ہوم << اے چائے والے، یہ تو نے کیا کیا ؟ مہران درگ

اے چائے والے، یہ تو نے کیا کیا ؟ مہران درگ

اس کی بازگشت کی اک وجہ یہ بھی ہے کہ آخر اک چائے فروش اتنا خوبصورت کیونکر ہو سکتا ہے، ورنہ اس کی خوبصورتی کے introductory ڈرافٹ پہ چائے والا کا صیغہ کیوں لاحق رہا؟ جیسے ہمارے بازو کے گاؤں کی اک حسین لڑکی کا چرچا ہوا تو ماموں کے لڑکے نے پندرہ دن کے اندر اندر اچک لی، اک لڑکا پیدا ہوا، چھ سال بعد طلاق دے دی، پوچھا کیوں اٹھائی تھی، بولے تجسس! پاتھی فروش کی لڑکی اتنی خوبصورت کیونکر ہوسکتی ہے، سوار ایسی ہوئی کہ بھگا لی کہ اسے اس سلم میں نہیں کوٹھی میں ہونا چاہیے تھا! جبکہ اس کی اپنی منگیتر ڈاکٹر اور اس سے بھی بلا کی خوبصورت لڑکی تھی. شاید المیہ ہے کہ ہم جہاں بدصورتی کی توقع رکھتے ہیں، اگر وہاں ہولے سے ہی خوبصورتی نظر آجائے تو بھلے آپ پرستان میں رہتے ہوں، ان پری و پری زادوں کی وقعت نہیں رہتی جو آپ کبھی دیکھا کیے تھے، جیسے صحرا میں ہولے سے چلے باد ِنسیم، جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آجائے، تو بھلے آپ راکا پوشی رتی گلی سیف الملوک کے پہلو میں ہی کیوں نہ بستے ہوں مگر اس کمیابی کے اطراف میں اگر جنگل میں ذرا سا بھی منگل ہوتا نظر آئے تو آپ کے گاؤ شالے جیسے دل و دماغ پہ سحر سامری طاری ہونا فطری امر ہے مگر ساتھ آپ کا ذہن اس بات کی گواہی دے گا کہ اک ”صحرا“ اک ”ریت“ کے اطراف میں اتنی ٹھنڈ، اتنی گل کاری، اتنی سبزہ زاری! یہ شاید بدصورتی میں خوبصورتی کا کھچ آنا ہی تحیر ہے جو انسان کو اپنی طرف کھینچتا ہے.
پاکستان میں ہر سال ماڈل آتے ہیں، ایکٹر آتے ہیں، بچے ٹاپ کرتے ہیں، رکشے والا تندور والا ٹاپ کرتا ہے تو ہیڈ لائن میں آجاتا ہے، اس کا یوں کو بہ کو میں آنا اس کے پس ِ منظر کے ہی صوابدید ہوتا ہے کہ اس کے سرکم سٹانسز، اس کا ماحول، اسے دیکھنے سننے جاننے والوں کو مجبور کر دیتا ہے کہ وہ کن حالات میں بھی دیکھنے کے لائق ہیں، اس کے گرد و اطراف ہی اُسے اُس کی ذات سے زیادہ چارمنگ بنا دیتے ہیں، ورنہ وہ دنیا میں کوئی واحد نہیں تھا جو پیدا ہوا اور ذہین ہوا، خوبصورت ہوا، دیدہ ور ہوا. کراچی کے اُس ”رکشہ ڈرائیور“ نے ٹھمری گائی اور غضب کی گائی، کسی نے ویڈیو بناکر اپ لوڈ کر دی، لتا منگیشتر نے انڈیا سے بیٹھ کر سراہا اور خبر جب ان تک پہنچی تو یوں تھی کہ اک ”رکشے والا“ کیا ہی بڑے غلام علی خاں صاحب کے جیسے خوب ٹھمری گاتا ہے، استاد بندہ ہے اور اس کا مقام ”رکشہ“ نہیں ہے، اور ہنوز جیسے پاکستان میں جسٹن گرلز کا دور دورہ چلا، کہ جسٹن کے لہجے میں اس کا مشہور گانا Baby گا کر دو سڑک چھاپ لڑکیاں میڈیا پہ ایسے آئیں کہ امر ہوگئیں، مانو کہ چھا گئیں، ایک دفعہ تو ان کا بخار تھا کہ اترتا نہ تھا، جبکہ جسٹن بائبر کی طرز پر اس کے گانوں کو بہت لوگوں نے گایا اور اس سے بھی بلا کا گایا، مگر سڑک چھاپ ہونا، یا چائے والا ہونا، تندور والا ہونا، یا رکشے والا ہونا کسی بھی کردار کی اصل شناخت ہوتی ہے، یا شاید مفلسی میں پلتے ہوئے کو بھی کبھی کبھی زندگی اس کے اوپری مقام تک، اُسی مفلسی ہی کی پشت پر پہنچا آتی ہے جس پر وہ کتنے ہی دنوں سے compromised تھا، جس سے انحراف ممکن نہیں.
صہیب میرا روم میٹ تھا، ہم جب ایم فل میں ہوتے تھے تو ہماری یونیورسٹی کے پچھلے گیٹ جسے GP گیٹ کہتے ہیں، کی طرف گوبند پُورہ محلہ آتا ہے، اس کی سیدھ میں اک گلی کی نکٹر پر اک بابا جی ہیں، ان کا بہت پرانا ہوٹل ہے، چھوٹا سا اور ٹوٹا پھوٹا سا مگر روزی کا واحد ذریعہ ہوا، یوں کہ اس کے بیٹے کو اُس سال بلدیاتی الیکشن میں اک شریف آدمی کی جانب سے آزادانہ ٹکٹ دلوا دی گئی، وجہ یہ تھی کہ ہوٹل محلے میں تھا اور آدمی بھی شریف تھے، سو پورے زون کے لوگوں کا اسی ہوٹل پہ بسیرا بھی ہوا کرتا تھا. ہم جیسے یونیورسٹی کے پردیسی لڑکے بھی وہاں گھس جاتے، اس کا مدمقابل جنرل کونسلر ن لیگ کا تھا، وہ اس ہوٹل والے لڑکے سے پانچ سو کی لیڈ سے ہارا، اگلے دن ہم چائے پینے گئے تو دیکھا اس نے دودھ کی سبیل لگا رکھی ہے، جو بھی آتا ہے لڈو پکڑاتا ہے اور چائے مفت پلاتا ہے، شیروانی لگی ہوئی ہے، ہم نے کہا کہ یہ کیا ماجرا ہے بھائی، تو بتلایا گیا کہ حضرت کونسلر منتخب ہوگئے ہیں اور دور دور سے لوگ دیکھنے آ رہے کہ اک ہوٹل والے کا بیٹا کونسلر بن گیا ہے اور ہر ایم این اے اسے اپنی پارٹی میں شمولیت کی دعوت دے رہا ہے اور ملاقات کے لیے بلاتا پھر رہا ہے. صہیب نے اس دن بھی کہا مجھے کہ کیا اس کا یہ ہوٹل سلامت رہے گا یونہی؟ یہ سادگی رہے گی؟ اس کا یہ نایاب سا جھروکہ، کیا وہ اپنائیت جو لوگوں نے اسے اک چائے فروش کا بیٹا ہونے کی صوابدید دی تھی اور جس پر اس کا نام جس نے حلقے میں تجویز کیا، یہ بار ِامانت وہ رکھ پائے گا. ہم نے متفقہ طور پر کہا تھا کہ نہیں، یہ اب چائے والے کا بیٹا نہ رہےگا، نایاب تھا، عام ہوجائےگا، یہ ہوٹل والا اب کیفے والا میں بدل جائےگا دیکھنا. آج اتنے دنوں بعد کوئی آئے میرے ساتھ اور میں اسے دکھاؤں کہ وہ ہوٹل کیا ہوا؟ وہاں جو بنچ ہوا کرتے تھے ان کی جگہ اسٹیل کی کرسیوں نے کیسے لے لی ہے، قدم آدم فلیکس لگا ہوا ہے اور باہر گارڈ کھڑا ہے، شلوار قیمض پینٹ پتلون میں بدل گئی ہے، انڈرائیڈ ہاتھ میں، چہرے پہ فشل کی مردہ لاش کی سی سفیدی ھے کہ اُتر آئی ہے.
تو صاحبو! کہنے کی بات ہے، کچھ ہی ہوتے ہیں کہ جو اپنی اصل کو ساتھ لے کر چلنے والے، بھلے کسی مقام پہ پہنچ جائیں وہ اپنے ساتھ اک شکستہ سا لوہے کا پرانا بکسا ضرور رکھتے ہیں، جس میں اس کی اوقات محفوظ کی گئی ہوتی ہے، جب جب گھمنڈ انھیں گھیرتا ہے، وہ چپکے سے سٹور روم کا کواڑ کھولتے ہیں اور پھٹی اچکن، چھدے جوتے، ادھڑا سویٹر، کھونچے لگا مفلر اسے چھو چھو کے اپنا پارہ اپنا تاب مان نیچے اتار ہی لیتے ہیں..
اسلام آباد میں دریافت ہونے والا لڑکا خوبصورت ہے، خدا اس میں مزید برکت دے، بال کرل، فشل، تھری پیس، سو پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا، سنا کہ اس نے اک چینل کو انٹرویو دینے کے لیے دو ملین مانگے (خبر ہے ثبوت نہیں ہے) مانگے حق بنتا ہے! تو صاحبو ناجانے کیوں اس بات کا شدت سے احساس ہو رہا ہے جو زاویہ 3 میں اشفاق صاحب نے لکھی ہے:
اک مرتبہ ہم چولستان میں شوٹنگ کر رہے تھے، وہاں اک فلم بنائی جا رہی تھی جو ہمارے ڈائریکٹر تھے ان کا نام توتی تھا اور وہ اٹلی سے آئے ہوئے تھے. ہم وہاں ڈی جی کے قلعے سے بڑی طویل شوٹنگ کرکے پہنچے تھے، ہمارے ڈائریکٹر کو ایک چھوٹے سے لیکن اک مضبوط کردار کے لیے ایک ایسے آدمی کی تلاش تھی، جو لمبا تڑنگا، خوفناک ہو، اس کی عقاب جیسی آنکھیں اور وہ بڑا کرخت سا نظر آئے اور عام انسانوں سے بہت حد تک مختلف نظر آتا ہو. ڈائریکٹر صاحب مجھ سے کہنے لگے آپ ہی کچھ کرو، انہیں کسی ایسے آدمی کی تلاش تھی جس کی شباہت، شکل و صورت اور مزاج راسپوٹین سے ملتا جلتا ہو، میں نے کہا کہ جی ایسا شخص مل تو سکتا ہے لیکن وہ پڑھا لکھا نہیں ہوگا کیونکہ اس علاقے میں ایسا کردار اور وہ ہو بھی پڑھا لکھا، ڈھونڈنا بہت مشکل ہے، وہ کہنے لگے خیر ہے، ہم خود ہی اسے تھوڑی سی ٹرینگ دے دیں گے کیونکہ مختصر سا کردار ہے، اب خدا کا کرنا یہ ہوا کہ مجھے ایک ایسا آدمی شام کو ہی نظر آگیا جو بالکل ہی ایسی ہی شکل و شباہت کا مالک نظر آتا تھا جس کی ہمارے ڈائریکٹر صاحب کو تلاش تھی، ویسا ہی لمبا تڑنگا اور سخت مزاج، اس نے لمبی زلفیں کھلی چھوڑ رکھی تھیں،گھنی داڑھی تیل سے چپکی ہوئی تھی، کمر کے ساتھ اس نے ایک سنگل ( زنجیر) لپیٹی ہوئی تھی، پاؤں میں ایسے بڑے بڑے گھنھگرو ڈالے ہوئے تھے جو گھوڑوں یا جانوروں کو ڈالے جاتے ہیں، مجھے وہ بڑا پسند آیا، میں نے پہلی نظر میں اندازہ لگایا کہ یہ ہمارے کام کا بندہ ہے، میں نے اسے روک کر پوچھا کہ بھائی تمہارا نام کیا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ فقیروں کا کوئی نام نہیں ہوتا، میں نے کہا کہ فقیر صاحب! آپ یہ بتائیں کہ کیا آپ فلم میں کام کرنا چاہیں گے؟ اس نے کہا کہ ٹھیک ہے کریں گے، کیوں نہیں کریں گے، میں نے کہا کہ اس میں ڈائیلاگ بھی بولنے پڑتے ہیں، کہنے لگا وہ بھی بول لیں گے، میں نے کہا کہ تمہیں ڈائیلاگ بولنے آتے ہیں؟ کہنے لگا کہ فقیروں کو آتا ہی ڈائیلاگ بولنا ہے، اس کے علاوہ فقیروں کو اور کوئی کام کرنا ہی نہیں آتا، میں بڑا خوش ہوا اور اپنے ڈائریکٹر توتی کو بتایا تو انہوں نے کہا کہ فوراً گاڑی نکالیں، اس سے ملنے چلتے ہیں، وہ بھی دیکھ کر خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ یہ تو میری Requirment کے مطابق بنا بنایا شخص اور کردار ہے، ڈائریکٹر صاحب کہنے لگے تم نے یہ کیسے ڈھونڈ لیا، اس سے وقت طے کر لو اور اسے دس ہزار روپے دے دو! میں نے کہا جناب! اتنی بڑی رقم؟ (کیونکہ اتنے تو مجھے بھی نہیں ملنے تھے، میں وہاں ان کا مترجم تھا)
اس سے وقت طے ہوگیا، دو دن بعد اس کی شوٹنگ کا وقت رکھا، دو دن کے بعد صبح ہی ہم سب نے کیمرے وغیرہ تیار کرلیے، لوکیشن کا جائزہ لیا، اور سارے انتظامات مکمل کرکے تیار ہو کر بیٹھ گئے اور اس کا انتظار کرنے لگے صحرا میں ہم بیٹھے تھے اور کرسیاں ورسیاں لگی ہوئی تھیں، ہم اس درویش کا انتظار کر رہے تھے، ایک جرمنی سے آئی ہوئی اس کی ہیروئن بھی تھی، اور فلموں میں ایک درخت سے جھول کر دوسرے درخت کے تنے تک پہنچ جانا تھا اور وہ ہالی وڈ فلموں والا ٹارزن کا کردار ادا کرنے والا لیکس بار بھی موجود تھا، تو وہاں پر اک صاحب آگئے، وہ بڑے خوش شکل تھے، بال اچھی طرح سے تراشے ہوئے تھے ان کے، اور خوبصورت کپڑے پہنے ہوئے تھے، وہ وہاں پر آکر کھڑے ہوگئے، ہم نے خیال کیا کہ یہ بھی کوئی ویسا ہی شخص ہوگا جس طرح عام طور پر لوگ شوٹنگ دیکھنے آجاتے ہیں، اب وہ شخص میری طرف غور سے دیکھنے لگا، وہ معنی خیز انداز میں دیکھ رہ تھا، میں نے اس سے کہا جی فرمائیں کیا بات ہے؟ تو کہنے لگا، میں فلاں فقیر اور شوٹنگ پر آیا ہوں، میں نے حیران ہوکر پوچھا کہ تمہارے بال کہاں گئے؟ کہنے لگا جی شوٹنگ پر آنے کے لیے تو اچھے کپڑوں کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے میں صاف ستھرے کپڑے پہن کر، بال کٹوا کر، شیو کروا آیا ہوں، وہ اعلیٰ درجے کی کریم لگوا کر اور بن ٹھن کر ہمارے سامنے کھڑا تھا، ہمارے ڈائریکٹر زور سے سرپیٹنے لگے، اوہ ظالم! تو نے یہ کیا کردیا! (وہ پریشانی کےعالم میں زور سے سر پیٹتے تھے اور اپنی زبان میں عجیب و غریب بولتے تھے) مجھے کہنے لگے کہ اس کو کیا ہوا؟ میں نے کہا کہ جی اس نے اپنی کوالیفکیشن اندر سے نکال کر اپنے اوپر وارد کردی ہے اور اب یہ سمجھتا ہے کہ میں اچھا بن گیا ہوں اور اس کا خیال ہے کہ میں اچھا اور خوبصورت لگوں گا تو ہی مجھے فلم میں رول ملے گا، ویسے تو نہیں ملے گا! ڈائریکٹر صاحب اسے کہنے لگے، تو میری نگاہ کے سامنے کھڑا نہ ہو، تو نایاب آدمی تھا اور اپنی نایابی ختم کر ڈالی ہے تو نے.
تو صاحبو بات اتنی سی ہے، ہوٹل والا، چائے والا، تندور والا، رکشے والا، یا اللہ والا، اس کی ورتھ اس کے اصل نایاب قدرتی بہاؤ میں ہی ہے، اس لڑکے میں جو خاص بات تھی، وہ اس کا چائے والا ہونا اور چائے والوں میں نایاب سا سرمئی بھرپور چائے والا ہونا، یوں کوالیفیکشن کو ہم اندر سے نکال کر باہر وارد کرکے وہ حساسیت، وہ charm کھو دیتے ہیں کہ جس کو لے کر وہ کبھی مشہور ہوا! کہاں وہ ہاتھ میں پوا لیے قبل کی تقدیس اور کہاں میک اپ زدہ diplomatic انداز جس کی ہر کلک پہ خودداری کی جگہ اک مسکین سا شکریہ جھلکتا ثبت ہوتا جاوے، وہی فرق ہے جو سپیدس کی خوشنما بالکونیوں اور راکا پوشی کی قدرتی ڈھلوانوں کی جاذبیت میں ہے! جو جہاں ہیں کم سے کم اپنے ہی زور پر ہیں، ان چھوئی، سلوں نے نہیں اٹھا رکھا، انہیں اگنے واسطے مصنوعی کھادیں گراس کٹر کی ضرورت نہیں ہوتی، بھلے وہ انگوری گھاس یاک کی میگنیوں کی طاقت پہ اگتی ہے مگر اسے فضائیں سنوارتی ہیں، ہوائیں کُترتی ہیں، قدرت کا فراہم کردہ اس کا ہار سنگھار ہے، نایاب سا، لازوال سا. بے مثال سا، جب تک اسے دراندازوں کے قدم نہیں چھوتے وہ اپنے گھونگھٹ میں حسن ایکتا ھے، تب تک وہ شہہ رگ کا کنوارہ لہو ہے، اس کی الگ ہی دھڑکن ہے، جس کو راوی مل جائے، وہ نایاب نہ رہا، انھی ہزاروں میں جا لیا جہاں اس جیسے کئی آئے اور خس و خاشاک زمانہ ہوگئے.