ہوم << حصول انصاف کا 20سالہ سفر - ماجد عارفی

حصول انصاف کا 20سالہ سفر - ماجد عارفی

’’کفر پر مبنی معاشرہ قائم رہ سکتا ہے مگر ظلم پر مبنی معاشرہ قائم نہیں رہ سکتا۔‘‘ یہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا وہ سنہری قول ہے جو ہماری آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے۔ گزشتہ دنوں ایک خبر سے ہمارے عدل و انصاف کے نظام کی قلعی کھل گئی۔ مظہر حسین نامی (جو اس نظام کے بھینٹ چڑھ کر اب مرحوم ہوچکا ہے) کو انصاف ملا بھی تو تب جب اسے قبر کی آغوش میں گئے ہوئے 2سال کا عرصہ بیت چکا۔ خبر کے مطابق مظہر حسین1997 سے دفعہ 302 کے مقدمہ میں جیل میں تھا۔ اس کے گھر والے ڈسٹرک کورٹ، ہائی کورٹ کی راہداریوں میں انصاف کی بھیگ مانگتے مانگتے 13سال بعد 2010ء میں سپریم کورٹ کی چوکھٹ پر پہنچے۔ اعلیٰ عدلیہ میں انصاف کی راہوں کو تکتے اہل خانہ کو 6سال بیت گئے۔ تب کہیں جاکر انہیں انصاف ملااور مظہر حسین کو ’’باعزت‘‘ بری کردیا گیا۔ لیکن دوسری طرف کی حقیقت یہ ہے کہ ملزم مظہر حسین دوسال قبل 2014 میں ہی انصاف کی بھینٹ چڑھتے ہوئے آخرت کی طرف سدھار گیااور اس عدالت میں پہنچ گیا جہاں کسی پر ذرہ برابر ظلم نہ ہوگا۔ ہمارے جوڈیشل نظام میں ایسی کہانیاں بھی زبانوں پر ہیںکہ دادا کے دائر کیے ہوئے کیس کا انصاف پوتے کو ملا۔ یعنی انصاف کے حصول کے لیے ایک نسل کے بعد دوسری نسل کو انتظار کرنا پڑا۔
نرم سے نرم الفاظ میں بھی اگر مظہر حسین والے واقعہ کی مذمت کی جائے تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ یہ اور اس طرح کے واقعات ہمارے نظام عدل کے منہ پرطمانچہ ہیں۔ اس واقعہ اگر فراموش بھی کر دیا جائے تو ہمارے اجتماعی ضمیر پر کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ مسئلہ مگر یہ ہے ایسے نہ جانے کتنے ہی مظہر حسین جیلوں میں پڑے انصاف کے منتظر ہیں۔ کوئی شک نہیں کہ تمام کے تمام بے قصور نہیں ہوں گے مگر قصور وار ہوتے ہوئے بھی یوں انہیں انتظار کی سولی پہ لٹکائے رکھنا ہمارے انصاف کے اداروں پر ایک سوالیہ نشان ضرور ہے۔
ہمارے ایوان ہائے عدل میں اس تیزی سے مقدمات نمٹائے نہیں جاتے جس تیزی سے مقدمات درج ہوتے ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کی عدالتوں میں مجموعی طور پراٹھارہ لاکھ کے قریب مقدمات زیر التوا ہیں۔ سپریم کورٹ میں زیرالتوا مقدمات کی تعداد 20480،اسلام آباد ہائی کورٹ میں13387، لاہور ہائی کورٹ میں 154000، سندھ ہائی کورٹ میں 66475،پشاور ہائی کورٹ میں 26716، بلوچستان ہائی کورٹ میں 4923کیس زیر التوا ہیں۔ یہ تو صرف صوبوں کی ہائی کورٹس میں زیر التوا مقدمات ہیں۔ اگر ڈسٹرک کورٹس کی بات کی جائے تو معاملہ اور بھی گھمبیر ہوتا چلا جاتا ہے۔
حصول انصاف کے 19، 20سالہ سفر کی کہانیوں کو روکنے کے لیے جلد انصاف کی فراہمی کے لیے اقدمات کرنا ہوں گے۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی کی یہ بات بجا طور پر درست ہے کہ جج یہ غلط فہمی اپنے دل سے نکال دیں کہ وہ حاکم ہیں۔ جج عوام کے خادم ہوتے ہیں جو عوام کے ٹیکسز سے تنخواہیں اور مراعات لیتے ہیں۔
عدلیہ کی مکمل اور صحیح معنی میں آزادی کے لیے مختلف اقدامات کرنا ہوں گے۔ مقدمات کے انبار سے بچنے کے لیے ماتحت عدالتوں میں اصلاحات لانا ہوں گی۔ ضلعی عدالتوں میں ججوں کی تعداد کو بڑھانا ہوگا۔ یہ محض خانہ پوری نہ ہو بلکہبنچ کی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کے لیے ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ ضلعی سطح پر ججوں کی بہتر تربیت کی بھی بہت ضرورت ہے۔ اگر واقعتا جوڈیشل نظام کو بہتر بنانا ہے تو اس کے لیے گراس روٹ لیول سے کام شروع کرنا ہوگا۔ ایمان دار، قابل ججوں کا انتخاب کرنا ہوگا۔ باصلاحیت اور فعال بنچ کے ساتھ تربیت یافتہ وکیل اور پراسیکیوشن محکموں اور تفتیش کاروں کے نظام کو بہتر بنانا ہوگا۔
اوپر ذکرہ کردہ اعداد و شمار سے کچھ اندازہ ہوتا ہے کہاں اور کس کورٹ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد زیادہ ہے، لہذا جس ہائی کورٹ یا ڈسٹرک کورٹ میں مقدمات کی تعداد زیادہ ہے، وہاں زیادہ تعداد میں جج تعیینات کیے جائیں۔ ایک بات یہ بھی ذہن میں رہے کہ تمام کے تمام زیر التوا مقدمات کو جلد سے جلد نمٹانا ممکن نہیں، اس لیے ان مقدمات میں ہائی لیول اور مخصوص نوعیت کے حامل، مثلا دہشت گردی، اقلیت، خواتین کے مقدمات کو چنا جائے۔ نیز کیس کا طریقہ کار، خاص طور پر ثبوت اور اپیل وغیرہ کے عمل کو فوری اصلاحات کرکے متعلقہ قانون کو آسان تر بنانے کی بھی ضرورت ہے۔
اگر فوری انصاف کے حصول میں یونہی روڑے اٹکائے جاتے رہے اور اصلاحات کا عمل نہ کیا گیا تو جیلوں میں پڑے کئی مظہر حسین حصول انصاف کے لیے بیس بیس سال کا سفر طے کرتے رہیں گے اور جب انہیں انصاف ملے گا تب تک وہ قبر کی آغوش میں مٹی ہوچکے ہوں گے۔
(ماجد عارفی، مدیر ماہنامہ دین کی دنیا، ساہیوال)

Comments

Click here to post a comment