ہوم << عمران خان نے کیا پایا؟ محمد زاہد صدیق مغل

عمران خان نے کیا پایا؟ محمد زاہد صدیق مغل

زاہد مغل پی ٹی آئی کے مؤقف کے حامی احباب عمران خان کی پسپائی کو خوشنما دلیلوں کے ذریعے ”بڑی کامیابی“ دکھانے میں مصروف ہیں۔ چنانچہ کہا جارہا ہے کہ عمران نے اس سارے شور و غل سے اولا یہ حاصل کیا کہ وہ سب سے قدآور اپوزیشن لیڈر کے طور پر ابھر کر سامنے آیا۔ یہی بات تو ہم کب سے کہہ رہے ہیں کہ "چور مچائے شور" کا یہ سارا شور شرابا سیاسی دکان چمکانے کے لیے ہی ہے۔ نئی بات صرف یہ ہوئی کہ خود عمران کے حامی احباب نے بھی اس حقیقت کو قبول کرلیا کہ یہ بنیادی طور پر سیاسی شعبدہ بازی تھی جس کا مقصد اس دوڑ میں بلاول سے آگے رہنا ہے۔
دوسری بات یہ کہی جارہی ہے کہ اس شور و غل کے بعد گویا عمران نے وزیر اعظم کو خود کو احتساب کے لئے پیش کرنے پر مجبور کردیا، جبکہ یہ بات حقیقت کے خلاف ہے۔ پانامہ پیپرز کے بعد خود نواز شریف نے آزاد کمیشن کی تجویز دی، پھر اسمبلی کے فورم سے ٹی او آرز کی پیشکش کی جس پر کام ہوا۔ اس سب کے خلاف یہ کہا جارہا ہے کہ نواز شریف اپنی مرضی کے کمیشن اور ٹی او آرز بنوانا چاہتا تھا جو اب ممکن نہیں۔ یہ باتیں صرف ادھورا سچ ہیں کیونکہ یہ بات تو ایک معلوم حقیقت ہے کہ کسی مختلف فیہ قضیے میں ہر گروہ اپنے ہی حق میں بارگین کرنے کی کوشش کرتا ہے، یہ بات صرف ن لیگ ہی نہیں بلکہ پی ٹی آئی اور دیگر اپوزیشن جماعتو ں کے لئے بھی جوں کی توں درست ہے جو ”اپنی اپنی مرضی“ کے ایسے ٹی او آرز بنوانا چاہتے تھے جن میں ان کے نامزد ملزمان کسی نہ کسی طور بچ نکلیں۔ ٹی او آرز طے کرنے والی کمیٹی میں بذات خود اپوزیشن کے بعض کمیٹی ممبران کو پی ٹی آئی کے ٹی او آرز سے اتفاق نہ تھا جن کا مقصد ”اپنی اے ٹی ایم مشینوں“ کو صاف بچا کر احتساب کا پھندہ صرف نواز شریف کے گلے تک محدود کیا جانا تھا۔ اس اختلاف کے بعد حکومت نے اسی وقت یہ پیشکش کی تھی کہ ان ٹی او آرز کو عدالت عظمی میں بھیج دیتے ہیں کہ وہ انہیں طے کردے، مگر پی ٹی آئی نہیں مانی کیونکہ عمران خان کا مقصد پہلے دن سے کچھ اور ہی تھا۔ اس کے بعد اس معاملے پر ڈیڈ لاک ہوا اور عمران خان نے اسلام آباد لاک ڈاؤن کرنے کی کال دی لیکن عوام کی طرف سے ایک مرتبہ پھر مسترد کردئیے جانے کے بعد انہوں نے فیس سیونگ کے لئے عدالت کا رخ کیا جہاں انہیں عین اسی بات کو ماننا پڑا کہ ٹی او آرز عدالت طے کرلے۔ اپنے مؤقف کی اس پسپائی کو ”یوم تشکر“ میں بدل کر انہوں نے اپنے کارکنان کے دل کا غم ہلکا کردیا۔ چنانچہ بات صرف یہ نہیں ہے کہ اب حکومت کی مرضی کے ٹی او آرز نہیں بنیں گے بلکہ یہ بھی ہے کہ اب عمران خان کی مرضی کے ٹی او آرز بھی نہیں بنیں گے جنہیں منوانے کے لئے وہ ایڑھی چوٹی کا زور لگا کر یہ سب شور و غل کر رہے تھے۔
خود عمران خان کے خلاف الیکشن کمیشن اور عدالت میں اپنے اثاثوں میں خردبرد سے متعلق کیسز دائر ہیں مگر دوسروں سے احتساب مانگنے والے "انصاف کے یہ چمپئین" ان کا جواب دینے کی زحمت گورا نہیں کرتے۔ اوپر اوپر سے یہ کہتے پھرتے ہیں کہ ”سب سے پہلے میرا احتساب کرو“ اور جہاں کیس لگا ہوا ہے وہاں یہ تاریخ پر جاتے نہیں۔ ہمیں اس بات پر دلی خوشی ہوگی کہ نواز شریف کے ساتھ ساتھ عمران خان اور ان کی اے ٹی ایم مشینوں کا بھی احتساب ہو تاکہ دنیا کو معلوم ہو کہ احتساب کا نعرہ لگانے والے یہ محتسب خود کتنے ”صاف“ ہیں۔ پاکستان میں یہ نظارہ شاید لوگوں نے پہلی مرتبہ دیکھا ہوگا کہ حکمران سے آف شور کمپنیوں کا حساب مانگنے کے لیے کے پی سے آنے والوں میں وہ لوگ شامل تھے جن کے اپنے نام پانامہ پیپرز میں شامل ہیں، لاہور سے وہ آنے کا عندیہ دیتے رہے جن کی اپنی آف شور کمپنیاں ہیں، حساب مانگنے والوں میں خود بنی گالہ میں بیٹھے لیڈر کے دست راست وہ تھے جو خود آف شور کمپنی کا اقرار کرچکے ہیں، اور تو ان حساب مانگنے والوں کے خود لیڈر صاحب وہ تھے جو پاکستان میں آف شور کمپنیوں کے بانی ہیں۔ ”حساب دو حساب دو“ کا شور مچا کر یہ ہنگامہ آرائی کرنے والے اگر سراج الحق صاحب ہوتے تو چلیں کم از کم یہ تو کہا جاسکتا تھا کہ انہیں بہرحال اس کا اخلاقی جواز حاصل ہے، لیکن دس نامزد چوروں میں سے اگر کچھ چور ایک کے خلاف، جو محض اتفاق سے اس وقت حکمران ہے، ”حساب دو حساب دو“ کا یہ غل غپاڑہ کر رہے ہوں تو انسان بس حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔
چنانچہ اس پورے شور و غل میں عمران خان پوری طرح ایکسپوز ہو کر سامنے آگئے کہ اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے یہ فساد برپا کرنے کی حد تک جاسکتے ہیں، وہ تو خدا کا شکر ہے کہ عوام نے ان کی غیر قانونی کال کو مسترد کردیا وگرنہ خدانخواستہ اگر انہیں اسلام آباد میں چند ہزار لوگ دستیاب ہوجاتے تو یہ اس عدالت کا کبھی رخ نہ کرتے جسے یہ پہلے ہی ٹھکرا چکے تھے۔ یہ بات بھی بالکل کھل کر سامنے آگئی کہ اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لیے یہ صوبائیت کا کارڈ کھیل کر حکومت کو بلیک میل کرنے کی حد تک بھی جاسکتے ہیں۔ یہ رویہ انتہائی حد تک شرم ناک تھا مگر عمران خان اور اس کے وزیر اعلی نے ایک مرتبہ بھی اس پر قوم سے معافی مانگنا گوارا نہ کیا۔ ماضی میں عوام کو لاقانونیت پر ابھارنے والے اس لیڈر کا چہرہ لوگ پہلے ہی بھانپ چکے تھے، اس مرتبہ صرف اس کی تائید ہوگئی ہے۔

Comments

Click here to post a comment