جیسے جیسے وقت گذرتا جارہا ہے تبدیلی کے نت نئے مظاہر سامنے آتے جارہے ہیں، ایک وقت تھا جب انٹینا والے لمبے موبائل کا استعمال کرنا فخریہ کام سمجھا جاتا تھا، لیکن آج ٹیکنالوجی کی ترقی نے ایسے محیر العقول کارناموں کا ڈھیر لگادیا ہے کہ انسانی عقل و فکر کو داد دینی پڑتی ہے، آسائش و وسائل کے ساز و سامان بام عروج کو پہنچ چکے ہیں، انگشت کی معمولی جنبش سے معلومات کا جہاں آباد ہوجاتا ہے، ہر سہولت گھر بیٹھے دستیاب ہوجاتی ہے، لیکن ان تمام مثبت پہلوؤں کے باوجود اس کے منفی اثرات سے نئی نسل محفوظ نہیں رہی۔
نومولود اپنی زندگی کے کچھ ہی بہاریں دیکھ پاتا ہے کہ اس کے ہاتھوں میں سمارٹ فون در آتا ہے، پھر تھوڑے ہی عرصہ میں موبائل، آئی پیڈ، تھری ڈی گیمز وغیرہ بچے کی سوچ و فکر کو ایک مخصوص شکنجے میں جکڑ لیتے ہیں، ایسے بچے عموما واقعاتی دنیا میں خود اعتمادی سے محرومی کا شکار رہتے ہیں اور دنیاوی حقائق کا سینہ تان کر مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتے، اپنے ہم جولیوں سے زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں، حقائق سے سمجھوتہ خال خال ہی کہیں نظر آئیں گے، اس کے برعکس ہر لمحہ جذباتی اور لمبے خوابوں کا شکار رہتے ہیں، مقصد جلد بازی رومانویت کی نذر ہوجاتا ہے، محنت و کوشش لایعنی جبکہ سستی و کاہلی محبوب ہوجاتے ہیں۔
اس رومانویت پسند کے تناظر میں مختلف کارٹونز کے الگ الگ اثرات ظاہر ہوتے ہیں، ڈوریمون، چھوٹا بیم، وغیرہ جیسے کارٹونز بچوں کی نفسیاتی ساخت پر غیر معمولی اثرات چھوڑتے ہیں جس کی تباہ کاریاں عمر گذرنے کے ساتھ ساتھ نمایاں ہوتی رہتی ہیں۔
ماں باپ ہونے کے ناطے بچے کی جمسانی ہی نہیں روحانی و نفسیاتی تربیت بھی ذمہ داری ہے، اولاد کو قدم قدم پر محبت و پیار دینا ہوگا، زندگی کے حقائق سے آشنائی، مشکل حالات میں ثابت قدمی، بےبسی میں حوصلہ افزائی کرنا ایسا امید افزا تریاق ہے جو مایوسی کے اثرات کا سرے سے خاتمہ کردیتا ہے، مایوسی وہ دشمن ہے جس کی جڑیں رومانویت پسند ی کی روشنی میں نشونما پاتی ہیں، جس کا آخری نتیجہ خود کشی یا پاگل پن کی صورت میں رونما ہوتا ہے۔ اس لیے اپنی اولاد کی تربیت میں معمولی کوتاہی اسے غلط نہج پر لے جاسکتی ہے۔
تبصرہ لکھیے