ان دنوں پاکستان کی سفارتی تنہائی کا کافی چرچا ہے. بھارت اور پاکستان میں شدید اختلافات کے موجودہ سیزن میں غالبا یہی ایک بات ہے جس پر ہر دو اطراف اتفاق دیکھنے میں آ رہا ہے. بلکہ کبھی تو یہ معاملہ ایک کورس کا سا لگنے لگتا ہے. ادھر سے مودی صاحب تان لگاتے ہیں کہ تنہا کر رہے ہیں، تنہا کر دیں گے. پھر یہاں سے صدا بلند ہوتی ہے ہم تنہا ہو رہے ہیں، ہم تنہا ہو گئے.
اب یہ تنہائی ہے کہ نہیں اور ہے تو اس کی اصل حقیقت کیا ہو سکتی ہے اس پر کوئی بات نہیں ہوتی، واویلا البتہ کافی رہتا ہے.
اگر آپ بور ہونے پر آمادہ ہیں تو ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں کہ اس تنہائی کے پس منظر عوامل کیا ہو سکتے ہیں اور ان پر کس قدر اظہار تشویش مناسب رہے گا.
اگر مطالعاتی نگاہ سے دیکھا جائے تو علاقائی و عالمی تناظر میں اس وقت دو رجحانات ایسے ہیں جو بین الاقوامی تعلقات میں Balancing & Realignment کو تحریک دے رہے ہیں.
ان میں پہلا، افغانستان میں جاری جنگ سے امریکہ کا انخلاء اور اس کی جگہ وہاں کسی قائم مقام کا تعین اور اینڈ گیم میں اس کا رول ہے.
دوسرا ... چین کا حیران کن معاشی ترقی کے بعد اب عالمی امور میں اپنی موجودگی اور اہمیت ہر اصرار جس سے مغرب، اور بالخصوص امریکہ کچھ خائف نظر آتے ہیں.
اگر ہم گزرے ماہ و سال پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ پاکستان 90 کی پوری دہائی میں بھی لگ بھگ ایسی ہی صورتحال سے دوچار رہا. پہلی افغان جنگ کے خاتمہ کے بعد امریکہ نے اس کے جوہری پروگرام کو بنیاد بنا کر "مضبوط اتحادی" پاکستان کے خلاف پابندیاں عائد کرنا شروع کر دیں اور یوں اقتصادی، دفاعی اور باہمی تعاون کے تمام معاملات کو انتہائی کم ترین سطح پر دھکیل دیا. اب امریکہ کی سرد مہری تھی اور پاکستان. یونی پولر دنیا میں پاکستان کے پاس آپشنز نہ ہونے کے برابر تھیں تاہم پاکستان نے اپنی خارجہ پالیسی کے دو اہم ترین ستونوں، سعودی عرب اور چین کی اعانت اور سفارتی مدد سے یہ کٹھن وقت گزار لیا. اس تمام وقت میں پاکستان نے اس بات کا خاص خیال رکھا کہ یورپ اور امریکہ کے ساتھ اس کے تعلقات کسی درجہ پر بھی معاندانہ نہ ہونے پائیں تاکہ وہ کسی لمحہ بھی ان کی ٹارگٹ لسٹ میں نہ آئے، جیسا کہ ہم نے عراق یا ایران کے ساتھ دیکھا. اور نتیجتاً دونوں ممالک کا جوہری پروگرام ختم ہو کر رہ گیا.
اس وقت بھی حالات کچھ ایسے ہی ہیں. جیسا کہ تذکرہ ہؤا، افغان معرکہ اپنے اختتام پر ہے تاہم اس بار چند نئے فیکٹر اس صورتحال کو پیچیدہ بنانے کے لیے سامنے ہیں. اول یہ کہ چین کے بڑھتے ہوے اثر اور اپنے اور اسکے بیچ عالمی امور میں بڑھتے فاصلوں کی وجہ امریکہ کی خواہش ہے کہ بھارت کو خطہ میں پولیس میں کا رول دیا جائے. اس ضمن میں سن 2000 کے بعد بہت سا کام ہؤا ہے اور بھارت کو تجارتی، معاشی، دفاعی اور اسٹریٹیجک میدانوں میں امریکہ کی غیر معمولی مدد اور پشت پناہی حاصل رہی ہے. اس کی ایک ادنی سی مثال امریکہ کا بھارت کے ساتھ سول نیوکلیئر معاہدہ ہے. یہی نہیں بھارت کو نیوکلیئر سپلائرز گروپ کی ممبرشپ دلوانے کے لیے امریکہ کی بھاگ دوڑ بھی ہمارے سامنے ہے. لطف کی بات یہ ہے کہ نیوکلیئر سپلائرز گروپ کا قیام بھارت کے 1974 کے جوہری ٹیسٹ کے ردعمل کے طور عمل میں آیا تھا. مزیدیکہ امریکہ علاقے کے تمام ممالک پر بالواسطہ اور بلاواسطہ یہ دباؤ بھی ڈال رہا ہے کہ وہ بھارت کے اس رول کی توثیق کریں. عرب دنیا میں وزیراعظم نریندر مودی کے پے درپے فقید المثال استقبال اسی کی ایک کڑی ہیں. گو اس میں ایران اور تیل کی فروخت بھی اہم ترجیحات ہیں.
اسی سلسلہ کو آگے بڑھاتے ہوئے امریکہ بھارت کو افغانستان میں اہم کردار دینے کا خواہاں ہے. اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ چین کے ساتھ قریبی تعلقات کی وجہ سے امریکہ پاکستان کو اپنے مفاد کے لیے اس درجہ "قابل بھروسہ" نہیں سمجھتا جتنا کہ بھارت کو. یہاں پاکستان اور امریکہ کی ترجیحات میں ٹکراؤ کی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے. پاکستان کو ہمیشہ سے یہ خدشہ رہا ہے کہ بھارت کا افغانستان میں رسوخ دراصل پاکستان کو گھیرے میں لینے کی کوشش ہے. اور ایسی کسی بھی کوشش کو ناکام بنانا پاکستان کا نیشنل سیکیورٹی مسئلہ ہے. دوسری طرف بھارت افغانستان کو اپنی دفاعی بیس کے ساتھ ساتھ وسطی ایشیا کے لیے اپنی تجارتی بیس کے طور بھی دیکھتا ہے اس لیے وہ کابل میں پاؤں جمانے کے لیے مضطرب ہے.
پاکستان کو زچ کرنے کے لیے اگر 90 کی دہائی میں اٹیمی پروگرام تھا تو اب "دہشت گردی" کا وہ ڈھول ہے جسے اس کے گلے سے باندھنے والے ہی سب سے زیادہ بجاتے ہیں. پاکستان کو دفاعی پوزیشن میں ڈالنے کے لیے پاکستان پر دہشت گردوں کی معاونت کے الزام کو بار بار دہرایا جاتا ہے. بھارت نے تو اسے صبح دوپہر شام کا وظیفہ ہی بنا لیا ہے.
پاکستان کا ایک مسئلہ تو افغانستان کا منظر نامہ اور بھارت کو علاقہ کے ٹھیکیدار بنانے کی کوششیں ہیں. دوسری وجہ یہ ہے کہ پاکستان چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو دفاعی سے بڑھا کر اب معاشی جہت بھی دے رہا ہے. یہ بلاشبہ ایک بڑی پیش رفت ہے اور اس کی سب سے بڑی علامت چین کے ساتھ 51.5 بلین ڈالر (ابھی تک) مالیت کے وہ منصوبہ جات ہیں جنہیں سی پیک کے نام سے جانا جاتا ہے. اس کے بعد چین اور پاکستان کا تعاون اور تعلقات ہمہ جہت اور طویل المیعاد ہو جائیں گے. اس وجہ سے امریکہ پاکستان کے حوالہ سے کچھ تحفظات کا شکار نظر آتا ہے. اس کے خیال میں ساتھ چائنہ سی میں چین کی کارروائیوں کو محدود کرنے کی کوششوں کو اس سے دھچکا لگے گا. امریکہ اور اس کے حواری پاکستان کے بجائے بھارت کے ساتھ زیادہ گرم جوشی کا مظاہرہ کرتے دکھائی دیتے ہیں جس سے بسا اوقات پاکستان کو نظر انداز کر دینے جیسا تاثر ابھرتا ہے.
پاکستان اگر چین کے ساتھ اسٹریٹیجک الائنمنٹ کر رہا ہے تو یہ لازم ہے کہ اس کا کچھ منفی رد عمل بھی آئے گا. بین الاقوامی میڈیا پر مغربی کنٹرول کی وجہ سے بھی یہ تاثر ذرا ذیادہ ابھرتا ہے. تاہم ہمیشہ کی طرح پاکستان کی پالیسی یہی ہے کہ نہ امریکہ اور نہ ہی یورپ اور دیگر امریکی اتحادیوں سے تعلقات میں کسی بھی قسم کا بگاڑ آنے دیا جائے. اس کا نتیجہ یہ ہے پچھلے تین سال میں بھارت ایک مرتبہ بھی بھارت کے دورہ پر آئے ہوئے کسی امریکی عہدیدار، بشمول صدر اوبامہ و سیکرٹری جان کیری، کے منہ سے پاکستان کے خلاف کوئی سخت بات کہلوانے میں ناکام رہا ہے. صدر اوبامہ کی پریس کانفرنس میں تو باقاعدہ یہ بات طے رہی کہ پاکستان کے متعلق کوئی سوال نہیں ہو گا.
متوقع آئندہ امریکی صدر ہلیری کلنٹن کے نئے ترتیب شدہ "ایکسس آف ایول" میں شام اور روس کے ساتھ ایران بھی شامل ہے لیکن پاکستان ہنوز ایک دوست ملک ہے.
پاکستان اس صورتحال میں اپنے روایتی حلیفوں، سعودی عرب اور چین کے ساتھ نئے حلیف بھی بنا رہا ہے. ترکی کے ساتھ تعلقات ایک نئی بلندی پر ہیں. روس کے ساتھ تعلقات بہتر ہو رہے ہیں. روس سے بڑے دفاعی سودے کے باوجود بھارت "برکس" سربراہی اجلاس کے مشترکہ اعلامیہ میں روس اور چین کی مخالفت کے باعث پاکستان کے خلاف کوئی بات شامل کروانے میں ناکام رہا.
پاکستان وسط ایشیائی ممالک سے بھی تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کی پالیسی پر کاربند ہے. اس سے سی پیک کی کامیابی کا بہت گہرا تعلق ہے.
افغانستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے لیے بھی کوشش جاری ہے اور طالبان اور افغان ھکومت کے مابین ثالثی کا رول بظاہر چین کو دے دیا گیا ہے تاکہ پاکستان کے متعلق بدگمانی میں کمی لائی جا سکے. تمام تر زبانی سخت کلامی کے باوصف ایک سطح پر پاکستان اور افغانستان میں تعاون بھی دیکھا جا سکتا ہے. اس کی ایک مثال افغان فورسز کی جانب سے کارروائیوں میں ٹی ٹی پی جنگجوؤں کی ہلاکت ہے.
یہ نہیں کہ سب اچھا ہے. لیکن ایسا تو ہرگز نہیں کہ سب بہت برا ہے. نیوکلئر سپلائر گروپ میں بھارت کی شمولیت کا مسئلہ ہو، دہشت گردی کی آڑ میں بین الاقوامی فورمز پر پاکستان کا گھیراؤ کرنے کی بھارتی کوشش ہو یا دیگر سفارتی جنگیں. پاکستان نے بالعموم اپنا ہدف کامیابی سے حاصل کیا. سی پیک پر بھی ورلڈ بینک، ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور خود برطانیہ و امریکہ اب تعاون پر آمادہ نظر آنے لگے ہیں.
یہ سچ ہے بھارت کو بین الاقوامی میڈیا کوریج میں پاکستان پر سبقت حاصل ہے، تاہم اس کی ایک بڑی وجہ "سرکاری سرپرستی" بھی ہے کیونکہ چین کے مقابل وہ امریکہ کا مہرہ ہے. تاہم بین الاقوامی سطح پر کام ہمارے بھی رکتے نہیں. اب تو ایران کے ساتھ بھی تعاون میں اضافہ کے امکانات بڑھ رہے ہیں. چین نے سی پیک میں ایران کو شامل ہونے کی باقاعدہ دعوت بھی دی ہے.
جو دوست سعودی عرب اور امارات میں نریندر مودی صاحب کے استقبال کا حوالہ دیتے ہیں ان کو یہ دیکھنا چاہیے کہ یہ امریکہ کی خواہش تھی جسے وہ رد نہیں کر سکتے. پاکستان ان کی نیشنل سیکیورٹی کی گارنٹی ہے، اسے وہ نظر انداز لنہیں کر سکتے.
البتہ بھارت کے مقابل ایک جہت ضرور ایسی ہے جہاں پاکستان کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے. وہ ہے "سافٹ پاور" .
بھارت نے اپنی فلموں کی وجہ سے دنیا میں بہت پہچان اور عوامی پذیرائی حاصل کی جو گاہے بگاہے اس کے کام آتی ہے. حالیہ دنوں میں کرکٹ لِیگ، آئی پی ایل اور آئی سی سی میں اس کا کلیدی کردار بھی اس کے لیے رسوخ کا باعث بنے ہیں. بنگلہ دیش میں دہشت گردی کے واقعہ کی وجہ سے انگلینڈ کرکٹ تیم وہاں کے دورہ سے خائف تھی. لیکن بھارت نے پورا دباؤ ڈال کر یہ دورہ ممکن کروایا اور بنگلہ دیش کو اس کی "خدمات" کا انعام دیا. افغان کرکٹرز کو آئی پی ایل میں کھلانے کا عندیہ بھی اسی کی ایک کڑی ہے.
پاکستان کو بھی عوامی رابطے، طلباء کے لیے اسکالرشپ اور دیگر فلاحی کاموں سے اپنے لیے جگہ پیدا کرنا ہوگی. بالخصوص افغانستان اور جب بھی ممکن ہو سکے، بنگلہ دیش میں. سافٹ پاور کا اثر دیرپا اور جامع ہوتا ہے. اس طرف ہمہ گیر توجہ کی اشد ضرورت ہے.
ہم اگر بھات کی طرح اتنے بڑے پیمانے پر ٹورنامنٹ کروا نہیں سکتے تو ٹورنامنٹ جیت تو سکتے ہیں ....؟ اس میں تو وسائل اور حالات مزاحم نہیں. پاکستان کو کرکٹ، ہاکی اور سکواش جیسے کھیلوں میں اپنی حیثیت ایک بار پھر منوانا ہو گی تاکہ اس کے عوامی امپریشن اور وقار میں اضافہ ہو.
اختتام پر یہ بات سمجھنے کی ہے کہ پاکستان اپنی الائنمنٹ تبدیل کرنے کے مرحلہ میں ہے. اس موقع پر کچھ نئے تعلقات فروغ پذیر ہوتے ہیں اور چند پرانے کسی قدر ضعف کا شکار ... تاہم اگر سفارتی دنیا میں آپ ہدف کے بجائے حلیف ہیں اور آپ کی نئی ترجیحات کو تسلیم کیا جانے لگا ہے تو اسے "تنہائی" کسی صورت نہیں کہا جاسکتا.
تبصرہ لکھیے