ہوم << کالا باغ ڈیم اور اعتراضات :عبدالرؤف سمرا

کالا باغ ڈیم اور اعتراضات :عبدالرؤف سمرا

آج کل سننے میں آرہا ہے کہ کالا باغ ڈیم کو دوبارہ بنانے کی باتیں کی جا رہی ہیں ۔ بہت سے لوگوں کے منہ سے سننے میں آیا ہے کہ نواز خکومت کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے سنجیدہ ہے۔ اگر ایسا ہے تو یہ بات خوش آئند ہے۔ کالاباغ ڈیم ملکی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے انتہائی ناگزیر ہے۔ لیکن بدقسمتی سے یہ منصوبہ 1953ء سے آج تک سیاسی شعبدہ بازوں کی مفادپرستی کا شکار ہوتا آیا ہے۔ ہر حکومت کے دور میں کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا ایشو اٹھایا جاتا ہے مگر پھر مفاد پرستی آڑے آجاتی ہے۔کالاباغ ڈیم کو تعمیر کرنے کا منصوبہ 1953ء میں بنایا گیا تھااور یہ دریائے سندھ پر تربیلا ڈیم سے 120میل گہرائی کی طرف کالا باغ کے مقام سے صرف 12 میل کی دوری پر بنایا جانا تھا۔ کالا باغ ڈیم کو اس لئے بھی بنایا جانا تھا کہ اس کی مدد سے دریائے سندھ کے پانی کو قابو کیا جا سکے۔اور اس سے زرعی مقاصد اور توانائی کی ضرورت کو پورا کیا جا سکے۔ کالا باغ ڈیم کا منصوبہ قومی معیشت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت کا حامل ہے۔ اس منصوبہ پر ابتدائی طور تحقیقاتی کام 1953ء میں شروع کیا گیا تھا۔
بڑی محنت لگن اور جستجو کے بعد ہمارے ماہرین نے 1975ء میں اس عظیم منصوبے کے لئے کالا باغ کے قریب کی جگہ کا انتخاب کیا تھا۔منصوبہ بہت بڑا تھا اور حکومت پاکستان کے پاس فنڈز کی کمی تھی اور قومی معیشت کے لئے منصوبہ ضروری بھی تھا اس فنڈز کی کمی کو پورا کرنے کے لئے 1982ء میں اقوام متحدہ سے رجوع کیا گیا۔ اقوام متحدہ کے ادارے (UNDP)نے کالا باغ ڈیم کی رپورٹ تیار کرنے کے لئے فنڈ فراہم کیا ۔ اس کے بعد رپورٹ کی تیاری کا کام شروع ہوا اور کئی ملکی اور غیر ملکی ماہرین نے مل کر تقریبا ً سات سال کی عرق ریزی کر کے ایک ارب دس کروڑ روپے کی لاگت سے رپورٹ تیار کی جو بالآخر جون 1988ء میں مکمل ہوئی۔
اس وقت کے ملکی اور غیر ملکی ماہرین نے اس منصوبے کو ملک پاکستان کے لئے نہایت مفید قرار دیا تھا اور پاکستان کی ترقی کے لئے اس منصوبے کوخوب سراہا تھا۔کالا باغ ڈیم کے منصوبے کی وجہ سے پاکستان کی عالمی فورم پر خوب شاوابھی ہوئی تھی۔ ملکی وغیر ملکی ماہرین کی رپورٹ کے مطابق یہ منصوبہ چھ سال کی قلیل مدت میں تیار ہونا تھا اور اس منصوبے پر 128 ارب روپے لاگت آنی تھی۔ماہرین کا اندازہ تھا کہ اس منصوبے کی تکمیل سے پاکستان کو سالانہ 33ارب20کروڑ روپے کی آمدنی متوقع تھی۔ اور اس منصوبے کی بدولت حاصل ہونے والی بجلی سے سالانہ تقریباً 25ارب روپے زر مبادلہ کمایا جاسکتا تھا۔ کالاباغ ڈیم منصوبے کے مطابق ڈیم کے دو سپل وے تعمیر کئے جانے تھے اور ہر ایک سپل وے کے دس درے ہونے تھے اور ہر ایک سپل وے سے تقریباً 12لاکھ کیوسک فٹ پانی کے اخراج کی گنجائش رکھی گئی تھی۔کالا باغ ڈیم کا منصوبہ ایک کثیرالمقاصد منصوبہ تھا اس سے نہ صرف زراعت کے میدان میں ترقی کے مواقع ملتے بلکہ بجلی کی بھی بھاری مقدار حاصل ہونی تھی اور یہ ملک کا پہلابرقی توانائی منصوبہ ہونا تھاجس کی بدولت ملک پاکستان کو بجلی کی لوڈشیڈنگ سے نجات مل جاتی۔کالاباغ ڈیم کی تعمیر سے 35سے 40ہزار لوگوں کو روزگار کے مواقع میسر ہونا تھے۔
کالاباغ ڈیم سے جو بجلی پیدا ہوتی وہ پاکستان کی موجودہ بجلی پیدا کرنے کی استعداد سے دوگنی ہوتی۔لیکن کچھ مفاد پرست حکمرانوں نے مخالفت برائے مخالفت کی پالیسی اپنا کر اس منصوبے کو سیاست کی بھینٹ چڑھادیا۔کالا باغ ڈیم منصوبے کی جونہی رپورٹ مکمل ہوئی اسے سیاسی بنیادوں پہ تنقید کا نشانہ بنایا جانے لگا۔کالاباغ ڈیم کے منصوبے پر کئی اعتراض کئے گئے جس کی وجہ سے یہ منصوبہ التوا کا شکار ہوتا گیا۔کالاباغ ڈیم کے منصوبے پر سیاسی مفاد پرستوں نے یہ اعتراض کیا کہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر سے نوشہرہ ڈوب جائے گا حالانکہ کالاباغ ڈیم کی جھیل میں زیادہ سے زیادہ پانی بھر جانے کی صورت میں بھی جھیل کا پانی نوشہرہ سے 16میل دور نیچے کی طرف ہونا تھا یہ بھی اعتراص تھا کہ ڈیم کی تعمیر سے صوابی ‘ مردان ‘پبی اور نوشہرہ کی زرعی اراضی سیم کا شکار ہوجائے گی جبکہ ڈیم کی جھیل کی عمومی بلندی سطح سمندر سے 525فٹ ہے اور زیادہ سے زیادہ 915فٹ ہوگی جب کہ مردان کی زمین سطح سمندر سے 970 فٹ ‘ پبی کا علاقہ962فٹ اور صوابی 1000فٹ بلند ہے یعنی جھیل کی سطح ان علاقوں سے 50سے100فٹ نیچے ہوگی اور پانی کے بہاؤ کا قدرتی اصول ہے کہ پانی کبھی اونچائی کی طرف نہیں بہہ سکتااس طرح یہ اعتراص بھی ان کا فضول ہے۔ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے لاکھوں ایکڑ قابل کاشت اراضی اور ہزاروں افراد متاثر ہوں گے۔یہ بات بھی ان کی کسی صورت درست نہ تھی۔ ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ ڈیم کی تعمیر سے 85 ہزار افراد متاثر ہوں گے حالانکہ اس سے قبل منگلا اور تربیلا بند کی تعمیر سے بے گھر ہونے والے افراد کی آبادکاری کا جان جوکھوں کا کام مکمل کیا جاچکاہے۔ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ سرحد اور پنجاب کے لئے جن نہروں کی تجویز ہے ان کے باعث سندھ کو نقصان ہوگا۔ ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ کالاباغ ڈیم کی جگہ تھرمل بجلی گھر کیوں تعمیر نہیں کئے جاتے۔یہ بھی اعتراض تھا کہ کالا باغ ڈیم کی جگہ بھاشا ڈیم تعمیر کیا جانا چاہئے۔
یہ تمام اعتراضات صرف اور صرف سیاسی عناد اور مخالفانہ پالیسی کے حامل ہیں۔جب کہ اس کے برعکس یہ منصوبہ فنی اور اقتصادی اعتبار سے ہر طرح سے قابل عمل ہے۔اگر عالمی بنک جیسا بین الاقوامی معتبر ادارہ بھی اس منصوبے کو قابل عمل قرار دیتا ہے تو پھر سیاسی شعبدہ بازوں کو اس پر مخالفت زیب نہیں دیتی۔لہذا مسلم لیگ کی حکومت کو چاہئے کہ ان تمام اعتراضات کو بالائے طاق رکھ کر اس منصوبے کی تعمیر پر فی الفور کام شروع کرادے تاکہ مسلم لیگ نواز کا نام تاریخ میں ہمیشہ زندہ وجاوید رہ جائے۔