تخلیق اور تعلیم کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ خالق کائنات نے انسان کو تخلیق کیا تو ساتھ ہی تعلیم کا آغاز کردیا۔ پہلا سبق توحید کا تھا۔ الست بربکم؟ عالم ارواح میں تعلیم الہام کردی گئی۔ ہر وہ چیز جو اس خاکی وجود کے لیے اچھی تھی نیکی بن گئی اور جو بری تھی برائی ٹھہری۔ فطرت میں علم کی طلب رکھی اور انبیاء کو معلم کیا۔ انبیاء کے بعد تعلیم و تربیت کا فریضہ ماں باپ اور اساتذہ کی ذمہ داری ہے۔
بچہ ابھی مادر رحم میں ہوتا ہے تب ہی سے اس کی تعلیم و تربیت کا آغاز ہوجاتا ہے۔ اس دنیا میں آنے سے قبل یہ ننھا انسان کیا کچھ سیکھ چکا ہوتا ہے، جدید دور میں اس تک پہچنا بہت آسان ہو گیا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ ماں اور اس کا ماحول بچے کس طرح اثرات ڈالتے ہیں۔
توحید کا سبق لینے کے بعد نیکی اور بدی فرق سمجھ کر مادر رحم تشکیل پانے والا جنین تقریباً چوتھے ماہ میں اپنے ارد گرد کی آوازیں سننے کے قابل ہوجاتا ہے۔ اپنے خالق اور رب کو پہچاننے والا اب اپنی ماں کی آواز کو سب سے پہلے شناخت کرتا ہے۔ پھر وہ اپنے ماحول کی غالب زبان کو سیکھنا شروع کرتا ہے۔ پیدائش سے قبل بچہ اپنی مادری زبان سیکھ چکا ہوتا ہے۔ اس دوران ساری معلومات ماں کے جذبات و احساسات کی چھلنی سے چھن کر بچے تک پہنچتے ہیں۔گویا غلط اور درست، اچھے اور برے کے معیار پر ماں کی سوچ اور اس کےماحول کے اثرات مرتب ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ ماں اور باپ اپنے بچوں کے حوالے سے جو خواب دیکھتے ہیں، اس کے اثرات بھی اسی زمانہ سے دیکھے جاسکتے ہیں۔ حضرت مریم ؑ کی والدہ نے ان کی پیدائش سے قبل ہی اپنے رحم میں موجود بچے کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں وقف کرنے کا ارادہ کر لیا تھا۔
ہم میں سے کس کی خواہش نہ ہوگی کہ ہمارے بچے مثبت سوچ اور مضبوط شخصیت کے حامل نہ ہوں۔ ذرا سوچیے! کیا ہم ماؤں کو ایسا ماحول فراہم کرنے خصوصی کوشش کرتے ہیں کہ جس سے ہماری آنے والی نسل پر مثبت اثرات ہوں۔
علم حیاتیات اور نفسیات کے ماہرین شواہد کی بنیاد پر بتاتے ہیں کہ بچے جو نو ماہ رحم میں گزارتے ہیں اس پر ان کی تمام عمر کی جسمانی اور ذہنی صحت کا انحصار ہوتا ہے۔ ماں کے رحم میں صرف ایک جسم ہی نشوونما نہیں پاتا بلکہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے لے کر تدبر و تفکر کی اعلیٰ صلاحیت بھی اسی عرصے میں نمو پانا شروع کر دیتی ہے۔ پیدائش کے بعد کےمواقع ان صلاحیتوں کو جلا ضرور دیتے ہیں لیکن شخصیت کی عمارت انھی بنیادوں پر استوار ہوتی ہے جو ہمیں اس دنیا میں آنے سے قبل فراہم کی جا تی ہیں۔ رشتوں کی اہمیت، میل جول میں گرم جوشی یا سرد مہری، مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت یا پھر نئی اختراعات و ایجادات کی طرف رحجان، سب کی نمو اس زمانہ حمل میں پاتی ہے۔ حتی کہ آپ بچے کے طبعی رحجانات کو بھی اسی زمانہ میں کنٹرول کر سکتے ہیں۔ بچہ کے بہت سے نفسیاتی عوارض بھی اس زمانہ کا تحفہ ہوسکتے ہیں۔ ماں کی خوراک جہاں بچے کی جسمانی نشوونما کا سبب بنتی ہے وہیں اس میں ذائقہ کے رحجانات بھی پنپتے ہیں۔ پھل، سبزی، دودھ اور گوشت پر مشتمل غذا لینے والی ماں کے بچے فاسٹ فوڈ، سلانٹی اور نوڈلز کھا کر وٹامن کی گولیاں پھانکنے والی ماؤں سے مختلف ذائقے کے رحجانات رکھتےہیں۔ ظاہر ہے کہ بچوں میں صحت مند خوراک لینے کے رحجانات دن بدن کم ہونے کی وجوہات اسی لیے دیکھی جا رہی ہیں۔
پیدائش سے پہلے تین ماہ زمانہ حمل کا سب سے اہم عرصہ ہوتا ہے۔ اسی عرصے میں قلب و ذہن کی نشونما بہت تیزی سے ہوتی ہے۔ اعلیٰ فکری صلاحیتیں پنپتی ہیں۔ اس زمانہ میں جسم کے ساتھ ساتھ روح کی غذا کا خاص اہتمام بچے کی شخصیت سازی میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں پیدائش سے قبل بچے کے طبعی رحجانات کی نشو و نما کے ماہرین ماں باپ کے لیے خصوصی رہنمائی کے اسباق تیار کرتے ہیں۔
”اصحاب صفہ“ جو کہ پیارے نبی ﷺ کے اصحاب کے نام سے موسوم ادارہ ہے، قدیم اور جدید کے امتزاج سے اس موضوع پر والدین اور اسا تذہ کی رہنمائی کے لیےکام کر رہا ہے۔ اس ادارے کے زیر انتظام خاندانی تربیتی ادارے کو مستحکم کرنے کے لیے ”تعلیم اور تربیت رحم مادر سے“ کی تربیتی ورکشاپس آن لائن اور لائیو دونوں طرح سے پیش کی جاتی ہیں۔
(مریم عبید گزشتہ 15 سالوں سے تعلیم و تعلم سے وابستہ ہیں۔ بچپن ہی سے شخصیت سازی کے حوالے سے والدین اور اساتذہ کو رہنمائی فراہم کرنے کے حوالے سے جانی جاتی ہیں۔ بچوں کے تعلیمی اور نفسیاتی مسائل کو حل کرنے کئ ساتھ ساتھ بچپن کی تعلیم کی تشکیل نو پر کام کر رہی ہیں۔)
تبصرہ لکھیے