Tag: مہنگائی

  • رمضان اور اتحاد بین المجرمین! عابد ہاشمی

    رمضان اور اتحاد بین المجرمین! عابد ہاشمی

    شیخ سعدی فرماتے ہیں کہ”نیکی کر،اس سے قبل آواز آئے کہ فلاں شخص اَب اِس دُنیا میں نہیں رہ“۔ نیکی ایک چھوٹا سے لفظ ہے‘مگر اپنے معنی اور مفہوم کے باعث تمام دُنیاوی خزانے اپنے اندر چھپائے ہوئے ہے۔ نیکی میں اتنی خوبصورتی ہے کہ دُنیابھر کی تمام برائیاں ایک چھوٹی سی بھلائی کے سامنے سر نگوں ہو جاتی ہیں۔رمضان امت ِ مسلمہ کے لیے ایک بہترین تحفہ ہے۔ جسے نیکیوں کی فصل ِ بہار کہا جاتا ہے۔ رحمت العالمین ﷺ کی حیات ِ مبارکہ بہترین نمونہ ہے۔ ہم نے اس ماہ ِ مقدس کی آمد کو مال بناؤ پالیسی بنا دِیا۔ایک غریب‘ متوسط کا اس ماہ میں جینا محال ہو چکا ہے۔ وہ مزدور جس کی آمدن کے ذرائع ہی محدود ہیں پہلے ہی جن کے بچے کوڑا کرکٹ سے ٹکڑے چُن کرکھاتے ہیں‘ وہ رمضان میں سحر‘ افطار‘ اور پھر عید کے اخراجات کہاں سے پورے کر سکتا ہے؟ ہر سال ماہ صیام کا آغاز ہوتے ہی خود ساختہ مہنگائی کا طوفان آ جاتا ہے۔ ملک میں روزمرہ کی عام اشیا ء کی قیمتوں میں خود ساختہ اضافہ ہو جاتا ہے۔جب کہ غیر مسلم ان مقدس ایام میں نرخ کم کر دیتے ہیں‘ اور جہاں تک ممکن ہو مسلمانوں کو سہولت فراہم کا اہتمام کرتے ہیں۔ ہم جب رمضان آتا ہے تو اسے زیادہ سے زیادہ کمائی اور منافع کا مہینہ سمجھتے ہوئے ہر چیز کی قیمتوں میں کئی گناء اضافہ کر دیا جاتا ہے اور غریب آدمی اس مہینے میں رحمتوں کو سمیٹنے کے بجائے اپنا نان نفقہ پورا کرنے کی فکر میں مبتلا ہو جاتا ہے اور یہ مہینہ ان کے لئے زحمت سے کم نہیں ہوتا۔ہمارے ہاں وہ تمام اشیاء جن کا تعلق رمضان سے ہے خود ساختہ مہنگی کر دی جاتی ہیں۔خودساختہ مہنگائی کرنا‘ساتھ دینا‘غریبوں کی زیست یوں اجیرن کرنا یہ سب اتحاد المجرمین کے مترادف ہے اور یوں ماہ مقدس کی حرمت پامال کی جاتی ہے۔

    دُنیا بھر میں جب کوئی مذہبی یا عوامی تہوار آتے ہیں تو شہریوں کی سہولت کے لیے اشیائے خورونوش کے علاوہ دیگر اشیا ء کی قیمتوں میں بھی خاطر خواہ کمی کر دی جاتی ہے مگر ہمارا باوا آدم ہی نرالا ہے۔رمضان کی آمد کے پیش نظر اشیائے خورد و نوش کی ہوش ربا مہنگائی عوام الناس میں ایک اضطراب اور ہیجانی کیفیت لے آتی ہے۔ اللہ ربّ العزت اور اس کے حبیب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس ماہ مبارک کے بے شمار فضائل بیان فرمائے ہیں جن کی اہمیت کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا کہ اگر لوگوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ رمضان المبارک کیا چیز ہے تو میری اُمت یہ تمنا کرے کہ پورے سال رمضان ہی رہے۔ اس مبارک مہینے کی فضیلت اس سے بڑھ کر بھلا اور کیا ہوسکتی ہے کہ قرآن مجید فرقان حمید کا نزول بھی اسی مبارک مہینے میں ہوا۔ قرآن حکیم میں باری تعالیٰ کا ارشاد ہے (ترجمہ) رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو سیدھی راہ دکھانے والی اور حق وباطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔روزہ ہر مسلمان کے لیے یکساں طور پر فرض ہے خواہ وہ روئے زمین کے کسی بھی ملک یا خطے میں آباد ہو۔ اس کے لیے انھیں اسی طریق کار اور ان ہی اوقات کی پابندی کرنا ہوگی۔ بلاشبہ مختلف مقامات کے سحری اور افطار کے اوقات ان کے جغرافیائی محل و قوع کے اعتبار سے مختلف ہوتے ہیں لیکن نہ تو یہ مہینہ تبدیل ہوسکتا ہے اور نہ وہ احکامات تبدیل ہوسکتے ہیں جن کے مطابق سحری و افطار کے اوقات معین کیے جاتے ہیں۔

    رمضان المبارک کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ یہ تقویٰ اور پرہیزگاری کی اجتماعی فضا اور ماحول پیدا کرتا ہے جس کے نتیجے میں بستیوں کی بستیوں اور آبادیوں پر خشیت الٰہی کی روح پرور کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور روزے داروں کے دلوں میں برائی سے نفرت اور نیکی سے رغبت پیدا ہوجاتی ہے۔ رمضان کے ایام میں بالعموم لوگوں میں گناہوں سے توبہ اور صدقہ وخیرات کا جذبہ بیدار ہوجاتا ہے۔ ہر ایک کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ بھوکوں کو کھانا کھلائے‘مساکین کوکپڑے پہنائے اور ناداروں اور ضرورت مندوں کی مدد کرے۔ اس اعتبار سے رمضان کا مبارک مہینہ خیرو ہمدردی کی علامت اور مظہر ہے اور اسلامی معاشرے میں مساوات کے فروغ کا ایک اہم وسیلہ بھی ہے۔اس کے علاوہ یہ مقدس مہینہ مسلمانوں میں ملی وحدت اور یکجہتی کے جذبے کو بھی فروغ دیتا ہے جس کی جانب علامہ اقبال نے یوں اشارہ کیا ہے:جس طرح موسم بہار کی آمد کے ساتھ ہر طرف سبزہ ہی سبزہ آنکھوں کو طراوت اور تسکین بخشتا ہے ٹھیک اسی طرح ہر سال رمضان المبارک کا موسم بہار اپنے دامن میں بے شمار فضیلتوں اور برکتوں کی سوغات لے کر آتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ روزہ رکھا کرو، اس کی مثل کوئی بھی عمل نہیں ہے۔ شارحین حدیث نے لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روزے کو بے مثل اس اعتبار سے قرار دیا ہے کہ اس میں نفس امارہ کو مغلوب کرنے اور اس کی خواہشوں کو دبانے کی صفت بدرجہ غایت پائی جاتی ہے۔ روزوں کی یہ صفت عمومی ہے۔ رہی بات رمضان المبارک کے فرض روزوں کی تو ان کے فضائل اور جسمانی و روحانی فوائد کا کوئی شمار ہی نہیں ہے۔

    چونکہ روزے کا مقصد تقویٰ کا حصول ہے لہٰذا اس کے فوائد و برکات سے وہی مسلمان مستفیض ہوسکتے ہیں جو اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے مکمل نیک نیتی اور خدا ترسی کے ساتھ خلوص دل سے کوشش کریں۔ ان میں امیروکبیر‘آجر‘مزدور اور کسان سمیت تمام طبقات کے لوگ شامل ہیں۔ ان تمام طبقات میں تاجر کا کردار رمضان شریف کے حوالے سے سب سے زیادہ قابل ِ ذکر ہے کیونکہ تاجر ہمارے معاشرے کا ایک انتہائی اہم عنصر ہے۔ ویسے بھی اسلام میں تجارت کو دیگر تمام پیشوں میں ایک خاص فضیلت و اہمیت حاصل ہے کیونکہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پیشے کو تمام پیشوں سے افضل قرار دیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بھی اسی پیشے کو اختیار فرمایا تھا۔ اس اعتبار سے رمضان المبارک میں ایک مسلمان تاجر پر دہری ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ ایک تو ان آداب و قواعد تجارت کی سختی سے پابندی جن کا دین اسلام پر مسلمان تاجر سے خصوصی طو رپر تقاضا کرتا ہے۔ مثلاً مال کی خریدوفروخت میں نرمی کا برتاؤ‘ ذخیرہ اندوزی سے گریز‘ ملاوٹ سے مکمل اجتناب‘ ناجائز منافع خوری سے پرہیز‘ مال کا عیب نہ چھپانا‘پورا ناپنا اور تولنا اور مال بیچنے کے لیے قسمیں کھانے سے احتراز‘ دوسرے ان تمام باتوں سے بچنا جو مسلمان کو روزے کے اجروثواب سے محروم کردیتی ہیں مثلاً جھوٹ بولنا‘غیبت کرنا‘بے ہودہ باتیں کرنا‘گالیاں بکنا‘فضول قسم کی گفتگو کرنا، لڑنا جھگڑنا اور خلاف شرع کاموں میں مشغول رہنا۔ہمیں غریبوں‘بے کسوں کی مدد کرنی چاہیے‘خودساختہ مہنگائی‘لغویاں کا ساتھ دے کر اتحاد المجرمین کا حصہ نہیں بنناچاہیے۔

  • رمضان میں مہنگائی کا طوفان کیوں؟ – صبورفاطمہ

    رمضان میں مہنگائی کا طوفان کیوں؟ – صبورفاطمہ

    ہم مسلمان اپنے مسلمان ہونے پر اس قدر فخر کرتے ہیں کہ جیسے بہت نیک ہوں۔ مسلمان ہونا اچھی بات ہے اس لیے کہ اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہی ہے۔ اس بات کی تائید باقاعدہ قرآن سے ہوتی ہے، مگر دینِ اسلام باربار ایمان کے ساتھ عمل صالح کی تاکید بھی کرتا ہے۔ عمل صالح کی وضاحت میں سورة البقرة کی آیت بِرّ 177 ضرور پڑھی اور سمجھی جاۓ کہ دین صرف ارکان اسلام یا ایمانیات تک محدود نہیں بلکہ حقوق العباد کی تلقین بھی کرتا ہے اور اسے دین کا حصہ بتاتا ہے۔
    [arabic]لَیۡسَ الۡبِرَّ اَنۡ تُوَلُّوۡا وُجُوۡہَکُمۡ قِبَلَ الۡمَشۡرِقِ وَ الۡمَغۡرِبِ وَ لٰکِنَّ الۡبِرَّ مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ وَ الۡکِتٰبِ وَ النَّبِیّٖنَ ۚ وَ اٰتَی الۡمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنَ وَ ابۡنَ السَّبِیۡلِ ۙ وَ السَّآئِلِیۡنَ وَ فِی الرِّقَابِ ۚ وَ اَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَی الزَّکٰوۃَ ۚ وَ الۡمُوۡفُوۡنَ بِعَہۡدِہِمۡ اِذَا عٰہَدُوۡا ۚ وَ الصّٰبِرِیۡنَ فِی الۡبَاۡسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ حِیۡنَ الۡبَاۡسِ ؕ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ صَدَقُوۡا ؕ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُتَّقُوۡنَ ﴿۱۷۷﴾[/arabic]
    اصل نیکی یہ نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق یا مغرب کی طرف کرلو بلکہ اصلی نیک وہ ہے جو اللہ اور قیامت اور فرشتوں اور کتاب اور پیغمبروں پرایمان لائے اور اللہ کی محبت میں عزیز مال رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں اور سائلوں کو اور (غلام لونڈیوں کی) گردنیں آزاد کرانے میں خرچ کرے اور نماز قائم رکھے اور زکوٰۃ دے اور وہ لوگ جو عہد کرکے اپنا عہد پورا کرنے والے ہیں اور مصیبت اور سختی میں اور جہاد کے وقت صبر کرنے والے ہیں یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں ۔

    مسلمان ہونا ایک ذمے داری ہے۔ کلمہ طیبہ کا اقرار مسلمان کو اس بات پر پابند بناتا ہے کہ جو کچھ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے حُکم ہے وہ پورا کیا جاۓ یعنی اقرار حُکمُ اللہ کو پورا کرنے کا وعدہ ہے۔

    ہر رمضان میں پاکستانی مسلمانوں کا یہی شیوہ ہے کہ عام راشن، سبزیوں، پھلوں اور رمضان میں استعمال ہونے والی ضروری اشیاء کے دام اس قدر بڑھا دیتے ہیں کہ توبہ توبہ۔ قیمت سنتے ہی دماغ پورا پورا گھوم جاتاہے کہ ابھی ایک ہفتہ پہلے تک تو یہی چیز آدھی قیمت پر دستیاب تھی، اب یہ اچانک کیا ہوگیا؟ اکثر سبزیوں اور پھلوں کی ایک پاؤ قیمت ہی کئی سو روپوں میں ہے۔ ویسے عام دنوں کی مہنگائی کیا کم ہے کہ رمضان کی آمد پر خصوصی مہنگائی کی جاۓ۔ مہنگا بیچنے والے مسلمان ہی ہیں۔

    اب ایک نیا مسئلہ گیس کی بندش ہے کہ عین افطاری و سحری کے اوقات میں گیس کا پریشر ہی کم کردیا جاتا ہے کہ چولہے میں آنچ ہی نہ رہے کہ وہ بروقت کھانا پکانے میں معاون ہوسکے۔ پھر تراویح کے اوقات میں لائٹ کا بند کردیا جانا بھی ہمارے ہاں کا معمول ہے۔ ہم ایک مسلمان ملک میں رہتے ہیں۔ کے الیکٹرک اور سوئی گیس جیسے اداروں میں مسلمان ہی ہیں اور ہمارے حسن ظن کے مطابق رمضان میں وہ بھی روزے سے ہی ہوں گے۔ تو خود سے سوال پوچھا جاۓ کہ کیا یہ مکمل مسلمان ہونے کا طرز ہے؟

    نہیں بالکل بھی نہیں۔ ہم دوسروں کے ایمان اور ان کے فرقوں پر تبصرے کرتے ہیں اور اپنی برتری ثابت کرنے کی آخری حد تک کوشش کرتے ہیں، لیکن اخلاقی اقدار میں تو اسلامی تعلیمات یکساں ہی ہیں نہ۔۔۔ جن پر سب کے لیے عمل کرنا لازمی ہے، تو اس معاملے میں عمل کی کوتاہی کیوں کر؟
    اس بات کا کسی صاحب اختیار کے پاس کوئی جواب اس لیے نہیں کہ سب نے اپنے کیے گۓ کاموں کا بوجھ شیطان پر ہی ڈالنا ہے جبکہ شیطان تو رمضانوں میں قید ہوجاتا ہے۔ جب شیطان قید میں ہے تو ہمارے معاشرے میں موجود لوگوں کا مزاج اور نفس ہی اس قدر شریر ہوچکا ہے کہ شیطانیت پر سبقت لے جاچکا ہے اور ہم بھی انسانوں کے اس شیطانی پن کے اس قدر عادی ہوچکے ہیں کہ اگر یہ سب رویے ہمیں رمضانوں میں بالفرض نہ ملیں تو ہم حیران و پریشان ضرور ہوجائیں۔

    یہ پورا مشاہدہ افسوس کن اور معاشروں کو تنزلی کی جانب لے جانے والا ہے۔ جس میں بہتری کا حصہ انفرادی طور پر ہی ڈل سکتا ہے وگرنہ بڑے پیمانے پر اس کا حَل کسی طاقت ور انفرادی شخص کے فوری طور پر جاری کردہ حکم نامے اور اس پر عمل درآمد کروانے میں کسی حد تک پوشیدہ ہے۔

  • رمضان المبارک اور مہنگائی کا طوفان – عدنان الیاس

    رمضان المبارک اور مہنگائی کا طوفان – عدنان الیاس

    رمضان المبارک رحمت ، مغفرت اور برکتوں کا مہینہ ہے۔ یہ مہینہ عبادات، صبر، ایثار اور تقویٰ کا درس دیتا ہے۔ دنیا بھر میں اس مہینے کے دوران مسلمان ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں، زکوٰۃ و خیرات کا سلسلہ بڑھ جاتا ہے، اور ہر طرف نیکیوں کی بہار آ جاتی ہے۔ لیکن پاکستان میں رمضان المبارک کے آغاز کے ساتھ ہی مہنگائی میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔ ہر سال رمضان کی آمد کے ساتھ ہی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے غریب اور متوسط طبقہ شدید مشکلات کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ جب دیگر مسلم ممالک میں رمضان کے موقع پر اشیائے خورونوش کی قیمتیں کم کر دی جاتی ہیں، وہیں پاکستان میں ناجائز منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کا بازار گرم ہو جاتا ہے۔ چینی، آٹا، گھی، دالیں، گوشت، سبزیاں، اور دیگر روزمرہ کی اشیاء مہنگی ہو جاتی ہیں، اور یوں یہ مقدس مہینہ عام آدمی کے لیے مزید پریشانیوں کا باعث بن جاتا ہے۔

    پاکستان میں رمضان کے دوران مہنگائی کی کئی وجوہات ہیں، جن میں مصنوعی قلت، ناجائز منافع خوری، حکومتی عدم توجہی، اور عوام کی بے بسی شامل ہیں۔ رمضان سے قبل ہی منافع خور اور تاجر اشیائے ضروریہ کو ذخیرہ کر لیتے ہیں، جس کے باعث بازار میں قلت پیدا ہو جاتی ہے۔ جب طلب بڑھتی ہے تو قیمتوں میں بے پناہ اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ چینی، آٹا، گھی اور دیگر بنیادی اشیاء کی قلت پیدا کر کے ان کی قیمتوں کو غیر معمولی طور پر بڑھایا جاتا ہے۔ پاکستان میں رمضان المبارک کو ایک طرح سے “کمائی کا سیزن” سمجھا جاتا ہے۔ بڑے تاجر اور دکاندار اس مقدس مہینے میں نیکی اور ہمدردی کے بجائے زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے چکر میں پڑ جاتے ہیں۔ وہ عام اشیاء کی قیمتیں دگنی یا تین گنا تک بڑھا دیتے ہیں، جب کہ ان کی پیداواری لاگت میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوتا۔ ہر سال رمضان سے قبل حکومت سستے بازار، رمضان پیکجز، اور سبسڈی جیسے اعلانات کرتی ہے، لیکن ان اقدامات کا عملی اثر زیادہ نظر نہیں آتا۔ سرکاری نرخوں پر اشیاء دستیاب نہیں ہوتیں، اور جو ہوتی ہیں، ان کی کوالٹی انتہائی ناقص ہوتی ہے۔ انتظامیہ کی عدم دلچسپی اور کرپشن کے باعث مہنگائی پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔

    عوام خود بھی مہنگائی کے مسئلے کو بڑھانے میں کسی حد تک شریک ہیں۔ جب رمضان آتا ہے تو لوگ ضرورت سے زیادہ اشیاء خریدنا شروع کر دیتے ہیں، جس کی وجہ سے طلب میں اضافہ ہوتا ہے اور قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔ اگر لوگ اعتدال سے خریداری کریں، تو مہنگائی کے مسئلے کو کسی حد تک قابو میں لایا جا سکتا ہے۔ مہنگائی کا سب سے زیادہ اثر غریب اور متوسط طبقے پر پڑتا ہے۔ رمضان کے دوران کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کے باعث عام آدمی کے لیے روزہ رکھنا اور افطاری کا بندوبست کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ دیہاڑی دار مزدور اور غریب طبقہ، جو پہلے ہی معاشی بدحالی کا شکار ہوتا ہے، رمضان کے دوران دو وقت کی روٹی کے لیے مزید پریشان ہو جاتا ہے۔ مہنگی اشیاء کی وجہ سے بہت سے لوگ معیاری کھانے سے محروم ہو جاتے ہیں۔ سفید پوش طبقہ، جو اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے محدود آمدنی پر گزارا کرتا ہے، رمضان میں مزید مشکلات کا شکار ہو جاتا ہے۔ وہ اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے یا تو قرض لینے پر مجبور ہو جاتا ہے یا پھر اپنی بنیادی ضروریات میں مزید کمی کردیتا ہے۔ مہنگائی کی وجہ سے مستحق افراد کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے زکوٰۃ، فطرانہ اور خیرات دینے والے افراد پر دباؤ بڑھ جاتا ہے۔ رفاہی ادارے اور مخیر حضرات زیادہ سے زیادہ لوگوں کی مدد کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن جب اشیاء کی قیمتیں بہت زیادہ بڑھ جاتی ہیں، تو ان کی مدد بھی ناکافی ثابت ہوتی ہے ۔

    مسئلے کا اب حل یہ ہے کہ مہنگائی اور ناجائز منافع خوری کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومت، تاجروں اور عوام کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے، اور ان پر بھاری جرمانے عائد کیے جائیں۔ ہر شہر میں ایک فعال پرائس کنٹرول کمیٹی ہونی چاہیے جو قیمتوں کی نگرانی کرے اور عوامی شکایات کا فوری ازالہ کرے۔ رمضان کے دوران ہر علاقے میں معیاری سستے بازار قائم کیے جائیں، جہاں عوام کو مناسب داموں اشیاء مل سکیں۔ تاجروں کو چاہیے کہ وہ رمضان کے مقدس مہینے میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ریلیف فراہم کریں اور نفع کمائیں لیکن ناجائز منافع خوری سے بچیں۔ اشیائے خوردونوش کی مصنوعی قلت پیدا کرنے کی بجائے زیادہ سے زیادہ سپلائی کو یقینی بنایا جائے۔ اگر لوگ اپنی ضروریات کے مطابق خریداری کریں اور ذخیرہ اندوزی نہ کریں، تو طلب اور رسد میں توازن برقرار رہے گا اور قیمتیں کم ہوں گی۔ اگر دکاندار غیر ضروری طور پر قیمتیں بڑھا رہے ہیں تو عوام کو چاہیے کہ وہ ان کا بائیکاٹ کریں اور سرکاری نرخوں پر خریداری کریں۔ رمضان کے مہینے میں زکوٰۃ، خیرات اور صدقات کا رجحان بڑھایا جائے تاکہ غریب افراد کی مشکلات کم ہو سکیں۔

    رمضان المبارک کا مہینہ ہمیں صبر، ایثار اور دوسروں کی مدد کا درس دیتا ہے، لیکن پاکستان میں مہنگائی اور ناجائز منافع خوری کے باعث یہ مہینہ کئی لوگوں کے لیے مشکلات لے کر آتا ہے۔ اگر حکومت، تاجر، اور عوام مل کر اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کریں تو رمضان کی حقیقی برکات سب تک پہنچ سکتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اپنی ذمہ داری کو محسوس کرے اور مہنگائی پر قابو پانے کے لیے موثر اقدامات کرے، تاجر ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری سے باز آئیں، اور عوام شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی خریداری میں اعتدال پیدا کریں۔ اسی صورت میں رمضان المبارک حقیقت میں رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ بن سکے گا، اور عام آدمی بھی اس کی برکات سے فیض یاب ہو سکے گا۔

  • رمضان میں ذخیرہ اندوزی ؛ایک لمحۂ فکریہ – راؤ محمد اعظم

    رمضان میں ذخیرہ اندوزی ؛ایک لمحۂ فکریہ – راؤ محمد اعظم

    رمضان المبارک کا مہینہ قریب آتے ہی دنیا بھر کے مسلمان اس مقدس مہینے کی تیاریوں میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ یہ مہینہ رحمت، برکت اور مغفرت کا ذریعہ ہے، جس میں عبادات، صدقات اور خیرات کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے۔ لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ جیسے ہی رمضان قریب آتا ہے، ہمارے ملک میں اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ وہ تاجر جو اس مہینے میں بڑی بڑی عبادات کرتے ہیں، عمرے اور زیارتوں کا اہتمام کرتے ہیں، مکہ اور مدینہ کی حاضری دیتے ہیں، وہی تاجر ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری کے مرتکب بھی ہوتے ہیں۔

    یہ رویہ نہ صرف عام مسلمانوں کے لیے مشکلات پیدا کرتا ہے بلکہ اسلامی تعلیمات کے بھی سراسر خلاف ہے۔ اسلام میں ذخیرہ اندوزی کو سختی سے منع کیا گیا ہے، کیونکہ یہ غریب عوام کے لیے مشکلات اور تکالیف کا سبب بنتی ہے۔ حدیثِ مبارکہ میں آتا ہے: “جو شخص چالیس دن تک غلہ روکے رکھے تاکہ وہ مہنگا ہو کر فروخت کرے، وہ اللہ سے بری اور اللہ اس سے بری ہے۔” (مسند احمد). رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: “لَا يَحْتَكِرُ إِلَّا خَاطِئٌ.”صرف گنہگار ہی ذخیرہ اندوزی کرتا ہے۔” صحیح مسلم

    یہ احادیث واضح کرتی ہیں کہ ذخیرہ اندوزی محض ایک معاشرتی برائی نہیں بلکہ ایک سنگین گناہ ہے۔ اسلام تاجر کو ایمانداری، دیانت داری اور انصاف کا درس دیتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ایماندار اور سچا تاجر قیامت کے دن انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا۔” (ترمذی). یہ اس بات کی دلیل ہے کہ تجارت ایک مقدس پیشہ ہے، لیکن اس میں دیانت داری کا ہونا لازمی ہے۔

    رمضان میں مہنگائی کا مسئلہ اور عوام کی پریشانی
    رمضان کے آغاز سے قبل ہی چینی، آٹا، گھی، دالیں اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگتی ہیں۔ حالیہ دنوں میں چینی کی قیمت میں بے تحاشہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ جو چینی چند ماہ قبل 120 روپے فی کلو تھی، اب 170 سے 180 روپے فی کلو تک پہنچ چکی ہے۔ یہ وہی چینی ہے جو رمضان میں غریب عوام روزہ افطار کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح دیگر اشیاء کی قیمتیں بھی مسلسل بڑھ رہی ہیں، جس سے عام آدمی کی زندگی مزید دشوار ہو گئی ہے۔

    علماء اور حکومت کا کردار
    اس صورتحال میں علماء کرام اور مفتیانِ دین پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ذخیرہ اندوزی کے خلاف کھل کر آواز بلند کریں۔ تاجروں کو یہ باور کرائیں کہ صرف عمرہ ادا کر لینا یا مسجدِ نبوی میں اعتکاف بیٹھ جانا کافی نہیں، بلکہ اصل عبادت اپنے کاروبار میں دیانت داری اور انصاف قائم کرنا ہے۔ اسی طرح حکومت کو بھی اپنی ذمہ داری نبھانی چاہیے اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف سخت کارروائی کرنی چاہیے۔ مہنگائی کے طوفان کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت عملی اقدامات کرے تاکہ عام آدمی کو ریلیف مل سکے اور وہ رمضان کی برکات سے بھرپور فائدہ اٹھا سکے۔

    نتیجہ
    رمضان محض ظاہری عبادات کا نام نہیں بلکہ حقوق العباد اور انصاف کا بھی متقاضی ہے۔ اگر تاجر حضرات واقعی اللہ کی رضا کے طالب ہیں تو انہیں چاہیے کہ وہ ایمانداری، انصاف اور دیانت داری کو اپنائیں۔ ناجائز منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کو چھوڑ کر اگر وہ عوام کو سہولت فراہم کریں تو یہی ان کے لیے بہترین عبادت ہوگی۔ کیونکہ ایک ایماندار تاجر کا مرتبہ عبادت گزار کے برابر ہوتا ہے، اور شاید اس سے بھی بڑھ کر!

  • کراچی کا اسٹائلش ڈرگ ڈیلر ساحر حسن – طحہ عبیدی

    کراچی کا اسٹائلش ڈرگ ڈیلر ساحر حسن – طحہ عبیدی

    میری دلچسپی میں اُس وقت اضافہ ہوا جب پاس بیٹھے ایک شخص نے کہا ،”آزاد خان یا مقدس حیدر” ہٹا دیئے جائیں گے اور بگڑے نوابوں کی تفتیش آگے نہیں بڑھے گی. میں سوچنے پر مجبور ہوگیا ،یہ اتنے طاقتور کیسے ہو گئے؟ اسی دوران ساحر حسن (اداکار ساجد حسن) کا بیٹا کمرے میں داخل ہوا ،اُس نے weed کا پف لگایا اور کہانی سنانا شروع کردی.

    یہ کہانی ڈیفنس ، کلفٹن کے لڑکے لڑکیوں کے علاوہ بزنس مین ، بیوروکریٹس ، سیاست دان اور شوبز انڈسٹری میں کھلبلی مچا چکی ہے اور کراچی ایئرپورٹس سے کئی کردار فرار ہوچکے ہیں. کچھ بیرون ملک چلے گئے اور کچھ دوسرے شہروں میں معاملہ ٹھنڈا ہونے کا انتظار کررہے ہیں ۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ یحییٰ عرف شاہ جی بین الاقوامی ڈرگ ڈیلرز کا اہم کارندہ ہے ، یہ ڈرگ منگواتا ، اسلام آباد ، لاہور اور کراچی میں سپلائی کرتا ہے ، کراچی میں بازل نامی شخص (بیرون ملک فرار) مصطفی ، ساحر اور عثمان سے رابطے اور ڈیلیوری کا کام کرتا ہے ۔ یہ منشیات تین قسم کی ہے جس میں “جنگل بوائے” مہنگی ترین منشیات ہے ، پامیلا اور جیلیٹو اس کے بعد آتی ہیں ۔

    اس مہنگی ترین منشیات کے کراچی میں تین ڈیلر ہیں ایک عثمان ( ٹریفک حادثے میں ہلاک )، دوسرا مصطفی (ارمغان کے ہاتھوں قتل) اور تیسرا ساحر خود ہے ۔ یہ تینوں نوجوان خفیہ ویب سائٹس کے ذریعے منشیات کا آرڈر دیتے اور کراچی میں TCS اور leopards نامی کوریئر سروس کے ذریعے پارسل وصول کرتے تھے ۔

    جنگل بوائے نامی منشیات 15 ہزار روپے گرام فروخت ہوتی ہے ، جیلیٹو 12 ہزار روپے گرام اور پامیلا 10 ہزار روپے گرام فروخت ہوتی ہے. اس میں کراچی کے ڈرگ ڈیلرز کو 30 فیصد منافع ملتا ہے اور اسلام آباد ، لاہور میں موجود یحییٰ عرف شاہ جی کو 55 سے 50 فیصد منافع ملتا ہے ، ساحر حسن ماہانہ 2700 گرام منشیات فروخت کرتا تھا ، 7 ہزار 700 روپے میں ساحر ، مصطفی اور عثمان کو منشیات ملتی تھی . ساحر ماہانہ 2 کروڑ 7 لاکھ 90 ہزار کی منشیات خریدتا تھا اور 2 کروڑ 97 لاکھ کی فروخت کرتا تھا ، منشیات کے اس کاروبار سے ساحر کو ماہانہ 90 سے 95 لاکھ روپے منافع ہوتا تھا ۔

    ساحر یا مصطفی کے موبائل فون ، سی آئی اے اور آئی بی کی تفتیش میں بہت سے نام ایسے آئے ہیں جنہوں نے ہلا کر رکھ دیا ہے ، ساحر سے ایک خاتون جس کا مہنگا ترین فلیٹ ڈیفینس میں موجود ہے ، یہ خاتون ماہانہ ایک اونس یعنی 28 گرام جنگل بوائے نامی منشیات خریدتی ہیں. اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک کلائنٹ 13 لاکھ 44 ہزار کی منشیات ماہانہ خریدتا ہے اور ایسے کئی کردار اس فہرست میں موجود ہیں ۔

    یہ وہ کردار ہیں جو انتہائی طاقتور ہیں اور ملک کے فیصلے کرتے ہیں تفتیشی حکام کہتے ہیں. یہ قصہ جلد ختم ہوجائے گا مگر تعلیم یافتہ نوجوان نسل تباہ ہوجائے گی ، ڈیفنس ، کلفٹن کے کالجز اور یونیورسٹیز کے علاوہ دیگر تعلیمی اداروں میں بھی یہ مہنگا ترین نشہ تیزی سے پھیل رہا ہے. اس معاملے پر حکومت اور انتظامیہ نے بیان بازی تو بہت کی مگر عملی طور پر کوئی قدم نہیں اٹھایا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ساحر حسن جیسا لڑکا بغیر weed پیئے بات بھی نہیں کر پارہا .

    یہ مہنگے ترین بنگلوں میں رہنے والوں کا حال ہے جن کے بچے زنجیروں سے بندھے ہیں اور والدین شرمندگی میں اس معاملے پر بات نہیں کرپاتے جبکہ غریب کے بچے منشیات کی لت میں سڑکوں پر پڑے ہیں ۔

  • مہنگائی کے دور میں پیسہ کیسے کمائیں؟روح اللہ سید

    مہنگائی کے دور میں پیسہ کیسے کمائیں؟روح اللہ سید

    آج کے سخت معاشی جدوجہد کے دور میں آپ کو اپنی ضروریات زندگی کی فراہمی کیلئے حکومت پر ہی انحصار نہیں کرنا، اپنی معیشت خود ایجاد کرنے کی قابلیت پیدا کرنی ہے۔ اس کا فارمولہ یہ ہے کہ پہلے آپ اپنے اندر چھپے قدرتی ٹیلنٹ کی کھوج لگائیں، پھر معیشت کو سمجھیں اور آخر میں اپنے قدرتی ٹیلنٹ کو معاشرے میں مروجہ معاشی سرگرمیوں کے ساتھ ہم آہنگ کر لیں اور خود میں مہارت پیدا کرتے کرتے اپنے نام کی برانڈ بنا کر معاشی سرگرمیوں کے سرخیل بن جائیں.

    اگر آپ کسی کو بدتر سے بدترین صورتحال اور مسلسل و مستقل زوال کی منطق آسانی سے سمجھانا چاہتے ہیں تو پاکستانی معیشت اس کی زندہ مثال ہے۔ ترقی کے بلند بانگ حکومتی دعووں کے باوجود حقیقت یہی ہے کہ مہنگائی کی شدت نے عام آدمی کو سخت ذہنی اذیت سے دوچار کر رکھا ہے۔ کم آمدنی کے سبب جیسے تیسے کر کے شہری اپنے اہلخانہ کو خوراک، لباس اور رہائش جیسی بنیادی ضروریات مہیا کر بھی لیں تو مہینے کے آخر میں آنے والے بجلی، گیس اور پانی کے بل گھریلو بجٹ درہم برہم کر ڈالتے ہیں، اس کی تاریک ترین مثال ماضی قریب میں بیٹیوں کے جہیز فروخت کر کے بجلی کے بل ادا کرنے کی خبروں کی صورت میں سامنے آئی۔ اسی طرح نوجوان جو ملکی آبادی کا تقریبا 70 فیصد ہیں، اعلی ڈگریوں کے باوجود دن بھر نوکریوں کی تلاش میں جوتے چٹخاتے رہ جاتے ہیں مگر من کی مراد ملتی ہی نہیں، نتیجہ فرسٹریشن اور ڈپریشن کی صورت میں نکلتا ہے۔ معاشرے میں دن دیہاڑے موبائل فون اور خواتین کے پرس چھیننے کے واقعات ایسے ہی بڑھتے دکھائی نہیں دے رہے، دوسری جانب طلاقوں اور گھر ٹوٹنے کی بلند شرح کے پیچھے بھی ایک بڑی وجہ یہی بیروزگاری اور غربت دکھائی دیتی ہے۔

    ملک کو قائم ہوئے 78 برس گزر گئے، حکمران تو پاکستان کا معاشی مسئلہ حل نہیں کر سکے۔ ان کی گذشتہ کارکردگی دیکھتے ہوئے آئندہ بھی یہی توقع ہے کہ حکومتی روش برقرار رہے گی۔ تو کیوں ںہ حکومت سے امید لگانے کی بجائے معیشت کے Bottom-Up Model کو اپنا لیا جائے جس میں ابتدائی سطح پر انفرادی شخص کی معیشت بہتر بنائی جاتی ہے اور پھر اگلے مراحل میں گروپ بنا کر کچھ افراد کی اجتماعی معیشت میں بہتری لائی جاتی ہے اور پھر ہر گروپ معاشرے کے دیگر پسماندہ طبقات کی رہنمائی کرتے ہوئے معیشت کی بہتری کیلئے اقدامات اٹھاتا ہے اور پھر یوں مرحلہ وار پوری قوم کی معیشت کو بہتر بنایا جانا ممکن ہو جاتا ہے۔

    یہ امر قابل ذکر ہے کہ ہر انسان قدرتی طور پر منفرد تخلیق کیا گیا ہے، جیسے ہر شخص کا مزاج 100 فیصد کسی دوسرے سے نہیں ملتا، اسی طرح ہر شخص کا ذہنی رجحان دوسروں سے مختلف ہوتا ہے۔ قدرت نے انسان کو جب زمین پر اتارا تو اس کے گزارے کی جملہ ضروریات جیسے دیکھنے کیلئے آنکھیں، سننے کیلئے کان، چلنے کیلئے پاوں دیئے وہیں زندگی کے وسائل مہیا کرنے کیلئے معاش کا سامان بھی فراہم کر دیا جو ہر شخص کو ایک خاص ٹیلنٹ کی صورت عطا کیا گیا ہے۔ جو شخص بھی اس مخصوص ٹیلنٹ کو پہچان کر درست انداز میں کام میں لے آئے اس کا معاشی مسئلہ حل ہو جائے گا۔ غور کریں تو ہم اور ہمارے گرد ہر شخص کوِئی نہ کوئی کام کرنے کا شوق ضرور رکھتا ہے جس کا خاص طور پر بچپن میں اظہار کسی نہ کسی صورت سامنے آ جاتا ہے۔ بعض بچوں کو مشینی کھلونے لے کر دیں تو وہ اس کو پرزہ پرزہ کھول کر رکھ دیتے ہیں۔ کچھ بچے ڈرائنگ کرنے کے بہت شوقین ہوتے ہیں اور بعض سوچ بچار میں کافی وقت صرف کرتے ہیں۔ تو یہی ان کا قدرتی ٹیلنٹ ہے، یہ معاملہ تفصیلی نفسیاتی مطالعے سے مشروط تو ہے تاہم پہلی قسم کے بچوں کو technical شعبوں جیسے انجنیئرنگ کی تعلیم دلوائی جائے تو کامیاب زندگی گزار سکتے ہیں۔ دوسری قسم کے بچوں کو آرٹ، فیشن یا گرافک ڈیزائننگ جبکہ تیسری قسم کے بچوں کو اعلی تخلیقی صلاحیتوں جیسے رائٹر، ڈرامہ نویس یا جرنلزم کے شعبے کی تعلیم دلوائی جائے تو کامیاب معاشی زندگی ان کا مقدر بن سکتی ہے۔ بعض بچوں کو cooking کا بہت شوق ہوتا ہے، اگر ان کو مناسب ماحول دیا جائے تو ان کے پکائے کھانوں میں اتنی لذت ہوتی ہے کہ کھانے والے انگلیاں چاٹتے رہ جاتے ہیں۔

    اس قدرتی ٹیلنٹ کی دوسری نشانی یہ ہوتی ہے کہ بچہ وہ کام کرتے ہوئے اس میں انتہائی خوشی محسوس کرتا ہے۔ کئی گھنٹے بھی گزر جائیں مگر وہ بالکل بور نہیں ہو گا بلکہ اس کام میں کھو سے جائیں گے۔ اس کی عملی مثال وہ لوگ ہیں جو آج دنیا پر راج کر رہے ہیں کیونکہ انہوں نے اپنے قدرتی ٹیلنٹ پر کام کیا۔ اس کی ایک عملی مثال آج کھربوں ڈالرز کمانے والی کمپنی ایمازون Amazon کے مالک جیف بیزوس ہیں، جنہوں نے اپنی دلچسپی اور شوق ہی کو دیکھتے ہوئے ابتدائی طور آن لائن کتابیں فروخت کرنا شروع کی تھیں اور اسی کو آگے لے کر چلے اور آج پوری دنیا کی معیشت پر چھایا ہوا نام ہیں۔ کھرب پتی وارن بفٹ نے صرف 11 سال کی عمر میں سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کی تھی، نوجوانی میں بھی اسی کام کو کرتے رہے، اسی میں مسلسل مہارت حاصل کی اور آج ایک بڑی کمپنی “برکشائر ہاتھیوے” کے سی ای او ہیں۔ سٹیو جابز جو دنیا کی معروف کمپیوٹر ساز کمپنی ایپل کے شریک بانی تھے، نے اپنے گھر کے گیراج میں کمپیوٹر تیار کر کے فروخت کرنا شروع کئے تھے۔ اپنی میڈیا ایمپائر کھڑی کرنیوالی ٹاک شو میزبان اوپرا اونفرے نے بھی اپنے قدرتی ٹیلنٹ کو سامنے رکھتے ہوئے نیوز رپورٹر اور اینکر کے طور پر کام شروع کیا اور پھر میڈیا انڈسٹری پر چھا گئیں۔ اگر بچپن میں ان شخصیات کے والدین نے بھی ان کو روکا ہوتا تو وہ بھی آج کسی چھوٹی سی کمپنی میں بددلی سے کام کرتے ہوئے محض زندگی کے دن پورے کر رہے اور عام پاکستانی کی طرح غربت کی چکی میں پس رہے ہوتے۔

    معاشی خود مختاری کےلئے دوسرا اہم نکتہ معیشت کو سمجھنا ضروری ہے۔ اس کو آسان بنانے کیلئے ہم ایک سادہ سی ایک پرندے کی مثال لیتے ہیں کہ اس کی معیشت کیا ہو گی۔ زندہ رہنے کیلئے پرندے کو سب سے ضروری چیز جو درکار ہے وہ دانہ )خوراک( ہے۔ اس کے بعد پانی اور پھر دشمن جانوروں )بلی، لومڑی وغیرہ( سے حفاظت یعنی رہائش درکار ہے۔ تو اس کی معیشت خوراک، پانی اور رہائش پر مشتمل ہے۔ اسی چیز کو اب انسانی معیشت پر لاگو کر لیں۔ انسان کی بنیادی معیشت روٹی، کپڑا اور مکان پر مشتمل ہے۔ یہ ضروریات پوری کر لی جائیں تو ہی انسان صحت، تعلیم، سفر کا سوچ سکے گا، ان دوسرے درجے کی ضروریات کو پانے میں بھی کامیاب ہو گا تو پھر خاندان، دوستی اور جنسی تسکین کا مرحلہ آتا ہے۔ نامور نفسیاتی محقق ہیرلڈ میزلو کی پیش کردہ تھیوری کے مطابق کامیابی، فخر و افتخار چوتھے اور اخلاقیات و تخلیقی صلاحیت آخری مرحلے پر آتی ہے۔ یہ ساری وہ انسانی ضروریات ہیں جن کے گرد کسی بھی معاشرے کی معاشی سرگرمیاں گھومتی ہیں۔ آپ کوئی پیشہ اٹھا کر دیکھ لیں، اس کا کسی نہ کسی طور تعلق میزلو تھیوری میں بیان کردہ انسانی ضروریات سے مطابقت رکھتا ہو گا۔

    اور اب سب سے اہم نکتہ کہ آپ نے اپنا شوق دیکھتے ہوئے اپنی معاشی سرگرمی کی کھوج لگا لینی ہے وہ اس طرح کہ آپ کا قدرتی ٹیلنٹ میزلو تھیوری میں بیان کردہ کس انسانی ضرورت کو پورا کرتا ہے۔ اگر آپ زیادہ سوچتے ہیں تو تخلیقی صلاحیت یعنی پانچویں درجے کی انسانی ضرورت سے تعلق ہو گا جیسے کہ آپ ایک رائٹر بن جائیں یا ڈرامہ نویس یا شاعری و غزل کہنے کے فن کو اپنائیں۔ اگر آپ کو ڈرایئنگ اچھی لگتی ہے تو آپ آرکی ٹیکٹ ، ٹیکسٹائل ڈیزائنر، انٹیریئر ڈیزائنر، فیشن ایجوکیٹر یا گرافک ڈیزائنر بن سکتے ہیں۔ آپ جیولری ڈیزائن یا اگر خاتون ہیں تو بیوٹیشن کے شعبے میں بھی جا سکتی ہیں۔ مزید دیکھیں تو گرافک ڈیزائنر اپنی خدمات پانچوں درجے کی انسانی ضرورت کے بزنس کو فراہم کر سکتا ہے۔ جیسے جو کھانا بیچتا ہے، اس کو اپنی تشہیر کے پمفلٹ، بروشرز تیار کروانے کیلئے گرافک ڈیزائنر کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوسرے درجے کی انسانی ضرورت تعلیم کے شعبے کی تشہیر کیلئے بھی گرافک ڈیزائنر کی ضرورت ہے، فرینڈ شپ اینڈ فیملی معاملات جیسے شادی کارڈ، سالگرہ کارڈ وغیرہ تیار کرنے کیلئے بھی گرافک ڈیزائنر حتی کہ تخلیقی صلاحیت جیسے ڈرامہ، فلم سازی کے شعبے میں بھی گرافک ڈیزائنر کی بے انتہا ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح اگر کوئی بچہ پڑھائی میں اچھا ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے ہم جماعت بچوں کو بہت اچھے طریقے سے پڑھائی میں رہنمائی فراہم کرتا ہے تو اسے سماجی بہبہود کی سرگرمیوں کے شعبوں جیسے استاد، وکیل یا سوشل ورکر بنایا جا سکتا ہے۔

    آخری مرحلے میں جب آپ کو اپنا یا اپنے بچے کا قدرتی ٹیلنٹ اور پھر پیشہ پتہ چل جائے تو اب اگلا قدم انتہائی ضروری ہے کہ اس کی عملی تعلیم اور ٹریننگ حاصل کرنی ہے۔ یہ ٹریننگ آپ کے قدرتی ٹیلنٹ کو مارکیٹ کے رجحانات کے مطابق ڈھالنے میں مدد دے گی۔ چونکہ یہ آپ کا یا بچے کا ذاتی شوق ہو گا تو وہ اس کو خوب اچھے طریقے سے نہ صرف سیکھے گا بلکہ اس کی مہارت بھی خوب اچھے طریقے سے حاصل کرے گا اور وارن بفٹ کی طرح گزرتے وقت کے ساتھ مسلسل محنت کرتے ہوئے ایک دن اس کا ماہر بن جائے گا۔

    یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ روایتی والدین بچوں کو ڈاکٹر یا انجینئر بناتے ہوئے ان کا مستقبل پیسے اور معاشرے میں عزت و وقار کے پلڑے میں تولتے ہں تو یاد رکھیے کہ جو کسی بھی شعبے کا ماہر ہو اس میں نام پیدا کر ہی لیتا ہے، اور عملی مشورہ یہ ہے کہ آپ مارکیٹ میں اپنے کام کا ماہر بن کر انٹری لیں۔ مہارت کے سبب ہی لوگ آپ کے کام کو پسند کریں گے۔ اور ایک دفعہ لوگ آپ کا کام پسند کرنے لگ جائیں تو سمجھیں آپ نے جتنی محنت اب تک کی ہے اس کا پھل ملنے ہی والا ہے۔ پہلے چھوٹے لیول کا کام پکڑیں، جب ان کی ڈیمانڈ کے مطابق آپ کام دینے کی قابلیت پیدا کر لیں تو پھر بڑے پروجیکٹس پکڑیں، بڑی کمپنیوں کے ساتھ معاہدے کریں اور ان کو اعلی معیار کا کام کر کے دیں اور پھر آہستہ آہستہ قومی اور پھر بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ کام کریں۔ یاد رکھیں کہ معیار اور ایمانداری آپ کی وجہ شہرت ہونی چاہیے، اس راہ میں مشکلات آئیں بھی تو سہہ لیں، یہ بعد میں آپ کو ڈبل منافع کی صورت میں فائدہ دیں گی۔ یوں آہستہ آہست اپنے نام کی برانڈنگ بھی کرتے جائیں۔ اس دوران اپنے کام میں جدت لائیں اور عالمی سطح پر مروجہ جدید اسلوب بھی اپنائیں، اپنی ٹیم کو وسعت دیتے چلے جائیں یوں آہستہ آہستہ آپ ایک برینڈ بننے کے ساتھ ساتھ خود معاشی آزادی کے ساتھ ساتھ اپنے معاشرے کے دیگر پسماندہ طبقات کو روزگار دے کر اپنے لئے حقیقی دلی سکون کا سامان بھی پیدا کر لیں گے۔

    (روح اللہ سید بین الاقوامی تعلقات میں ایم فل ہیں، معاشی اور سماجی موضوعات پر قلم آزمائی کرتے ہیں)

  • معاشی ابتری میں نا اہل حکمرانوں کا کردار – ذیشان ماجد

    معاشی ابتری میں نا اہل حکمرانوں کا کردار – ذیشان ماجد

    پاکستان کی معاشی صورتحال کے زوال کے پیچھے کئی عوامل کارفرما رہے ہیں، جن میں ناقص طرز حکمرانی، کرپشن، پالیسیوں میں عدم تسلسل، اور بیرونی دباؤ شامل ہیں۔ 1990 سے 2024 تک مختلف حکومتوں کے معاشی فیصلوں کا تجزیہ کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ بار بار نااہل حکمرانوں کے برسرِاقتدار آنے اور غلط پالیسیوں نے معیشت کو شدید نقصان پہنچایا۔

    1990 سے 2024 تک پاکستان کی معاشی زوال کی بڑی وجوہات

    1. بار بار حکومتوں کی تبدیلی اور پالیسیوں میں عدم تسلسل
    1990 کے بعد سے پاکستان میں سیاسی عدم استحکام بہت زیادہ رہا۔ ہر آنے والی حکومت نے پچھلی حکومت کی پالیسیوں کو ترک کر کے نئی حکمت عملی اپنائی، جس کی وجہ سے طویل المدتی ترقی ممکن نہ ہو سکی۔

    2. کرپشن اور غیر شفاف مالیاتی نظام
    1990 کی دہائی میں بینظیر بھٹو اور نواز شریف کی حکومتوں پر کرپشن کے سنگین الزامات لگے۔ 2008 کے بعد بھی مختلف حکومتوں پر قومی خزانے کے ضیاع، منی لانڈرنگ، اور اقربا پروری کے الزامات عائد کیے گئے۔

    3. بیرونی قرضوں کا غیر دانشمندانہ استعمال
    1990 سے 2024 تک پاکستان نے مسلسل بیرونی قرضے لیے، لیکن ان کا زیادہ تر حصہ ترقیاتی منصوبوں کی بجائے غیر ضروری اخراجات، کرپشن، اور درآمدات میں چلا گیا. 2024 میں پاکستان کا مجموعی قرضہ 60,000 ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے، جو کہ 1990 کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے۔

    4. روپے کی قدر میں شدید گراوٹ
    1990 میں 1 امریکی ڈالر تقریباً 21 روپے کا تھا، جبکہ 2024 میں یہ 278 روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔ روپے کی قدر میں کمی کی بڑی وجوہات میں نااہل حکمرانوں کی غلط معاشی پالیسی، قرضوں پر انحصار، اور برآمدات میں کمی شامل ہیں۔

    5. بجٹ خسارہ اور مہنگائی میں اضافہ
    1990 کے بعد سے ہر حکومت بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے قرضوں پر انحصار کرتی رہی۔ نتیجتاً، مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہوتا گیا، اور عوام کی قوتِ خرید کم ہوتی گئی۔

    6. توانائی بحران اور معیشت پر اثرات
    1990 کی دہائی سے توانائی بحران مسلسل جاری ہے، لیکن کسی حکومت نے اس کا مستقل حل تلاش نہیں کیا۔ لوڈشیڈنگ، گیس بحران، اور مہنگی بجلی کی وجہ سے صنعتی پیداوار کم ہوئی، جس نے برآمدات پر بھی منفی اثر ڈالا۔

    7. زراعت اور صنعت کی تنزلی
    1990 کے بعد سے پاکستان کی زرعی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا، بلکہ کاشتکار مہنگی کھاد، پانی کی قلت، اور ناقص حکومتی پالیسیوں کا شکار رہے۔ صنعتوں کو بھی حکومت کی طرف سے مناسب سہولتیں فراہم نہیں کی گئیں، جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر صنعتی بحران، فیکٹریوں کی بندش، اور بے روزگاری میں اضافہ ہوا۔

    8. عالمی مالیاتی اداروں پر حد سے زیادہ انحصار
    ہر حکومت نے آئی ایم ایف (IMF) اور ورلڈ بینک سے قرض لینے کو ترجیح دی، مگر ان قرضوں کے ساتھ سخت شرائط بھی آئیں۔ حکومتوں کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے معیشت آئی ایم ایف کی محتاج ہو گئی، جس نے پاکستان کی معاشی خودمختاری کو نقصان پہنچایا۔

    کیا پاکستان کے معاشی زوال کے ذمہ دار نااہل حکمران تھے؟
    جی ہاں! اگر ہم 1990 سے 2024 تک کے تمام حکمرانوں کا تجزیہ کریں، تو یہ واضح ہوتا ہے کہ ہر دور میں غلط معاشی پالیسیاں، کرپشن، اور ناقص حکمرانی معیشت کو نقصان پہنچاتی رہی۔

    ثبوت کے طور پر چند اہم حقائق:
    1990 کی دہائی → کرپشن، قرضوں پر انحصار، زراعت اور صنعت میں زوال۔
    2000 کی دہائی → شوکت عزیز کے چند مثبت اقدامات، لیکن قرضوں میں اضافہ، نجکاری سے عوام پر بوجھ۔
    2010 کی دہائی → توانائی بحران، مہنگائی، کرپشن، آئی ایم ایف پر انحصار۔
    2020 کے بعد → ڈالر بے قابو، قرضوں کی معیشت، مہنگائی کا طوفان، ڈیفالٹ کا خطرہ۔
    اگر ان 34 سالوں میں کوئی ایک بھی حکومت دیانت داری، دور اندیشی، اور مضبوط پالیسیوں کے ساتھ کام کرتی تو پاکستان کی معیشت اس قدر تباہ نہ ہوتی۔

    نتیجہ:
    پاکستان کے معاشی بحران کی سب سے بڑی وجہ نااہل حکمرانوں کی غلط پالیسیوں، کرپشن، اور مختصر المدتی فیصلے ہیں۔ اگر 1990 سے ہی ایک مستقل اور مضبوط معاشی پالیسی اپنائی جاتی، تو آج پاکستان ایک مستحکم معیشت کا حامل ملک ہوتا۔

  • مہنگائی اورمیثاق معیشت- رانا اعجاز حسین چوہان

    مہنگائی اورمیثاق معیشت- رانا اعجاز حسین چوہان

    ان دنوں ملک میں مہنگائی عروج پر ہے ، روز مرہ استعمال کی اشیاء ، خوراک، ایندھن عام آدمی کی پہنچ سے دور ہو چکی ہیں۔ ملک بھر کے عوام آٹے کے لیے اور سیاسی جماعتیں اقتدار کے لیے لائن میں لگی ہیں۔

    چاروں طرف مایوسی اور بے چینی کی فضا ہے ، اور حالات بتا رہے ہیں کہ آنے والے دنوں میں صورتحال مزید خطرناک ہوسکتی ہے۔آئی ایم ایف پروگرام ری شیڈول ہونے کی صورت میں مزید مہنگائی کا طوفان آسکتا ہے۔ بجلی، گیس ، پٹرولیم مصنوعات اور اشیائے خورد نوش کی قیمتوں میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ مہنگائی میں گھرے عوام سوال کررہے ہیں کہ آخر انہیں کس جرم کی سزا دی جارہی ہے۔ گزشتہ دنوں وزیراعظم میاں شہباز شریف نے بھی تسلیم کیا ہے کہ مہنگائی عروج پر ہے ،اور حکومت مسائل کے حل کے لیے اقدامات کررہی ہے ۔

    انہوں نے حسب معمول سابق حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ اس کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے معیشت تباہ ہوئی ہے ۔ ان دنوں حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان سنگین سیاسی کشمکش اور بیان بازی جاری ہے ، لیکن اس بات پر اتفاق ہے کہ اس وقت پاکستان تاریخ کے بدترین اقتصادی بحران میں مبتلا ہے ۔ ملک کے دیوالیہ ہوجانے کی باتیں ہورہی ہیں، جس کے بارے میں وزیراعظم، وزیر خزانہ اور ان کے ہم خیال مسلسل تردید کررہے ہیں، اور قوم کو یقین دلارہے ہیں کہ ہم ملک کو معاشی بحران سے نکال لیں گے ، حزب اختلاف کا دعویٰ یہ ہے کہ معاشی حالات کی خرابی میں تیزی موجودہ حکومت کے8 ماہ میں آئی ہے ، جب کہ حکومت کا جواب یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی چار سالہ حکومت نے آئی ایم ایف سے کیے گئے معاہدے کی پابندی نہیں کی جس کی وجہ سے آئی ایم ایف پروگرام بحال نہیں ہوسکا اور ہمیں سخت شرائط ماننی پڑ رہی ہیں۔

    اس بیان بازی سے پاکستان کا حکمران طبقہ قومی تباہی کی ذمے داری سے بچ نہیں سکتا۔ معاشی بحران کی وجہ سے قومی سلامتی کے خطرے کے خدشات بھی پیدا ہوگئے ہیں۔ یہ صورت حال ایک دن میں نہیں ہوئی ہے لیکن گزشتہ 20 برسوں میں تیزی آئی ہے ، اس کی وجوہ میں امریکی وار آن ٹیرر کے دوران میں جتنے اقتصادی معاہدے ہوئے ہیں اس میں پاکستان کے مفادات کا خیال نہیں رکھا گیا۔ آئی ایم ایف ایسی شرائط عائد کرتا رہا جس سے پاکستان اقتصادی طور پر کمزور ہوتا رہا۔

    آئی ایم ایف سے مذاکراتی ٹیم سیاسی ہویاتکنیکی کسی نے بھی اس بات کا خیال نہیں رکھا کہ مستقبل میں آنے والے خطرات سے کس طرح بچا جائے گا۔معاشی و اقتصادی تباہی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ طویل مدت سے پاکستان کی وزارت خزانہ اور مرکزی بینک کے اہم ترین منصب پر ایسے پاکستانیوں کو مقرر کیا گیا جن کی نشاندہی عالمی بینک یا آئی ایم ایف نے کی، آج معاشی تباہی کے حوالے سے جو مسائل ہیں جن میں ڈالر کی قیمت میں ناقابل تصور اضافہ اور توانائی کے مہنگے منصوبے انہی معاہدوں کا شاخسانہ ہیں۔ گردشی قرضے کا عنوان تو ان ہی معاہدوں کی دین ہے جس کے تحت بجلی کی پیداوار ناجائز منافع کے ساتھ بیرونی سرمایہ کاروں کے حوالے کردی گئی، جنہوں نے قوم کو خدمات فراہم کرنے کے بجائے لوٹ مار کا بازار گرم کردیا۔

    آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ ملک اقتصادی طور پر تباہ ہوتا رہا اور ملک کی مقتدر اشرافیہ حکومتوں سے زیادہ دولت مند ہوتی رہی۔ سابق اور موجودہ حکمرانوں کے خلاف بدعنوانی اور منی لانڈرنگ کی جو تفصیلات ذرائع ابلاغ میں آچکی ہیں ان کا ماضی میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ پہلے قوم کے سامنے یہ سوال تھا کہ ملک کو قرضوں کی زنجیر سے کیسے آزاد کیا جائے ۔ اب یہ سوال قوم کے سامنے رکھ دیا گیا ہے کہ آئی ایم ایف کے قرض کا پروگرام کیسے بحال کیا جائے گا۔ حکومت اور حزب اختلاف دونوں ایک دوسرے پر الزام عائد کررہے ہیں کہ اس نے آئی ایم ایف کے حکم کی خلاف ورزی کی جس کی وجہ سے آئی ایم ایف سخت شرائط عائد کررہا ہے اور عالمی اقتصادی بحران اور سیلاب کی قدرتی آفت، کورونا وبا کے اثرات کے باوجود بھی کسی رحم کا مظاہرہ نہیں کررہا۔ اس بہانے سے وہ جواز پیدا کررہے ہیں کہ آئی ایم ایف کی شرائط تو تسلیم کرنا ضروری ہے ۔

    تا کہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں اور ٹیکسوں میں اضافے کی کوئی مزاحمت نہ کی جائے ، معاشی مبصرین اور سیاسی تجزیہ نگار مزید سخت حالات سے خبردار کررہے ہیں۔ اس حوالے سے ٹیکنوکریٹ حکومت کی باتیں کی جارہی ہیں جو ایسے ماہرین پر مشتمل ہو جو عوام سے نمائشی ہمدردی بھی نہ رکھتے ہوں اور پاکستان کے شہریوں پر مہنگائی، افلاس اور بے روزگاری کے کوڑے برساسکیں۔ بلاشبہ اگر ہماری حکومت، مقتدر ادارے ، سیاسی شخصیات خلوص نیت سے ملکی ترقی اور استحکام کے لیے اپنے اپنے دائرہ کار میں سادگی، صداقت، امانت اور دیانت کا پاس رکھتے ہوئے محنت، جدوجہد اور کوشش کریںتو اس بحران پر قابو پانا کوئی مشکل نہیں۔

    جو ممالک ترقی یافتہ یا ترقی پذیر ہیں، ان کی حکومت اور قوم نے اپنا مقصد، نصب العین اور رخ ایک متعین کرکے محنت اور کوشش کی، تو وہ منزل مقصود اور مراد تک پہنچ سکے ، اس لیے ہمیں بھی چاہیے کہ ہم سب ملکی ترقی کے لیے یہ کام کریں۔ اس سلسلے میں تمام سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ مل بیٹھ کر ’’میثاقِ معیشت‘‘ ترتیب دیں، اور یقینی بنائیں کہ کسی بھی پارٹی کی حکومت آجائے میثاق معیشت پر کام جاری رہے گا۔

  • مہنگائی نے بے بس کر دیا  –  نبیلہ شہزاد

    مہنگائی نے بے بس کر دیا – نبیلہ شہزاد

    محمد حبیب کا شعر ہے کہ

    آج مہنگائی نے بے بس کر دیا

    مہمان آئے کہ درد سر ہوا

    ان دنوں مہنگائی پاکستان میں ایک ایسا موضوع ہے جس کا ذکر ہر طبقے میں پایا جارہا ہے۔ کوئی امیر ہے یا فقیر، مزدور ہے یا سیٹھ، طالب علم ہے یا بزنس مین، کسان ہے یا تاجر، کونسا ایسا فرد ہے جو ملک کی مہنگائی سے متاثر نہیں ہوا۔ لوگوں کی آمدنی یا تنخواہیں محدود ہیں مگر مہنگائی بے قابو جن کی طرح بڑھتی ہی جا رہی ہے اور بیچاری عوام کی گردن دبوچ کر حالت یہ کر دی ہے کہ جیتے بنے نہ مرتے بنے۔ ساجد رئیس کا شعر ہے۔

    یہ بازاروں میں مہنگائی کا عالم

    سبی چہرے اترتے لگ رہے ہیں

    وطن عزیز میں اس وقت مہنگائی عروج کو چھو رہی ہے۔ اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ غریب تو کیا اب درمیانی طبقہ کو بھی اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کبھی چینی بحران اور آٹا بحران پیدا کرکے قیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں اور کبھی بجلی، گیس اور پٹرول کے نرخوں میں اضافہ کرکے عوام کے مسائل میں اضافہ کیا جارہا ہے اور یہ نرخ صرف بجٹ پیش کرنے کے موقع پرہی نہیں بڑھائے جاتے بلکہ ہر دوسرے دن عوام کے سروں پر نرخنامہ میں اضافے کا ڈنڈا مار دیا جاتا ہے جس کی کاری ضربوں سے عوام چکرا کر رہ گئی ہے۔

    اب تو مسلسل مہنگائی کی چکی میں پستی عوام کی حالت بھی قابل رحم ہے۔ آٹا، روٹی، نان کی قیمتوں میں اضافہ ہو چکا ہے جو کہ ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ اسی طرح دالیں، گھی، چینی، بیکری، ڈیری، بلکہ تمام مصنوعات میں سے کون سی ایسی چیز ہے جس کی قیمت میں اضافہ نہیں ہوا۔ غریب تو غریب اب تو درمیانے طبقے کے لیے بھی زمین خرید کر گھر بنانا خواب ہو گیا۔ بلکہ اب تو یہ حال ہے کہ رات سونے سے قبل کسی چیز کا نرخ معلوم کریں وہ تین سو روپے ہوگا اور صبح اٹھ کر وہ چیز خریدیں تو وہ 350 روپے میں ملے گی کہ چند گھنٹوں میں اس کا نرخ پچاس روپے بڑھ چکا ہوگا۔

    جہاں مہنگائی بڑھ رہی ہے وہاں بے روزگاری میں بھی اضافہ نظر آرہا ہے۔ ہمارا تعلیمی نظام بے ہنر پڑھے لکھے افراد پیدا کر رہا ہے۔ جب وہ اپنا تعلیمی سفر مکمل کرتے ہیں تو سرکاری ملازمتیں نہ ہونے کے برابر ہوتیں ہیں۔ کام کرنے کا کوئی ہنر ان کے پاس نہیں ہوتا تو ایسے حالات میں ان بیچاروں پر یہی جملہ فٹ ہوتا ہے۔” نہ کام کے نہ کاج کے دشمن اناج کے” اب جس معاشرے میں بے روزگاری اور مہنگائی ہوگی۔ پیٹ کی فکر کے لالے پڑے ہوں گے۔ وہاں امن کیسے رہ سکتا ہے؟اگر خدانخواستہ ان لوگوں کے ساتھ حسن ہدایت نہیں تو دھوکا دہی، لوٹ مار سے انہیں کون روک سکتا ہے؟۔

    اگر ہم اپنے نظریہ کی حفاظت کرتے ہوئے اپنے وطن عزیز کو مہنگائی، بیروزگاری اور بدامنی سے بچانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی ملک کی مشینری کو درستگی کی طرف لانا ہوگا۔ اس کا احتساب سر سے شروع کر کے پاؤں تک کرنا ہوگا۔ مگر کیا کریں یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ لیکن مجھے امید ہے کہ اس بگڑے آوے میں بھی اللہ کے کچھ ایسے سپاہی ضرور موجود ہوں گے جن کے بارے میں اقبال نے فرمایا ہے۔” نگاہیں مرد مومن سے بدل جاتیں ہیں تقدیریں۔”سب سے پہلے تو محتسب اداروں نیب اور عدلیہ کو اپنے ہی احتساب کی ضرورت ہے۔ جج قرن اولی کے قاضیوں کے اصولوں پر چلتے ہوئے حاکم وقت کو بھی عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرنے میں جھجک محسوس نہ کریں تاکہ غریب اپنے لئے انصاف کو غیر مرئی چیز نہ سمجھیں۔

    مہنگائی، بیروزگاری، بدامنی کو روکنے میں موجودہ حکومت ناکام نظر آرہی ہے۔ عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ دن بدن بڑھ رہا ہے۔ ان کے لیے سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ حکومت کو اپنے انتظامی فیصلوں میں بہتری پیدا کرنی ہوگی۔ کرپشن پاکستان کے ہر ادارے میں کسی نہ کسی صورت میں پیوست ہو چکی ہے اب ان اداروں میں کرپشن ختم کرنا ہوگی۔ ملکی روپیہ کو غیر ملکی کرنسی کی باندی نہ بنایا جائے۔ پاکستان، اسلامی جمہوریہ ملک ہے۔ میرا ایمان ہے کہ اس ملک میں معاشی بگاڑ کی اصل اور سب سے بڑی وجہ سودی نظام کا اپنانا ہے۔ چاہے وہ ہمارے حکومتی کارندے کسی بھی طریقے سے اپنائیں یا پھر وہ عالمی بینک سے سود پر قرض ہی کیوں نہ ہو۔ اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اعلان جنگ کر کے تو ہم خود تباہی کی طرف گامزن ہیں۔ اللہ کرے ہماری حکومتی مشینری میں ایسے لوگ آئیں جو پاکستان کو سود کی لعنت سے نجات دلائیں۔

    حکومت کو محصولات یعنی ٹیکسوں کی طرف بھی دھیان دینا ہوگا کیونکہ محصولات ادا کرنے والی کمپنیاں ان محصولات کا بوجھ اپنی جیبوں کی بجائے عوام پر ڈال دیتی ہیں۔ ذخیرہ اندوزی اور بلیک مارکیٹنگ بھی اشیاء کی قیمتیں بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ان غیر اسلامی کاروباری اور تجارتی و صنعتی طریقے سے بھی ملک بے برکتی کا شکار ہے۔اس سے تعلیم یافتہ معاشرتی ماحول بھی لالچی رویوں کا حامل ہو رہا ہے۔ حکومت کو ملک میں معاشی استحکام کے لیے یہ ناسور بھی ختم کرنا ہوں گے۔ بے روزگاری کا خاتمہ اسی صورت میں ممکن ہے جب معیشت مضبوط ہوگی۔

    انڈسٹریز لگیں گی۔ سرمایہ داری ہوگی۔ حکومت عوام کو نئے مواقع فراہم کرے گی۔ اس کے نتیجے میں امن و امان ہو گا مہنگائی ختم ہوگی کیونکہ مہنگائی، بیروزگاری، بدامنی، ایک ہی پلو میں بندھی تین بہنیں ہیں اور ان کی ایک دوسری کے ساتھ موجودگی لازم و ملزوم ہے۔ اس سب کے لئے معاشرے کے سب طبقات کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ایوانوں میں بیٹھے لوگوں سے لے کر ایک عام فرد تک، سرمایہ کار و صعنتکار سے لے کر مزدور تک کیونکہ اللہ تعالیٰ بھی اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جو اپنی حالت خود نہیں بدلتی۔

  • مہنگائی اور آبادی کا بڑھتا ہوا رجحان- حسان بن ساجد

    مہنگائی اور آبادی کا بڑھتا ہوا رجحان- حسان بن ساجد

    کسی بھی ریاست میں مہنگائی اور آبادی کا توازن انتہائی اہم کردار ادا کردار ادا کرتا ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی دو چیزوں میں بڑھاؤ کا سبب ہوا کرتی ہے جن میں بے روزگاری و مہنگائی نمایاں ہیں۔

    بڑھتی ہوئی آبادی کسی ریاست میں موجود خوراک کے ذخیرہ میں عدم توازن پیدا کرتا ہے جس کی وجہ سے خوراک کی کمی پیش آتی ہے جو مہنگائی کا سبب بنتی ہے۔ سیلاب اور ہاؤسنگ سوسائٹیز کی تعمیر کی وجہ سے ذرخیز زمین میں روز بروز کمی پیش آرہی ہے۔ ذرخیز زمین میں کمی آنے کی وجہ سے بھی فصلوں اور خوراک میں کمی آرہی ہے۔ اس وقت مہنگائی کی وجہ سے لاکھوں گھروں میں دو وقت کی روٹی کھانا محال ہو چکا۔

    پیٹرول، آٹا، چینی و دیگر اشیا ء کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں تو سیاسی لیڈرز اپنی سیاسی جنگ میں مصروف عمل ہیں۔ پچھلے 6 ماہ میں کوکنگ آئل میں بے پناہ اضافہ ہوا جس نے عام آدمی کی ریڑھ کی ہڈی توڑ کر رکھ دی ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی کا ایک فقدان یہ بھی ہے کہ یہ واپس کمی کی جانب رخ نہیں کرتی اور بدقسمتی سے حکومت وقت کے پاس مہنگائی اور بے روزگاری کو روکنے کے لیے کوئی پالیسی نہیں ہے۔ سیاسی رہنما نا ملکر بیٹھنا چاھتے ہیں نا ہی عوام الناس کی فلاح و بہبود کی جانب قدم بڑھانا چاہتے ہیں۔

    پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جس کی آبادی میں سالانہ اضافہ ہوتا ہے۔ میری نظر میں پاکستان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کی ایک بنیادی وجہ بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں دنیا میں کہیں آبادی نہیں بڑھ رہی جتنا آبادی میں اضافہ پاکستان ہو رہا ہے۔ ایک وقت میں ترقی پذیر و ترقی پسند ممالک آبادی کو اس ملک کی معاشی طاقت سمجھا جاتا تھا مگر بڑھتی ہوئی آبادی کو ریاست کی معیشت کے لیے خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ بد قسمتی سے ہماری آبادی اور مہنگائی کا گراف مسلسل اوپر جا رہا ہے جو کہ خطرناک ہے۔ مسلسل سیلاب اور سیلابی صورت حال کی وجہ سے اکثر ملکی فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں جو خوراک میں مزید کمی کا باعث بنتی ہے۔ یورپ نے اپنی آبادی کو قابو میں رکھا ہوا جس وجہ سے وہاں وسائل کی تقسیم میں توازن برقرار ہے۔

    بڑھتی ہوئی آبادی مہنگائی اور وسائل میں عدم توازن پیدا کرے گی اس کے سدباب کے لیے 1973 سے اقوام متحدہ نے کنٹرول آبادی کو عالمی پالیسی بنایا ہوا ہے. آبادی میں تیز رفتار سے اضافے کی شرح چونکہ ترقی پذیر ملکوں میں زیادہ رہی ہے اس لیے ترقی پذیر ممالک سے آبادی کنٹرول کرنے کی یقین دہانیاں لی جاتی رہیں اور قرض و ترقیاتی فنڈز کیلئے تخفیف آبادی کے اہداف کو بطور شرط منوایاجاتا ہے۔ اس لیے آج ماہرین کہہ رہے ہیں کہ ہمارے بڑھتے ہوئے مسائل کی بڑی وجہ آبادی کی تیز رفتار بڑھاؤ ہے ۔قیام پاکستان کے وقت ملک کی کل آبادی ساڑھے سات کروڑ کے قریب بتائی جاتی ہے۔

    جس میں مغربی پاکستان کی آبادی پونے چار کروڑ اور مشرقی پاکستان کی آبادی سوا چار کروڑ تھی۔اگلے بیس سال بعد جب وطن عزیز دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوا تو مشرقی پاکستان کی آبادی چھ کروڑ ساٹھ لاکھ اور مغربی پاکستان کی آبادی پانچ کروڑ ستر لاکھ تک پہنچ چکی تھی یعنی دو عشروں میں آبادی کی شرع ڈبل ہو چکی تھی ۔سن 1971ء میں ایک آزاد ریاست کے بطور قائم ہونے والے بنگلہ دیش میں خاندانی منصوبہ بندی کے پروگرامز پر عمدہ انداز سے عمل درآمد کیا گیا ہے۔ آج پاکستان کی کل آبادی کم و بیش 22 ارب تک پہنچ چکی ہے اور قدرتی وسائل میں کافی کمی آ چکی ہے۔ ہاؤسنگ سوسائٹیز کے وجود نے ذرخیز زمینوں اور کسانوں کو بے پناہ نقصان پہنچایا ہے۔

    1971 سی آج تک بنگلہ دیش بطور آزاد ریاست آبادی کے پھیلاؤ میں کنٹرول کو احسن طریق سے سر انجام دے رہا ہے اسی طرح چین نے بھی پچھلے 10 سالوں سے اپنی آبادی کے پھیلاؤ میں خاصا کنٹرول کیا ہے۔ مگر بدقسمتی سے ریاستی سطح پر پاکستان اب تک آبادیاتی پلاننگ سے کوسوں دور ہے۔ مذہبی رہنماؤں و علماء کا اس پر انتہائی اہم اور موثر بیانیہ ہونا چاہئیے تاکہ ملک ایک معاشی ترقی کی سمت کی جانب بڑھ سکے. آج پاکستان کی آبادی 22 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ بنگلہ دیش کی آبادی 17 ارب کے قریب ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں تعلیم ،صحت اور ٹرانسپورٹ کے جدید نظام کو دیکھیں اور پھر اپنی بد حالی کو دیکھیں تو حقیقت سمجھ آجاتی ہے کہ ہمارے منصوبہ سازوں سے بھول ہوئی ہے۔

    اس وقت ریاست کے ہر شہری کو اپنا اہم کردار کرنے کی ضرورت ہے۔ خواہ وہ اساتذہ ہوں یا موٹیویشنل اسپیکر، خواہ وہ علما کرام ہوں یا سیاسی رہنما ہر طبقے کو آبادیاتی کنٹرول میں اپنا اہم اور مثبت کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ پاکستان ایک مثبت سوچ و سمت کے ساتھ توازن برقرار رکھتے ہوے ترقی کا سفر طے کر سکے. ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے ادارے آئندہ 6 ماہ یا 5 سال کا نہیں بلکہ آئندہ 50 و 100 سال کا سوچ کر متحد ہوں تاکہ ملک ایک سیاسی، معاشی اور معاشرتی ترقی کی جانب گامزن ہو سکے۔ آبادی میں توازن ہی مہنگائی و معاشرتی توازن لا سکتا ہے.