ہوم << یہ سراج الحق اب اور کیا کرے؟ زبیر منصوری

یہ سراج الحق اب اور کیا کرے؟ زبیر منصوری

زبیر منصوری ہم کریں بات دلیلوں سے تو رد ہوتی ہے
ان کے ہونٹوں کی خاموشی بھی سند ہوتی ہے
سراج الحق کرپشن کو ہدف بنائے،
اس کے لیے اس وقت منصوبہ بندی کرے جب کسی کے وہم و گمان میں نہ ہو،
اپنے سالانہ تنظیمی منصوبہ عمل میں کرپشن پر مہم کو شامل کرے، سال بھر کیا، کرپشن کے خاتمے تک کےلیے تحریک کی جزئیات طے کرے اور پھر اپنی پوری تنظیم کو اس کے حصول پر لگا دے،
سراج الحق کرپشن فری پاکستان کےلیے ٹرین مارچ کرے، جلسے جلوس اور سیمینار کرے،
سراج الحق کرپشن مکاؤ پاکستان بچاؤ کا اعلان کرے، سڑکوں پر اس کےلیے مارچ کرے،
سراج الحق خود امانت و دیانت کا نمونہ ہو، اسے بہترین فنانشل مینجمنٹ اور ایمانداری کے ایوارڈ ملیں،
اس کے کارکن وزراء کرپشن سے دور رہیں، دوسری جماعت کے سربراہوں سے ستائش اور شاباش پائیں،
وہ کرک میں کرپشن پر ضرب لگائے یا کراچی میں اس کے خلاف اعلان جہاد کرے،
وہ کرپشن کے ناسور کے خلاف دھرنے دے یا بار رومز میں جا کر چیخے اور چلائے،
وہ کرپشن کے خلاف سب سے پہلے سپریم کورٹ جائے یا کالی پٹیاں باندھے،
اس کی ساری دلیلیں رد ہوں اور کوئی ابھی ہونٹ بھی نہ کھولے تو خبر پہلے بن جائے؟
کوئی اپنے دائیں بائیں کرپٹ لوگوں اور ضمیر فروشوں کو لے کر کھڑا ہو جائے تو کوئی اسے متوجہ کرنے کو بھی گناہ سمجھے،
تمہی کہو یہ انداز گفتگو کیا ہے؟
میڈیا اپنا اعتبار کھو رہا ہے، ڈیٹا بتا رہا ہے کہ آنے والی نسل ٹی وی سے سوشل میڈیا کی طرف منتقل ہو رہی ہے، الیکٹرونک سے ڈیجیٹل کی طرف رجوع بڑھتا جا رہا ہے،
پھر تیرا کیا بنے گا میڈیا؟
یاد رکھنا میڈیا گرد کا طوفان اٹھا کر زیادہ لوگوں کو کچھ دیر تک دھوکہ تو دے سکتا ہے اور کچھ لوگوں کو زیادہ دیر تک بھی دھوکہ میں رکھ سکتا ہے مگر وہ زیادہ لوگوں کو زیادہ عرصہ تک دھوکے میں نہیں رکھ سکتا.
حال کا لکھنے والا چاہے جو بھی لکھے، وقت کا بے رحم مورخ جب سچ لکھے گا تو وہ سراج الحق کو دیانتداری کا پیمانہ قرار دے گا، وہ سراج الحق کو ان لوگوں میں شامل کرے گا جو دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں.
وہ لکھے گا کہ جب سراج الحق اور ایک سراج صاحب پر ہی کیا موقوف ہزاروں دیانتداروں پر مشتمل ایک گروہ موجود تھا، اس وقت اس بد نصیب قوم نے اپنے لیے شریفوں زرداریوں اور ترینوں کا انتخاب کیا تھا.
مؤرخ کے ہاتھ اس وقت کپکپا جائیں گے اور اس کی آنکھیں بھیگ جائیں گی، جب وہ دریافت کرے گا کہ سراج الحق کی ٹیم میں وہ نعمت اللہ خان بھی موجود تھا جس نے ساری نظامت کے اختتام پر ایک چیک کاٹ کر ساری تنخواہ صدقہ کر دی تھی اور ایسے دامن جھاڑ کر گھر چلا گیا تھا جیسے منصب و اختیار اور مال و اسباب نہ ہوں کوئی بلا ہو،
مؤرخ اس عنایت اللہ خان کو بھلا کیسے بھولے گا جسے اس کی ایمانداری پر اس کا وزیراعلی ہر اہم اصلاحاتی کمیٹی کا سربراہ بنا کر مطمئن ہو جاتا تھا، جس کی سربراہی میں پولیس، احتساب، بلدیات اور اس جیسے دیگر کئی اصلاحات تجویز اور عمل سے ہمکنار ہوتی تھیں، اور اس کا نام کیا لینا، اس کے کام پر دوسرے اپنی مہر لگا دیتے تھے مگر وہ پھر بھی خدمت کےلیے ہر دم مستعد رہتا تھا.
میری دعا ہے کہ سراج الحق میرا امیر میرا قائد میرا ہمدرد و غمخوار قائد اپنی بے نیازی پر قائم رہتے ہوئے اپنی پارٹی کے غیر معمولی کردار کا پرچارک کر سکے۔
کیونکہ سب کو اپنا ڈھول خود پیٹنا ہوگا کوئی کسی کا ڈھول نہیں پیٹے گا.

Comments

Click here to post a comment