پچھلے چند ہفتوں سے وطن عزیز میں جاری سیاسی گرما گرمی نے اس ملک میں عام آدمی کی زندگی میں کوئی بہتری لانے کی بجائے اسے مزید اجیرن ہی کیا ہے۔ ویسے تو سیاسی جلسے جلوسوں سے اس مخصوص علاقے کے لوگ زیادہ متاثر ہوتے ہیں جہاں وہ عملی طور پر وقوع پذیر ہو رہے ہوں لیکن مجموعی طور سارے ملک کے عوام پریشانی کا سامنا کرتے ہیں۔
10 سے 12 فیصد ووٹ حاصل کر کے بننے والی عوام کی نام نہاد نمائندہ حکومت ہو یا اس بہتی گنگا کے فائدے سے محروم رہ جانے والی اپوزیشن جماعتیں، کسی کو بھی عوام الناس کے دکھ درد اور تکالیف کا ذرا سا بھی احساس نہیں ہوتا۔
اسی طرح عوام میں سے جو لوگ ان سیاسی لیڈروں کے سپورٹر ہوتے ہیں، ان کے لیے تو یہ لیڈر دیوتا کا درجہ حاصل کر لیتے ہیں۔ انکی کہی گئی ہر بات کو پورے یقین کے ساتھ من و عن قبول کر کے پھر اس کا ہر فورم پر دفاع کرنا اپنا فرض عین سمجھتے ہیں چاہے وہ سیاسی راہنما ذاتی کردار میں انتہائی برے کردار کا حامل ہی کیوں نہ ہو۔
نہ جانے کیوں ہم ان تعصبات کا آسانی سے شکار ہو جاتے ہیں کہ اپنی پسند کی سیاسی جماعت کے لئے اپنے قریبی رفقاء اور دوست احباب سے بھی کنارہ کشی اختیار کر لینے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ جتنے دیوانہ پن کا مظاہرہ ہم سیاسی جماعتوں کے لیے کرتے ہیں اگر اتنا ہی ہم اللہ اور اللہ کے رسول صل اللہ علیہ و سلم کے لیے کریں تو ولایت کا رتبہ پا جائیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سیاسی وابستگی جس مرضی جماعت کے ساتھ رکھیں لیکن اعتدال کا رویہ اپنائیں۔ کسی کی مخالفت میں اتنا متشدد نہ ہو جائیں کہ اسکی چھوٹی سی غلطی ہمیں پہاڑ جیسی لگے اور اپنے ممدوح لیڈر کے بلنڈرز بھی ہماری نظر سے اوجھل رہیں۔ پھر اس مخالفت کو اس حد تک نہ لے جایا جائے کہ اپنے قریبی حلقے بھی اس وجہ سے دور ہو جائیں۔
نظریات کی سیاست پرانے وقتوں میں ہوا کرتی تھی اب تو پیسہ بنانے کی سیاست رہ گئی ہے اللہ کرے کہ کوئی ایسا لیڈر اس ملک کو ملے جو اسکی ڈائریکشن سیدھی کر دے لیکن اس سے پہلے ہمیں اپنے دائرہ کار میں خود اپنے آپ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارا رویہ اور کردار ایک اچھے مسلمان اور ذمہ دار شہری کا ہونا چاہیئے۔
ایک چھوٹی سی مثال دوں گا جب ہم باتھ روم استعمال کرتے ہیں تو بعد میں پانی بہانے کی ذمہ داری اگلے آنے والے پر چھوڑ آتے ہیں اسی طرح کسی پارک میں فیملی یا دوستوں کے ساتھ کھانا کھا کر کچرا بجائے کسی قریبی کوڑادان میں ڈالنے کے اسی جگہ پھینک آتے ہیں اور ذرہ برابر بھی شرمندگی محسوس نہیں کرتے۔ اللہ کے بندو یہ شہر، یہ ملک بھی ہمارا ہی ہے اور ہم نے ہی اسے ٹھیک کرنا ہے اگر ہم اپنے ذمے اس طرح کے چھوٹے چھوٹے کام نہیں کریں گے تو پھر کون کرے گا۔ہر کام حکومت کے کرنے کا نہیں ہوتا۔ شہریوں کی بھی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنا فرض ادا کریں۔
ہمارے ایک استاد کہا کرتے تھے کہ تم پیسے کا حساب سیدھا رکھو گے تو روپوں کا حساب خود بخود سیدھا ہو جائے گا یعنی چھوٹی چھوٹی چیزوں کو درست سمت میں رکھو گے تو بڑے معاملات خود بخود ٹھیک ہوتے چلےجائیں گے۔ ہم میں سے ہر ایک اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے اپنے حصے کا کام کرنا شروع کر دے تو ان شاءاللہ ہم اس ملک کو پرامن اور پرسکون بنا سکتے ہیں۔
قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ اللہ تعالٰی اس قوم کی حالت اس وقت تک تبدیل نہیں کرتا جب تک وہ قوم خود اپنے آپ کو تبدیل نہ کر لے۔ علامہ اقبال نے اسی بارے کہا تھا۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
تبصرہ لکھیے