انسان کو اپنی زندگی کی ابتدا سے اختتام تک مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یہ فطری امر ہے کوئی بھی انسان اس سے مستثنی نہیں، اس حقیقت کو اللہ نے قرآن میں ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے ترجمہ ”یقینا ہم نے انسان کو (بڑی) مشقت میں پیدا کیا ہے.“ (البلد:4)
یعنی تکالیف تو لازما آئیں گی، یہ اس امتحانی زندگی کا لازمی حصہ ہیں.
اب مشکلات کو دیکھنے کے دو نظریے ہیں، ایک غلط اور دوسرا صحیح.
غط نظریہ تو یہ ہے کہ انسان اسے اپنے حق میں برا سمجھے، جب انسان اسے اپنے حق میں برا سمجھتا ہے تو وہ زندگی سے ناراض ہونے لگتا ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ سے بھی ناراض ہو جاتا ہے.
یہ منفی سوچ اس کے اندر کی صلاحیتوں کو کھانے لگتی ہے اور اس کی صلاحیتوں کو گھن لگا دیتی ھے اور بلآخر وہ اس کے ایمان کو کمزور کرتے کرتے اس کے جسم کو بھی کمزور کر دیتی ہے-
دوسرا نظریہ مسائل کو اللہ کی رحمت کے روپ میں دیکھنے کا ہے، حدیث میں آتا ہے کہ ”اللہ جب کسی قوم کو دوست رکھتا ہے تو اسے بلاؤں میں مبتلا کرتا ہے.( ترمذی)“
یہ ایک بہت بڑی حقیقت ہے کہ اکثر انسان معمول کے حالات میں اپنے اندر کی چھپی صلاحیتوں کا ادراک نہیں کر پاتے نہ انھیں استعمال کرتے ہیں، یہ مشکلات انسان کی خوابیدہ صلاحیتوں اور قوتوں کو بیدار کرتی ہیں. ایک مفکر کا قول ہے کہ ”اگر مشکلات نہ ہوتیں تو دنیا بےحس انسانوں کا قبرستان ہوتی.“
یہی وجہ ہے کہ دنیا میں جتنے لوگوں نے غیر معمولی ترقی کی انھوں نے اپنی زندگی میں بے پناہ رکاوٹیں اور مسائل دیکھے.
سورہ الکہف میں موسی علیہ السلام اور خضر کے واقعے میں جو واقعات ظاہر کے اعتبار سے موسی علیہ السلام کو بہت ناگوار لگے، وہ اپنی اصل کے اعتبار سے اللہ کی رحمت کا ظہور تھے.
اسی لیے اللہ نے قرآن میں تاکید سے فرمایا ”فان مع العسر یسرا“ ( پس یقینا مشکل کے ساتھ آسانی ہے ) پھر اگلی ہی آیت میں یہ آیت دہرائی، حضرت ابن مسعود رض یہ آیات تلاوت کر کے فرماتے ”لن یغلب عسر یسرین“ یعنی ایک تنگی دو آسانیوں پر ہرگز غالب نہیں آ سکتی. عرب کا قاعدہ ہے کہ جب ایک دفعہ نکرہ بول کر پھر دوبارہ اسی نکرہ کو لائیں تو وہ دو نکرہ ہو جاتے ہیں اور جو معرفہ دوبارہ ذکر کریں تو وہ وہی ایک چیز رہتی ہے.
اب یہاں ”یسرا“ آسانی تو نکرہ ہے اور ”عسر“ تنگی معرفہ تو تنگی تو دونوں آیات میں ایک ہی رہی جبکہ آسانی بدل گئی..
حدیث میں آتا ہے کہ
”مدد صبر کے ساتھ ہے، کشادگی تکلیف کے ساتھ ہے اور تنگی کے ساتھ آسانی ہے اور اسی تنگی کے ساتھ ایک اور آسانی ہے.“ (مسند احمد: 2666, صحیح)
جس کا مطلب ہے کہ ہر تنگی کے ساتھ دو آسانیاں تو لازمی ملتی ہیں، یہ ہماری تنگ دلی اور کوتاہ نظری ہوتی ہے کہ ہماری نظر صرف تنگی پر رہتی ہے، مشکلات ہمیں سنوارنے آتی ہیں نا کہ بگاڑنے کو.
اپنا نظریہ بدلیں، دنیا بدل جائے گی-
اور آخر میں ضروری بات کہ آزمائشیں کبھی مانگنی نہیں چاہییں، اللہ کو عافیت کی دعا سب سے زیادہ پسند ہے-
تبصرہ لکھیے