ہوم << میاں صاحب! رکیے، حوصلہ کیجیے، کھیل ابھی باقی ہے - رضوان الرحمن رضی

میاں صاحب! رکیے، حوصلہ کیجیے، کھیل ابھی باقی ہے - رضوان الرحمن رضی

رضوان رضی ٹھہریے صاحب ٹھہریے! ایسا نہ کیجیے، سیاسی برداشت بھی کوئی چیز ہوتی ہے، آپ نے اسلام آباد کا ’’لاک اپ‘‘ اپنی انتظامی حکمت عملی سے ناکام بنا کر شاید وقتی طور پر اس مرحلے میں کامیابی حاصل کر لی ہے لیکن سیاست سے ہٹ کر بہت سی اخلاقی اور معاشرتی باتیں تو ابھی طے ہونا باقی ہیں، تو کیا ضروری ہے کہ اس وقتی فتح کے بعد ہارنے والے مخالف کو اس قدر کچلا جائے کہ مرتا دشمن آخری لڑائی کے لیے پوری قوت کے ساتھ پھر اٹھ کھڑا ہو اور حملہ آور ہو جائے؟ لیکن یاد رکھیے یہ تو ایک مرحلہ تھا، سنگِ میل تھا، منزل نہیں تھی، ابھی بہت سا کھیل باقی ہے۔ آپ نے جس طرح ریاست کی اندھی طاقت کو اپنی سیاسی بقاء کے لیے استعمال کیا، وہ آپ کا حق بھی تھا لیکن یہ سیاسی تاریخ کا حصہ رہے گی، لیکن صاحب! کامیاب لوگوں کے بھی کچھ تو لچھن ہوتے ہیں آپ کچھ ہاتھ ہلکا رکھیے، ایسا نہ کریں، اس قدر مذاق نہ اڑائیں، بگڑے بچوں پر طنز کے تیر نہ چلائیں، سماجی میڈیا پر نہ ہی سہی، دوسروں کو بھی جینے کا حق دیں۔ ورنہ وہ کیا وجہ ہے کہ آپ کے بنی گالہ والے گھر میں چل کر جانے کے باوجود بھی وہ ٹھیک دو ہفتے بعد آپ کے خلاف میدان میں نکل کھڑا ہوتا ہے؟
آپ کے چماٹ تو دن رات آپ کے بارے میں یہ کہتے نہیں تھکتے کہ ’’شیر نے سرور پیلس کے مراقبوں میں گذشتہ دور ہائے اقتدار کی غلطیوں سے بہت کچھ سیکھا ہے‘‘ لیکن ایسی کوئی بات بھی آپ کی ’بدن بولی‘ یا فیصلوں سے تو مترشح نہیں ہوتی۔ ویسے ہی بے ڈھنگے فیصلے اور وہی واہیات بیانیے؟ آپ کی پہلے والی حرکتوں اور شدید میڈیا ٹرائل نے ہی کپتان کو اس سطح پر گرنے پر مجبور کیا تھا کہ وہ تنگ آمد بجنگ آمد کہتے ہوئے لڑنے مرنے پر اتر آیا اور اسلام آباد کو لاک اپ کرنے کا اعلان کردیا۔ اب اگر اسے سیاسی طور پر سیاسی مخالفین کو اگر سانس لینے کی جگہ یا پھر بھاگنے کے لیے راستہ نہیں دیں گے تو وہ پھر چینی بلی کی طرح گلے کو آئیں گے۔
خاکسار اس بات کا داعی رہا ہے کہ مریم بی بی کی ذاتی زندگی کے حوالے سے کسی بھی قسم کی ناواجب بات نہ کی جائے جو کہ آج کل بگڑے انصافی بچوں کا شیوہ ہے کیوں کہ ان کی تربیت ہی خراب ہو گئی ہے۔ آپ کی اعلیٰ تعلیمی خدمات کے بدولت نجی تعلیمی اداروں میں لاکھوں روپے فیس کے نام پر دے کر ڈگریاں خریدنے والی اس مخلوق کو جب عملی زندگی میں اپنا کوئی مرئی یا غیر مرئی کردار نظر نہیں آتا تو ان کا آپ کے خلاف آپے سے باہر ہونا بنتا ہے۔ آپ کی صورت میں تعلیم اور تعلیمی نظام پر اترنے والے عذاب کے نتیجے میں معاشرے پر یہی تباہی ہونا تھی۔ جبکہ آپ کی ذہنی سطح یہ ہے کہ پنجاب کے کروڑوں بچوں کے لیے درجن بھر دانش سکول (دراصل ڈنمارک حکومت سے ان کے لیے رقم ملنے کے باعث یہ ’ڈینش سکول ‘ ہیں) بنا کر آپ کے بھائی مائیک گرانے کے فن کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں۔
اس بنا پر خاکسار کو ہر روز بگڑے انصافی بچوں کے ہاتھوں گالم گلوچ اور طعنوں کا سامنا بھی رہتا ہے کیوں کہ نوے کی دہائی کی سیاست میں بے نظیر بھٹو اور نصرت بھٹو (مرحومین) کی نجی زندگیوں کے بارے میں جو بےبنیاد بکواسیات کی گئیں اس کے نتیجے میں ہماری قومی زندگی میں جو تلخیاں در آئیں، ہم ووٹرز کی سطح پر آج تک ان کو ختم کرنے میں ناکامی کا شکار ہیں، اور نتیجہ یہ ہے ملک کی مختلف سیاسی اور معاشرتی اکائیوں کے درمیان شکر رنجیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔
آپ کے اذکارِ رفتہ میڈیا مینیجرز تو اخلاقیات کی تمام حدود ہی پار کر گئے ہیں۔ دراصل آپ تو اکیسویں صدی میں تشریف لے آئے ہیں لیکن آپ کا ذہن ابھی تک شاید پچھلی صدی میں ہی اٹکا ہوا ہے اور آپ ذہنی طور پر اسّی اور نوے کی دہائی والے سیاسی ماحول میں ہی سانس لے رہے ہیں۔ اب بھلا عین دھرنے کے آغاز کے ساتھ ہی عمران خان کی سابق اہلیہ کو قومی ادارے پاکستان ٹیلی ویژن پر لے کر بیٹھ جانے کی کیا منطق تھی؟ اس کا مطلب یہی تھا کہ آپ کے میڈیا مینیجرز گھٹیا پن کی اتھاہ گھاٹیوں میں اتر چکے ہیں۔ ماشاءاللہ آپ کی طرف سے تقرر کردہ چیئرمین پی ٹی وی اس پروگرام کے یکے از میزبان تھے، اس لیے اس بات کا دھیان کیے بغیر کہ موصوف کا پروگرام ہفتے کے آخری دنوں میں ہوتا ہے، اس پروگرام کی منصوبہ بندی خصوصی طور پر ہفتے کے درمیان عین منگل کے روز کے لیے کی گئی۔ اور پھر اس خاتون کے منہ سے ایسی ذومعنی باتیں نکلوائی گئیں کہ ہمارا پی ٹی وی کے بارے میں ایک فیملی ٹی وی ہونے کا خواب چکنا چور ہو گیا۔ ظاہر ہے کہ کوئی بھی خاتون اپنے سابق خاوند کی شان میں تعریف و توصیف کے ڈونگرے تو نہیں برسا سکتی ناں؟ پھر اس پر بھی دل نہیں بھرا تو اس کو اگلے دن کے مارننگ شو میں بلا لیا گیا اور وہی ’رات والی‘ باتیں دہرائی گئیں اور تادمِ تحریر اس پروگرام کو بار بار نشر کیا جا رہا ہے۔ حالاں کہ اگر یہی کام اگر آپ اپنے برادرِ خورد کے حوالے کر دیتے تو یہ کباڑ کب کا اس باب کو اپنے ہاں بند کر چکا ہوتا۔
جنابِ والا! پی ٹی وی ان آٹھ ارب روپے ماہانہ سے چلایا جاتا ہے جو میرے اور میرے جیسے ان شرفاء کے بجلی کے بل کے ساتھ اکٹھے کیے گئے پنتیس روپے ماہانہ کے ذریعے اکٹھا ہوتے ہیں، جوآپ کی رٹ کے خوف سے (بدقسمتی سے) بل ادا کرنے پر مجبور ہیں۔ آپ نے برسراقتدار آتے ہی 132 پسندیدہ لوگوں کو ایسے تقرر نامے جاری کیے جن کی تنخواہیں تین سے دس لاکھ روپے ماہانہ ہیں اور جن کے چہرے ان کے اپنے نجی ٹی وی چینلز پر تو نظر آتے ہیں لیکن یہ خواتین و حضرات ہمارے پی ٹی وی پر نظر نہیں آتے۔ ہم یہ برداشت کرتے رہے ہیں، محض اس لیے کہ اگر زرداری صاحب تین سو کے لگ بھگ جیالوں کی ایسی تقرریاں کر سکتے ہیں تو اتنی بڑی تعداد میں ایسے لوگوں کی تقرری تو آپ کا جبری حق ٹھہرا۔ لیکن اب ہو یہ رہا ہے کہ اس سرکاری ٹی وی سے اسلام کے بنیادی شعائر (یعنی عید الاضحی پر جانوروں کی قربانی) کے خلاف بھی مہم چلائی گئی اور ایسے ایسے دہریے بیٹھ کر نظریہ پاکستان پر درس دیتے رہے کہ جنہوں نے اپنی دہریت ثابت کرنے کے لیے اپنے والدین کی نماز ہائے جنازہ بھی ادا نہیں کی تھی۔
آپ کو حکومت کرنے کا مینڈیٹ یقیناً ملا ہے (اگرچہ یہ اقتدار بھی سال 2001ء کے آپ کی جلاوطنی کے معاہدے کا تتمہ ہے) لیکن ہم اس معاشرے کی مبادیات آپ کو تبدیل نہیں کرنے دیں گے۔ فیصلہ سازی کے عمل سے آپ بالکل عاری ہو چکے ہیں ورنہ عمران خان نے دھرنا تو آپ کے اقتدار میں آنے کے سوا سال بعد دیا تھا، ان پندرہ ماہ میں کوئی اہم ملکی فیصلہ جو آپ نے اقتصادی، سیاسی یا سفارتی محاذ پر کیا ہو اور اس پر قائم بھی رہے ہوں تو ہمیں ضرور بتائیے گا۔ کیوں کہ اس عرصے میں آپ کا گڈانی پاور پارک کا فیصلہ اور آپ کے برادرِ خورد کا نندی پور کا منصوبہ ایک مجرد ناکامی کے طور پر آپ کی حکومت کے منہ پر لکھے جا چکے ہیں۔
ایسے میں کیا ضروری ہے کہ عمران خان کی ناکام ازدواجی زندگی کا دھنڈورا ہمارے پیسوں سے چلنے والے قومی ادارے پر نشر کیا جائے؟ اگر کل کو کوئی دوسرا برسرِ اقتدار آ کر آپ کے دونوں بڑے بچوں کی ناکام ازدواجی زندگیوں کے بارے میں کچھ کہے گا تو کیا وہ مناسب ہوگا؟ عمران خان صاحب کے طریقِ سیاست سے اختلاف ہو سکتا ہے اور ہمیں بھی ہے۔ ہم اس کی قیمت بھی ادا کر رہے ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ ہماری آئندہ نسلوں کو ذہنی بانجھ پن میں مبتلا کردیں۔ ان کو تو ستر سال بعد پتہ چلا ہے کہ ان کے والد نے دراصل نمازِ جمعہ کا خطبہ دیتے ہوئے کیا کہا تھا؟
جس طرح ستر سال کی اوسط عمر والے ان ازکارِ رفتہ بڈھے میڈیا مینیجرز نے جو آپ کا انجام کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے، تو ان سے یہ بھی پوچھ لیں کہ اس سال بےنظیر کی برسی میں لاڑکانہ کے سٹیج پر بلاول بھٹو کے پہلو میں بیٹھ کر کس کی طرف بوسے اچھال رہے ہوں گے اور منہ میں دبئی سے بھیجی گئی زرداری کی الائچیاں ڈال رہے ہوں گے؟

Comments

Click here to post a comment