Tag: نریندر مودی

  • انڈیا اور پاکستان کے موجود حالات – جیپال سنگھ

    انڈیا اور پاکستان کے موجود حالات – جیپال سنگھ

    آج کل انڈیا اور پاکستان کے حالات بہت کشیدہ ہیں یہ پہلی بار نہیں ہوا ہے. یہ کئی دہایوں سے چلتا آ رہا ہے اور یہ حالات ایسے ہی رہیں گے. کبھی کارگل کی جنگ کی صورت، کبھی پٹھانکوٹ، کبھی پلوانہ حملہ ہو. لیکن پچھلے 15 سال سے جو کچھ ہو رہا ہے ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا اور نہ اس طرح کے حالات ہوئے تھے.

    اگر حالات ہوئے بھی تھے لیکن حق کو بند کرنا لوگوں کو دربدر کرنا ایسا پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا.پچھلے 15 سال سے انڈیا میں نفرت کی سیاست کی گئی ہے. اس سے صرف اور صرف انڈیا کا نقصان ہوا ہے، کبھی بیگناہ کشمیریوں کو قتل کیا جاتا ہے تو کبھی بےگناہ مسلمانوں کو یا پھر کوئی بھی بے بنیاد حملہ کر کے پاکستان پر الزام لگایا جاتا ہے. لیکن کبھی ثبوت نہیں دیا کہ اس میں پاکستان ملوث ہے یہ چیزیں شعوری ذہنوں کو نفرت کی طرف لی جاتی ہے اور امن کو تباہ کر دیتی ہےاگر دونوں ممالک جنگ کی طرف جاتے ہیں تو اس میں صرف اور صرف تباہی ہو گی دونوں ملک تباہ ہو سکتے ہیں. اور سب سے زیادی بڑھ کر وہ لوگ تباہ ہو سکتے ہیں جو غریبت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں.

    کیوں کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کا جنگ سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اسکا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ دو وقت کی روٹی کیسے کمائی جائے اور اولاد کو اچھی تعلیم کیسے دی جائے. اس کے علاوہ یہ کچھ سوچتے بھی نہیں پھر جنگ ہونے سے ان کو کیا فائدہ ہو گا ؟یہ تو پہلے سے ہی معاشی طور پر تباہ ہے اور زائدہ تباہ ہو جائیں گے اسی لئے جنگ حل نہیں ہے جنگ خود ایک مسئلہ ہے جو تباہی کی طرف لے جاتی ہے .اس جدید دنیا میں اگر جنگ کرنی ہے تو ٹیکنالوجی اور معشیت کے میدانوں میں کریں ہتھیاروں کے ساتھ نہیں اگر جنگ کرنی ہے تو پہلے امن اور محبت قائم کرنے میں کریں. کیوں کہ اصلی جیت تو محبت اور امن قائم کرنے میں ہوگی.

    آب نریندر مودی کو چاہیے کہ وہ نفرت کی سیاست کو دفن کر دے کیوں کہ اس نے نفرت کی سیاست میں انڈیا کو تباہ کر دیا ہے اور آب کوئی بھی انڈین یہ نہیں چاہتا ہے کہ نفرت کی سیاست چلے اس سے مودی کو فائدہ ہو سکتا ہے لیکن انڈیا کی عوام کو نہیں۔اگر یہ حالات رہے تو انڈیا تباہی کی طرف جائے گا پھر اس تباہی کے بعد آنے والا مستقبل بھی روشن نظر نہیں آ رہا ہے.

  • ہچکولے کھاتے بھارتی مسلمان – میر افسر امان

    ہچکولے کھاتے بھارتی مسلمان – میر افسر امان

    بھارتی مسلمان راشٹریہ سویم سیوک سنگھ(آر ایس ایس) دہشت گرد تنظیم کے بنیادی ممبر وزیر اعظم بھارت نریندرا مودی کی ہندتوا،حکومت میں ایسی کشتی میں سوار ہچکولے کھارہے ہیں جو بغیر چپو کے تیر رہی ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کی ایک بھی مرکزی سیاسی پارٹی نہیں۔ سیاسی طور پر مسلمان پہلے پنڈت جواہر لال نہرو کی سیکولر گانگریس کے ساتھ تھے۔ اس کے دور میں بھی ہندو مسلم جھگڑے کروا کے مسلمانوں کو بہت نقصان پہنچایا گیا تھا۔ کانگریس نے بھی مسلمانوں کے ساتھ تعصب کا رویہ رکھاتھا۔

    سیکولر آئین رکھنے والے بھارت میں نریندرا مودی کی پارٹی بی جے پی نے ہندو مذہب کی بنیاد پر ہمیشہ الیکشن لڑا۔ بھارت میں ہندوؤں کی اکثریت ہے۔ مسلمان اقلیت میں ہیں۔ لہٰذا مودی نے ہمیشہ بھارت کے ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف کھڑا کرکے ہندو اکثریت کے زور پر الیکشن جیتا۔ یہ حربہ استعمال کرکے مودی پہلے گجرات کا وزیر اعلیٰ بنا تھا۔ گجرات میں مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں کو اکسایا۔ مسلمانوں پر پولیس سے حملے کرائے۔ ایک وقت میں ڈھائی ہزار سے زیادہ مسلمانوں کو شہید کیا۔ اسی بنیاد پر بھارت کا تیسری بار وزیر اعظم منتخب ہوا۔مودی بھارت کو صرف انتہا پسند ہندوؤں کا ملک بنانے کے پروگرام پر چل رہا ہے۔ اس کی سیاسی پارٹی نے الیکشن میں پورے بھارت میں کسی ایک مسلمان کو الیکشن لڑنے کے لیے ٹکٹ نہیں دیاتھا۔ اس لیے بھارتی پارلیمنٹ میں مودی کی سیاسی پارٹی کا ایک بھی مسلمان منتخب ممبر نہیں۔

    کانگریس کے ٹکٹ پر ایک مشہورشاعرعمران پرتاب گڑھی منتخب ہوا۔ ایک خاتون اِقرا حسن چوہدری کیرانہ سے سماج وادی پارٹی کے تخت پر بی جے پی کو شکست دے کرمنتخب ہو کر آئی۔ اس کے خاندان کے لوگ برسوں سے ممبر منتخب ہوتے رہے ہیں. اسدالدین اویسی ایڈوکیٹ حیدر آباد آندھرا پر دیش سے کل ہند مجلس المسلمین پارٹی کے صدر ہیں۔ کئی بار لوک سبھا کے ممبر منتخب ہوئے ہیں۔ یہ حضرات پارلیمنٹ میں پہنچ کر اپنے اپنے طور پر مسلمانوں مظالم کے لیے آواز اُٹھاتے رہتے ہیں۔کاش کہ بھارتی مسلمان کل ہند مجلس المسلمین پر ہی متفق ہو جائیں۔ جن علما کو بھارت میں ہندوؤں کے سامنے اسلام کا پر امن اورشانتی والامذہب اسلام، جو برابری پر یقین رکھتا ہے پیش کرنا تھا ، وہ صرف اسلامی کی عبادات تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ بلکہ جب بانی پاکستان قائدط اعظم محمد علی جناحؒ دوقومی نظریہ پر پاکستان کی تحریک چلا رہےتھے، تو گانگریسی علما نے ہندو قومیت کی بنیاد پر پاکستان کی مخالفت کی تھی۔جب کشمیری مسلمان بھارت کے مظالم کے خلاف اُٹھ کر پاکستان میں شامل ہونے کی تحریک چلاتے ہیں تو ان کو نصیحت کرتے ہیں کہ بھارت پولیس پر پتھر بازی نہ کرو، ان سے دب کر رہو۔

    تعصب کی بنیاد پرپورے بھارت میں مسلمانوں کے خلاف متعصب ہندوؤں نے مہم چلائی ہوئی ہے۔ مودی حکومت مسلمانوں پر ہر تشدد کی حمایت کرتی ہے۔ آرایس ایس مسلمانوں کو دھمکیاں دیتی رہتی ہے کہ پاکستان چلے جاؤ یا واپس ہندو بن جاؤ۔ دوسرا کوئی بھی راستہ نہیں ہے۔ متعصب ہندو کسی بھی بے بس مسلمان کوپکڑ کر تشدد کرتے ہیں۔ جے ماتا کے زبردستی نعرے لگانے پر مجبور کرتے ہیں۔اس پر ڈنڈے برساتے ہیں اور شہید کر دیتے ہیں۔ کبھی کسی پر گائے ذبح کرنے یا گائے کاگوشت فریج میں رکھنے کے الزام میں اس پر تشددکر کے شہید کر دیتے ہیں۔ کبھی مسجد کو مسمار کر کے اس پر مندر تعمیر کرتے ہیں۔ پانچ سوسالہ پرانی بابری مسجد کو متعصب ہندوؤں نے شہید کر کے اس کی جگہ مندر بنادیا اور یہ کام مودی حکومت نے کیا۔

    یہ مظالم کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس کا تاریخی پس منظر ہے۔ ہندوستان کے اصل پرانے باشندے دراوڑ تھے۔ وہ ہندوستان پر حکومت کرتے تھے۔داروڑی تمدن کوہستان شولک،دریائے ناپتی اور نریدا اور کوئٹہ سے بیکا نیر اور کاٹھیاواڑ تک پھیلا ہوا تھا۔اسے ہڑپاسی تمدن بھی کہتے ہیں۔ بعض آثار قدیمہ نے داروڑی تمدن کے زمانے کا تعین۰۵۲۳ قبل مسیح کیا ہے۔ اس طرح یہ تمد ن مصر اور سمیریا کا ہم عصر تھا۔ ۰۰۵۲قبل مسیح میں آریہ نسل نے وسط ایشیا سے ہندوستان پر حملہ کیا۔ ہندوستان کے اصل باشندوں کو آہستہ آہستہ تشدد کا نشانہ بناکر ان کی زمینیں، کاروبار اور حکومت چھین کر ان کو شودر بنا دیا۔ ہندوستان کے حکمران اور اصل باشندوں کو طاقت کے زور پر کمزور کر کے پورے ہندوستان کے مالک بن بیٹھے۔ بھارت کے متعصب ہندو اسی تاریخی واقعہ کو بڑی باریکی سے اب مسلمانوں پر آزما رہے ہیں۔مسلمانوں نے محمد بن قاسمؒ سے لے کر بہادر شاہ ظفر تک برصغیر پر ہزار سال سے زائد کامیابی سے حکومت کی ہے۔ مگر جب مسلمان طاؤس و رباب میں پڑ گئے تو انگریزوں نے برصغیر پرتجارت کے بہانے قبضہ کرلیا۔ اب ہندو اکثریت کی بنیاد پر مسلمانوں سے ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لینا چاہتے ہیں.

    اللہ نے قائد اعظمؒ کی قیادت میں کلمہ لا الہ الا اللہ کی بنیاد پر مثل مدینہ ریاست”مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان“ عطیہ کے طور پر دے دی۔ اس نے اسلام کا وہ نظام رائج کرنا تھا جس نے دنیا کے چار براعظموں پر کامیابی سے12 سوسال کامیابی سے شاندار حکومت کی تھی۔ اسے بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں کا پشتیبان بننا تھا کہ ہندو ان پر ظلم کرنے سے پہلے سو بار سوچتے۔ قائداعظمؒ نے پاکستان بننے کے بعد اس کی ابتداء کر دی تھی مگر قائداعظمؒ کی وفات کے بعد آل انڈیا مسلم لیگ کے کھوٹے سکوں نے اسلامی نظام حکومت قائم نہیں کیا۔ آج کمزور پاکستان بھارت کے مسلمانوں کی پشتی بانی کرنے کے قابل نہیں رہا۔ مودی بھارتی مسلمانوں کو شودر بنانے کے عمل پر باریکی سے عمل کر رہا ہے۔ اللہ بھارتی مسلمانوں کا حامی و ناصر ہو۔ آمین۔

  • ٹرمپ اور مودی کی جیت، مسلمان اب کیا کریں؟ توقیر احمد سیاف

    ٹرمپ اور مودی کی جیت، مسلمان اب کیا کریں؟ توقیر احمد سیاف

    توقیر احمد امریکی عوام نے متعصب ڈونلڈ ٹرمپ کو بطور صدر منتخب کر کے پورے عالم کو یہ واضح پیغام دیا ہے کہ ہماری اکثریت متعصب، انتہا پسند اور مسلمانوں کے خلاف اندر باہر سے بغض، عناد اور دشمنی سے بھری پڑی ہے
    ٹرمپ کی فتح سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ امریکی عوام کی اکثریت کس طرح کے فکری اور عملی رحجانات کی حامل ہے اور کس طرح کے صدر کو چاہتی ہے.
    ٹرمپ نے جب اپنی انتخابی عوامی مہم کا آغاز کیا تو مسلمانوں کے خلاف زہر اگلا اور یہاں تک کہہ دیا کہ مسلمانوں کو امریکہ سے نکال دیا جائے گا. جس پر اسے مسلمانوں کی طرف سےگہری تنقید کا سامنا کرنا پڑا.
    بظاہر یہی لگ رہا تھا کہ ٹرمپ ہار جائے گا لیکن شاید ٹرمپ یہ جان چکا تھا کہ امریکی عوام کی اکثریت ٹرمپ ہی ہے اور ایسا ہی ہوا .
    اور یہ پہلی بار نہیں ہوا بلکہ بھارت کے متعصب وزیراعظم نریند مودی نے بھی انتخابات میں کامیابی مسلمانوں کے خلاف زہر اگل کر حاصل کی تھی. یہ وہی مودی تھا جس نے اپنی سرپرستی میں ایک ہزار گجراتی مسلمانوں کو شہید کروایا تھا. اس کے باوجود اسلام دشمنی کی بنیاد پر متعصب ہندوؤں نے اسے ووٹ دے کر وزیر اعظم بنایا. جس سے صاف ظاہر ہوا تھا کہ انڈیا کی اکثریت اس شخص کو پسند کرتی ہے جو مسلمانوں کے خلاف منصوبہ لے کر آئے. اور یہی بات امریکی قوم نے ٹرمپ کا انتخاب کر کے ثابت کی ہے.
    ان سب حقائق کے واضح ہونے کے بعد اب ان لوگوں کی زبانیں بند ہو جانی چاہییں جو صرف مسلمانوں پر انتہا پسندی اور بنیاد پرستی کا الزام لگاتے رہتے ہیں.
    اور دوسری اہم بات جو مسلم حکمرانوں، رہنماؤں اور عوام کو سوچنے اور کرنے کی ہے کہ ہم اس وقت کہاں کھڑے ہیں.
    آپس میں ہی دست وگریبان، ایک دوسرے کے خلاف ہی محاذ آرائی اور پروپیگنڈا!
    یاد رکھیں کہ سب سے اہم کام جو کرنے کے ہیں ان میں سے سر فہرست
    1. حقیقی اتحاد پیدا کرنا ہے.
    ہر ایک اسلامی ملک کو دوسرے اسلامی ملک کی پریشانی اور آزمائش کو اپنی آزمائش اور پریشانی سمجھنا ہوگا.
    2. اقوام متحدہ کے ادارے سلامتی کونسل میں دو مسلم ممالک کی مستقل نمائندگی کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے، جن کے پاس ویٹو کی پاور ہو. اور یہ مسلمان ممالک کا بنیادی حق ہے جسے عقل و نقل دونوں تسلیم کرتے ہیں. 65 سے زائد اسلامی ممالک، دنیا میں آبادی کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر، بہترین افواج، مضبوط معیشت لیکن افسوس ایک بھی اسلامی ملک ایسا نہیں جو سلامتی کونسل کا مستقل رکن ہو. اس بات کا مطالبہ مسلم حکمرانوں کو پرزور طریقہ سے کرنا چاہیے .
    3. مستقبل کے بارے میں مضبوط اور دیرپا پلاننگ. ایسا نہ ہو کہ ایک حکومت کے بعد دوسری حکومت کی ترجیحات تبدیل ہوں، جیسا کہ ماضی قریب میں ہوتا رہا ہے.
    4. نیٹو کی طرز پر مشترکہ فوجی اتحاد جو رنگ و نسل، عرب و عجم کے فرق سے پاک ہو .
    5 . آپس میں مضبوط تجارتی معاہدات.
    6. سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم کو اپنے اپنے ملک میں اولین ترجیحات میں شامل کریں، اس بات کو سمجھیں کہ آج کا دور ٹیکنالوجی کا دور ہے. اور وہی قومیں ہمیں آگے ترقی کرتی نظر آرہی ہیں جنھوں نے اس حقیقت کو سمجھا اور اس پر کام کیا. آج ان کی معیشت بھی مضبوط ہے اور دنیا پر حکومت بھی درحقیقت وہی کر رہے ہیں.
    7. نوجوانوں کی تعلیم و تربیت پر زور دیں. نوجوان کسی بھی معاشرہ میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں. تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں. مسلم حکمرانوں کو اپنے ملک کے نوجوانوں کو فکری، دینی، ذہنی اور تعلیمی طور پر مضبوط کرنا ہوگا .
    8. باصلاحیت لوگوں سے کام لیں. یورپ کی ترقی میں ہمارے مسلمان باصلاحیت ڈاکٹرز، اور سائنسدانوں کا اہم کردار ہے. ہمیں ان سے فائدہ اٹھانا چاہیے. ان کو اپنے اپنے ملک میں لائیں، ان کی عزت و حوصلہ افزائی کریں، ان کو مراعات دیں اور ان سے فائدہ اٹھائیں. ان تمام کاموں کے لیے ہمیں عوام میں شعور پیدا کرنے کی بھی ضرورت ہے. حالات کی سنگینی کو واضح کرنا بہت ضروری ہے، کیونکہ جب کوئی کام مل کر کیا جائے، وہ احسن انداز سے پایہ تکمیل تک پہنچتا ہے. ملت کے ہر فرد کو اپنے اندر اخلاص پیدا کرنا ہوگا اور اپنے فرائض منصبی کو جانتے ہوئے ملت کی بہتری کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا.
    بقول شاعر،
    افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
    ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا
    اور اس کے ساتھ ساتھ ہمیں کفر کے پروپیگنڈہ کو سمجھ کر مقابلہ کرنا چاہیے. آئے روز آنے والے فتنوں کو سمجھنا چاہیے، ایسا نہ ہو کہ جو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگائے، ہم بھاگنا شروع کر دیں اور اغیار کے ہاتھوں کھلونا بنتے رہیں. یاد رکھیں کہ اب صفیں تقسیم بھی ہو رہی ہیں اور بالکل واضح بھی. اگر ہم نے اپنی صفوں کو درست نہ کیا اور اتحاد قائم نہ کیا تو آنے والا وقت ہمارے لیے بہت کٹھن آزمائشوں والا ہوگا.
    بقول شاعر .
    تمھاری داستان تک نہ ہو گی داستانوں میں.

  • کیا پاکستان عالمی تنہائی کا شکار ہوگیا؟ عبید اللہ عابد

    کیا پاکستان عالمی تنہائی کا شکار ہوگیا؟ عبید اللہ عابد

    عبید اللہ عابد بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اعلان کیا کہ وہ پاکستان کو دنیا میں تنہا کردیں گے، پھر چند روز بعد پاکستان میں سیکولر اور لبرل طبقے نے دعویٰ کردیا کہ پاکستان دنیا میں تنہا ہوگیا۔ گزشتہ چند ہفتوں‌کے دوران شائع ہونے والی چند خبروں کا مطالعہ کرلیں، پھر فیصلہ کرلیں کہ سیکولرطبقہ کا دعویٰ درست ہے یا غلط۔
    یہ کیسی تنہائی ہے کہ
    افغانستان پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کا حصہ بننا چاہتا ہے۔
    یہ کیسی تنہائی ہے کہ
    ایران بھی پاک چائنا راہداری کا حصہ بننا چاہتا ہے۔
    یہ کیسی تنہائی ہے کہ
    سعودی عرب بھی اپنے آپ کو سی پیک کے ساتھ جوڑنا چاہتا ہے، پاکستان، چین اور سعودی عرب کے درمیان معاملات طے پا چکے ہیں۔
    یہ کیسی تنہائی ہے کہ
    ترکی بھی سی پیک کے ساتھ اپنے آپ کو متعلق کرنے لگا ہے، اس منصوبے پر کام شروع ہو چکا ہے۔
    یہ کیسی تنہائی ہے کہ
    دیگر خلیجی ریاستیں بھی اپنے آپ کو سی پیک کے ساتھ جوڑ رہی ہیں۔ اور وسط ایشیائی ریاستوں بھی سی پیک سے فائدہ اٹھانے کے لیے بے چین ہیں۔
    یہ کیسی عالمی تنہائی ہے کہ
    روس پاکستان کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے کے راستے پر گامزن ہے۔ بھارت کے اعتراضات کے باوجود روس نے پاکستان کے ساتھ فوجی مشقیں کیں۔
    اسلامی کانفرنس تنظیم (او آئی سی) کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ ہمیشہ لفظوں کی حد تک کشمیر کے معاملے پر پاکستان کا ساتھ دیتی تھی، اس سے زیادہ کچھ نہیں کرتی تھی لیکن کیا کوئی دیکھ سکتا ہے کہ ترکی نے مقبوضہ کشمیر میں فیکٹ فائنڈنگ کمیشن بھیجنے کا اعلان کر دیا ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ ترکی جو کہتا ہے، اس پر عمل بھی کرتا ہے۔ کیا اس قدر بڑی پیش رفت اس سے پہلے کبھی دیکھنے کو ملی؟ جب فیکٹ فائنڈنگ کمیشن مقبوضہ کشمیر کی طرف عازم سفر ہوگا تو دنیا بھارت کی تنہائی دیکھے گی۔ بہت جلد یہ دن بھی آنے والا ہے۔
    پاکستان کا سیکولر طبقہ بھارتی اخبار ٹائمز آف انڈیا ہی پڑھ لے جو لکھتا ہے کہ بھارت ہی میں ہونے والے برکس اجلاس میں روس نے پاکستان کے خلاف بھارتی مؤقف مسترد کر دیا جس پر مودی سرکار کافی پریشان ہے۔ اخبار کے مطابق چین کے بجائے روس نے بھارت کو سب سے زیادہ مایوس کیا ہے۔ یاد رہے کہ برکس اجلاس میں بھارت روس سے پاکستان کے خلاف بیان بازی کرانا چاہتا تھا۔
    حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان کو سفارتی سطح پر تنہا کرنے کے دعوے کرنے والا بھارت خود عالمی تنہائی کا شکار ہو رہا ہے جبکہ پاکستان کا سیکولر طبقہ قوم کو یہ کہہ کر مایوس کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ پاکستان عالمی تنہائی کا شکار ہو چکا ہے۔
    اس سے پہلے چین نے بھی پاکستان کے خلاف بھارتی کوششوں کو یہ کہہ کر ناکامی سے دوچار کردیا کہ وہ دہشت گردی کو کسی مخصوص ملک یا مذہب سے جوڑنے کے سخت خلاف ہے۔ چین نے اعلان کیا کہ وہ ہرحال میں پاکستان کے ساتھ ہے اور دنیا دہشت گردی کے خلاف پاکستانی قربانیاں تسلیم کرے۔ چین نے برکس اعلامیہ سے جیش محمد اور لشکرطیبہ کا ذکر بھی نکلوا دیا، یہاں تک کہ بھارت اوڑی حملہ کو بھی اعلامیہ میں شامل نہ کروا سکا۔ عالمی تنہائی کا شکار بھارت ہو رہا ہے، جبکہ سیکولرز پاکستانی قوم کو مایوس کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
    آذربائیجان کے صدر الہام علیوف نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کی مذمت کی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ اس مسئلہ کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کیا جائے۔ کیا اس سے قبل دنیا میں پاکستان کو اس قدرحمایت حاصل تھی؟ یقینا نہیں، مسئلہ کشمیر سے متعلق پاکستانی مؤقف کی دنیا میں پذیرائی بڑھ رہی ہے۔ اس کے باوجود سیکولر طبقہ کہتا ہے کہ پاکستان عالمی تنہائی کا شکار ہے۔
    آپ کو یاد ہوگا کہ اوڑی حملہ پر بھارت نے پاکستان کے خلاف امریکہ کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا، امریکہ نے نہ صرف پاکستان کے خلاف بھارتی مقدمہ کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا بلکہ اسے پاکستان کے خلاف جنگی عزائم سے باز رہنے کو کہا۔۔اس کے باوجود سیکولرز کہتے ہیں کہ پاکستان عالمی تنہائی کا شکار ہوچکا ہے۔
    پاکستان اور چین ایشیائی ممالک کے اقتصادی بلاک پر کام کر رہے ہیں، چین پاکستان کے ذریعے ترکی اور یورپی ممالک تک پہچنے کےلیے ”فاسٹ ایشیا ٹرین“ چلانے کے منصوبے پر کام کر رہا ہے۔ اس کے باوجود سیکولرز کہتے ہیں کہ پاکستان عالمی تنہائی کا شکار ہو رہا ہے۔
    سیکولر لابی کو سوچنا چاہیے کہ کیا نریندرمودی کے کہنے سے پاکستان عالمی تنہائی کا شکار ہوگیا؟

  • اصل چہرہ-محمد اظہار الحق

    اصل چہرہ-محمد اظہار الحق

    izhar
    یہ ایک دلدوز منظر تھا۔ اتنا دل دوز کہ دیکھنے والے کا کلیجہ باہر آنے لگتا تھا۔
    وہ چار تھے۔ تن پر صرف پتلون نما چیتھڑے تھے۔ ہر ایک کی کمر کے گرد رسی تھی۔ رسی کا دوسرا سرا سامنے کھڑی گاڑی سے بندھا تھا۔ پہلے انہیں بھارتی ریاست کے قصبے اونا کی گلیوں میں پھرایا گیا۔ پھر ایک ایک اونچی ذات کا ہندو آتا اور لکڑی کے بہت چوڑے ڈنڈے کے ساتھ ان کے پیچھے ضرب لگاتا۔ ایک آیا۔ پھر دوسرا‘ پھر تیسرا‘ پھر چوتھا۔ وہ مار کھا کھا کر گر جاتے۔ پھر انہیں اٹھایا جاتا‘ اور مزید افراد آ کر مارتے۔
    یہ دلت تھے۔ اچھوت۔ ان کا قصور یہ تھا کہ وہ ایک مری ہوئی گائے کی کھال اتار رہے تھے۔ گائے پہلے سے مری ہوئی تھی۔ ان پر الزام لگا کہ انہوں نے گائے کو مارا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ مرے ہوئے جانوروں کی کھال اتارنا ان کا پیشہ ہے۔ یہ لوگ صدیوں سے یہی کام کر رہے ہیں۔ مگر مودی کے گجرات میں ہندو دھرم اپنی نئی آفتوں کے ساتھ زور پکڑ رہا ہے۔ ”گائے بچائو‘‘ جتھے بنے ہوئے ہیں جو شہروں‘ قصبوں اور بستیوں میں گشت کرتے ہیں۔ شائبہ بھی پڑ جائے تو بغیر تحقیق یا تفتیش کیے‘ ”مجرموں‘‘ کو سزا دینا شروع کر دیتے ہیں۔
    مگرگجرات کے اچھوتوں نے ہڑتال کر دی۔ انہوں نے بہت سے مردار سرکاری دفتروں کے آگے ڈال دیے اور کہا کہ گائے تمہاری ماں ہے‘ خود سنبھالو۔ سینکڑوں ہزاروں مردہ جانور پڑے پڑے گلنے سڑنے لگے۔ پھر حکومتی کارندوں نے چمار خاندانوں کی منتیں کیں۔ مگر شیوسینا کے مار دھاڑ کرنے والے جتھوں کو کچھ نہ کہا گیا۔ یہ سب مودی کے چہیتے ہیں۔
    اُتر کھنڈ بھارتی پنجاب کے مشرق میں واقع ہے۔ چند دن پہلے وہاں گندم پیسنے کی چکی میں ایک اچھوت سوہن رام کی گندم پیسی جا رہی تھی۔ اوپر سے ماسٹر للت آ گیا۔ وہ اونچی ذات کا تھا۔ اس نے سوہن رام کو گالیاں دینا شروع کر دیں کہ چکّی کو پلید کر دیا۔ سوہن رام نے احتجاج کیا۔ ماسٹر للت کے ہاتھ میں تیز دھار درانتی تھی۔ اس نے سوہن رام کی گردن پر زور سے چلا دی۔ سوہن رام وہیں مر گیا۔
    یہ صرف دو واقعات ہیں۔ بھارت میں ہر روز ایسے سینکڑوں واقعات رونما ہوتے ہیں۔ اچھوتوں کی آبادی بھارت کی کل آبادی کا سولہ فیصد ہے یعنی تقریباً سترہ کروڑ! مگر قیاس یہ ہے کہ حکومتی مشینری یہ تعداد کم سے کم بتاتی ہے۔ گمان غالب یہ ہے کہ اچھوت بائیس اور پچیس کروڑ کے درمیان ضرور ہوں گے یعنی بیس فیصد۔ ان کے حقوق کوئی نہیں۔ صرف فرائض ہیں۔ بھارت میں آبادی کی اکثریت کے گھروں میں بیت الخلا کا رواج نہیں۔ بستیوں کے اردگرد جب غلاظت کے انبار آخری حدوں کو چھونے لگتے ہیں تو اچھوت انہیں ٹھکانے لگاتے ہیں۔ گلیاں صاب کرتے ہیں۔ مردہ جانوروں کی انتڑیاں سنبھالتے ہیں۔ کھالیں اتارتے ہیں۔ ہر گندا اور گھٹیا کام کرتے ہیں۔ پچانوے فیصد سے زیادہ اچھوت مکمل ان پڑھ ہیں۔ یہ فیصلہ صرف اونچی ذات کے ہندو کرتے ہیں کہ اچھوت کون کون سے کام کریں گے اور کون کون سے نہیں کریں گے۔ کہاں رہیں گے‘ کس کس کو پانی پکڑا سکتے ہیں؟ کس کس کے ساتھ کھانا کھا سکتے ہیں‘ شادیاں کہاں کہاں اور کس کس کے ساتھ کر سکتے ہیں۔ غرض ان کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اونچی ذات کے ہندوئوں کے ہاتھ میں ہے۔
    بھارت ذات پات کے مکروہ نظام میں سر سے پائوں تک جکڑا ہوتا ہے۔ ہندو عقیدے کے مطابق دیوتائوں کے مُونہہ سے برہمن نکلے۔ بازوئوں سے لشکری اور بادشاہ برآمد ہوئے۔ رانوں سے تاجر اور کسان نکلے۔ رہے شودر تو انہوں نے پائوں سے جنم لیا۔ منوں کی تعلیمات آج بھی بھارتی یونیورسٹیوں میں سنسکرت کی ڈگری کورس کا حصہ ہیں۔ ان تعلیمات کے مطابق اچھوت‘ سابق زندگی کے گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔ پڑھنا لکھنا بھی جرائم میں شامل ہے۔ اونچی ذات کے کسی ہندو کی توہین کی سزا درد ناک اور اذیت ناک موت ہے۔ اونچی ذات کے ہندو جو چاہیں اچھوتوں کے ساتھ کریں‘ پولیس مداخلت نہیں کرتی۔
    مودی کا گجرات صوبہ‘ جسے مثالی صوبہ کہا جاتا ہے‘ اس ضمن میں بدترین ریکارڈ رکھتا ہے۔ پورے بھارت میں اگر کہیں خوفناک ترین سلوک اچھوتوں کے ساتھ روا رکھا جا رہا ہے تو وہ گجرات ہے۔
    جس ملک کی بیس فیصد آبادی اچھوتوں پر مشتمل ہو اور وہ ترقی کے دائرے سے ہر امکانی حد تک باہر ہوں‘ وہ ملک حقیقت میں کبھی ترقی نہیں کر سکتا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چالاک بھارت نے اپنے چہرے کا یہ ڈرائونا حصّہ دنیا سے چھپایا ہوا ہے۔ سکارف باندھنے والی عورتوں کے غم میں دُبلے ہونے والے مغربی ملکوں کے لوگ اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ بھارت میں بیس کروڑ افراد جانوروں سے بدتر زندگی گزار رہے ہیں اور ان کی اکثریت انسانی غلاظت کو ہاتھوں سے صاف کر رہی ہے۔
    کیا پاکستان اس ضمن میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے؟ نہیں! پاکستان پر لازم ہے کہ ظلم کی چکی میں پسنے والے آدم کے ان بیٹوں کی دستگیری کرے اور دنیا کو آگاہ کرے کہ آئی ٹی میں ترقی کے دعوے کرنے والی دنیا کی یہ سب سے بڑی ”جمہوریت‘‘ اپنے بیس بائیس کروڑ لوگوں کے ساتھ کیا کر رہی ہے۔ کس طرح ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ انہیں مارا پیٹا جاتا ہے۔ بنیادی حقوق سے وہ محروم ہیں۔ سکول اور ہسپتال کے الفاظ ان کی ڈکشنریوں میں ڈھونڈے سے نہیں ملتے۔ مردہ جانوروں کی کھالیں اتارنے کا انہیں حکم دیا جاتا ہے اور پھر کھالیں اتارنے کی سزا دی جاتی ہے۔ وہ گندم جو کھیتوں میں اگتی ہے‘ جب اچھوت کے گھر میں پہنچتی ہے تو پلید ہو جاتی ہے۔ پھر وہ اس چکی میں پیسی تک نہیں جا سکتی جس میں اونچی ذات کے ہندوئوں کی گندم کا آٹا بنتا ہے!
    حیرت ہے کہ بلوچستان کے حقوق کی بات کرنے والے مودی کو‘ پاکستانی حکومت کا کوئی وزیر‘ وزیر اعظم‘ ڈپلومیٹ یہ نہیں کہتا کہ تم اپنی آبادی کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہو؟ پہلے ان کے حقوق کی بات کرو!
    پاکستان کے دفتر خارجہ پر لازم ہے کہ ایک مستقل شعبہ اپنے ہاں‘ بھارت کے اچھوتوں کی دیکھ بھال کے لیے قائم کرے۔ پھر اسے ہر لحاظ سے مستحکم کرے۔ پاکستان کا ہر سفارت خانہ‘ لازماً‘ بھارت کے اچھوتوں کا احوال دنیا کو بتائے اور ان کے حقوق کے لیے آواز اٹھائے۔
    پاکستانی میڈیا اس سلسلے میں اپنا کردار نہیں ادا کر رہا۔ کیا ہمارے اینکر پرسنوں کو‘ ان کے پروڈیوسروں کو اور مالکان کو سرحد پار دہکا ہوا یہ جہنم نظر نہیں آتا؟ اس پر خصوصی پروگرام نشر ہونے چاہئیں جن میں اعداد و شمار اور حقائق کی مدد سے دنیا بھر کے ناظرین کو بھارت کا اصل روپ دکھایا جائے۔ دلت لیڈروں اور ترجمانوں کو ٹیلی فون لائن پر لے کر ان کا موقف دنیا تک پہنچایا جائے۔
    پاکستان کی فلاحی تنظیمیں اگر چاہیں بھی تو بھارتی حکومت انہیں اچھوت آبادی میں کام کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ اس کا حل یہ ہے کہ یہ فلاحی تنظیمیں بین الاقوامی اداروں سے رابطہ کریں اور ان کے ذریعے اچھوتوں تک پہنچنے کی کوشش کریں۔ حیرت ہے کہ انجلینا جولی اور بل گیٹس جیسی مشہور شخصیات نے‘ جو فلاحی کاموں کی وجہ سے دنیا بھر میں معروف ہیں‘ بھارت کے بیس کروڑ اچھوتوں پر کوئی توجہ نہیں دی۔ کیا انہیں معلوم کہ اچھوت حاملہ عورتیں مر جاتی ہیں لیکن بچوں کو جنم دیتے وقت ڈاکٹروں کی توجہ سے محروم رہتی ہیں کیونکہ ڈاکٹر انہیں ہاتھ لگانا گوارا نہیں کرتے۔ سخت گرمی اور کڑکتی دھوپ میں کوئی اچھوت پانی کا گھونٹ پینے کے لیے نلکے کو ہاتھ لگا دے تو وہیں مار دیا جاتا ہے!
    بھارت مشرق وسطیٰ کے ملکوں کے ساتھ قربت کی پینگیں بڑھا رہا ہے۔ ان ملکوں میں مخیّر عربوں کی کثرت ہے۔ وہ ہر سال کروڑوں ریال خیراتی کاموں پر صرف کرتے ہیں۔ پاکستان کو چاہیے کہ مشرق وسطیٰ کے ان ملکوں کو بھارت کے اچھوتوں کے حالِ زار سے آگاہ کرے تاکہ وہ ان کی مدد کے لیے اقدامات کریں۔

  • جنت سے، کشمیری بچے کا بھارت کے نام خط

    جنت سے، کشمیری بچے کا بھارت کے نام خط

    (کشمیر میں قابض بھارتی پولیس کے ہاتھوں پیلٹ گن کے چھروں سے شہید ہونے والے بارہ سالہ معصوم طالب علم جیند احمد کا ایک دل کو لہو کر دینے والا فرضی خط لکھا گیا ہے۔ کوئی بھی صاحب دل اسے پڑھ کر آنسو نہیں روک پاتا۔ ریحان اصغر سید نے دلیل کے لیے اس کا ترجمہ کیا ہے، قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔)
    بنام انکل نعیم اختر
    وزیر تعلیم جموں کشمیر
    (برائے میرے امتخانات کی منسوخی)
    پیارے انکل!
    میں یہ بات آپ کے نوٹس میں لانا چاہتا ہوں کہ میں (یعنی جنید احمد کلاس ہفتم، رول نمبر ۲۹ نیو بونونت انگلش سکول سرینگر) دو ہزار سولہ کے سالانہ امتحانات میں شرکت نہیں کر سکوں گا جھنیں آپ نومبر دو ہزار سولہ میں ہر صورت کروانے کے لیے کمربستہ نظر آتے ہیں، کیونکہ میں پہلے ہی آپ سے بہت دور جا چکا ہوں۔
    میں اپنے گھر کے دروازے کے پاس ہی کھڑا تھا جب ایک مہربان صورت پولیس انکل نے اپنی بدصورت نظر آنے والی بندوق سے مجھ پر گولی چلائی۔ اور پیلٹ گولیوں کی بوچھاڑ نے مجھے سر سے لیکر پاؤں تک چھلنی کر دیا۔ مجھے یقین ہے کہ پولیس انکل غلط فہمی کا شکار ہو کر مجھے کوئی ”مطلوب پتھر پھینکنے“ والا لڑکا سمجھے ہوں گے جو کہ میں نہیں تھا۔ مجھے ان پولیس انکل سے کوئی شکایت نہیں ہے۔
    پلیز! محبوبہ آنٹی کو بتا دیجیے گا کہ میں کسی فوجی کیمپ پر حملہ کرنے نہیں گیا تھا، اور ہاں! مجھے دودھ اور ٹافیاں پسند ہیں جس کا تذکرہ محبوبہ آنٹی نے دو مہینے پہلے راج ناتھ انکل (جو کے میرے دادا ابو جیسے ہیں) کے ساتھ پریس کانفرنس میں کیا تھا۔ کیا انھوں نے سوالیہ انداز میں نہیں پوچھا تھا کہ کیا یہ پتھر پھینکنے والے لڑکے آرمی کیمپوں پر دودھ اور ٹافیاں لینے جاتے ہیں، جن پر وہ اپنی پتھربازی کے ذریعے حملہ کرتے اور نشانہ بناتے ہیں؟ یہ کہہ کر انھوں نے کشمیر میں ہونے والے بےگناہوں کے قتل عام اور بندوق سے محبت کرنے والی فورسز کی وحشت کو جائز قرار دیا تھا. مجھے ان فوجیوں سے بھی کوئی شکایت نہیں ہے کیوں کہ انھیں قتل کرنے کی ہی تربیت دی جاتی ہے۔ یہ ان کا کام ہے اور وہ اسی چیز کی تنخواہ لیتے ہیں۔
    میرے ہمسائیوں نے میرے زخمی جسم کو قریبی ہسپتال لے جانے کی کوشش کی لیکن میرے گھر سے ہسپتال کا مختصر سا فاصلہ بہت طویل ثابت ہوا اور اسی دوران میری زندگی کی بچ جانے والی سانسوں کا سلسلہ پورا ہو گیا۔
    اب جب میں اپنی قبر میں ہوں، آپ سے درخواست کرنا چاہتا ہوں کے میرا سارا سابقہ تعلیمی ریکارڈ اور نتائج ضائع کر دیے جائیں اور مجھ پر رول نمبر سلپ جاری کرنے کی عنایت نہ کی جائے، جس طرح لیلہار پور کی شائستہ حامد کو اس کی موت کے دو مہینے بعد کامیاب قرار دیا گیا تھا۔
    میں آپ کا شکرگزار ہوں کہ آپ نے مجھے ایسی جگہ بھیجا ہے جہاں پامپور کے ایک اُستاد شبیر احمد مونگا پہلے سے موجود ہیں۔ یہاں میرے پاس بے پناہ وقت ہے کہ میں ان سے پڑھوں اور منطق، دلیل سے تنقید کرنے کی زبان جانوں۔
    میں اس لیے بھی آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے مجھے میرے پرانے قصبے ورمول کے دوست فیضان سے ملوا دیا ہے جسے گرفتار کر کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور آزاد گنج پل ورمول سے دریائے جہلم میں پھینک دیا گیا تھا۔ اب ہم یہاں خوب انجوائے کریں گے، کھلا وقت ہوگا اور پھر یہاں قتل کیے جانے، اندھا یا معذور ہونے کا ڈر بھی تو نہیں ہے.
    برائے مہربانی میرا پیغام محبوبہ آنٹی تک پہنچا دیجیے کہ وہ میری قبر پر آنے کی زحمت نہ فرمائیں کیوں کہ میں ان کو یہ کہتا ہوا نہیں سن سکتا کہ آپ کے ساتھ جو کچھ ہوا، آپ اس کے لیے مجھ سے ناراض تو نہیں ہیں؟ میں ان سے بھی ناراض نہیں ہوں۔
    شاہ فیصل انکل میں آپ کی کمپین ”کشمیری باکس ڈاٹ کام“ کا حصہ نہ بننے پر معذرت خواہ ہوں، جس میں آپ نے اندھے ہو جانے والے بچوں کے لیے کتابیں اور دوسری تعلیمی اشیاء دینے کا سلسلہ شروع کیا ہے. ان کا منصوبہ مجھے پیلٹ سے اندھا کرنے کا تھا، لیکن رحم دل پولیس انکل نے مجھے اندھا کرنے سے مار دینا زیادہ مناسب سمجھا۔
    میں ذاتی طور پر اس پولیس والے انکل کا انتہائی شکرگزار ہوں جھنوں نے مجھے اندھا کرنے کے بجائے قتل کر کے مجھے اپنے والدین پر بوجھ بننے سے بچا لیا۔ میں پرانے قصبے وارمول کے اعجاز کبیر بیگ کے والدین کا درد سمجھ سکتا ہوں جسے اپنی والدہ کی دوائی خریدنے کی پاداش میں اندھا کر دیا گیا تھا۔
    خدارا میرے والد کو نہ ستائیےگا، میں انھیں قائل کر لوں گا کہ وہ میرے قتل کی کوئی ایف آئی آر نہ کٹوائیں۔ مجھے امید ہے کہ آپ انھیں تھانے میں بلا کر دھمکائیں گے نہ خوفزدہ کریں گے، اور نہ حصول انصاف کی کوشش میں برے انجام سے ڈرائیں گے.
    مجھے اس شاندار طریقے سے الوداع کہنے پر میں آپ کا انتہائی ممنون ہوں۔ ایسا شاندار الوادعیہ منتخب لوگوں کے حصے میں ہی آتا ہے۔ اگرچہ میری آنکھیں بند ہوگئیں اور جسم بے جان ہو گیا مگر اس کے باوجود میں پاوا شیلز کی شدت اور تلخی محسوس کرتا رہا۔ ہاں! میں اس کے لیے مودی انکل سے بھی کوئی شکایت نہیں کر رہا۔
    آپ سے حقیقی محبت کرنے والا،
    لیکن مردہ طالب علم
    جنید احمد
    کلاس ہفتم
    رول نمبر ۲۹
    نیو بونووانت ہائی سکول نیو کمپس
    اعلی مسجد ہال روڈ
    سرینگر، کشمیر

  • بھارت نے آزادکشمیر میں سرجیکل سٹرائیک کیسے کی؟ عبید اللہ عابد

    بھارت نے آزادکشمیر میں سرجیکل سٹرائیک کیسے کی؟ عبید اللہ عابد

    عبید اللہ عابد ہمارے یہاں ننھی منی بچیاں ”گُڈے“ اور ”گُڈی“ کا کھیل کھیلتی ہیں، ایک کا ”گُڈا“ ہوتا ہے اور دوسری کی ”گُڈی“ ( گڑیا)، دونوں‌ بچیاں گُڈے اور گُڈی کی شادی کرتے ہیں۔ شادی سے پہلے شادی کے لیے خوب تیاری کرتی ہیں اور پھر بیاہ ہو جاتا ہے۔
    ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں حکمران، میڈیا اور جرنیل اسی طرح کھلونے بنا کر ”جنگ ، جنگ“ کھیلتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ مودی، میڈیا پرسنز اور جرنیلوں کے سروں میں سفیدی آگئی ہے لیکن وہ اب بھی بچے کے بچے ہی ہیں۔ ان کی سوچ اور ان کی حرکتیں ننھے منے بچوں جیسی ہی ہیں۔ کیسے بھلا؟ اس کی ایک مثال بھارتی حکومت و فوج کا آزادکشمیر میں سرجیکل سٹرائیک کا دعویٰ ہے، جس کے مطابق بھارتی فوج آزاد کشمیر میں دو کلومیٹر اندر تک گھس آئی، اس نے مجاہدین کے تربیتی کیمپ تباہ کیے اور پھر واپس چلی گئی۔ میں نے آج کے بھارتی اخبارات دیکھے تو ہر جگہ واہ واہ ہو رہی ہے، مودی حکومت کی بھی اور بھارتی فوج کی بھی۔
    دراصل بھارتی جرنیلوں نے اپنے ہیڈکوارٹر میں ایک بڑی میز پر میدان جنگ ترتیب دیا، اس میں ایک طرف مقبوضہ کشمیر بنایا اور دوسری طرف آزاد کشمیر۔ پھر ایک جرنیل مقبوضہ کشمیر سے ہیلی کاپٹر اڑا کے آزادکشمیر لایا، ”ٹھاہ، ٹھاہ“ کیا اور پھر اپنا ہیلی کاپٹر واپس لے گیا، اسے مقبوضہ کشمیر میں رکھ کر پھر کچھ فوجیوں کو چلا کر آزادکشمیر تک لایا اور وہاں کچھ تربیتی کیمپوں پر ٹانگیں چلائیں، انھیں تباہ کیا اور پھر اس جرنیل نے وہ فوجی واپس مقبوضہ کشمیر میں رکھ دیے۔ یہ تھی ان کی ”سرجیکل سٹرائیک“۔
    میں یہ بات ایک ٹیبل سٹوری کے طور پر نہیں کررہا ہوں۔ میں‌نے مقبوضہ کشیمر اور آزادکشمیر کی درمیانی لکیر (لائن آف کنٹرول) کے بالکل قریب رہنے والوں سے معلومات حاصل کیں، بالخصوص معروف عرب ٹی وی چینل ”العربیہ“ سے وابستہ صحافی عبدالقیوم فہیمد سے اس بنیادی سوال کا جواب لینے کی کوشش کی کہ آیا سرجیکل سٹرائیک ہوئی ہے یا نہیں؟ نوجوان صحافی نے میرا سوال سنتے ہی فی الجملہ بھارتی دعوے کو مسترد کردیا، کہا کہ لائن آف کنٹرول سے اِدھرپہاڑی علاقے اس نوع کے ہیں کہ بھارتی فوج کا اس پار آنا ممکن ہی نہیں ہے، اگر وہ گھستی ہیں تو ان کا آگے بڑھنا ہی ممکن نہیں ہے، اگر وہ آگے بڑھتی ہیں تو ان کا واپس جانا ممکن نہیں‌ ہے۔ انھوں نے بتایا کہ کچھ سیکٹرز پر بھارتیوں‌ نے کراس بارڈر گولہ باری کی، نتیجے میں دو فوجی شہید اور کچھ لوگ زخمی ہوئے ہیں۔ پاکستان نے جوابی گولہ باری کی، بھارتی فوجیوں کو ہلاک ہوتے دکھایا گیا ہے۔ بعض اطلاعات کے مطابق 14 بھارتی فوجی ہلاک ہوچکے ہیں، 8 کی لاشیں سامنے نظر آ رہی ہیں لیکن بھارتی فوج انھیں‌اٹھانے کی ہمت نہیں کر رہی ہے۔
    گزشتہ روز بھارتی وزیراعظم مودی نے کل جماعتی کانفرنس بلائی تھی، اس میں‌ عسکری قیادت بھی موجود تھی۔ کانفرنس کے اختتام پر حکمرانی پارٹی نے دعویٰ کیا کہ عسکری قیادت نے ”سرجیکل سٹرائیک“ کے ثبوت دکھائے تاہم کانفرنس میں شریک کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے رہنما سیتا رام یچوری نے کہا کہ بالکل نہیں، کوئی ثبوت نہیں دکھائے گئے۔ ”انڈین ایکسپریس“ کے مطابق سیتاررام یچوری نے کہا: ”ہم نے اپنے ڈی جی ایم او کو بریفنگ دیتے ہوئے دیکھا، ہم نے پاکستان کا ردعمل دیکھا لیکن اس کے علاوہ کچھ نہیں معلوم نہیں“۔ کانفرنس میں شریک ایک بزرگ بھارتی سیاست دان کی اس بات کے بعد مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔
    سوال یہ ہے کہ بچوں جیسی حرکتیں کرنے والے مودی، میڈیا پرسنز اور جرنیلوں نے یہ کھیل کیوں‌کھیلا؟
    مودی نے پاکستان کے خلاف جنگ کے نعرے لگا کر بھارتی انتہاپسند طبقے کا ووٹ لیا، انھیں حکومت بنائے دو برس بیت چکے ہیں، انتہاپسند طبقے کی طرف سے ان پر دباؤ تھا کہ پاکستان کے خلاف جنگ کرو۔ شیوسینا تو کھل کر انھیں مطعون کر رہی تھی، ان پر دبائو بڑھا رہی تھی کہ پاکستان کی ایسی تیسی پھیر دو۔ اب مودی صاحب اپنے وعدوں کے چنگل میں پھنس گئے۔ ایسے میں انھوں نے بھارتی میڈیا کے کچھ ذرائع، جرنیلوں کو ساتھ ملایا اور سرجیکل سٹرائیکس جیسے ڈرامے کرنے کا منصوبہ بنایا۔
    میں باقاعدگی سے بھارتی اخبارات کا مطالعہ کرتاہوں۔ پی ٹی آئی ( پریس ٹرسٹ آف انڈیا) اور یو این آئی ( یونین نیوزآف انڈیا)، ان دو بڑی بھارتی نیوز ایجنسیوں کی بھیجی ہوئی خبروں سے بھارتی اخبارات بھرے ہوتے ہیں۔ میں آپ کو صرف ایک ہفتہ تک بھارتی اخبارات پڑھنے کا مشورہ دیتاہوں، آپ بخوبی جان لیں گے کہ یہ خبریں کس طرح تیار ہوتی ہیں۔ میں بطور صحافی سو فیصد یقین سے کہتاہوں‌ کہ ان خبر رساں ایجنسیوں کے صحافی ٹیبل سٹوریزگھڑتے ہیں۔ میں‌ روزانہ دیکھتا ہوں‌کہ ان کی خبروں کے درمیان کھلا تضاد موجود ہوتا ہے۔ مثلا گزشتہ ہفتے کے دوران ایک خبرآئی کہ چین نے مسئلہ کشمیر کے ضمن میں پاکستان کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ دونوں‌ ملک چین کے دوست ہیں۔ جس اخبار میں یہ خبر شائع ہوئی، اسی اخبارمیں شائع ہونے والی ایک دوسری خبر میں بتایاگیا کہ چین کا کشمیر کے مسئلے پر پاکستانی موقف کی طرف جھکائو، تاہم یہ کہا ہے کہ دونوں‌ملکوں کو یہ تاریخی مسئلہ بات چیت کے ذریعے حل کرناچاہیے۔
    ایسی بےشمار واضح طورپر متضاد خبریں بھارتی اخبارات میں موجود ہوتی ہیں، میں آپ کو محض ایک ہفتہ بھارتی اخبارات پڑھنے کا مشورہ دیتا ہوں۔ آپ خود اس سوال کا جواب حاصل کرلیں گے کہ بچوں جیسی حرکتیں کرنے والے مودی، میڈیا پرسنز اور جرنیل یہ کھیل کیوں‌کھیل رہے ہیں؟ مودی کو اپنی کم ہوتی ہوئی مقبولیت پر قابو پانا ہے کیونکہ تین برس بعد عام انتخابات ہوں گے جبکہ بھارتی فوج کو اپنی کمزور عسکری صلاحیت، پرانے اسلحہ اور پرانے جہازوں پر پردہ ڈالنا ہے۔
    ہوسکتاہے کہ بھارتی عوام کی بڑی تعداد اپنے ہی سیاست دان سیتا رام یچوری کے بیان پر یقین نہ کرے کہ بھارتی فوج نے کل جماعتی کانفرنس میں‌ کوئی ثبوت پیش نہیں کیے۔ تاہم بھارتی قوم اس وقت رونا شروع کرے گی جب بھارتی فوجیوں کی لاشیں واپس بھارت میں جائیں گی، جب انھیں پتہ چلے گا کہ انھیں پاکستان کے خلاف سرجیکل سٹرائیکس کے نام پر دھوکہ دیاگیا ہے۔
    میں نے مودی کے وزیراعظم بننے کے فورآ بعد ”ایکسپریس سنڈے میگزین“ میں شائع شدہ اپنی رپورٹس میں لکھا تھا کہ پاکستان کے خلاف جنگ کے نعرے لگا کر برسراقتدار آنے والے مودی کے لیے پاکستان سے کھلی جنگ لڑنا ممکن نہ ہوگا کیونکہ بھارت دنیا کی چوتھی بڑی معاشی طاقت ہے، ہندو بنیا کھلڑی اتروا لیتا ہے لیکن دُمڑی نہیں دیتا، ایسے میں بھارت اپنی معاشی طاقت سے کیسے محروم ہونا چاہے گا بھلا!!
    مودی نے انتہاپسندوں کو مطمئن کرنے کے لیے پاکستان کے اندر پہلے تخریب کاری کی راہ اختیار کی،اب سرجیکل سٹرائیک کا ڈرامہ کردیا، مودی سرکار آنے والے دنوں میں یہ دونوں کام مزید کرے گی، امید ہے کہ پاکستان میں تخریب کاری کو پاکستانی سیکورٹی فورسز روک لیں گی تاہم ”بھارتی جرنیل بچوں“ کو ”جنگ، جنگ“ کا کھیل کھیلنے سے نہیں روک سکیں گی۔

  • سرجن نریندر مودی کی سرجیکل اسٹرائیک – ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

    سرجن نریندر مودی کی سرجیکل اسٹرائیک – ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

    عاصم اللہ بخش مقبوضہ جموں کشمیر میں اڑی کے مقام پر واقع بھارتی فوج کے بریگیڈ ہیڈ کوارٹر پر مسلح افراد کے حملہ میں 18 فوجیوں کی ہلاکت کے بعد بھارت میں سب سے زیادہ دہرائی جانے والی ترکیب تھی ۔۔۔ ”سرجیکل اسٹرئک“۔
    حملہ کے اگلے روز ہی بھارتی میڈیا نے یہ خبر چلا دی کہ بھارت نے بالآخر پاکستان کو سبق سکھانے کے فیصلہ پر عمل درآمد کر دیا اور ایک سرجیکل اسٹرائک میں 10 دہشت گردوں کو مار گرایا۔ اس خبر کا چلنا تھا کہ بھارت میں ہر طرف داد و تحسین کے غلغلے بلند ہونے لگے، کانوں پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ میڈیا اب جنگی رہنمائی کا فریضہ اپنے ذمہ لیے ہوئی تھا، بحث جاری تھی کہ یہیں رک جایا جائے یا پھر سزا کے اس عمل کو مزید آگے بڑھایا جائے۔
    کہاں تو اس قدر شور اور پھر اچانک ایک گہرا سکوت طاری ہو گیا۔
    بھارتی فوج نے اس نوع کے کسی بھی واقعہ کی تصدیق سے انکار کر دیا۔ اب بغلیں بجانے کے بجائے بغلیں جھانکنے کا سفر شروع ہوا۔ ہر کوئی یہی پوچھتا پھر رہا تھا کہ آخر یہ خبر جاری کہاں سے ہوئی، اس کی تصدیق کیوں نہیں کی گئی، اس کا سورس کیا یا کون تھا؟ وغیرہ وغیرہ۔
    پھر ہم نے دیکھا کہ بات کو گھمانے کی کوشش شروع ہوئی اور غربت اور جہالت کے خلاف جنگ کا ڈول ڈالا گیا، پاکستان کو یہ یاد دلایا گیا کہ اس سے تو اس کے اپنے سکہ بند علاقے نہیں سنبھالے جاتے تو وہ کشمیر کے چکر میں کیوں پڑ رہا ہے۔ پھر سفارتی تنہائی کی بات کی گئی۔ اس دوران بھارت کے دو ”حلیف“ ممالک ، روس اور ایران کی افواج پاکستان کے ساتھ جنگی مشقیں کرنے پاکستان کی سرزمین پر آ پہنچیں اور پہلے سے طے شدہ ان دوروں کی منسوخی سے انکار کر دیا تو پھر بھارت نے ”کاسہ لیس سفارت کاری“ کا نمونہ پیش کرتے ہوئے بنگلہ دیش، بھوٹان اور افغانستان کی بیساکھیوں کا سہارا لے کر آئندہ ماہ اسلام آباد میں ہونے والی سارک سربراہ کانفرنس کا بائکاٹ کر دیا۔
    اس سب کے باوجود سرجیکل سٹرائیک کا جن تھا کہ بوتل میں جانے کو تیار نہ تھا۔ پھر اچانک آج ہم نے بھارتی میڈیا پر سنا کہ وزارت خارجہ و دفاع مل کر ایک پریس کانفرنس کا انعقاد کرنے جارہی ہیں۔ اس کانفرنس کے دوران بھارتی فوج کے ڈی جی ملٹری آپریشن نے یہ اعلان کیا کہ بھارتی فوج نے لائن آف کنٹرول کے ساتھ سرجیکل سٹرائیک کی ہے، جس میں دہشت گردوں کو لانچ کرنے کے اڈے تباہ کر دیےگئے اور بڑا جانی نقصان ہوا۔ بھارتی ڈائریکٹر جنرل نے اس موقع پر تین باتیں نہایت اہم کہیں:
    1۔ یہ آپریشن لائن آف کنٹرل کے ساتھ ساتھ ہوا۔
    2۔ آئندہ ایسا آپریشن کرنے کا فی الحال کوئی پروگرام نہیں، نہ ہی لائن آف کنٹول کے پار ایسا آپریشن کرنے کا پلان ہے۔
    3۔ پاکستانی ڈی جی ایم او کو اس بارے پہلے سے بتا دیا گیا تھا۔
    آپ مندرجہ بالا بیان میں دیکھ سکتے ہیں کہ ایک حصہ بھارتی میڈیا کے لیے ہے کہ سرجیکل آپریشن کا نام سنو اور آگے خیال کے گھوڑے کو ایڑ لگا دو، نیز بھارتی عوام کو اس گھوڑے پر بٹھانا مت بھولنا۔ بیان کا دوسرا حصہ بین الاقوامی برادری کے لیے ہے کہ ہم نے کچھ بھی ”انقلابی“ نہیں کیا اور رولز آف انگیجمنٹ کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی۔
    جیسا کہ توقع تھی بھارتی میڈیا نے کان چیک کرنا وقت کا ضیاع خیال کیا اور بس اس طرف کو دوڑ لگا دی جدھر فوج نے کہا تھا۔ یہ بھی کہا کہ نقصان کنٹرول لائن کے پار ہوا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ Hot Pursuit ہی ہے، یعنی دشمن کے علاقہ میں کاروائی ہوئی ہے۔
    ہوا اصل میں یہ کہ بھارت نے ایک بار پھر کنٹرول لائن پر بلا اشتعال گولہ باری کر دی۔ اب یہ گولے تو کنٹرول لائن کے اِس پار ہی گرنے تھے۔ اسی کو بھارتی فوج نےکہہ دیا کہ یہ ایک سرجیکل سٹرائک ہے۔ جیسے بچوں کو سکول میں جملہ بنانے کے لیے کوئی بھی لفظ دیا جائے تو وہ ہر لفظ کا ایک ہی فقرہ بناتے ہیں۔ یہ ایک قلم ہے، یہ ایک گاڑی ہے۔ سو یہ ایک سرجیکل اسٹرائک تھی۔ بہرحال پاکستان نے بھی اس کا بھرپور جواب دیا۔ پاکستان بھارت کی طرح سول آبادی کو ٹارگٹ کر کے سورما نہیں بن سکتا۔ کنٹرول لائن کے پار بھی ہمارے ہی لوگ ہیں۔ پاکستان کے لیے یہ امر بھی ایک ”لائن آف کنٹرول“ ہے، بمباری اور لاشین گرانے کا یہ فرق ہی دراصل مسئلہ کشمیر کا اصل رخ بھی متعین کرتا ہے۔ پاکستان کے لیے کشمیر محض زمین کا ٹکڑا نہیں ہے۔ کشمیر تو کشمیریوں کے ساتھ ہی کشمیر ہے۔
    انٹر سروسز پبلک ریلیشنز نے بھی اس قسم کے کسی بھی واقعہ کے وقوع پذیر ہونے کی سختی سے تردید کی ہے۔ یعنی اگر ایسی کوئی بات ہوتی تو یونہی ختم نہ ہو جاتی۔ اس کا ایک بڑا جواب دیا جاتا۔
    تمام صورتحال بالکل واضح ہے۔ تاہم ایک سوال جواب طلب ہے اور اس کا جواب پاکستانی فوج نے دینا ہے۔ کیا بھارتی ڈی جی ایم او نے پاکستانی ڈی جی ایم او سے بات کی؟ اگر ہاں، تو وہ کیا بات تھی؟ اگر یہ بھارتی فوج کی غلط بیانی ہے تو اس پر بہت بڑا طوفان اٹھایا جا سکتا ہے۔ اگرچہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کال کی تصدیق کی ہے اور یہ کہا ہے کہ زمین پر بھارتی دعووں کی تصدیق نہیں ہو سکی. مگر اس پر زیادہ بہتر انداز میں اپنا مؤقف بیان کرنے کی ضرورت ہے.

  • بھارت کو دستیاب آپشن اور ہمارا ردعمل – محمد اشفاق

    بھارت کو دستیاب آپشن اور ہمارا ردعمل – محمد اشفاق

    محمد اشفاق آج ایک بھارتی اخبار کی ویب سائٹ پر مضمون چھپا ہے جس میں مصنف نے حالیہ واقعے کے بعد بھارت کو دستیاب آپشنز بیان کیے ہیں, جو کچھ یوں ہیں.
    ✘ آزاد کشمیر میں چیدہ چیدہ مقامات پر سرجیکل سٹرائیک
    ✘ بغیر لائن آف کنٹرول کراس کیے پاکستانی فوج کے مورچوں پہ گولہ باری.
    ✘ بارڈر کے ساتھ ساتھ فائرنگ اور شیلنگ.
    ✘ 290 کلومیٹر تک رینج رکھنے والے براہموس میزائل کے ذریعے مبینہ جہادی کیمپس پر حملہ
    ✘ پاکستانی سرحدوں پہ فوجوں کا اجتماع
    ✘ پاکستان کو بین الاقوامی طور پر تنہا کرنے کی کوشش
    ✘ پاکستان کے ساتھ مذاکرات
    دوسری جانب بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں پاکستان کو دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والا ملک قرار دینے، پاکستان کو بین الاقوامی طور پر تنہا کرنے اور محدود حملوں کےذریعے بدلہ لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے. بتایا گیا ہے کہ ان حملوں کا مقام اور وقت بھارتی سرکار بعد میں منتخب کرے گی. جس قدر وسیع پیمانے پر اس ایشو کو لے کر میڈیا ہائپ کھڑی کی گئی ہے، اس کے نتیجے میں بھارتی عوام کا جو ردعمل دیکھنے میں آ رہا ہے اور اس اندرونی دباؤ کو جواز بنا کر جس طرح بھارتی حکومت انتہائی تندوتیز اور جارحانہ بیانات دے رہی ہے، اس سے یہی لگتا ہے کہ کشمیر پر پاکستان کی جارحانہ خارجہ پالیسی کو بےاثر کرنے کے لیے یہ سب کیا جا رہا ہے.
    چین، او آئی سی اور امریکہ کی جانب سے کشمیر پر بھارتی موقف کی پذیرائی نہ ہونے کا سبب ہے کہ مودی جی خود اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے لیے نہیں جا رہے. اب عین ممکن ہے کہ وزیراعظم نوازشریف کےاسمبلی سے خطاب سے پہلے یا بعد میں سرجیکل سٹرائیکس یا لائن آف کنٹرول پر جھڑپوں کے ذریعے عالمی برادری کی توجہ اس جانب سے ہٹانے کی کوشش کی جائے. اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ بھارت کی یہ پالیسی بیک فائر کر سکتی ہے کیونکہ بہرحال وہ کچھ بھی کریں گے، اس سے کشمیر کا تنازعہ دنیا کی توجہ مزید کھینچے گا.
    لائن آف کنٹرول پر کشیدگی کوئی نئی بات نہیں اور اس سے بھارتی عوام یا میڈیا کو مطمئن کرنا شاید ممکن نہ ہو، ایسے میں سرجیکل سٹرائیکس جنہیں ایک عرصے سے بھارتی دفاعی تجزیہ نگار ایک بہتر آپشن گردانتے چلے آ رہے ہیں کو آزمانے کا امکان بڑھتا چلا جا رہا ہے.
    پاکستان کو اس معاملے پر زیرو ٹالرینس کی پالیسی اپنانا ہوگی. بھارتی فوج اور دفاعی ماہرین کو خدشہ ہےتو صرف یہ کہ ان سرجیکل سٹرائیکس کے نتیجے میں کہیں بارڈر پر محدود جنگ نہ چھڑ جائے. ہمیں فوج یا حکومت کی جانب سے ایک پالیسی بیان کے ذریعے ان کےاس خدشے کو قوی کرنا ہوگا. اپنی ائیرفورس کو بھی مزید متحرک کرنے کی ضرورت ہے اور ائیر ڈیفنس سسٹم کو بھی تاکہ کسی ممکنہ سرجیکل سٹرائیک کو ناکام ہی نہ بنایا جائے بلکہ اس کا مؤثر جواب بھی دیا جا سکے.
    بھارت میں نریندر مودی اور پاکستان میں نواز شریف دو ایسے لیڈرز ہیں جن کے باہمی تعاون سے بہت سے تنازعات ختم ہو سکتے تھے اور دو طرفہ تجارت و تعاون کو ایک نئی جہت مل سکتی تھی. افسوس مودی صاحب تولے گئے اور بہت ہلکے نکلے. نواز شریف صاحب نے آرمی اور عوام کی مخالفت مول لے کر بھی بھارت کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھانا چاہا مگر بھارتی رویے کو برداشت کرنا اب ان کے لیے بھی ممکن نہیں رہا.
    مودی سرکار فل سکیل جنگ کرنے یا پاکستان کو سفارتی محاذ پہ ہزیمت سے دوچار کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے، افسوس وقتی فائدے اور پوائنٹ سکورنگ کی خاطر انہوں نے دیرپا امن کے امکانات ایک بار پھر دھندلے کر دیے ہیں.

  • بھارتی فوجی اڈے پرحملہ – محمد بلال خان

    بھارتی فوجی اڈے پرحملہ – محمد بلال خان

    %d9%85%d8%ad%d9%85%d8%af-%d8%a8%d9%84%d8%a7%d9%84-%d8%ae%d8%a7%d9%86 مقبوضہ کشمیر میں بھارتی بریگیڈ ہیڈکوارٹر پر حملے میں 17 بھارتی فوجی ہلاک جبکہ متعدد زخمی ہوئے ہیں. بھارتی میڈیا کے مطابق بارہ مولہ کے اڑی سیکٹر میں 4 مسلح افراد نے فوجی ہیڈ کوارٹر میں گھس کر شدید فائرنگ اور بم دھماکہ کیے۔ یہ بارہ مولہ کا وہ علاقہ ہے جہاں کشمیری مجاہد کمانڈر برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد دو ماہ تک کرفیو نافذ رہا. اس کے بعد پوری وادی میں کرفیو نافذ کیا گیا اور اپنے حقوق کی آواز بلند کرنے کےلیے سڑکوں پر نکلنے والے کشمیریوں کو دبانے کی کوشش کی جاتی رہی۔
    مقبوضہ کشمیر میں برہان وانی کی شہادت کے بعد کشمیری نوجوانوں میں آزادی کی نئی روح دوڑ گئی ہے اور انھوں نے جوش و جذبے اور ہمت و استقامت کی نئی داستان رقم کی ہے. تازہ لہر نے کشمیریوں کو از سر نو حوصلہ پیدا کیا ہے، آزادی کا یقین بخشا ہے ، اور اپنے اوپر مسلط بھارتی قابض فوج کے خلاف پرامن طریقے سے سر اٹھانے اور جدوجہد کو ہر قیمت پر جاری رکھنے کی جرات پیدا کردی ہے. کرفیو کا تیسرا ماہ چل رہا ہے مگر حریت پسندوں کے جذبے جوان ہیں، 80 سے زائد کشمیری کو دو ماہ کے عرصے میں فائرنگ کرکے شہید جبکہ 9 ہزار سے زائد افراد کو آنسو گیس اور پیلٹ گن سے شدید زخمی کردیا گیا، ہزاروں بینائی کھو چکے ہیں، مگر ولولے میں کوئی کمی نہیں آئی.
    بھارت کی اس ہٹ دھرمی اور ستم گری کے خلاف پاکستان نے مؤثر آواز اٹھائی، باقی دنیا سے بھی انسانی حقوق کی صریح پامالی کرنے پر بھارت کے خلاف سخت ردعمل سامنے آیا. پاکستان نے نہتے کشمیریوں پر بھارتی مظالم کے خلاف اقوام متحدہ میں جانے کا اعلان کیا. وزیراعظم، وزارت خارجہ اور آرمی چیف کی جانب سے کشمیر معاملے پر دو ٹوک مؤقف کے اظہار نے بھارت کو باور کروا دیا کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کا حقیقی فریق ہے اور تحریک آزادی کشمیر سے کسی طور پر دستبردار نہیں ہو سکتا. پاکستان نے اقوام متحدہ کے اجلاس میں بھارت کے خلاف پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے، بلوچستان میں دخل اندازی اور کشمیریوں پر مظالم کے تمام ثبوت اقوام متحدہ میں پیش کرنے کا اعلان کیا ہے۔ میاں نوازشریف اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر پر دو ٹوک مؤقف اپنانے اور بھارتی مداخلت کے خلاف ثبوتوں کی فراہمی و مکمل تیاری کے ساتھ اجلاس میں شرکت کا عندیہ دے چکے ہیں۔ اس صورتحال کے پیش نظر بھارت نے اقوام متحدہ میں سبکی سے بچنے اور مسئلہ کشمیر سے نظریں چرانے اور دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے مختلف حیلے بہانے تراشنے کی ناکام کوشش کی، فوجی ہیڈکوارٹر پر حملے کی صورت میں اسے اقوام متحدہ کے سامنے بہترین بہانہ میسر ہو چکا ہے۔
    مبصرین اور دفاعی تجزیہ کاروں کا یہ کہنا قابل غور ہے کہ مودی سرکار سے بعید نہیں کہ اس نے اقوام متحدہ میں نہ جانے یا اہل کشمیر کا مقدمہ کمزور کرنے کےلیے یہ حملہ خود کروایا ہو، کیونکہ اس کے فوراً بعد نریندر مودی نے اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کیا ہے. مبصرین کا خیال ہے کہ بھارت پاکستان کے خلاف پہلے بھی ایسے الزامات عائد کرچکا ہے مگر تحقیقات کے بعد بھارت خود ایسے حملوں میں ملوث نکلا، سمجھوتہ ایکسپریس سمیت جس کی ماضی میں کئی مثالیں ملتی ہیں۔ بھارتی وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ نے بھی دورہ روس و امریکہ ملتوی کرتے ہوئے دبے لفظوں میں پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کی ہے. بھارتی میڈیا نے ہمیشہ کی طرح حملے کے چند منٹ بعد ہی پلاننگ کے تحت پاکستان کے خلاف مکروہ پروپیگنڈہ کا جو سلسلہ شروع کیا، وہ اب تک جاری ہے، اور انڈین اسٹیبلشمنٹ کے حکم پر حملے کو پاکستان کے سر ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔
    اہل کشمیر نے برہان وانی کی شہادت کے بعد مسلسل تین ماہ تک پرامن جدوجہد جاری رکھ کر پیغام دے دیا ہے کہ وہ آزادی پر کسی قسم کے سمجھوتے کےلیے تیار نہیں ہیں. دنیا کو اس طرف توجہ دینی ہوگی اور ایک دن آزادی اہل کشمیر کا مقدر ہوگی. ان شاء اللہ