اس وقت صورتحال یہ ہے کہ میاں نواز شریف صاحب نے پاکستان کے انتخابی نظام میں موجود خامیوں کو پوری طرح سمجھ لیا ہے اور وہ اس پوزیشن میں آ چکے ہیں کہ الیکشن Manipulate کر کے اپنی حکومت قائم کرسکیں۔ انہیں پنجاب کے مخصوص شہروں سے ہی اتنی نشستیں مل جاتی ہیں کہ وہ صوبے کے دیگر حصوں سے تھوڑے سے مفاد پرست سیاست دانوں کو ملا کر حکومت بنا سکتے ہیں۔ اگر کوئی کمی بیشی ہو جائے تو آزاد امیدواروں کی بڑی تعداد کاسہ گدائی ہاتھ میں تھامے ان کے در پر بیٹھی ہوتی ہے۔
1985ء سے پنجاب پر ان کے خاندان کی حکمرانی ہے، جس کی وجہ سے یہاں کے دانشوروں کی ایک بڑی کھیپ وہ خرید چکے ہیں۔ بیوروکریسی ان کے انگوٹھے کے نیچے تڑپ تڑپ کے نیم جان ہو چکی، عدلیہ میں ان کے ممنون احسان لوگوں کی شمولیت کئی دہائیوں سے مسلسل جاری ہے۔ یہی لوگ آگے جا کر ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے ججز بنتے ہیں۔ یہ تمام عناصر مل کراس پنجابی اشرافیہ کی تشکیل کرتے ہیں جس سے جنوبی پنجاب اور ملک کے تین دوسرے صوبوں میں شدید نفرت کی جاتی ہے۔ اشرافیہ کے اس گروہ میں سرمایہ داروں کو بھی شامل کرلیں تو یہ ایک بہت طاقتور مافیا بن جاتا ہے جس کے لیے نواز شریف کے حق میں انتخابی نظام ہائی جیک کر لینا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔
تاہم اشرافیہ کا یہ کلب صرف اتنا ہی نہیں کرتا بلکہ نواز شریف کی حکومت کے اردگرد ایک طاقتور حصار بھی قائم کر لیتا ہے۔ یہ حصار ایک کثیرالسطحی (Multi-layered) نظام ہے۔ ہرسطح حکومت پر ہونے والے وار خود پہ سہتی ہے جس کی وجہ سے حملہ آور حصار کی ہر دیوار پر اپنی توانائیاں خرچ کرتے کرتے جب آخری سطح تک پہنچتا ہے تو نیم جان ہو چکا ہوتا ہے۔ اس حصار کا پہلا دائرہ بیوروکریسی ہے جو شہر اور قصبے کی سطح پر طاقتور برادریوں کو اپنے ہاتھ میں رکھتی ہے۔ دوسری سطح پولیس کی ہے جس کے ذریعے مخالفین کی سرکوبی کی جاتی ہے۔ اس نظام کی سب سے آخری سطح عدلیہ ہے جو اس وقت میدان عمل میں آتی ہے جب حملہ آور اپنی توانائیاں خرچ کر کے واپسی کا باعزت رستہ مانگ رہا ہوتا ہے۔ پچھلے دھرنے میں عمران خان نے اس سطح کو بھی روند ڈالا تھا لیکن اس وقت تک اس کا غنیم اس قدر نڈھال ہو چکا تھا کہ نواز شریف پر آخری حملہ کرنے کی طاقت ہی نہیں بچی تھی۔
نوازشریف نے بھی مارٹن لوتھر کی طرح تمام عمر ایک خواب دیکھا ہے مگر اس کی نوعیت یکسر مختلف ہے۔ وہ ہر صورت فوج کو ایک مغلوب حالت میں اشرافیہ کے اس کلب کا حصہ بنانا چاہتا ہے۔ اسے بخوبی معلوم ہے کہ جونہی فوج اس کی گرفت میں آ گئی، اس کے خاندان کو اگلی کئی نسلوں تک حکمران رہنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ باقی صوبے جتنے بھی ناراض رہیں، فوج کے ذریعے انہیں اپنی اوقات میں رکھنا ممکن ہو جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ اسے چیلنج کرنے والا کوئی بھی ادارہ باقی نہیں رہے گا۔ اس کے برعکس فوج یہ سمجھتی ہے کہ وہ خود اشرافیہ کے اس کلب کا حاکم بننے کا حق رکھتی ہے۔ اقتدار کے کیک کو وہ بطور ایک غالب فریق کے کھانا چاہتی ہے۔ اسے کوئی اعتراض نہیں کہ اس کیک کے کچھ ٹکڑے نوازشریف اور باقی ادارے لے جائیں۔ اقتدار کی غلام گردشوں میں جاری اس کشمکش کی شاخسانے مسلسل ہمارے سامنے احتجاجی تحریکوں کی صورت میں آتے رہتے ہیں۔
نواز شریف کے اس سارے ماڈل میں ایک اہم خامی ہے۔ اقتدار کے کھیل میں شامل دیگر سیاست دان یہ جانتے ہیں کہ انتخابی نظام کی خرابیاں انہیں کبھی اقتدار میں نہیں آنے دیں گی۔ وہ نہ ہی طویل عرصہ سے پنجاب پر حکمران رہے ہیں جس کی وجہ سے بیوروکریسی ان کے حق میں کام کرے اور نہ ہی عدلیہ میں اپنے لوگ شامل کرا سکے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ اقتدار میں آنے کے چور رستے تلاش کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نواز شریف کا دور اقتدار کبھی بھی پرسکون نہیں ہوتا۔ دیگر سیاست دان فوج سے ہاتھ ملا لیتے ہیں اور حکومت کو مسلسل دباؤ میں رکھتے ہیں۔ نواز شریف پر جب بہت دباؤ آجائے تو وہ فوج سے سمجھوتہ کر لیتا ہے جبکہ باقی سیاست دان صرف وعدہ فردا پر ہی ٹرخا دیے جاتے ہیں۔
عمران خان کی پارلیمنٹ سے بےزاری اور فوج کی طرف واضح رجحان اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ انتخابی نظام سے اپنی امیدیں ختم کر بیٹھا ہے، تاہم چونکہ وہ خود سر انسان ہے، اس لیے فوج اسے حکومت میں لانے سے ہچکچاتی ہے۔ یہ بات اب یقینی نظر آتی ہے کہ فوج اور نواز شریف ایک فیصلہ کن جنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ شاید عمران خان اسی وقت کا منتظر ہے جب اس جنگ کا فائنل راؤنڈ شروع ہو اور اسے اقتدار کی غلام گردشوں میں داخل ہونے کا موقع مل سکے۔
میں اکثر سوچتا ہوں کہ اگر نواز شریف کی جگہ کوئی مدبر سیاست دان اقتدار میں ہوتا تو وہ انتخابی نظام کو شفاف بنانے کی کوشش کرتا اور اداروں کو خودمختاری دیتا تاکہ اقتدار کے دیگر کھلاڑیوں کے پاس اپنی قسمت آزمائی کے لیے ایک ایسا میدان موجود رہے جہاں وہ اپنی کارکردگی کی وجہ سے میچ جیت سکیں۔ اس سے غیر ضروری جھگڑے پیدا نہ ہوتے اور ملک ترقی کی جانب گامزن رہتا۔ لیکن شاید ابھی ایک لمبا انتظار ہمارے نصیب میں لکھا ہے۔ اس وقت تک اس ساری کشمکش کو میں جمہوریت کا نام دینے سے گریزاں ہی رہوں گا۔
تبصرہ لکھیے