ہوم << لفافے کا الزام لگانے والے کون ہوتے ہیں، کیسے ہوتے ہیں؟ رضوان الرحمن رضی

لفافے کا الزام لگانے والے کون ہوتے ہیں، کیسے ہوتے ہیں؟ رضوان الرحمن رضی

رضوان رضی اختلافِ رائے ہو سکتاہے، لیکن اختلافِ رائے کے بھی کوئی بنیاد ی اصول ہوتے ہیں، کوئی دلائل ہوتے ہیں اور بہترین انسان کی پہچان یہ ہے کہ وہ اختلافِ رائے کے باوجود بھی دوسرے کے کردار پر حملہ آور نہیں ہوتے۔ ایسا صرف جنگجو اقوام یا اداروں میں ہوتا ہے کہ ’’یا تم میرے ساتھ ہو یا میرے خلاف‘‘ اور اگر تم مجھ سے متفق نہیں ہو تو تم برے ، تمہاری ماں بری، تمہارا پورا خاندان بُرا۔
سماجی ابلاغ پر اب یہ ایک عام سی چیز ہے۔ دوسرے فقرے پر ہی مخالف فریق کو پٹواری، لفافہ یا یوتھیا کہہ کر مسترد کر دینا؟ پہلے پہل ہمیں جب کوئی یہ کہتا تو تن بدن میں آگ سی لگ جاتی، اب نہیں لگتی۔ جس طرح پنجابی سٹیج ڈراموں کے تمام صداکاروں کی پوری گفتگو کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ کسی نہ کسی طور دوسرے فریق کی گھریلو خواتین کو اخلاق باختہ ثابت کیا جا سکے، بالکل اسی طرح سوشل میڈیا پر روبہ عمل ایک پوری نسل کا مطمع نظر یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ ’’تمہاری اپنی کوئی رائے نہیں، تم ایک بکے ہوئے لفافہ باز شخص ہو‘‘۔ ساری عمر اسی تگ و دو میں گزار دی ’’یہ نہ دیکھو کون کہہ رہا ہے، بلکہ یہ دیکھو کہ کیا کہہ رہا ہے‘‘ لیکن اب اس اصول سے رجوع کرنے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ خاکسار کی ناقص رائے میں سماجی ابلاغ کے اس انقلابی دور میں یہ دیکھنا بہت ضروری ہے ’’کون کیا کہہ رہا ہے‘‘؟
ایسی رائے کون اور کس طرح کے لوگ دیتے ہیں، اس کا ایک اتفاق گزشتہ دنوں ہوا اور دل کو تسلی ہو گئی کہ اگر ایسے بےکردار ے اور اخلاق باختہ لوگ یہ کہتے ہیں تو ان کی بات کا برا ماننے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ گزشتہ صدی میں نوے کی دہائی کے ابتدائی دنوں کی بات ہے کہ میرے اس وقت کے ادارے پاکستان پریس انٹرنیشنل (پی پی آئی) نیوز ایجنسی کی طرف سے ہمیں بتایا گیا کہ مریدکے مرکزِطیبہ میں جا کر ایک بہت بڑے اجتماع میں شرکت کرنا اور اس کو رپورٹ کرنا ہے۔ بتانے والے زاہد امیر بیگ صاحب نے سارا زور اس پر صرف کیا کہ طیبہ کی ’ی‘ پر شد نہیں بلکہ زبر ہے۔
ہمارے گھر والدِ محترم نے ایسی صلح کل قسم کی تربیت کی کہ دین سے جڑے کسی بھی شخص یا گروہ کا احترام ہم پر واجب ٹھہرا، یہی وجہ ہے کہ ہمیں بابا فرید گنج شکر کے عرس میں شرکت کرنے، پروفیسر ساجد میر کی تقریر سننے اور تبلیغی جماعت کے مرکزی اجتماع میں جانے کے ہر تین کاموں میں کبھی کوئی عار محسوس نہیں ہوا اور ہر جگہ پر احترام اور عقیدت کا جذبہ فراواں رہا۔ ہم تو اب بھی امام بارگاہ سے ملحقہ مسجد میں نماز بھی پڑھ آتے ہیں، اگرچہ اس پر بہت سے دوستوں کو اعتراض ہوتا ہے اور فوراً فتویٰ جاری کرتے ہیں کہ ہماری وہ والی نماز نہیں ہوئی مگر ہماری تربیت کا جواب ہوتا ہے ’’میری نماز تو ہو گئی ہے، آپ اپنی فکر کریں کیوں کہ قیامت کے روز آپ سے میری نہیں، آپ کی اپنی نماز کے بارے میں سوال ہو گا‘‘۔
خیر ہم مرکزِ طیبہ کی اجتماع گا ہ پہنچے، ان کے اجتماع کو ایک صحافی کے طور پر دیکھا، اس کی روداد پوری پیشہ ورانہ دیانت سے نوٹ کی اور اس کے بعد دوپہر کے کھانے میں پروفیسر حافظ سعید صاحب نے مجھ سمیت سب صحافیوں کو شرف ملاقات بخشا۔ بڑے بڑے برتنوں میں سے ہاتھوں سے کھانا کھانے کے ’تلخ‘ تجربے سے گذرے۔ وہاں پر کچھ ایسے لوگوں سے بھی تعارف کروایا گیا جو محض عربی بول سکتے تھے اور افغان جہاد میں جاتے جاتے ادھر رکے تھے۔ خیر جب واپسی پر روانہ ہونے لگے اور سب لوگ واپس لانے والی گاڑی میں آ کر بیٹھ گئے تو ڈرائیور نے گاڑی ایک طرف کر کے کھڑی کر دی۔ جب کافی دیر ہو گئی تو ڈرائیور نے استفسار پر زیر لب ہنسی میں بتایا کہ کچھ لوگوں سے ’مذاکرات‘ ہو رہے ہیں۔ اکتا کر اس گاڑی میں سے اترا اور مذاکرات کرنے والوں کی سمت سمت چل پڑا۔ روزنامہ مساوات کے رپورٹر ’آغا‘ صاحب مرحوم کا آخری فقرہ جو ان کے پاس پہنچتے ہوئے میرے کان میں پڑا تھا، وہ خاکسار کے بارے میں تھا ’’رضی بڑا ڈاہڈا رپورٹر ہے، وہ ایک پر نہیں مانے گا، اس کے دو دیں‘‘۔ کچھ آگے بڑھنے پر پتہ چلا کہ ’مذاکرات‘ لفافوں کی تقسیم پر ہو رہے تھے، اور آغا صاحب ہمارے دو لفافے وصول کرنے پر مصر تھے۔
ہم نے وہاں پہنچ کر ساری صحافت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ان دونوں فریقین کی اس قدر بلند آواز میں ایسی شدید ’’عزت افزائی‘‘ کی کہ گاڑی کے سارے مسافر اتر کر ہمیں پکڑنے پہنچ گئے۔ ہمارا نقطہ نظر تھا کہ آپ اپنا لفافہ پکڑیے، ہمارا لفافہ پکڑنے کا حق آپ کو کس نے دیا؟ ہمارے بعض ساتھیوں نے ہمارے اس ’خودکش‘ حملے کی مذمت کر دی اور کچھ نے آغا صاحب کی حرکت کی۔ ہمارا آخری فقرہ یہ تھا کہ ’’اگر کسی دن ہمیں لفافے کی ضرورت محسوس ہوئی تو مودے کنجر کے پاس جا کر انٹرن شپ کر لیں گے لیکن جب تک صحافت میں ہیں، یہ کام نہیں کریں گے‘‘۔ ویسے بھی بی اے قریشی، چاچا میر رفیق اور ثقلین امام اور جناب ایم اے نیازی جیسوں نے ہماری ایسی صحافتی تربیت کی تھی کہ لفافہ پکڑنا ہمارے نزدیک ماں بہن سے پیشہ کروانے سے گھناؤنا کام ہو گیا ہوا تھا۔
اس بدمزگی کے بعد مرید کے سے لاہور تک کا سفر کیسے گزرا، یہ ایک تاریخ ہے لیکن اس شام خبر فائل کرنے کے بعد ابھی گھر جانے کا سوچ ہی رہا تھا کہ بتایا گیا کہ مرکزِ طیبہ والوں کے دو لوگ ملنے آئے ہیں۔ ان دونوں میں ایک ’’صاحب‘‘ نے بتایا کہ وہ روزنامہ جنگ لاہور میں کام کرتے ہیں اور مرکز طیبہ والوں کی سوچ سے متاثر ہیں اور صبح والے واقعے پر معذرت کرنے آئے ہیں۔ انہوں نے ہماری سوچ اور کردار کی بہت تعریف کی اور آپس کی بات ہے کہ ہمیں ان کی باتیں سن کر بہت اچھا لگا، اپنی تعریف کسے اچھی نہیں لگتی۔ اس کے بعد ’صاحب‘ سے ایک واقفیت سی ہو گئی، جب بھی پریس کلب میں یا سرِ راہ ملاقات ہوئی، سلام دعا، حال احوال اور مسکراہٹوں کا تبادلہ معمول رہا۔ ’صاحب‘ کے بارے میں پتہ چلا کہ وہ ملٹری اکیڈمی سے اخلاقی معاملات کی بنا پر نکالے گئے تھے اور صحافت ان کو پناہ گاہ نظر آئی، اس لیے یہاں چھپ گئے۔ ہمیں چوں کہ اسلام پسند لوگوں کے احترام کی تربیت تھی اس لیے ہم نے اس طرح کی کسی بات پر کان نہ دھرا اور اطلاع دینے والے کی سرزنش کی کہ ضرور وہ نظم و ضبط کی خلاف ورزی کی بنا پر نکالے گئے ہوں گے۔
پھر جب ملک میں ٹی وی کی صنعت میں پھیلاؤ آیا تو روزنامہ جنگ میں ہونے کے باعث ’صاحب‘ میرٹ پر جیو کو پیارے ہو گئے۔ ہمیں اس وقت شدید صدمہ پہنچا جب اگلی ملاقات میں ’صاحب‘ کا چہرہ ڈیڑھ فٹ لمبی داڑھی سے صاف ہو چکا تھا۔ دریافت کرنے کی ہمت نہ ہوئی کہ صاحب یہ کیا ماجرہ ہے؟ اتنی چھوٹے سے مالی معاملے پر اپنے نظریات پر اس قدر شرمندگی اور رجوع؟ ایسے بندے کو تو انسان کہنا انسان کی توہین ہے۔
یادش بخیر جب تیسری یا چوتھی دفعہ شیو کے بعد ہم نے سنت رسول رکھنے کا ارداہ ظاہر کیا تو والد صاحب نے اپنی شیو بناتے ہوئے آئینے میں دیکھتے ہوئے با آوازِ بلند فرمایا تھا کہ ’’دیکھ لو! سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا، میں پھر اس کو صاف نہیں کرنے دوں گا‘‘۔ الحمد للہ لڑکپن کے اس فیصلے پرآج تک بدستور قائم ہیں اور فیصلے پر کبھی پشیمانی نہیں ہوئی۔
اس کے بعد ’صاحب‘ سے ایک اور ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ جیو چھوڑ کر ایک اور چینل کو پیارے ہو چکے ہیں۔ استفسار کی ضرورت نہیں تھی لیکن پاس کھڑے انھی کے ایک ادارے کے بندے نے بتایا کہ ایک دن تہجد کے وقت ’صاحب‘ اپنے ٹی وی کی ایک نہایت خوبصورت نیوزکاسٹر کو دفتر کی ایک میز کے پیچھے چھپ کر ’خبریں‘ پڑھنے کے ’’اسرار و رموز‘‘ سمجھا رہے تھے کہ انتظامیہ کے کلوز سرکٹ کیمروں میں آنے کے باعث رنگے ہاتھوں پکڑے گئے، لہٰذا انتظامیہ نے دونوں کو فارغ کر دیا۔ تاہم ’صاحب‘ کی ادارے کے ساتھ دیرینہ تعلق کی بنیاد پر ان کو استعفیٰ دینے کی رعایت دی گئی تھی جو انہوں نے دے دیا۔ نئے چینل میں جہاں انہوں نے نوکری کی تھی، وہاں کے مالک بھی انھی کے ’ہم مسلک‘ تھے اور فجر کی تکبیر اولیٰ اور اپنی کوئی خاتون اینکر انہوں نے نہیں چھوڑی۔ اب تو بعض ٹی وی مالکان دین اور دنیا میں اس قدر توازن رکھتے ہیں کہ خانہ کعبہ سے براہِ راست اذان پر نماز بھی ادا کرتے ہیں اور اپنی خاتون اینکرز کے حقوق بھی حقوق زوجیت سمجھ کر ہی ادا کرتے ہیں۔
’صاحب‘ وہاں کافی بے عزتی کے ساتھ فارغ ہوئے اور صحافتی منظرِعام سے غائب ہو گئے اور پتہ چلا کہ صاحب تعمیرات کے کام سے منسلک ہو گئے ہیں۔ پھر ایک دن ’صاحب‘ اسی ٹی وی پر آ براجمان ہوئے جس ادارے کے اخبار کے ساتھ ہم بھی منسلک تھے لیکن باریک اور زنانہ آواز کے باعث یہاں پر بھی ان کا کام چندماہ کے بعد بند ہو گیا۔ اس دوران جب صاحب کو ادارے میں جب کوئی کمرہ بیٹھنے کو نہ ملتا تو وہ ہمارے کمرے میں براجمان ہو جاتے اور ہماری ’ایڈیٹری‘ کا براہ راست نظارہ کرتے۔ یہ تھا صاحب کے ساتھ ہمارے تعارف کا پورا پس منظر، اس میں ان کی کردار کشی مقصود نہیں بلکہ پس منظر پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
کچھ ہی عرصہ پہلے کی بات ہے کہ موٹروے پولیس اور ایک جرنیل کے کپتان صاحبزادے کے درمیان ایک جھگڑا ہوگیا جسے سماجی میڈیا پر خوب اچھالا گیا اور ظاہر ہے کہ ہمارا وزن موٹروے پولیس کے پلڑے میں جانا تھا۔ ایسے میں صاحب سے ایک پوسٹ پر منہ ماری ہوئی اور انہوں نے تیسرے فقرے پر ہمیں ’لفافے‘ لے کر رائے دینے والا ’کافر‘ قرار دے ڈالا۔ پہلے تو شدید دکھ ہوا، اتنا شدید کہ بس سے باہر۔ ایک شخص ہمیں اس قدر قریب اور اس قدر مدت سے جانتے ہوئے بھی اس اس قدر ڈھٹائی سے بات کر سکتا ہے؟ ہم نے ان کو بلاک اور ’ان فرینڈ‘ کرنے سے پہلے ایک دفعہ پھر تصدیق چاہی کہ کیا وہ واقعی ایسا ہی سمجھتے ہیں؟ انہوں نے ہمیں نظرانداز کرتے ہوئے اپنے ایک دوسرے دوست سے جو ان کی مدد کو آ پہنچا تھا، کیوں کہ سوشل میڈیا پر ایسے چماٹوں کی ایک فوج ظفر موج ہمہ وقت موجود ہوتی ہے، کو مخاطب کرتے ہوئے ’صاحب‘ نے فرمایا ’پتہ نہیں یہ صاحب کون ہیں؟ کوئی سوشل میڈیائی انٹیلکچول ہیں ان کو فوج کے خلاف ہیضہ ہوا رہتا ہے‘۔
ہم نے بلاک والے بٹن پر انٹر مارتے ہوئے سوچا کہ واقعی لفافے کا الزام ایسا اخلاق باختہ اور بدکردار شخص ہی لگا سکتا ہے۔ اس طرح کا بےہودہ الزام لگانے کے لیے انسان کو مذہبی، معاشرتی اور پیشہ ورانہ حوالے سے اسی قدر ہی بےغیرت ہونا چاہیے۔ ان کے بارے میں مذہب پسند اور پانچ وقت کا نمازی ہونے کے حوالے سے جو نرم گوشہ دل میں تھا، اسی لیے دکھ بہت زیادہ ہوا تھا۔ کافی دن طبیعت مکدر رہی اور اس موضوع پر قلم اٹھانے سے احتراز کیا کہ جذبات کی رو میں سے نکل کر کچھ تحریر کریں گے۔ لیکن اس دن کے بعد ایسے لوگوں کے بارے میں معیار مل گیا اور خود کو اکیلے میں بیٹھ کر سمجھایا کہ یہ جو چھوٹتے ہی ہم جیسوں کو لفافے کو طعنہ دیتے ہیں ناں، وہ بس ایسے ہی ’صاحب‘ لوگ ہوتے ہیں، اس لیے دل کھٹا کرنے کی ضرورت نہیں۔ ہمارے معاملات ہمارا اللہ بہتر جانتا ہے اور وہی دنیا اور آخرت میں ہماری لاج رکھے گا، ان شاء اللہ ! لیکن وہ جس طرح کچھ لوگوں کو بے نقاب کرتا رہتا ہے تو بےاختیار اس کے حضور سر سجدے میں جھک جاتا ہے۔ سبحان اللہ

Comments

Click here to post a comment