ہوم << تعلیمی مسائل کا حل، اب جرگہ کے ذریعے - حیات محمد کالامی

تعلیمی مسائل کا حل، اب جرگہ کے ذریعے - حیات محمد کالامی

حیات محمد سوات کوہستان خیبر پختونخوا کا خوبصورت ترین حصہ ہونے کے ساتھ ساتھ لسانی اور ثقافتی لحاظ سے بھی منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ یہاں ’’ جرگہ کی روایت‘‘ خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔ یہ جرگے مسائل کی نوعیت کے لحاظ سے طلب کیے جاتے ہیں ۔محلے کی سطح پر چند خاندانوں کے سربراہان، علاقے کی سطح پر علاقائی مشران اور قومی سطح پر کوہستان سے چیدہ چیدہ مشران کسی موزوں علاقے کا چنائو کرکے اکھٹے ہوتے ہیں اور مسائل کے حل کے لیے راستے ڈھونڈتے ہیں۔
جرگہ سوات کوہستان کی قدیم روایات میں سے ہے۔ ریاستی دور میں والی سوات نے لڑائی جھگڑوں اور آپس میں چپقلش کے علاوہ تعلیمی اور صحت کے مسائل کے حل کے لیے بھی جرگہ کا بھرپور سہارا لیا، ریاستی دور میں تعمیر شدہ صحت و تعلیم کے اداروں اور سڑکوں کی تعمیر کے لیے والی سوات نے مقامی عمائدین کے ساتھ جرگوں کے ذریعے رضاکاروں کی مدد حاصل کی۔ سوات کے پاکستان کے ساتھ ادغام کے بعد جب ساری باگ دوڑ حکومت کے ہاتھوں میں گئی تو ایسے جرگے مقامی مسائل تک محدود ہوگئے۔ جیسا کہ پانی، جائیداد اور سائل کی تقسیم میں دو فریقین یا قبائل کے مابین تصادم کے ممکنہ خطرات سے نمٹنا، جنگلات کا تحفظ ، قدرتی آفات کی صورت میں افرادی و مالی تعاون وغیرہ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ان جرگوں سے مسائل کافی حد تک کم ہوسکتے ہیں لیکن یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ’’مسائل کے دھاگے تعلیم سے جڑے ہیں‘‘. تعلیم کا گراف جتنا بڑھتا ہے اسی تناسب سے مسائل کا گراف نیچے گر جاتا ہے۔ سوات کی پاکستان میں شمولیت کے بعد جہاں مقامی وسائل سے تعلیمی اداروں کی تعمیر کا باب بند ہوگیا وہاں وفاقی حکومت نے بھی اس حسین علاقوں سے آنکھیں پھیر لیں۔ تعلیمی ادارے بھوت بنگلوں کی شکل اختیار کرگئے اور صحت و تعلیم کا نظام تتر بتر ہوگیا۔
آج تعلیمی انقلاب کے گن گانے والی حکومت میں بھی سکولوں کی حالت زار یہ ہے کہ نوے ہزار کی آبادی کے لیے واحد ہائرسیکنڈری سکول ہے جو پچھلے آٹھ سالوں سے لاوارث پڑا ہے۔ صرف تین ایس ایس سارا کالج سنبھالے ہوئے ہیں۔ سائنس کی نہ کتب ہیں اور نہ ٹیچرز، قدرتی آفات میں تباہ شدہ درجنوں سکول ویران پڑے ہیں۔ سکولوں میں ڈراپ آؤٹ اتنی تشویشناک ہے کہ نہم دہم تک پہنچتے پہنچتے صرف ایک یا دو طالب علم رہ جاتے ہیں۔ تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ گورنمنٹ ہائی سکول پشمال میں پانچویں کلاس میں صرف دس اور دسویں میں صرف ایک طالب علم پڑھ رہا ہے۔ سائنس لیبارٹری کیا ہوتی ہے؟ شاید ہی کوہستان کے سکولوں کے بچوں کواس بارے میں علم ہو۔
بات سے بات ملتی جا رہی ہے، ایسا نہ ہو کہ’’جو بات تھی ان سے کہنے کی، وہ بات ہی کہنا بھول گئے‘‘ اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔ ہماری حکومتیں تعلیمی انقلاب کے شگوفے چھوڑتے ہوئے ہر سالانہ بجٹ میں سب سے زیادہ رقم تعلیم کے لیے مختص تو کر رہی ہیں لیکن ’’مرغی کی وہی ایک ٹانگ‘‘ جوکبھی سیدھی نہیں ہو رہی، تو پھر ظاہر ہے ہمیں ہی اپنی لنگوٹی کسنا ہے؟ کیوں نہ اس جرگہ سسٹم کو تعلیمی مسائل کے حل کے لیے استعمال کیاجائے ۔ اس ضمن میں سوات کوہستان کی ایک غیر سرکاری تنظیم نے بین الاقوامی ادارے کے تعاون سے تعلیمی جرگے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ پہلی فرصت میں ادارے نے شرح تعلیم اور تعلیمی سہولیات کے فقدان کا تفصیلی سروے کیا جو انتہائی دل شکن نکلا۔ بعد میں ہر یونین کونسل اور تحصیل کی سطح پر تعلیمی مسائل کے حل کے لیے جرگے بلائے گئے جو انتہائی نتیجہ خیز ثابت ہوئے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ مقامی مشران کے علاوہ ایم پی ایز، ایم این ایز اور محکمہ تعلیم کے بالا افسران نے بھی جرگوں میں شرکت کی، اور حالات کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے حکومتی سطح پر بھرپور کوششیں کرنے کی یقین دہانی کرائی۔
اب اس جرگے کا اگلا مرحلہ شروع ہورہا ہے ، جس کا پہلا جرگہ اگلے روز بحرین کے مقام پر منعقد ہونے جا رہا ہے، جس میں علاقہ مشران کے ساتھ ساتھ منتخب بلدیاتی نمائندے، سماجی و سیاسی شخصیات، ایم پی ایز اور ایم این ایز ، ضلعی و مقامی انتظامیہ اور محکمہ تعلیم کے اعلی افسران کو بھی مدعو کیا گیا ہے۔ جس طرح پہلے مرحلے میں ہمارے علاقہ مشران اور تمام علاقوں کے عوام اس بات سے روشناس ہوگئے کہ تعلیمی مسائل کو ختم کیے بغیر معاشرتی مسائل سے چھٹکارا ممکن نہیں، اس لیے ایک مٹھی بن کر تعلیم کے فروغ کے لیے جدوجہد کا عزم کیا، اب اگلا مرحلہ اس لیے نہایت ہی اہمیت کا حامل ہے کہ وہ اپنی کارکردگی کو بھی جانچ سکیں گے اور جائزہ لے سکیں گے کہ کس حد تک بہتری آئی ہے اور کیا نئے تجاویز و آراء ان کے خیالوں میں ہیں جو جرگہ میں پیش کرنی ہیں۔ حکومتی نمائندوں کی شرکت اس لیے لازمی ہے تاکہ معلوم ہو کہ اب تک جتنا بجٹ خرچ ہوا، وہ کہاں پر ہوا؟ سوات کوہستان میں یونیورسٹی، سکولوں کی حالت زار پر اسمبلیوں میں کتنی تحاریک پیش ہوئیں؟ پہلے مرحلے میں جرگہ کا مطالبہ تھا کہ سوات کوہستان کو ہارڈ ایریا تسلیم کرکے ایمرجنسی بنیادوں پر تعلیمی ادارے تعمیر کیے جائیں اس حوالے سے کیا پیش رفت ہوئی ہے؟
اور آخر میں ایک ادنی سی تجویز اپنی طرف سے پیش کرنا چاہتا ہوں کہ ’’تعلیمی جرگے کی یہ زنجیر ٹوٹنی نہیں چاہیے‘‘ خواہ سرکاری یا غیر سرکاری ادارے ہم سے منہ کیوں نہ پھیر لیں، چونکہ جرگہ ہمارے مسائل کے حل کا روایتی طریقہ ہے، اس لیے سوات کوہستان کے ہر علاقے میں پہلے مرحلے میں فعال شدہ جرگوں کو اپنی سرگرمیاں مزید تیز کرنی چاہییں۔ صرف یہ سوچ کر اپنا عزم جواں رکھیں کہ جب جرگہ بڑے بڑے قبیلوں کے مابین خونریر مسائل حل کرسکتا ہے تو تعلیم میں مسائل ہی کیا ہیں، بس ہمارا آئینی و قانونی اور بنیادی حق ہے جو ہمیں نہیں مل رہا۔ اور اب ترقی یافتہ معاشرے کی تشکیل کے لیے اپنا یہ حق حاصل کرنا ہم سب کا فرض ہے۔

Comments

Click here to post a comment