آئیڈیا سے نوجوانوں کو ہدف بنا کر کام کرنا شروع کیا
اس نے بڑے پیمانے پر دیہات سے شہروں کی طرف آنے والے نوجوانوں کو زبان ، جاب تلاش کرنے کی ٹریننگ، شہر کے اداب، رہائش اور حوصلہ دینے کے لیے یوتھ سینٹرز بنائے
اس نے ایک زبردست منصوبہ بنا کر قوم کے مستقبل کو ان کے شاندار ماضی سے جوڑ دیا. وہ ہر سال اسٹیڈیم بھر کر ملک بھر سے نوجوانوں کو جمع کرتا اور ساری رات فتح قسطنطنیہ کا واقعہ فل
ارکسٹرا کے ساتھ اسٹیج ڈرامہ کی شکل میں پیش کیا جاتا اور یہ ہزاروں نوجوان صبح ایک نئی صبح کے لیے نئےجوش و ولولے سے لبریز ہو کر اپنے شاندار ماضی کا فخر اور اعتماد ساتھ لے کر اپنے علاقوں کو لوٹتے اور ان کے دل ناکامی، پژمزدگی، خود رحمی سے پاک ہو چکے ہوتے. اس طرح ہر برس اربکان حوصلہ، عزم اور کچھ کر گزرنے کے جذبوں سے پیش قدمی کرتا جاتا
پھر میرے اربکان نے واضح، محدود، متعین اور قابل حصول اہداف کے ساتھ بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیا اورکامیاب رہا. وہ جانتا تھا چھوٹی چھوٹی کامیابیاں تحریکوں کا ایندھن ہوتی ہیں
اس نے اپنی تنظیم گلی گلی تک پہنچائی اور اکثر ہر وقت علاقہ میں موجود رہنے والے دکان داروں کو ذمہ دار بنایا
اس نے متبادل ذرائع ابلاغ کھڑے کیے اور سینہ گزٹ کو ابلاغ کا سب سے مئوثر ذریعہ بنا ڈالا
وہ دریا کا منہ زور پانی بن گیا، اس کا ایک راستہ بند کیا جاتا تو پلان بی اس کے پاس پہلے سے تیار ہوتا. ایک کے بعد دوسری پارٹی پر پابندی لگتی رہی، وہ آگے بڑھتا گیا
اسے معلوم تھا تحریکیں پر امن حالات میں پروان چڑھتی ہیں، مسلسل مزاحمت اور مقابلہ اعصاب کو شل کر دیتا ہے اور دشمن کے لیے فائدہ مند ہوتا ہے
وہ انجینئر تھا، کیلکولیشن کا آدمی تھا، خوب سوچتا تھا اور سوچنے اور پلان کرنے پر زیادہ وقت لگاتا تھا
منصوبے پہلے اس کے دماغ میں، پھر کاغذ پر، پھر زمین پر آتے تھے. وہ پلان سے پہلے یا آدھے پونے خیال اور منصوبے کے ساتھ عمل میں کود پڑنے اور پھر ہار کر حوصلہ ہارنے کے بجائے دیر تک دور تک سوچ کر احتیاط سے آگے بڑھنے کا آدمی تھا
میرا اربکان ذرا سوچو جس نے اردگان جیسے سینکڑوں تیار کیے وہ خود کیسا ہوگا؟
وہ دوسروں پر تنقید کے بجائے اپنے کام کو پروموٹ کرنے اور کم سے کم مزاحمت سے آگے بڑھنے والا آدمی تھا
اس میں تحمل تھا، برداشت تھی، حوصلہ تھا. وہ کسی کے اکسانے پر اپنی راہ کھوٹی کر لینے والوں میں سے نہیں تھا.
وہ جذباتیت نہیں، جذبے کا آدمی تھا، وہ حساسیت کا شکار نہیں حساس آدمی تھا
وہ میرا اربکان سناریو اینالسس کا آدمی تھا، حالات کے پورے منظر کو سامنے رکھتا اور اپنا خاکہ بناتا تھا. اسے کوئی جلدی نہیں تھی.
اس نے سارے کاموں کے بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھا کر نہیں رکھے تھے. وہ جانتا تھا کہ تقسیم اور تفویض کار distribution and delegation سے ہی ٹیمیں تیار ہوتی ہیں اور اسی طرح اردگان تیار ہوا تھا
میرا اربکان استاد تھا، قابل احترام استاد اور یہی وجہ تھی کہ اردگان نے استاد سے اختلاف کیا مگر احترام ایسا کیا کہ ایک لفظ استاد کے بارے میں نہ بولا اور پھر دنیا کے کیمروں نے وہ منظر محفوظ کر لیا کہ جب استاد دنیا سے رخصت ہوا تو اس کے دو شاگرد ، ملک کا صدر عبداللہ گل اور وزیر اعظم طیب اردگان ادب سے اس کے جنازے کو تھامے ہوئے تھے، افسردہ تھے، غمگین تھے، آنسو ان کی آنکھوں سے رواں تھے.
کوئی مجھے ایک اربکان لا دے
اور
سینکڑوں اردگان تیار لے لے.
تبصرہ لکھیے