ہوم << مولانا مودودیؒ کی عصری مجالس کی سیر 1 ۔ معظم معین

مولانا مودودیؒ کی عصری مجالس کی سیر 1 ۔ معظم معین

معظم معین امولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی بلاشبہ بیسویں صدی کی ممتاز علمی شخصیت تھے۔ ان کے کام اور فکر نے جہاں پڑھے لکے ذہن کو اپنی طرف کھینچا وہاں عام آدمی بھی ان کی فکر اور دعوت سے متاثر ہوا۔ اپنی بے انتہا علمی اور سیاسی مصروفیات کے باوجود مولانا مودودی جب بھی اپنی رہائش گاہ 5-اے ذیلدار پارک اچھرہ لاہور میں موجود ہوتے تو نماز عصر کے بعد ان کے ہی گھر کے باغ میں ایک عام نشست ہوتی جس میں ہر طبقے اور ہر ذہنی سطح کے افراد شریک ہوتے اور یکساں فیض پاتے۔ یہ نشستیں اب تاریخ کا حصہ ہیں جن کی روداد محترم مظفر بیگ صاحب نے ایک کتاب میں سمو دی ہیں جس کا نام '5-۔اے ذیلدار پارک ' ہے۔ البدر پبلیکیشنز سے شائع ہونے والی یہ کتاب ایک خاصے کی چیز ہے۔ اس میں ساٹھ اور ستر کی دہائی کے پاکستان کی جھلک بھی دکھائی دیتی ہے شرافت اور حمیت کی سیاست جو اب ناپید ہو چکی ہے اس کی عظمت رفتہ بھی دکھائی دیتی ہے۔ مولانا مودودی کی شخصیت کا سحر پڑھنے والے پر آشکارا ہوتا ہے اور معاصر علمی شخصیات کے ساتھ مولانا کے تعلق پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ اس دور کے عظیم عالمی و ملکی واقعات پر مولانا مودودی کے تبصرے بھی موجود ہیں۔ ہر طرح کے لوگوں کے سوالات کے جواب مولانا ایسے سمجھانے والے اور عام فہم اندازمیں دیتے کہ معاملے کی ساری نزاکت سوال کرنے والے کے ذہن میں واضح ہو جاتی۔ علمی زعم یا معمولی سوالوں پر سیخ پا ہونے کا انداز جو ہمارے مذہبی اسکالر ز کا طرہ امتیاز بن چکا ہے اس سےمولانا کا دور دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔
موجودہ دور میں مولانا مودودی کے متعلق بے شمار غلط فہمیاں اور ابہام پائے جاتے ہیں جن میں سے بیشتر جان بوجھ کر پھیلائے گئے ہیں۔ہمارے دور کے نوجوانوں کی اکثریت جانے بغیر مولانا کی ذات پر کیچڑ اچھالتی نظر آتی ہے۔ اس کالم میں ہم آپ کو اس کتاب کے چند حصوں کی سیر کرائیں گے جس سے مولانا مودودی کی شخصیت ،ان کے انداز فکر اور اس دور کی سیاست کو سمجھنے میں خاطر خواہ مدد مل سکتی ہے۔
ایک موقع پر ایک صاحب نے کہا مولانا آپ کی کراچی اور لاہور آمد پر "پیر مودودی" اور اس قسم کے دوسرے نعرے لگائے گئے ۔ آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہےَ؟ تو مولانا نے جواب دیا میں ان تمام خطابات سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں۔ میں نے اپنے لئے کبھی ان چیزوں کو پسند نہیں کیا ۔ میں چاہتا ہوں کہ خدا کے دین کی تھوڑی بہت جو خدمت میں کر سکتا ہوں وہ آخری وقت تک کروں اور میرے حق میں دعا کی جائے کہ اللہ تعالیٰ اسے قبول فرما لے ۔ اس سے زیادہ میں اور کسی چیز کا طالب نہیں ہوں۔
قائد اعظم ؒ کے بارے میں مولانا مودودیؒ سے جب پوچھا گیا کہ انہوں نے تحریک پاکستان کے دوران بارہا کہا تھا کہ پاکستان کا نظام اسلام کے مطابق چلایا جائے گالیکن ایسا کچھ ہو نہ سکا۔ اس پر مولانا مودودی نے کہا میں سمجھتاہوں کہ قائد اعظم ؒ نے اس سلسلے میں جو کچھ کہا اس میں وہ پوری طرح مخلص اور ایماندار تھے لیکن جو چیز اس مرحلے پر نہ سمجھی جا سکی وہ یہ تھی کہ کس قسم کی ٹیم اور کیسی سیرت کردار کے لوگ یہ مقصد پورا کر سکتے ہیں۔ یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ جب پاکستان بنا تو قائد اعظم اپنے اخلاص اور دیانت کے ساتھ اس ملک کے سب سے مظلوم انسان تھے اور یہی عالم مرکزی اسمبلی میں مولانا شبیر احمد عثمانی کا تھا۔ (اگست 1974)
ایک موقع پر مولانا ابو الکلام آزاد کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے کہا " مولانا آزاد ایک شریف النفس اوروسیع ظرف انسان تھے۔ وہ ان حضرات میں سے تھے جو گالیاں سنتے تو ہیں لیکن کبھی کوئی ان کی زبان سے کسی کے لئے گالی نہیں سنتا۔" (1974)
ایک موقع پر ایک عرب طالبعلم نے مقامی اخبارات میں شائع ہونے والی فحش اور عریاں تصاویر کے متعلق عربی میں سوال کیا کہ کیا ایسی صورت میں اخبارات و جرائد کا مطالعہ جائز ہے؟ تو مولانا نے عربی میں ہی جواب دیاکہ آپ حالات حاضرہ سے باخبر رہنے کے لئے اخبارات کا مطالعہ کریں جہاں تک مذکورہ تصاویر کا تعلق ہے اس کی کوئی ذمہ داری آپ پر نہیں ہے۔
ایک اور سوال سے مولانا کی بصیرت ظاہر ہوتی ہے جب فلم انڈسٹری کے ایک صاحب نے سوال کیا کہ جس عورت کی کمائی حلال طریقے سے جمع کی ہوئی نہ ہو کیا وہ حج پر جا سکتی ہے؟ مولانا نے جواب دیا " بہتر تو یہ ہے کہ حج کے لئے حلال آمدنی اکٹھی کی جائے لیکن اگر وہ ایسا نہ کرے تو آپ اسے حج سے روکنے والے نہ بنیں۔ رسول اللہ ﷺ سے ایک شخص کے بارے میں عرض کیا گیا کہ وہ رات کو چوری کرتا ہے اور دن کو نماز پڑھتا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا اس کو اس کے حال پر چھوڑ دو یا تو چوری اس سے نماز چھڑوا دے گی یا نماز اس سے چوری چھڑوا دے گی۔"
سوال کیا گیا کہ کیا انسان اپنے جسم کا کوئی عضو مرنے کے بعد عطیہ کر سکتا ہے؟ مولانا نے جواب دیا کہ "اصل سوال یہ ہے کہ آپ اپنے جسم کے مالک خود کب ہیں؟مذہب ہی نہیں قانون بھی آپ کو اپنے جسم کا مالک قرار نہیں دیتا۔اگر آپ اپنے جسم کے مالک ہیں تو پھر آپ کو خود کشی کی اجازت کیوں نہیں۔ اب جس جسم پر آپ کو اپنی زندگی میں اختیار حاصل نہیں مرنے کے بعد کیوں ہو گا۔ ایسی کوئی اجازت قانون دیتا ہے تو وہ قانون کا سقم ہے مذہب کانہیں۔"
بہت سے سوالات آج کے حالات کے تناظر میں بھی اہمیت کے حامل ہیں ۔
قادیانیت سے تائب ایک نوجوان نے سوال کیا کہ کیا ہم اپنے آنجہانی والد کی قبر پر جا کر دعا کر سکتے ہیں؟ مولانا مودودی نے جواب دیا "آپ قبر پر تو جا سکتے ہیں لیکن دعائے مغفرت نہیں کر سکتے۔" نوجوان نے سر جھکا لیا۔ مولانا نے مزید فرمایا" آپ اس مسئلے کو اس طرح سمجھ لیجئے کہ اگر آپ اپنے والد کی زندگی میں انتقال کر جاتے تو آپ کے والد ہرگز آپ کے جنازے میں شریک نہ ہوتے اور نہ دعا کرتے۔"
ایک نوجوان نے سوال کیا کہ یہ جو طوفان اٹھتے ہیں سیلاب اور زلزلے آتے ہیں کیا انہیں عذاب الٰہی قرار دیا جا سکتا ے؟ جواب دیا اس بارے میں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ لیکن اتنی بات واضح ہے کہ ان کی حیثیت عذاب کی نہ بھی ہو' یہ تنبیہات ضرور ہوتی ہیں۔انسان کے دماغ میں یہ جو غرہ ہے کہ اس نے بڑی ترقی کر لی ہے ایک زلزلہ آ کر اس پر واضح کر دیتا ہے کہ اس کی حقیقت کیا ہے۔ زلزلہ آنے سے ایک سیکنڈ پہلے بھی یہ نہیں بتایا جا سکتا کہ زلزلہ آنے والا ہے۔ نوجوان نے کہا سوات کے لوگ عموماً نماز روزے کے پابند ہیں پھر وہاں کیوں زلزلہ آیا۔ مولانا نے جواب دیا "جاننا چاہئے کہ اللہ کے اچھے بندوں پر جو مصیبتیں آتی ہیں وہ ان کے درجات بلند کرنے کے لئے ہوتی ہیں۔ بظاہر مصیبت ایک جیسی ہوتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا معاملہ نافرمان بندوں کے ساتھ وہ نہیں ہوتا جو اپنے فرمانبردار بندوں کے ساتھ ہوتا ہے۔"
پوچھا گیا کہ کہا جاتا ہے امت محمدیہ ﷺ پر کوئی عذاب نہیں آئے گا اس کا کیا مفہوم ہے؟ مسلمانوں پر آفتیں تو آتی رہتی ہیں۔ جواب دیا اس کا مفہوم یہ ہے کہ ایسا کوئی عذاب نہیں آئے گا کہ یہ صفحہ ہستی سے مٹ جائے۔
ایک مرتبہ گھر کے باغ کے چند درختوں کو کٹوا دیا گیا۔ مولانا نے دیکھا تو پوچھا کیوں کٹوائے گئے؟ بتایا گیا کہ ان کے پھل کو کیڑا لگ گیا تھا۔ مولانانے جواب دیا
"ان کے پھل کو کیڑا لگ گیا تھا ان کے سائے کو تو کیڑا نہیں لگا تھا۔"
ایک نوجوان نے سوال کیا جو صاحب ایمان اچانک کسی حادثے میں مر جائے یا کسی ناگہانی آفت زلزلے وغیرہ یا مظلومانہ طریقےسے مارے جائیں کیا انہیں شہید کہا جا سکتا ہے؟ مولانا نے جواب دیا جی ہاں! کہا جا سکتا ہے اگرچہ اس کا درجہ وہ نہیں جو جہاد فی سبیل اللہ میں شہادت پانے والے کا ہے۔نوجوان نے پوچھا پھر انہیں شہید سمجھنے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ جواب ملا اللہ تعالیٰ نے اپنے صاحب ایمان بندوں کو جو رعایات دے رکی ہیں ان میں سے ایک رعایت یہ بھی ہے۔ لیکن بہرحال اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ ہی کرے گا کہ کون صاحب ایمان ہے اور کون نہیں۔ وہی بہتر جانتا ہے۔
ایک صاحب نے کہا کیا یہ حقیقت نہیں کہ خدا اس کے ساتھ ہوتا ہے جو حکومت میں ہوتا ہے؟ مولانا نے جواب دیا یہ تو آپ نے بڑی عجیب بات کہہ دی کیا حضرت موسیٰ ؑ اور فرعون کی کشمکش میں اللہ تعالیٰ فرعون کے ساتھ تھا؟ خدا حق کے ساتھ ہوتا ہے' محض اقتدار کے ساتھ نہیں۔
ایک صاحب نے سوال کیا کیا اسلام نیشنیلٹی کے خلاف ہے؟ جواب دیا اسلام نیشنیلٹی کا نہیں نیشنلزم کا مخالف ہے۔ نیشنیلٹی تو انسانوں کی تقسیم کا فطری اظہار ہے۔ اسلام کی نگاہ میں قوم ہونا کوئی جرم نہیں قوم پرست ہونا جرم ہے۔
ایک نوجوان نے سوال کیا کہ آج یہودی جس طرح عالمی سیاست پر اثر انداز ہو رہے ہیں اس کا سبب کیا ہے؟ مولانا نے جواب دیا اس کی ایک وجہ امریکی سرپرستی ہے۔ آج امریکہ میں برسراقتدار آنے کی کوشش کرنے والے کسی گروہ کے لئے یہ ممکن نہیں رہا کہ وہ یہودیوں کے ووٹوں کو نظر انداز کر سکے۔ چناچہ ان کی حمایت حاصل کرنے کے لئے وہ ان کے مطالبات پورے کرتے ہیں۔ اس طرح انہیں عالمی سیاست پر اثر انداز ہونے کا موقع ملا ہوا ہے۔ لیکن یہ کوئی ایسی چیز نہیں جو ہمیشہ قائم رہ سکے۔ امریکہ کے ہوشمند انسانوں کو اس کااحساس ہو رہا ہے کہ ہم یہودیوں کی خاطر کس سطح پر اتر آئے ہیں۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کب لیکن جلد یا بدیر امریکہ میں بھی یہودیوں کا وہی انجام ہوسکتا ہے جو جرمنی میں ہوا۔ وہاں انہوں نے پہلی جنگ عظیم کے دوران اور اس کے بعد جو کردار ادا کیا اور جرمنی کو اس کا جو نقصان پہنچا اس سے ہٹلر کے دل میں ان کے خلاف گرہ بیٹھ گئی۔ بعد میں ان کا جو قتل عام ہوا اس کا پس منظر یہی تھا۔ایک صاحب نے کہا کیا دور حاظر میں کوئی ایسی مثال بھی ملتی ہے جس سے پتہ چلتا ہو کہ یہودی عالم انسانی کی خدمت یا تعمیر میں کوئی حصہ لے رہے ہیں؟ کہا نہیں بلکہ اس کے بر عکس ہم یہ دیکھتے ہیں کہ دنیا میں جو فتنہ بھی اٹھ رہا ہے اس میں بالعموم یہودی دماغ اور یہودی سرمایہ ہی کام کر رہا ہے۔ سوشلزم اورکمیونزم ایک یہودی دماغ ہی کی تصنیف ہیں۔ فرائڈ کا فلسفہ بھی انہی کے ایک فرد کی اختراع ہے۔ دنیا کی بڑی بڑی خبر رساں ایجنسیاں اور بہت سے کثیر الاشاعت پرچے یہودیوں کے زیر اثر ہیں یا ان کی ملکیت میں ہیں۔ اور اسی لئے مسلمانوں میں سیکولرازم اور فکری انتشار پھیلانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔
ایک نوجوان نے کہا مولانا قرآن مجید میں یہودیوں کے لئے ذلت و مسکنت کے الفاظ آئے ہیں ۔ لیکن آج وہ ایک خطہ زمین پر قابض ہیں۔ مولانا نے جواب دیا اگر لٹیرے کسی بستی پر قبضہ کر یں تو اس سے ان کے لٹیرے ہونے پر کوئی فرق نہیں پڑ سکتا؟ یہی ایک حقیقت کہ اس وقت کوئی فتنہ ایسا نہیں ہے جس کے پھیلانے میں ان کا ہاتھ نہ ہو ان کی ذلت کو ظاہر کرتا ہے۔ فتنوں اور سازشوں کے بل پر جینا کسی قوم کے لئے باعث عزت نہیں ہو سکتا اور نہ یہ اس کے بقا کی کوئی مستقل ضمانت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں عبرت کے طور پر دنیا میں باقی رکھ چھوڑا ہے ۔ اس لئے کبھی کبھی انہیں پاؤں جمانے کا موقع بھی دے دیتا ہے۔ لیکن کوئی نہیں کہہ سکتا کہ کس وقت ایسا مرحلہ ختم ہو جائے اور کب سزا کا دوبارہ آغاز ہو جائے۔
پوچھا گیا اس سلسلے میں عالم اسلام کے بچاؤ کی کیا صورت ہو سکتی ہے؟ مولانا نے کہا ہم قرآن و سنت پر عمل پیرا ہوں تو کوئی فتنہ ہمارے لئے فتنہ نہیں بن سکتا۔ قرآن حکیم اور رسول ا للہ ﷺ کی سیرت پاک نے ہر دور میں ہماری رہنمائی کی ہے اور ہماری حفاظت بھی۔عیسائی دنیا جس آسانی کے ساتھ صیہونی عزائم کا شکار ہوئی ہے اس سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وہ اس نعمت سے محروم تھی جو قرآن و سنت کی صورت میں مسلمانوں کے پاس موجود ہے۔ (جولائی 1976)
ایک صاحب نے ایک کاغذ سامنے رکھا اور فتویٰ مانگا۔ مولانا مودودی نے کہا کیا آپ کو معلوم نہیں کہ میں فتویٰ نہیں دیا کرتا۔ اگر کوئی صاحب کسی مسئلے پر رائے پوچھتے ہیں تو اپنی رائے بیان کر دیتا ہوں لیکن فتویٰ نہیں دیتا۔
اس دور میں مولانا کی مقبولیت کا اس واقعے سے پتا چلتا ہے کہ عید کے موقع پر لاتعداد خطوط اور عید کارڈز 5۔اے ذیلدار پارک میں موصول ہوئے ان میں ایک عید کارڈ ساتویں جماعت کے بچے کا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اسے مولانا کا ایڈریس معلوم نہیں تھا لہذا اس نے اخبار میں سے مولانا کی تصویر کاٹ کر لفافے پر چپکا دی تھی اور وہ کارڈ بخیریت مولانا تک پہنچ گیا تھا۔

ایک سفید ریش بزرگ نے کہا آپ جب اپنے رب کے حضور حاظر ہوں گے تو خاص طور پر اپنا کون سا کارنامہ اس کے سامنے رکھیں گے؟ مولانا نے کہا ہم تو اس کی رحمت سے امید لگائے بیٹھے ہیں ۔ وہ کسی بات کو قبول فرمالے تو یہ اس کا کرم اور ہماری خوش نصیبی ہو گی۔ ان صاحب نے الفاظ بدل کر اپنا سوال دھرایا تو آپ نے کہا ہمارا تو سارا انحصار اس کی رحمت پر ہے۔ ہم فقط اس کی رحمت کے طلب گار ہیں۔ (جاری ہے)