Category: گوشہ خواتین

  • اسلامک جوائنٹ فیملی سسٹم- مفتی سیف اللہ

    اسلامک جوائنٹ فیملی سسٹم- مفتی سیف اللہ

    جوائنٹ فیملی سسٹم جو کہ ہمارے ہاں راںٔج ہے اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے یا ہندوانہ معاشرت کا اثر ہے؟
    یا کہ سنگل فیملی سسٹم جو کہ مغرب میں پایا جاتا ہے وہ اسلام کے قریب تر ہے؟
    مسلمانوں کو کونسا فیملی سسٹم اختیار چاہییے؟

    اس بارے میں مختلف آراء جذباتی لگاؤ اور معاشرتی تناؤ کے تناظر میں سامنے آرہی ہیں۔ جوائنٹ فیملی سسٹم کی خوبیوں کو دیکھتے ہوۓ اسے اسلام کے مطابق کہا جا رہا ہے جبکہ اس میں پائی جانے والی بعض بے اعتدالیوں اور ناانصافیوں کی وجہ سے اس کو ہندؤانہ و ظالمانہ خاندانی نظام قرار دیا جا رہا ہے۔ حقیقت حال تک پہونچنے کیلیے اسلام کے نظام خاندان کو جاننا نہایت ضروری ہے۔ اسلام میں خاندان کی اہمیت کا اندازہ اس سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے حضرت شاہ ولی اللہ رحمت اللہ علیہ نے معاشرت و خاندان سے متعلق آیات کو قرآن کریم کا ایک مستقل مضمون قرار دیا ہے جسے وہ “تدبیر منزل “کے عنوان سے تعبیر کرتے ہیں۔

    قرآن و سنت میں خاندان کے متعلقہ احکام اور حقوق و ذمہ داریوں کو تفصیل سے بیان کیاگیا ہے۔ اسلام کی روح و مزاج انسانیت کی فلاح و بہبود ہے،اسلام بے جا پابندیاں عاںٔد نہیں کرتا بلکہ معاملات میں وسعت و آسانی مہیا کرتا ہےچنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے”الدین یسر”دین اسلام آسان و سہل ہے،ہر زمانہ میں نہایت آسانی و سہولت
    کے ساتھ اس پر عمل کیا جاسکتا ہے۔ اسلام کے پیش نظر محض صورت نہیں بلکہ حقیقت اور مقاصد ہوتے ہیں چنانچہ اسلام نے کوئی خاص خاندانی نظام متعین نہیں کیا تاکہ معاملات و معاشرت میں کوئی تنگی یا مشکل پیش نہ آۓ.

    بلکہ کچھ بنیادی اصول و ضوابط بیان کںیے ہیں جو اصول جس بھی فیملی سسٹم میں پاۓ جاںٔیں وہ اسلامک فیملی سسٹم ہوگا۔ خاندان کے متعلق اسلامی اصول:

    خوف خدا:
    کسی بھی تعلق و رشتہ داری کو نبھانے اور اس کے حقوق ادا کرنے میں اللہ کا ڈر اور خوف اہم کردار ادا کرتا ہےچنانچہ اللہ تعالی نسبی و ازدواجی رشتہ داریوں کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں
    “اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نےتمہیں ایک شخص سے پیدا کیا اس سے اس کا جوڑا بنایا،پھر ان دونوں سے کثرت سے مرد عورت پھیلا دئے،اور خدا سے ڈرو جس کے نام کو تم اپنی حاجت براری کا ذریعہ بناتے ہو، اور رشتہ داریوں کو توڑنے سے ڈرو” .(سورہ نساء۔آیت1)

    اللہ کے نام کی یہ برکت اور اثر ہے کہ وہ عورت جو پہلے تمہارے لیے حرام تھی اب تمہاری زوجہ و رفیقہ ٔحیات بنا دی گںٔی لہذا اللہ کا خوف اور ڈر دل میں پیدا کرو اور اس کے حقوق ادا کرو۔ اور پہلے سے جو تمہارے رشتہ دار بہن،بھائی ،والدین اور دیگر اقارب ہیں ان کے حقوق بھی ادا کرو۔

    مرد خاندان کا سربراہ
    خاندان کے اہم امور میں فیصلہ کا اختیار مرد کو حاصل ہوگا. اللہ تعالی فرماتے ہیں:
    “مردوں کو عورتوں پر برتری حاصل ہے۔” ( سورہ نساء۔آیت34)
    کسی بھی اہم کام کے متعلق حتمی فیصلہ ایک مشکل کام ہے اس لیے یہ ذمہ داری مرد کے اوپر رکھی گںٔی ہے البتہ دوسرے مقام پر عورتوں کی راۓ لینے کی ترغیب دی گںٔی ہے۔

    مرد عورت کا کفیل:
    عورت کی جملہ ضروریات کھانا،پینا،لباس و رہاںٔش کو پورا کرنا مرد کے ذمہ لازم ہے۔ البتہ یہ تمام اخراجات مرد کی مالی استطاعت کے مطابق لازم ہوں گے. (سورہ بقرہ۔آیت 233)

    تربیت اولاد:
    والدین کے ذمہ شرعا لازم ہے کہ وہ اپنی اولاد کی تعلیم وتربیت شرعی اصولوں کے مطابق کریں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس کے ہاں بچہ پیدا ہو تو اس کا اچھا نام رکھے اور اچھی تربیت کرے اور جب بالغ ہو جاۓ تو اس کی شادی کرادے اور اگر بالغ ہونے کے بعد شادی نہیں کروایٔ اور وہ کسی گناہ میں مبتلا ہوا تو اس کا گناہ اس کے والد پر ہوگا .

    گھر والوں کے ساتھ بھلائی کرنا:
    قرآن کریم میں اللہ سبحانہ وتعالی نے عورتوں کے ساتھ بھلائی اورخیرخواہی کا بطور خاص حکم دیا اور ان کے متعلقہ احکام کو کںٔی مقامات پر بیان فرمایا اللہ تعالی فرماتے ہیں :
    “وعاشروھن بالمعروف۔عورتوں کے ساتھ بھلایٔ سے پیش آؤ۔”(سورہ نساء۔آیت 20)
    نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔ تم میں سے سب سے بہتر وہ ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ بھلایٔ والا معاملہ کرے اور میں تم میں سے سب سے زیادہ اپنی بیویوں کے ساتھ بھلایٔ کرتا ہوں۔
    والدین کے ساتھ حسن سلوک۔
    اسلام میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کی بہت زیادہ تاکید کی گںٔی ہے
    اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالی نے بکثرت جہاں توحید کا حکم دیا وہیں والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا۔
    آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
    اللہ کی رضا والدین کی رضامندی میں ہے اور اللہ کی ناراضگی والدین کی ناراضگی میں ہے۔
    والدین کے حقوق میں سے یہ ہے کہ ان کے ساتھ حسن سلوک کرے،ان کی دیکھ بھال کرے اور اگر ان کی ضرورت ہو تو ان کے تمام اخراجات ادا کرے۔
    مذکورہ تفصیل سے یہ بات واضح ہوتی ہے
    کہ اسلامی نظام خاندان کا مقصود تمام افراد والدین،میاں بیوی اولاد اور دیگر رشتہ داروں کے حقوق و فراںٔض کی اداںٔیگی اور ان سے حسن سلوک ہے۔
    اگر کویٔ شخص صرف اپنے گھرانے بیوی بچوں کے ساتھ رہتا ہو تو اس کیلیۓ ان شرعی احکام پر عمل کرنا ضروری ہوگا
    جبکہ جواںٔنٹ فیملی سسٹم میں رہنے کی
    صورت میں دیگر احکام معاشرت پر عمل کرنا بھی ضروری ہوگا مثلا غض بصر یعنی نظریں جھکا کر رکھنا اس طرح کہ قصدا کسی غیرمحرم پر نظر نہ پڑے،اور نہ ہی کسی
    غیرمحرم کے ساتھ تنہایٔ پایٔ جاۓ۔
    نیز گھر میں داخل ہوتے وقت اور بالخصوص کسی کی خلوت گاہ اور خاص کمرہ میں جانے کیلیۓ اجازت لینا ضروری ہے چاہے وہ محرم ہی کیوں نہ ہو۔
    ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یارسول اللہ!کیا میں اپنی ماں سے ان کے پاس جاتے وقت اجازت لوں؟
    آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہاں۔
    اس شخص نے عرض کیا میں ماں کے ساتھ ہی گھر میں رہتا ہوں۔
    آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اجازت لے کر ہی جاؤ۔
    اس شخص نے عرض کیا کہ میں ہی ان کاخادم ہوں۔
    آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اجازت لے کر ہی جاؤ،کیا تمہیں اپنی ماں کو برہنہ حالت میں دیکھنا پسند ہے؟
    اس شخص نے عرض کیا نہیں۔
    آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تو پھر اجازت لے کر ہی جاؤ۔
    (موطا امام مالک)

    اس حدیث سے معلوم ہوا کسی بھی شخص کے پاس چاہے وہ محرم ہو یاکہ غیرمحرم اس کے پاس اجازت لے کر جانا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ اگر جواںٔنٹ فیملی میں سب کا کھانا پینا بھی ایک ساتھ ہے تو پھر گھر کےاخراجات بھی سب بھاںٔیوں پر مشترک طور پر لازم ہوں گے۔ اسلام کی نظر ظاہری صورت پر نہیں بلکہ حقیقت و مقاصد پر ہے لہذا ان حقوق کی رعایت اور فراںٔض و ذمہ داریوں کی اداںٔیگی جہاں پر بحسن وخوبی کی جاسکے اسی فیملی سسٹم کو اختیار کرنا شرعا ضروری ہوگا۔ چنانچہ افراد،حالات اور مواقع کے اعتبار سے خاندانی صورت مختلف ہوسکتی ہے۔

    مثلا ایک بھائی نے اپنے بیوی بچوں کی تعلیم و تربیت شرعی اصولوں کے مطابق کی ہے تو ظاہر ہے ایسی جواںٔنٹ فیملی میں رہنے کی وجہ سے دیگر بھاںٔیوں کے بیوی بچوں پر اچھے اثرات مرتب ہونگے جبکہ اس کے برعکس صورت میں منفی اثرات ہوں گے۔ لہذا ہر فرد کے ذمہ لازم ہے کہ وہ اپنے خاندان کیلیۓ ایسی صورت اپناۓ جہاں وہ شرعی احکام کی پابندی کرسکے۔

    جوائنٹ فیملی سسٹم غیر اسلامی نہیں:
    جوائنٹ فیملی سسٹم غیر اسلامی نہیں بلکہ ایک مشرقی روایت ہےالبتہ روایت چونکہ ظاہری صورت و ہیںٔت کا نام ہے جس کا التزام بعض مرتبہ تنگی اور مشکل کا باعث بن جاتا ہےچنانچہ ہم اپنے معاشرہ میں دیکھتے ہیں کہ بعض اوقات کسی جواںٔنٹ فیملی میں رہتے ہوۓ کںٔی خرابیاں اور زیادتیاں پیش آتی ہیں لیکن اس کے باوجود معاشرتی دباؤ کی وجہ سے اپنی روایت کے خلاف نہیں کیا جاتا اور یوں سمجھتے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے کہ انہوں نے الگ الگ رہناشروع کردیا حالانکہ ایسی صورت میں الگ ہو کر رہنا شرعا ضروری ہو جاتا ہے۔ جوائنٹ فیملی سسٹم میں پایٔ جانے والی ہماری کوتاہیاں۔ جوائنٹ فیملی سسٹم بذات خود اسلام کے مخالف نہیں،البتہ اس میں نظر آنے والی خرابیاں اس سسٹم کی نہیں بلکہ ہمارے معاشرتی رویہ کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔

    روایات سے جذباتی تعلق:
    ہمارا معاشرہ اپنی روایات سے کبھی بھی دستبردار نہیں ہوتا چاہے ان روایات میں شرعی احکام کی پابندی نہ ہوسکے۔
    چنانچہ بعض اوقات بیٹے کا والدین کے ساتھ یا بھاںٔیوں کے ساتھ مل کر رہنا اور اس میں شرعی احکامات کی پابندی کرنا مشکل ہوتا ہے مثلا باہمی مزاج نہیں ملتے. اور وہ ادب و احترام اور محبت و شاںٔستگی کے ساتھ ایک ساتھ نہیں رہ سکتے لیکن اس کے باوجود والدین کی طرف مجبور کیا جاتا ہے تو پھر ایک دوسرے کے ساتھ زیادتیاں اور لڑائی جھگڑے پیش آتے ہیں۔

    بے پردگی و اختلاط:
    غیر محرم سے پردہ کرنا عورت پر شرعا لازم ہے اور حدیث میں دیور کے بارے میں فرمایا کہ یہ تو موت ہے یعنی اس سے پردہ کا بہت زیادہ اہتمام کرنا چاہیے۔ جوائننٹ فیملی سسٹم میں عموما شرعی پردہ نہیں کیا جاتا حتی کہ غیر محارم میں باہمی بےتکلفی بھی پایٔ جاتی ہے جو کہ شرعا درست نہیں۔ شریعت کا حکم پردہ کرنے کا ہے اور وہ جواںٔنٹ فیملی میں رہ کر بھی کیا جاسکتا ہے۔

    حق تلفی:
    جواںٔنٹ فیملی سسٹم میں رہتے ہوۓ بعض اوقات والد اپنے کاروبار میں اپنے بیٹوں کو بھی شامل کر لیتے ہیں چنانچہ بڑا بیٹا ایک عرصہ تک بغیر کسی مالی فاںٔدہ کے کاروبار میں اپنے والد کا تعاون کرتا ہے تو جب والد کا انتقال ہوتا ہے تو وہ کاروبار میں صرف اپنا استحقاق سمجھتے ہوۓ اس پر قبضہ کر لیتا ہے یا زیادہ حق کا دعوی کرتا ہےتو یوں ورثاء کے باہمی جھگڑے اور لڑاںٔیاں شروع ہوجاتے ہیں۔حالانکہ اگر کاروبار میں وہ ملازم کی حیثیت سے کام کرتا اور اسے اپنے کام کا معقول معاوضہ ملتا تو یہ نوبت نہ آتی۔

    تقسیم وراثت میں تاخیر:
    جوائنٹ فیملی سسٹم میں بعض اوقات والد کے انتقال کے بعد تمام ورثاء ایک ساتھ ہی رہتے ہیں اور والد کی وراثت کو تقسیم نہیں کرتے حالانکہ اسے تقسیم کیا جاسکتا ہے. لیکن بلاوجہ تاخیر کرتے ہیں پھر ایک عرصہ بعد جب تقسیم کا ارادہ کرتے ہیں تو جو وارث مالی طور پر کمزور ہوتا ہے وہ زیادہ حصہ لینا چاہتا ہے جس کی اولاد نہیں ہوتی اسے کم دینا چاہتے ہیں بہنوں کو بالکل ہی محروم کرنا چاہتے ہیں حالانکہ وراثت کا استحقاق غربت و مالداری کی بناء پہ نہیں بلکہ رشتہ داری کی بناء پر ہوتا ہے اور اس میں سب برابر ہیں۔ وراثت کی بروقت تقسیم نہ کرنے کی وجہ سے یہ پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں جو کہ بعد میں باہمی اختلافات و نزاع کا باعث بنتی ہیں۔ ہمارے ہاں جو مذکورہ خرابیاں پائی جاتی ہیں. یہ جوائنٹ فیملی سسٹم کی وجہ سے نہیں بلکہ ہمارے معاشرتی رویوں،شرعی احکام کو نہ جاننے اور ان پر عمل پیرا نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔

    اگر جوائنٹ فیملی سسٹم کے علاوہ چارہ نہ ہو تو پھر کیا کرے؟
    اگر ایسی صورت پیش آجاۓ کہ صرف جواںٔنٹ فیملی میں ہی رہنا ضرورت اور مجبوری بن جاۓ مثلا والد کا انتقال ہو جاۓ بڑا بھایٔ شادی شدہ ہے جبکہ دیگر بہن بھایٔ چھوٹے ہیں ان کیلیۓ علیحدہ گھر کا انتظام نہ ہو سکے تو ایسی صورت میں والدہ اور بہن بھاںٔیوں کی دیکھ بھال کیلیۓ اسے سب کے ساتھ رہنا ہوگا کیونکہ وہ سب کا ولی اور سرپرست ہے۔
    ایسا کرنے کی وجہ سے نہ تو اس پر ظلم ہو رہا ہے اور نہ ہی وہ احسان وایثار کر رہا ہے بلکہ وہ اپنی شرعی ذمہ داری نبھا رہا ہے۔

    اگر والد نے وراثت میں کاروبار یا اتنا مال چھوڑا ہے کہ جس سے بہن بھاںٔیوں اور والدہ کے اخراجات ادا کئےجاسکیں تو انہی کا مال ان پر خرچ کیا جاۓگا. بصورت دیگر بھاںٔیوں کے بالغ ہونے تک اور بہنوں کی شادی تک ان کے اخراجات بڑے بھائی پر لازم ہیں۔ جہاں تک چھوٹے بھاںٔیوں کی اعلی تعلیم اور کرئیر کا تعلق ہے تو اس کے اخراجات اگر بھائی کی استطاعت ہو تو وہ ایثار و احسان کرتے ہوۓخود ادا کرے. اور اگر مالی حالات اجازت نہیں دیتے تو وہ اپنے زکوہ وصدقات سے ان کی معاونت کرسکتا ہے،والدین اور بیوی بچوں کے علاوہ رشتہ داروں کو زکوہ دینا نہ صرف جائزبلکہ افضل ہے.

    آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
    ” نادار پر صدقہ کرنا صرف صدقہ ہے جبکہ رشتہ دار پر صدقہ کرنے کی وجہ سے صدقہ اور صلہ رحمی دونوں کا ثواب ملتاہے”. ترمذی

    البتہ انہیں نہ بتاۓ کہ یہ زکوہ و صدقات ہے تاکہ انہیں کویٔ شرمندگی محسوس نہ ہو۔اور اگر یہ صورت بھی نہ ہو سکے تو پھر بطور قرض اس کے اخراجات ادا کرے اور مستقبل میں اگر چھوٹے بھایٔ کو اچھی جاب مل جاۓ تو بڑابھایٔ تھوڑا تھوڑا کرکے اس سے اپنا قرضہ وصول کر لے۔ تو بڑا بھائی خاندان کا سرپرست ہونے کی حیثیت سے چھوٹے بھاںٔیوں کے تعلیمی اخراجات کیلیے ایثار،انفاق یا قرض میں سے کویٔ بھی صورت اختیار کر سکتا ہے۔ البتہ بڑے بھائی کو خاندان سے متعلقہ ذمہ داریوں کو نبھانے کیلیۓ اپنی خواہشات و ضروریات کو قربان کرنا پڑے گا چنانچہ دور رسالت میں اس کی ایک مثال ملتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی شادی کے متعلق جب معلوم ہوا تو دریافت فرمایا کہ:
    کنواری سے شادی کی یا کہ پہلے اس کی شادی ہو چکی تھی؟ تو انہوں نے عرض کیا کہ ایسی عورت سے شادی کی کہ پہلے اس کی شادی ہو چکی تھی تو آپ نے فرمایا کہ کنواری سے شادی کیوں نہ کی تاکہ وہ زیادہ محبت کا باعث بنتی؟ تو حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے عرض کی یارسول اللہ میری سات بہنیں ہیں. اگر کنواری سے شادی کرتا تو وہ زیادہ معاملہ فہم اور سمجھدار نہ ہوتی بلکہ میری بہنوں کی طرح ہوتی. اس لۓ اپنی بہنوں کی دیکھ بھال اور معاونت کے لۓ ایسی عورت سے شادی کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیر و برکت کی دعا فرمائی۔بخاری

    خلاصہ یہ ہے کہ اسلام نے نظام خاندان کیلیۓ کسی خاص صورت کی بجاۓ کچھ اصول بتاۓ ہیں وہ جہاں پاۓ جاںٔیں تو وہ ایک اسلامی خاندان ہوگا۔ جوائنٹ فیملی سسٹم غیر اسلامی نہیں بلکہ ایک مشرقی روایت ہے اگر اس میں رہتے ہوۓ شرعی احکام کو پورا کیا جاۓ تو یہ بھی ایک اسلامی خاندان کہلاۓ گا۔

  • مائیں اپنے بچوں کی جان کیوں لے رہی ہیں؟ –  شبانہ ایاز

    مائیں اپنے بچوں کی جان کیوں لے رہی ہیں؟ – شبانہ ایاز

    ماں کا لفظ سنتے ہی ذہن میں محبت، شفقت اور قربانی کی تصویر ابھرتی ہے۔ قدرت نے عورت کو یہ مقدس رتبہ عطا کیا ہے کہ وہ اولاد کی پرورش کرے، ان کی حفاظت کرے اور انہیں زندگی کی راہوں پر چلائے۔ اسلام میں ماں کو جنت کے دروازے کی کنجی کہا گیا ہے، جہاں پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان مبارک کا مفہوم ہے کہ:
    “جنت ماں کے قدموں تلے ہے”۔

    مگر افسوس کہ آج کے دور میں ایسے لرزہ خیز واقعات سامنے آ رہے ہیں جہاں مائیں اپنی ہی اولاد کی جان لے رہی ہیں۔ یہ نہ صرف ایک گھرانے کا المیہ ہے بلکہ پورے معاشرے کی اخلاقی اور نفسیاتی تباہی کی علامت ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں فیلسائیڈ (Filicide) یعنی والدین کی جانب سے بچوں کا قتل ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ یہ وہ فعل ہے جو فطرت کے خلاف ہے، اور جب یہ ماں سے سرزد ہوتا ہے تو معاشرہ ہل کر رہ جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق، دنیا بھر میں ہر سال لاکھوں بچے تشدد کا شکار ہوتے ہیں، اور ان میں سے ایک بڑا حصہ والدین کے ہاتھوں موت کا شکار ہوتا ہے۔

    ایک تحقیق کے مطابق، امریکہ میں 1976 سے 2004 تک پانچ سال سے کم عمر بچوں کے قتل میں 30 فیصد مائیں ملوث تھیں۔ پاکستان میں بھی ایسے کیسز کی تعداد میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے، جو غربت، نفسیاتی مسائل اور اخلاقی انحطاط کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ہمارا مقصد صرف واقعات بیان کرنا نہیں بلکہ معاشرے کو بیدار کرنا ہے تاکہ ایسے المیوں کو روکا جا سکے۔ ماں کی ممتا کو قہر بننے سے بچانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔

    پاکستانی معاشرے میں دل دہلا دینے والے واقعات
    پاکستان میں پچھلے چند سالوں میں ایسے متعدد کیسز سامنے آئے ہیں جہاں ماؤں نے اپنے بچوں کو قتل کیا ہے۔ یہ واقعات نہ صرف دل کو دہلا دیتے ہیں بلکہ معاشرے کے اندر چھپے مسائل کو بھی عیاں کرتے ہیں۔ ایک تخمینے کے مطابق، پچھلے پانچ سالوں میں پاکستان میں 50 سے زائد ایسے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جہاں مائیں یا ان کی ملی بھگت سے بچوں کا قتل ہوا۔ یہ اعداد و شمار صرف رپورٹ شدہ ہیں؛ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ بہت سے کیسز رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔

    کراچی کا واقعہ (2025)
    کراچی کے پوش علاقے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) کی خیابان مجاہد میں 14 اگست 2025 کو ایک 37 سالہ خاتون عدیبہ نے اپنے دو بچوں، 7 سالہ بیٹے ضرار اور 4 سالہ بیٹی سمیعہ کو تیز دھار آلے سے گلے کاٹ کر قتل کر دیا۔ یہ واقعہ صبح کے وقت پیش آیا جب بچے اپنی ماں کے پاس رات گزارنے آئے تھے۔ عدیبہ نے بچوں کو باتھ روم میں لے جا کر حملہ کیا اور پھر لاشوں کی تصاویر اپنے سابق شوہر کو بھیجیں۔ پولیس نے جائے وقوعہ سے آلہ قتل برآمد کیا اور لاشوں کو جناح ہسپتال منتقل کیا جہاں پوسٹ مارٹم سے گلے پر گہرے زخموں کی تصدیق ہوئی۔

    تفتیش سے پتا چلا کہ عدیبہ اور اس کے شوہر کی طلاق ستمبر 2024 میں ہوئی تھی، اور کسٹڈی باپ کو ملی تھی۔ عدیبہ شدید ڈپریشن اور نفسیاتی مسائل کی شکار تھی۔ اس کا بیان تھا کہ “بچے دیکھ کر دل خراب ہوا، وہ پیارے تھے مگر ان پر ظلم ہو رہا تھا”۔ وہ یہ سمجھتی تھی کہ موت اس کے بچوں کے لیے بہتر ہے۔یہ ایک الٹروسٹک فیلسائیڈ (altruistic filicide) کی مثال ہے جہاں ماں بچوں کو تکلیف سے نجات دلانے کے لیے قتل کرتی ہے۔ اس کیس نے پورے ملک کو جھنجھوڑ دیا اور نفسیاتی صحت کی اہمیت پر بحث چھیڑ دی۔

    پنجاب کا کیس (2025)
    جولائی 2025 میں سیالکوٹ کے علاقے ڈسکہ میں ایک ماں نے اپنے آشنا ملک فاروق کے ساتھ مل کر اپنے دو بچوں، 6 سالہ بیٹی ام کلثوم اور 3 سالہ بیٹے وارث کو اینٹوں سے سر پر وار کر کے قتل کر دیا۔ لاشیں قبرستان میں پھینک دی گئیں۔ تفتیش سے پتا چلا کہ ماں اور فاروق کے ناجائز تعلقات تھے، اور بیٹی نے انہیں دیکھ لیا تھا۔ افشاء کے خوف سے یہ قدم اٹھایا گیا۔ یہ خودغرضانہ فیلسائیڈ کی مثال ہے جہاں ذاتی راز چھپانے کے لیے بچے مارے جاتے ہیں ۔ پولیس نے دونوں کو گرفتار کر لیا، اور یہ کیس سماجی اخلاقی بگاڑ کی عکاسی کرتا ہے۔

    راولپنڈی کا کیس (2023 )
    راولپنڈی میں 2023 میں ایک ماں نے غربت اور شوہر کے تشدد سے تنگ آ کر اپنے تین بچوں کو زہر دے دیا۔ دو بچے ہلاک ہو گئے جبکہ ایک کو بچا لیا گیا۔ بعد میں ماں نے خودکشی کی کوشش کی۔ یہ کیس غربت اور گھریلو تشدد کی وجہ سے ہونے والے فیلسائیڈ کی مثال ہے۔ ماں کا بیان تھا کہ “بچوں کو بھوک اور تکلیف سے بچانا چاہتی تھی”۔ ایسے کیسز میں نفسیاتی دباؤ انتہائی حد تک پہنچ جاتا ہے۔

    لاہور کا کیس (2022)
    لاہور میں ایک سوتیلی ماں نے شوہر سے انتقام لینے کے لیے بچوں کو قتل کر دیا۔ عدالت نے اسے عمر قید کی سزا سنائی۔یہ “spouse revenge” فیلسائیڈ کی قسم ہے جہاں ازدواجی تنازعات بچوں پر نکلتے ہیں۔ان کیسز سے واضح ہے کہ پاکستان میں فیلسائیڈ کی وجوہات متنوع ہیں، مگر سب میں نفسیاتی اور سماجی عوامل غالب ہیں۔ پولیس اور عدالتیں ایسے کیسز میں تیز تفتیش کر رہی ہیں، مگر روک تھام کی ضرورت ہے۔

    عالمی منظرنامہ اور مثالیں
    یہ المیہ صرف پاکستان تک محدود نہیں بلکہ دنیا بھر میں پایا جاتا ہے۔ ایک عالمی مطالعے کے مطابق، امریکہ میں ہر سال تقریباً 500 فیلسائیڈ کیسز ہوتے ہیں۔ عالمی سطح پر، ہر سال ہزاروں بچے والدین کے ہاتھوں قتل ہوتے ہیں، اور ان میں 40 فیصد کیسز میں مائیں ملوث ہوتی ہیں۔ یونیسیف کی رپورٹس بچوں پر تشدد کی سنگینی بیان کرتی ہیں،

    امریکہ: اینڈریا ییٹس کیس (2001)
    ٹیکساس میں اینڈریا ییٹس نے شدید ڈپریشن اور وہم کی حالت میں اپنے پانچ بچوں کو باتھ ٹب میں ڈبو کر قتل کر دیا۔ وہ پوسٹ پارٹم سائیکوسس کی شکار تھی اور سمجھتی تھی کہ بچوں کو شیطان سے بچا رہی ہے۔ عدالت نے پہلے قتل کا فیصلہ دیا مگر بعد میں پاگل پن کی بنیاد پر بری کر دیا۔ یہ کیس نفسیاتی بیماریوں پر عالمی بحث کا سبب بنا۔

    بھارت: اترپردیش کیس (2022-2024)
    اترپردیش میں ایک ماں نے غربت اور جھگڑوں سے تنگ آ کر اپنے تین بچوں کو گلا دبا کر مار دیا۔ ایک تازہ کیس میں 2024 میں ایک خاتون نے اپنے تین بچوں کو دریا میں ڈبو کر قتل کیا اور عدالت نے اسے موت کی سزا سنائی۔ بھارت میں غربت اور صنفی عدم مساوات ایسے کیسز کو بڑھاوا دیتے ہیں۔

    افریقہ (کینیا): 2023 کیس
    کینیا میں 2023 میں ایک ماں نے بھوک اور بیماری سے تنگ آ کر اپنے بچوں کو قتل کر دیا۔ ایک اور کیس میں 2024 میں ایک خاتون نے دو بچوں کو مار کر خودکشی کی۔ افریقہ میں غربت اور صحت کی کمی ایسے واقعات کی بنیادی وجوہات ہیں۔ فن لینڈ میں ایک مطالعہ سے پتا چلا کہ مائیں اکثر فیلسائیڈ-سوئسائیڈ کرتی ہیں۔ برطانیہ میں بھی ایسے کیسز میں نفسیاتی مسائل غالب ہوتے ہیں۔ یہ عالمی مسئلہ ذہنی صحت اور سماجی مدد کی کمی کو اجاگر کرتا ہے۔

    وجوہات کا تحقیقی جائزہ
    ماؤں کے فیلسائیڈ کی وجوہات پیچیدہ ہیں، جو نفسیاتی، سماجی اور مذہبی عوامل سے جڑی ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق، پانچ اہم محرکات ہیں:
    الٹروسٹک، شدید سائیکوسس، ناپسندیدہ بچہ، حادثاتی اور شوہر سے انتقام۔
    اسلام سے دوری اور ایمانی کمزوری :
    اسلام میں اولاد کو اللہ کی امانت کہا گیا ہے۔ قرآن مجید میں سورہ الاسراء آیت 31 میں فرمایا گیا: “اور اپنی اولاد کو مفلسی کے خوف سے قتل نہ کرو”۔ حدیث میں بھی جہالت کے دور کی لڑکیوں کے قتل کی مذمت کی گئی ہے۔ جب ایمان کمزور ہوتا ہے تو صبر اور خوف خدا ختم ہو جاتا ہے، اور گناہ آسان لگتا ہے۔ پاکستان میں سیکولر اثرات اور دینی تعلیم کی کمی یہ مسئلہ بڑھا رہی ہے۔

    نفسیاتی بیماریاں
    پاکستان میں خواتین میں ڈپریشن کی شرح بلند ہے۔ ایک مطالعے کے مطابق، پوسٹ پارٹم ڈپریشن کی شرح 10-50 فیصد تک ہے۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (PIMS) کی رپورٹس سے پتا چلتا ہے کہ 25 فیصد خواتین شدید ڈپریشن کی شکار ہیں، اور پیدائش کے بعد 37 فیصد تک یہ دباؤ ماں کو غیر فطری فیصلوں پر مجبور کرتا ہے، جیسے اینڈریا ییٹس کیس میں۔

    آزادی نسواں کی آڑ میں ناجائز تعلقات اور اخلاقی بگاڑ
    پنجاب کیس کی طرح، ناجائز تعلقات افشاء کے خوف سے اکثر شوہر و بچوں کے قتل کا سبب بنتے ہیں۔ معاشرے میں اخلاقی اقدار کی کمی، میڈیا کے اثرات اور خاندانی نگرانی کی کمی یہ مسئلے بڑھا رہے ہیں۔

    غربت اور گھریلو جھگڑے
    پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس کے مطابق، 2024 میں غربت کی شرح 40.5 فیصد ہے۔ غربت، بیروزگاری اور تشدد ماؤں کو مایوس کر دیتے ہیں، اور وہ بچوں کو “تکلیف سے نجات” دلانے کے لیے قتل کر دیتی ہیں۔ یہ وجوہات ایک دوسرے سے جڑی ہیں، اور ان کا حل جامع حکمت عملی میں ہے۔

    قانونی پہلو
    پاکستان میں بچوں کے قتل کو سنگین جرم سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان پینل کوڈ (PPC) کی دفعہ 302 کے تحت قتل کی سزا موت یا عمر قید ہے، اور یہ قابل معافی نہیں چاہے ماں ہو یا باپ، کوئی رعایت نہیں۔ چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ 2016 (جیسے بلوچستان چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ) بچوں پر تشدد، قتل یا اغوا کو ناقابل ضمانت جرم قرار دیتا ہے۔ عدالتیں نفسیاتی مسائل کو دیکھتے ہوئے علاج کا حکم دے سکتی ہیں، مگر سزا سے استثنا کم ہے۔ یہ قوانین سخت تو ہیں، مگر نفاذ میں کمزوری ہے۔

    آزادی نسواں کا پروپیگنڈہ اور خاندانی نظام کی تباہی
    یہ سوال کہ “ماں اپنی ممتا کو کیوں بھول جاتی ہے؟” صرف انفرادی نفسیاتی یا وقتی مسئلے سے نہیں جڑا، بلکہ اس کے پیچھے ایک عالمی نظریاتی جنگ بھی کارفرما ہے۔ یہ جنگ مغربی تہذیب کے اس بیانیے نے چھیڑی ہے جسے “آزادی نسواں” کے نام پر پوری دنیا میں پھیلایا گیا ہے۔مغربی معاشرے میں عورت کو خاندان اور بچوں کے رشتے سے الگ کر کے صرف فرد کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ وہاں عورت کی کامیابی کا پیمانہ یہ طے کیا گیا ہے کہ وہ کتنا کما سکتی ہے، کتنا خود مختار ہے، اور کس حد تک مردوں کے برابر کھڑی ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ شادی کا ادارہ کمزور پڑ گیا، طلاق کی شرح میں بے پناہ اضافہ ہوا، سنگل پیرنٹ ہومز (single parent homes) عام ہو گئے اور لاکھوں بچے ماں یا باپ کی شفقت سے محروم ہو گئے۔

    یہی نظریہ اب پاکستان جیسے معاشروں میں بھی پروپیگنڈے کے ذریعے داخل کیا جا رہا ہے۔ این جی اوز، میڈیا ،ڈرامے اور مغرب نواز تحریکیں عورت کو باور کرا رہی ہیں کہ شادی اور ماں بننا اس کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ ان کے مطابق عورت کو گھر اور خاندان کی بجائے آزادی اور اکیلے رہنے کو ترجیح دینی چاہیے۔ اس سوچ کا سب سے بڑا نقصان عورت، بچوں اور خاندانی ڈھانچے کو ہوا ہے۔

    اسلام نے عورت کو اصل آزادی دی جو کہ اس کی فطرت کے مطابق ہے۔ قرآن پاک میں اولاد کو اللہ کی امانت قرار دیا گیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے عورت کے مقام کو ماں کی صورت میں سب سے زیادہ بلند کیا۔ مگر جب عورت اپنی اصل شناخت سے محروم ہو جاتی ہے تو خاندان ٹوٹنے لگتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آزادی نسواں کے نام پر آنے والی یہ تحریک دراصل عورت کو عزت دینے کے بجائے اس کی فطرت اور ذمہ داری سے دور کر رہی ہے۔ پاکستانی معاشرے میں اس پروپیگنڈے کے نتیجے میں کئی سنگین اثرات ظاہر ہوئے ہیں:

    1. طلاق کی شرح میں اضافہ – لاہور ہائی کورٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2023 میں صرف لاہور میں 20 ہزار سے زائد طلاق کے کیسز درج ہوئے۔
    2. بچوں کی نفسیاتی محرومی – سنگل پیرنٹ ہومز میں پلنے والے بچے عدم تحفظ اور نفسیاتی دباؤ کا شکار ہوتے ہیں۔
    3. ماں کے کردار میں کمزوری – جب عورت کو باور کرایا جاتا ہے کہ ماں بننا اس کی ترقی کے راستے میں رکاوٹ ہے تو وہ اولاد کو بوجھ سمجھنے لگتی ہے۔
    4. خاندانی اقدار کا انہدام – خاندان جو معاشرے کی بنیاد ہے، وہ کمزور ہو کر بکھر رہا ہے۔

    یہی بگڑتی صورت حال فیلسائیڈ جیسے المناک واقعات کو بڑھا رہی ہے۔ جب عورت پر یہ بیانیہ حاوی ہو جاتا ہے کہ “میری ذاتی آزادی سب سے بڑی ہے” تو وہ کبھی غربت، کبھی ناجائز تعلقات اور کبھی نفسیاتی دباؤ کے تحت اپنی ممتا کو بھلا دیتی ہے۔

    اسلامی خاندانی نظام ہی حل ہے
    آزادی نسواں کے پروپیگنڈے کا توڑ صرف اسلام کے مضبوط خاندانی نظام میں ہے۔ اسلام عورت کو تعلیم اور کام کی اجازت دیتا ہے مگر اس کی اصل ذمہ داری اور عزت خاندان اور بچوں سے جڑی ہے۔ عورت اگر اپنی اصل پہچان کو سمجھ لے تو معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بن سکتا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ میڈیا اور تعلیمی ادارے خاندانی اقدار کے تحفظ پر زور دیں، نہ کہ مغرب کے ایجنڈے کو پروان چڑھائیں۔ عورت کو بتایا جائے کہ اس کی اصل طاقت ماں بننے میں ہے، اور یہی کردار ہے جو نسلوں کو سنوارتا ہے۔ماں اپنی اولاد کو مارنے پر مجبور کیوں ہوتی ہے؟

    اس کا جواب یہی ہے کہ ایمان کی کمزوری، نفسیاتی بیماریاں، ناجائز تعلقات، غربت، سماجی بگاڑ اور آزادی نسواں کے پروپیگنڈے کا دباؤ۔ اسلام سے دوری ان سب پر حاوی ہے، کیونکہ ایمان ہی صبر اور ممتا کو زندہ رکھتا ہے۔ یہ واقعات ہمیں سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ اگر اقدار اور نظام پر نظرثانی نہ کی گئی تو معصوم بچوں کا خون بہتا رہے گا۔ معاشرے، حکومت اور افراد کو مل کر کام کرنا ہو گا تاکہ مائیں پھر سے “رحمت” بنیں، نہ کہ قہر۔

  • گھریلو خاتون عدم اعتماد کا شکار کیوں – ندا اسلام

    گھریلو خاتون عدم اعتماد کا شکار کیوں – ندا اسلام

    میکے اور ننھیال کی مشفق فضاء میں وہ تینوں بچیاں “گھر گھر”والے کھیل میں مگن تھیں، مائیں الگ سے محفل جمائے بیٹھی تھیں جب اچانک ہی ایک بچی کی زور زور سے رونے اور چیخنے کی آواز آئی ۔ جائے وقوعہ پر جب مائیں پہنچیں تو بچی روتے ہوئے اور صدمے کی حالت میں ماں کو شکایت لگاتی جاتی تھی کہ یہ میرے بچے پر بیٹھ گئی تھی ۔

    بے باک سا یہ فقرہ تقریباً چار سالہ بچی کا ہے۔گویا ممتا اور گھر داری عورت کی فطرت ہے جس کی چاہت سے بچیاں بھی مستثنیٰ نہیں۔ جیسے بچے آپس میں کشتی ،کبڈی اور باہر کی دنیا میں دلچسپی رکھتے ہیں کیونکہ یہی ان کی فطرت ہے ۔ اب اگر وہ فطرت کے آگے سرنڈر کرنے کی بجائے اور اپنے دائرہ کار کی حدود سے نکلتے ہوئے عورتوں کی نقالی یا تشبیہ اختیار کرتے ہیں تو غلط ہے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر عورت کو اس کے دائرہ کار سے کیوں نکالے جانے پر اتنی محنت ہو رہی ہے۔

    کیا گھردار عورت کی عظمت کا مقابلہ گھر سے باہر والے اجنبی مردوں کے ساتھ کام کرتی خاتون کا کرنا عقلمندی ہے؟
    کیا گھریلو ذمہ داریوں کی ادائیگی باشعور اور پڑھی لکھی عورت کا شعور گھٹاتی ہے !!!
    یا اس کی صلاحیتوں کو زنگ لگاتی ہے!!! جبکہ اس کو استثنائی صورت کے سوا رب العالمین نے اولاد کی نعمت سے بھی نوازا ہوتا ہے۔ یوں اس کے پاس کھلے مواقع ہوتے ہیں کہ اپنی صلاحیتوں ،علم اور شعور کو اتنی دیانتداری سے اگلی نسل میں منتقل کرے کہ نسل نو اس علم اور شعور کی روشنی سے معاشرے میں پھیلی جہالت، عصبیت اور ذہنی انتشار کو علم،اتحادو یگانگت و اخوت اور یکسوئی سے پر کر دے۔

    المیہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی سمجھ بوجھ کو طاق میں رکھ کر اغیار اور چالاک دشمن کی ذہنی طرز پر سوچنا شروع کر دیا۔ ہماری سوچ کے دھارے پر جب دوسرے لوگ قابض ہوئے تو ہم گھریلو خواتین عدم اعتماد کا شکار ہو گئیں ، ہم نے سمجھنا شروع کر دیا کہ جب تک ہم دوہری ذمہ داری ادا نہ کریں گی ہم معاشرے میں اہمیت حاصل نہ کر پائیں گی، ہمیں بدھو اور پھوہڑ سمجھا جائے گا۔ ہم نے خاندانی نظام کے استحکام کو خطرے میں ڈال کر جاب کرنے کو ترجیح دی۔ ہم نے بچوں کی اخلاقی تربیت کے لیے گھر میں رہ کر ان پر کڑی اور تربیتی نگاہ رکھنے کی بجائے ذمہ داریوں سے فرار میں عافیت جانی۔

    اگر چہ اسلام نے عورت کو حق کمائی اور حق خرچ عطا کیا ہے مگر کفیل نہیں بنایا۔۔۔ مقام و مرتبہ بلند اس عورت کا نہیں بتایا جو کماتی ہو بلکہ اس عورت کا بتایا جو پرہیزگار ہو۔ ہم مثال کے طور پر حضرت خدیجہ کا نام لیتے ہیں جو کماتی تھیں مگر وہ ایک مضبوط کردار اور معاملہ فہم عورت بھی تھیں ، یہ ہم بھول جاتے ہیں۔ ہم یہ پہلو بھی نمایاں نہیں کرتے کہ عرب کی اس مالدار اور رشیدہ خاتون نے اپنا تمام مال اللہ کے لئے وقف کر دیا ۔ اپنے شوہر کے مشن میں ان کی دست راست بن گئیں، مال کے زعم میں انہوں نے شوہر کو دبانے کی بجائے معاشرے کی ان ستم ظریفیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے لگا دیا جو ان کے شوہر کو دبانے اور تحریک کا خاتمہ کرنے کے لئے جاری تھیں۔

    کیا گھریلو خاتون بن کر ان کی حیثیت کم ہوئی!!!
    کیا بچوں کی تربیت کو انہوں نے گھٹیا ذمہ داری جانا!!!
    کیا فاطمہ رض کم وسائل رکھنے والی گھریلو خاتون ہونے کے باوجود عدم اعتماد کا شکار ہوئیں!!!

    یقیناً ہمیں اپنی سوچ کا زاویہ درست کرنے کی ضرورت ہے ، غلط دھارے کے ساتھ بہنے کی بجائے دھارا موڑ دینے کی ہمت اور جرات پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم خواتین اپنا لوہا منوا سکیں۔ تا کہ دنیا میں خواہ نہ سہی مگر عقبیٰ میں ہماری شان میں قصیدے پڑھے جائیں، وہاں ہم سرخرو ٹھہریں۔اللہ ہمیں اپنے دائرہ کار کی عظمت اور حکمت کا فہم عطا فرمائے ، آمین.

  • مشترکہ خاندانی نظام رحمت یا زحمت- بنت عبدالقیوم

    مشترکہ خاندانی نظام رحمت یا زحمت- بنت عبدالقیوم

    ایک مدت سے مشترکہ خاندانی نظام کے حق اور مخالفت میں آراء کا اظہار ہوتا رہا ہے، خود مختار خاندان یا separate فیملی سسٹم بھی موضوع بحث رہا ہے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ حتمی طور پر کسی ایک نظام یا سسٹم کے حق میں فیصلہ دینا در حقیقت زمینی حقائق اور سماجی تقاضوں سے نظر چرانے کے مترادف ہے۔

    جتنا جوائنٹ فیملی سسٹم کو تقویت دینے والے دلائل اور اصرار ہر صورتحال اور تناظر میں غلط ہے،اسی طرح یہ ذہن کہ جداگانہ خاندانی نظام ہمارا حق ہے،اور اس پر محاذ کھڑا کر دینا اور “ادھر تم ادھر ہم” کی ناساز گار فضاء بنا دینا بھی ناپختہ ذہن کی علامت اور سماجی مسائل سے لا تعلق ہو جانے کا اعلان ہے،جو کسی طور سراہنے کے قابل نہیں۔ ہم کچھ زمین حقائق سے مدد لیتے ہوئے دیکھیں گے کہ ترازو کا کونسا پلڑا بھاری ہے۔

    قارئین !
    ذرا ایک ایسی فیملی کو تصور میں لائیے جہاں والدین بوڑھے ہیں ،ایک والدین کی فیملی اور دوسری اپنی فیملی ۔ پھر دو ،تین کمانے والوں میں سے کوئی بھی اتنی مستحکم پوزیشن میں نہیں کہ اپنی والدین کی فیملی سمیت تو کیا اکیلے اپنی فیملی کو سپورٹ کر سکے،ایسے میں جوائنٹ سسٹم ایک رحمت ہے . اگر ایسی فیملی کو دیکھا جائے جہاں کچھ افراد جداگانہ فیملی سسٹم دے کر اپنی فیملی کی کفالت بھی بخوبی کر سکتے ہیں اور والدین اور بہن بھائیوں کی ضروریات کا بھی خیال رکھ سکتے ہیں تو وہاں مشترکہ فیملی سسٹم پر اصرار اور اس کی قباحتوں کو نظر انداز کیے جانا انصاف کے بھی منافی ہے اور بے پناہ مسائل کا باعث بھی ہے۔

    اب ایک ایسی فیملی کو دیکھئے جہاں کچھ افراد اپنی فیملی کو تو جداگانہ سسٹم میں رکھ سکتے ہیں لیکن والدین کی فیملی تنگدستی کا شکار ہے وہاں جداگانہ سسٹم کا فیصلہ یقیناَ خود غرضی پر مبنی ہے۔گویا ہر فیملی کے حالات و معاملات و مسائل کے تناظر میں ہی یہ فیصلہ کرنا درست ہو گا کہ جوائنٹ سسٹم رحمت ہے کہ جداگانہ نظام ۔ بہرحال جہاں عقل اور انصاف مشترکہ نظام کے حق میں فیصلہ دیتے ہوں وہاں اس فیصلے پر سر تسلیم خم کرنا ہی عقلمندی ہے اور حساس سوچ کی علامت بھی۔البتہ تقویٰ کا دامن پکڑے رہنا ضروری ہے تا کہ خواہ مخواہ کے مسائل نہ پیدا ہوں ،ایک فرد کی اجارہ داری کی خواہش بہت سوں کی حق تلفی کا باعث ہے.

    اس لئے مشاورتی سسٹم کو بزور نافذ کرنا قوام ہی کا کام ہے،مشترکہ رہتے ہوئے بھی اپنے اپنے معاملات میں خود مختار ہونے کو یقینی بنانا اور دوسرے کے معاملات میں بلا وجہ مداخلت سے گریز بہت سے مسائل سے بچا لیتا ہے۔اگر جوائنٹ سسٹم کی بنیاد تقویٰ پر قائم ہو اور آخرت کی جوابدہی کا خوف موجود ہو تو یہ نظام پرورش و تربیت اولاد کے معاملے میں کافی معاون ثابت ہو سکتا ہے،بصورت دیگر یہی نظام بچوں کے لئے بھی زہر قاتل ہے اور بڑوں کے لئے بھی درد سر۔

    جہاں تک جداگانہ خاندانی نظام کی بات ہے تو اگر حالات اس کی اجازت دیتے ہوں اور معاشی خودانحصاری موجود ہو تو بلا شبہ یہ مثالی نظام ہے ،زوجین باہمی مشاورت سے بہترین انداز سے پرورش و تربیت اولاد کے فریضے سے بھی نبرد آزما ہو سکتے ہیں اور اقرباء کے حقوق کی ادائیگی بھی کشاکشی کے بغیر اور بوجھ سمجھے بغیر بہتر طور پر کر سکتے ہیں۔صلہ رحمی کے فروغ میں معاون، قطع تعلقیوں کی شرح میں حیرت انگیز کمی، بغض وعناد کے خاتمے اور خیر و بھلائی کی سوچ کو تقویت دینے کا باعث ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ضدوعناد ،جاہلانہ تعصب سے محفوظ رکھے اور بہترین قوت فیصلہ سے نوازے۔

    یہ دعا کرتے رہا کیجئے:
    رب ھب لی حکما و الحقنی باالصالحین واجعل لی لسانا صدق فی الآخرین۔

  • جب تربیت ایک صنعت بن جائے – خدیجہ طیب

    جب تربیت ایک صنعت بن جائے – خدیجہ طیب

    آج کی “تربیت” صرف محبت اور فطرت کا نام نہیں رہی، بلکہ یہ ایک منظم تجارتی منصوبہ بن چکی ہے۔ والدین کی بے چینی، خوف، اور عدم اعتماد کو مارکیٹ نے نفع کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ بچوں کی فطری نشوونما کو تربیت کے نام پر ضرورت سے زیادہ منصوبہ بندی، احساسِ جرم، اور جذباتی انحصار کا شکار بنا دیا گیا ہے۔

    اب تربیت ایک سادہ تعلق نہیں رہی، بلکہ ہر لمحہ ایک “کارکردگی” بن چکا ہے، جسے ماں باپ مسلسل تولتے ہیں اور ہر بار خود کو کمزور پاتے ہیں۔ ماں کی آنکھوں میں کبھی جو فطری اعتماد ہوا کرتا تھا، آج وہ ایک مستقل سوالیہ نشان میں بدل چکا ہے۔ ماں اب اپنے دل سے یہ نہیں پوچھتی کہ”میرے بچے کو میری کیا ضرورت ہے؟”، بلکہ گوگل سے پوچھتی ہے کہ “بچے کو کیسے پروان چڑھایا جائے؟”۔ یہ دور مشوروں، تربیتی کورسز، اور ایپس کا دور ہے۔ ہر طرف solutions بکھرے ہیں، مگر ماں کے دل میں الجھن اور بے چینی بڑھتی جا رہی ہے۔

    یہی موضوع ہماری آج کی بحث کا مرکز ہے۔ عالمی Parenting Industry (بچوں کے کپڑے، کھلونے، کتابیں، کورسز، موبائل ایپس، تربیتی ورکشاپس) کی مالیت 325 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے، اور بعض تخمینوں کے مطابق یہ مارکیٹ 1.2 کھرب ڈالر تک جا پہنچی ہے۔ صرف آن لائن پیرنٹنگ ایجوکیشن کی مارکیٹ 2024 میں 2.24 ارب ڈالر تھی، جو 2033 تک 5.5 ارب ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے۔ Parenting Apps کی مارکیٹ 2023 میں 542 ملین ڈالر تھی، اور 2030 تک یہ 905 ملین ڈالر ہو سکتی ہے۔

    ان کے کچھ سیاہ اثرات:
    67 فیصد والدین سوشل میڈیا سے تربیتی مشورے لیتے ہیں، جن میں سے 84 فیصد کو دوسروں کے “جج” کرنے کا احساس ہوتا ہے۔ 42 فیصد والدین اعتراف کرتے ہیں کہ وہ اکثر ذہنی طور پر نڈھال ہو جاتے ہیں، اور 75 فیصد کو بچوں کی تربیت میں ٹیکنالوجی کے منفی اثرات پر شدید تشویش ہے۔ ایک حالیہ امریکی سروے کے مطابق، والدین سال میں اوسطاً 156 بار خود کو ناکام والدین محسوس کرتے ہیں۔ 41 فیصد والدین تسلیم کرتے ہیں کہ وہ اس قدر ذہنی دباؤ میں ہوتے ہیں کہ روزمرہ کے کاموں میں بھی دھیان نہیں دے پاتے۔

    Helicopter Parenting یعنی ہر لمحہ بچے پر نظر رکھنا آج کی جدید ترین تربیتی اصطلاح ہے، مگر اس کے اثرات میں بچوں میں خود اعتمادی اور خود مختاری کی شدید کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ ماہرین نفسیات خبردار کرتے ہیں کہ تربیت کو “نفسیاتی مسئلہ” بنا دینے سے والدین میں عدم اعتماد اور بچوں میں غیر فطری دباؤ بڑھ رہا ہے۔ یہ کیسا دور آ گیا ہے کہ ماں کو اب “ماں” بننے کے لیے بھی کورسز، کتابیں، ایپلیکیشنز اور ورکشاپس کی ضرورت محسوس ہوتی ہے؟ وہ اپنے اندر کے نور کو محسوس کرنے کے بجائے، ماہرین کے گائیڈ لائنز پر خود کو جانچتی ہے۔

    آج کی ماں… شاید دنیا کی سب سے تھکی ہوئی ہستی ہے۔ وہ روایتی ماں بننے کے خوف میں مبتلا ہے اور جدید ماں بننے کی دوڑ میں ہانپ رہی ہے۔ مگر سچ یہ ہے کہ وہ خود اپنے ماں ہونے پر یقین کھو چکی ہے۔ اور یہی وہ خلا ہے جہاں سے ہر بےچینی، ہر الجھن، ہر عدم اطمینان جنم لیتا ہے۔ ہر طرف تربیت کے دعوے دار ہیں، ہر فون میں notifications آتی ہیں “Best way to raise a confident child” اور ماں خود کو مزید ناکام محسوس کرنے لگتی ہے۔ ہر مشورہ دراصل یہ پیغام دیتا ہے کہ: “تم کافی نہیں ہو”۔

    اس پرچم کے نیچے ہر طرف products، theories، expert tips، online sessions، اور parenting hacks کا ہجوم ہے۔ ماں ایک گاہک ہے جتنی پریشان، اتنی ہی potential buyer۔ جتنی confused، اُتنے ہی solutions۔ حالانکہ تربیت ہمیشہ سادہ، فطری اور دعا سے جڑی ہوتی ہے۔ ایک ماں جو خاموشی سے بچے کی پیشانی پر ہاتھ رکھ کر کہتی ہے: “یا اللہ، اسے خیر دے”، وہ اس ماں سے کہیں زیادہ کامیاب ہے جو صرف techniques کے زور پر performance پر زور دے رہی ہو۔

    ہمارے ہاں تربیت سے متعلق کئی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں جیسے یہ کہ ہر بچہ کسی خاص strategy سے ہی سنورے گا، یا اگر آپ modern tools استعمال نہیں کر رہے تو آپ پیچھے رہ گئے ہیں۔ ہم نے ماں کو مشقّت کے ساتھ بھی ایک marketing gimmick میں بدل دیا ہے۔ اب وہ اپنے احساسات سے نہیں، بلکہ parenting apps کی checklist سے بچے کی پرورش کرتی ہے۔ ماں اب ماں بننے سے پہلے validation چاہتی ہے “Am I doing it right?” اور social media اُسے ہر بار یہ بتاتا ہے: “You’re still not enough.”

    یہ نظام ماں کی ممتا کو commercial anxiety میں بدل رہا ہے۔ ماں اپنے بچے کے رو لینے پر پریشان نہیں ہوتی، وہ اس بات پر پریشان ہوتی ہے کہ کیا دوسرے ماں باپ میرے طریقے کو accept کریں گے؟ وہ بچے کو comfort نہیں دیتی، وہ اسے ایک model child بنانے کی مشقت میں گھل رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے ہم نے تربیت کو rocket science بنا دیا ہو۔ جیسے ہر ماں ایک lab technician ہے، اور ہر بچہ ایک “Ongoing project” بن چکا ہے. حالانکہ اصل سچ یہ ہے کہ تربیت صرف یہ مان لینے میں چھپی ہے: “یا اللہ، میں کوشش کر رہی ہوں، لیکن دلوں کا حال تو تو ہی جانتا ہے۔”

    ہم نے تربیت کو ایک ایسا خوف بنا دیا ہے جس کا نہ سرا ہے نہ انت۔ nonstop comparison، guilt، اور correction کا بوجھ۔ ہم بچے کے ہر لمحے کو inspect کرتے ہیں، ہر بات پر check، ہر حرکت پر instruction۔ اور وہ لمحے جو کبھی صرف محبت کے لیے ہوتے تھے، وہ اب performance کا pressure بن چکے ہیں۔ بچے انسان ہیں، روبوٹ نہیں۔ وہ گریں گے، سیکھیں گے، وقت لیں گے۔ مگر ہم اُن کی تربیت social media کی رفتار پر کرنا چاہتے ہیں۔

    آج کی ماں کی سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ “میرے بچے کو کوئی تکلیف نہ ہو”۔ نہ چوٹ لگے، نہ آنسو آئیں، نہ کوئی “نہ” کہے، نہ مخالفت ہو۔ مگر اس سوچ سے ہم ایک نازک، نرگسیت زدہ، اور بوجھ سے بھاگنے والی نسل تیار کر رہے ہیں۔ اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ تربیت کا مطلب ہے قربانی، کردار، اور اللہ سے تعلق ہے۔ آئیں دیکھتے ہیں کہ ہماری تاریخ کی مائیں کیسی تھیں۔ امام شافعیؒ کی ماں، جو بیٹے کو علم کے لیے اکیلا سفر کرواتی ہیں۔ امام مالکؒ کی ماں، جو کہتی ہیں: “ایسے بیٹھنا جیسے ایک دن امت کو سنبھالنا ہے۔”

    حضرت موسیٰؑ کی والدہ، جو بیٹے کو دریا میں ڈال دیتی ہیں اللہ کے یقین پر۔ حضرت علیؓ کی والدہ، جو حق گوئی اور غیرت سکھاتی ہیں، نہ کہ صرف حفاظت کا سبق۔ حضرت ہاجرہ، جو پانی کے لیے دوڑتی ہیں، اور اُن کی اس دوڑ کی برکت آج تک جاری ہے۔یہ مائیں نہ motivational speakers تھیں، نہ کسی جدید course سے جڑی ہوئی، بلکہ اللہ سے جڑی ہوئی، اخلاص سے لبریز اور امت کے خوابوں سے مالا مال تھیں۔ہماری الجھن یہ ہے کہ ہم اپنی تربیت کے اصول اُن قوموں سے سیکھنے لگے ہیں جنہوں نے اللہ کو بھلا دیا ہے۔ ہم اُن کی لکھی گئی کتابوں کو مقدس مانتے ہیں جن کے مصنف نہ ایمان والے ہیں، نہ آخرت کے قائل، نہ حلال و حرام کے شعور کے حامل۔

    یہ کیسا تضاد ہے کہ ہم قرآن سے کتراتے ہیں، مگر یورپی ماں کی لکھی کتابوں کو گلے لگا لیتے ہیں، کیونکہ وہ ہمیں یہ خوش فہمی دیتی ہیں کہ سب کچھ تمہارے کنٹرول میں ہے۔حالانکہ ایمان والے جانتے ہیں کہ ہدایت اللہ کے ہاتھ میں ہے، اور تربیت صرف techniques سے نہیں، تقویٰ سے پروان چڑھتی ہے۔ کیا جن قوموں نے gender confusion ، family breakdown، اور emotional isolation جیسے سانحات پیدا کیے، وہ ہمیں تربیت سکھائیں گے؟ ہم کیوں بھول گئے کہ ہماری پہلی ماں حضرت حوا تھیں، اور پہلا تربیتی نصاب قرآن تھا؟

    یاد رکھیے:
    جو بچہ کبھی گرا نہیں، وہ کھڑا ہونا نہیں سیکھتا۔ جو کبھی محروم نہیں ہوا، وہ شکر گزار نہیں بنتا۔ جو حق کے لیے نہ لڑا، وہ باطل کے آگے جھک جاتا ہے۔ہمیں اپنے بچوں کو stress سے نکالنا نہیں، stress کو handle کرنا سکھانا ہے۔ تکلیف سے بچانا نہیں، تکلیف میں اللہ سے جوڑنا ہے۔ comfort دینا نہیں، بلکہ character بنانا ہے۔اگر ماں اپنے رب سے جڑ جائے، قرآن کو روزمرہ بنالے، اور اپنی فطرت پر اعتماد کر لے، تو اُسے کسی speaker، کسی course، کسی checklist کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ ماں اگر روز صرف ایک آیت قرآن سے پڑھے اور سوچے: “آج میں اس آیت کو اپنی اولاد پر کیسے نافذ کروں؟” تو وہ کسی بھی ماہر سے زیادہ کامیاب ہے۔

    قرآنی تربیت کے پانچ سادہ اصول:
    1. محبت سے آغاز — جیسے اللہ نے خود کو رحمٰن کہا، ماں بھی ہر تربیت رحمت سے شروع کرے۔

    2. آزادی کے ساتھ حدود — “لا تقربوا” یعنی بچے کو گھٹن نہ دو، لیکن حدود واضح ہوں۔

    3. قصوں سے تعلیم — قرآن واقعات سے سکھاتا ہے، بچوں کو بھی کہانیوں سے سیکھنا آسان لگتا ہے۔

    4. نرمی اور حکمت — حتیٰ کہ فرعون جیسے کے لیے بھی اللہ نے نرمی کا حکم دیا، تو بچوں کے لیے کیوں نہیں؟

    5. خود عمل — جو بات خود نہ کی ہو، وہ اولاد کو سکھانے کا اثر نہیں رکھتی۔

    آخر میں صرف اتنا کہ:
    رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا
    (اے ہمارے رب! ہمیں ہماری بیویوں اور ہماری اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما، اور ہمیں پرہیزگاروں کے لیے امام بنا دے)

    یہ صرف دعا نہیں، یہ ایک ماں کا خواب، ایک امت کا مستقبل، اور فطری تربیت کا پہلا قدم ہے۔

  • پاکستانی عورت ظلم سہہ رہی ہے – ڈاکٹر محمد شافع صابر

    پاکستانی عورت ظلم سہہ رہی ہے – ڈاکٹر محمد شافع صابر

    میرا نکتہ نظر یہی تھا اور یہی رہے گا کہ شادی کرنے سے پہلے لڑکی کے والدین لڑکے کی اچھی طرح چھان بین کروائیں. جہاں سے ہو سکے،لڑکے کے متعلق معلومات حاصل کریں اور پھر دونوں کا نکاح کریں، لیکن یہ کھبی مت سوچیں کہ اب سے آپ اپنی بیوی کی زندگی کے ذمہ دار نہیں.

    اب سے وہ ساری کی ساری اپنے شوہر کی زمہ داری ہے، اور رخصتی سے پہلے آپ بیٹی/ بہن کو یہ لازمی باور کروائیں کہ ہم نے تمہارا نکاح ایک انسان سے کروایا ہے. اگر وہ انسان کی شکل میں ایک جانور نکلے تو تم نے پریشان نہیں ہونا،بلکہ اپنے باپ کے گھر واپس چلی آنا اور باپ کے گھر کے دروازے تمہارے لیے ہمیشہ کھلے ہیں ۔ ایک سنگین غلطی جو پاکستانی والدین کرتے ہیں، وہ یہ کہ شادی کے ، اگر حالات سازگار نا ہوں، میاں بیوی کی آپس میں بن نہیں رہی ہو،تو اپنی بیٹی کو ہمشیہ گھر بچانے کی تلقین کرتے ہیں،بلکہ اس پر پریشر ڈالتے ہیں کہ وہ گھر بسائے۔

    میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ گھر بچانا،شادی بچانا صرف عورت کی ہی ذمہ داری کیوں ہے؟
    ہمیشہ عورت ہی کیوں کمپرومائز کرتی ہے؟
    کیا اسکی زندگی معنی نہیں رکھتی؟
    اسکی خوشیوں کا کیا؟
    اسکے خوابوں کا کیا؟

    یعنی وہ شادی بچانے کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دے۔ روزمرہ ہم ایسے کئی واقعات دیکھنے ہیں کہ شوہر بیوی کو تشدد کا نشانہ بنا رہا ہوتا ہے۔ ساس اور شوہر مل کر مار رہے ہوتے ہیں، سوال تو یہ ہے کہ پاکستانی عورت کرے تو کرے کیا ؟ والدین کہتے ہیں کہ تم شادی کے بعد ہمارا مسئلہ نہیں، شوہر تشدد کرتا ہے، وہ کہاں جائے؟ کس سے منصفی چاہے؟ کہاں فریاد کرے؟ کہاں عرضی ڈالے ۔ پاکستانی عورت ظلم سہہ رہی ہے اور زندگی گزار رہی ہے۔ گھریلو تشدد برداشت کرتی ہے،حتی کہ سسرالی گھر سے نکال دی جاتی ہے،لیکن پھر بھی اسے کہا جاتا ہے کہ تمہارا جینا مرنا اسی گھر میں ہے.

    والدین ساتھ رکھنے کو تیار نہیں،شوہر مارتا ہے،ساس جینا حرام کرتی ہے،لیکن پھر بھی سارا زور اس پر ڈالا جاتا ہے کہ وہ کمپرومائز کرے،گھر بچائے، اگر وہ گھر نہیں بچائے گی تو بچوں کی تربیت پر اثر پڑے گا،لیکن کوئی یہ کیوں نہیں سمجھتا کہ گالم گلوچ اور مار کٹائی والے ماحول میں پلا بچہ نارمل نہیں رہ سکتا ۔ پاکستانی عورت مظلوم ہے، لیکن وہ مجبور بھی ہے، والدین کے ہاتھوں مجبور، بچوں کے بہتر مستقبل کی خاطر مجبور خاموش ظلم برداشت کرتی پاکستانی عورت۔ قابل ترس ہے۔ یہ معاشرہ ناقابل اصلاح ہے، پاکستانی عورت غیر محفوظ ہے، وہ اس معاشرہ کے ہاتھوں پس رہی ہے، لیکن وہ بے بس ہے،لاچار ہے،مجبور ہے،کمزور ہے ۔

    کاش رخصتی والے دن سارے والدین اپنی بیٹی کو یہ کہہ کر وداع کریں کہ ہم نے انسان سمجھ کر اس سے تمہاری شادی کی ہے ۔ اگر جانور نکل آئے، تشدد پر اتر آئے تو واپس چلی آنا ۔باپ کے گھر کے دروازے تمہارے لئے ہمیشہ کھلے ہیں تو اس سے آپ کی کی بیٹی کو جو تحفظ کا احساس ہو گا وہ ناقابلِ بیان ہے۔

  • الفاظ اور ہم – بنت سعید

    الفاظ اور ہم – بنت سعید

    ان دنوں مجھے بہت اداسی محسوس ہو رہی تھی تو جیسا کہ میں نے سوچا کیوں نہ کسی اپنے سے کچھ گھنٹوں کی رفاقت ادھار لی جائے۔اس میں مناسب یہ تھا کہ میں اپنی کچھ دیرینہ سہیلیوں کو دعوت پر مدعو کروں۔اس سے نہ صرف وقت اچھا گزر جاتا بلکہ پرانے وقتوں کے قصے بھی دہرائے جاتے ہیں۔

    سب نے میری اس پیشکش کو کھلے دل سے وصول کیاکیونکہ بچوں والی ماں اور ایک بیوی اور ایک بہو کیلئے گھر سے نکلنا آسان نہیں ہے. ہمیں اس کے لیے ہفتوں درکار ہیں کہ کسی بھی پروگرام کو اسکے انجام تک پہنچایا جائےاور جب بات اپنی ذات کی خوشی کی ہو تو پھر تو بہت سے واہمے خود کو لپیٹ لیتے ھیں کہ کہیں کوئی غلطی نہیں کر رہے. کوئی کام ادھورا تو نہیں رہ گیا کہ کہیں بچوں کو نظرانداز تو نہیں کر رہا. میرا تھوڑا سا وہ وقت جو میں اپنے ذہنی سکون کے لیے نکالنا چاہتی ہوں حالانکہ یہ دعوت بچوں کے ساتھ رکھی گئی تھی۔ خیر سب کے مسائل سلجھانے کے بعد ایک دن متفقہ طور پر طے پا گیا۔

    یہ ایک بہت اچھا دن تھا سب ایک دوسرے سے مل کر نہ صرف محظوظ ہوئے بلکہ بچوں نے بھی خوب ادھم مچایا مگر دوران محفل جب کھانا کھانے لگے تو حسب عادت سب ماؤں نے ضروری سمجھا کہ پہلے بچوں کو سیر کروائی جائے۔اب کیوں کہ ہر بچہ دوسرے سے مختلف ہے اسلیے ان کے کھانے پینے کے معامعلات بھی ایک جسے نہیں ہوتے ایسے میں ایک عزیزہ جنکا بچہ انکو کھاتے میں بہت تنگ کر رہا تھا دوسری عزیزہ سے جو انکے پاس بیٹھی تھیں اور غالباً انکا بیٹا آرام سے کھا رہا تھا ان سے گوش گزار ہوئی:
    “آپ اچھی ہیں آپکا بچہ کتنے مزے سے کھا رہا ہے ” ،وہ تھوڑی ہچکچاتے ہوئے بولی، “جی بس کھا لیتا۔”

    ایسا ہی تب بھی ہوا جب کسی نے کھیلتی ہوئی کسی کی بچی کی ماں کو کہا کہ :
    “آپکے تو مزے ہیں جی نہ بچی تنگ کرتی ہے نہ کچھ کہتی ھے”، حا لانکہ ابھی کچھ وقت پہلے وہ بچی اپنی اماں کو خوب تنگ کرتی پائی گئی تھی۔ ایسا کچھ میں نے تب بھی دیکھا جب ایک سالگرہ کے موقعے پر کچھ بچے بہت ادھم مچا رہے تھے تو ایک ماں نے کچھ ایسے تنبیہ کرتے ہوئے اپنے بچے کو منع کیا کہ :
    “مت کرو یہ آپکا گھر نہیں ہے جہاں تم ایسے شرارتیں کرو۔

    ان سب باتوں کی طرف آپکی توجہ مبذول کرانے کا مقصد یہ ہے کہ محفل میں آنے بیٹھنے اور الفاظ کو استعمال کرنے کے کچھ طور طریقے ہوتے ہیں۔وہ بھی تب جب آپ ایک ماں سے مخاطب ہیں۔ یہ بہت چند ایک جملے ہیں جو عام سے لگتے ہوں گے مگر اخلاقیات میں انکے لئے کوئی گنجائش باقی نہیں۔ کسی کی وقعتی صورتحال اصل میں روزمرہ کے حالات کی عکاس نہیں ہوتی۔ کسی بھی بچےکی ماں اسکی پرورش میں کتنی خوش قسمت ہے یہ آپکے بتانے پہ منحصر نہیں ہے۔ ایک اور بات جو میں نے آخر میں لکھی کہ کیا ہم اپنے بچوں کو صرف دوسروں کو دیکھانے کیلئے غلط بات سے منع کریں گے۔

    یعنی کہ بچے اپنے گھر میں سب کر سکتے ہیں یہ تربیت کا کون سا اصول ہے اچھی بات تو انسان گھر سے سیکھتا ہے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ گھر میں غلط کر کہ باہر سب صحیح کرےگا۔ اولاد اللہ سبحان تعالٰی کی طرف سے ایک آزمائش ھے مگر اس کے لیے یہ ضروری نہیں کہ آپ اپنے الفاظ کا چناؤ مناسب نہ کریں۔آپ اچھے برے میں فرق نہ کریں یہ سب وہ باتیں ہیں جواب خود پہلے سیکھ لیں گے تو آپ اپنے بچوں کو بھی سیکھا سکیں گے۔

  • والدین کا احترام –  بنت شریف

    والدین کا احترام – بنت شریف

    والدین کا احترام ایک ایسا بنیادی اخلاقی اصول ہے جو ہر معاشرے، مذہب اور ثقافت میں نہایت اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ والدین وہ ہستیاں ہیں جو اپنی اولاد کی پیدائش سے لے کر اس کی پرورش، تعلیم و تربیت اور شخصیت کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کی قربانیوں کا کوئی نعم البدل نہیں، اسی لیے ہر انسان پر لازم ہے کہ وہ اپنے والدین کا احترام کرے اور ان کی خدمت کو اپنا فرض سمجھے۔

    والدین کی اہمیت
    والدین بچے کی پہلی درسگاہ ہوتے ہیں۔ وہی اسے بولنا، چلنا اور زندگی کے بنیادی اصول سکھاتے ہیں۔ بچپن میں جب ایک بچہ خود اپنی ضروریات پوری کرنے کے قابل نہیں ہوتا، تو والدین اس کی ہر ممکن دیکھ بھال کرتے ہیں۔ وہ دن رات محنت کرکے اپنی اولاد کی بہتری کے لیے کوشاں رہتے ہیں اور ان کی خوشیوں کے لیے اپنی خواہشات کی قربانی دیتے ہیں۔

    والدین کا احترام اور اللہ کی رضا
    والدین کا احترام اسلام کی بنیادی تعلیمات میں سے ایک ہے، جو نہ صرف اخلاقی بلکہ دینی فریضہ بھی ہے۔ قرآن و حدیث میں بار بار والدین کے حقوق اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الاسراء میں فرمایا:

    “اور تیرے رب نے حکم دیا ہے کہ تم اُس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ اگر ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے اُف تک نہ کہو اور نہ انہیں جھڑکو بلکہ ان سے نرمی سے بات کرو۔” (الاسراء: 23)

    یہ آیت واضح کرتی ہے کہ اللہ کی رضا والدین کے احترام اور ان کے ساتھ اچھے برتاؤ سے مشروط ہے۔ ایک مسلمان کے لیے سب سے بڑی سعادت یہ ہے کہ وہ اللہ کو راضی کر لے، اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب وہ اپنے والدین کی عزت کرے، ان کی خدمت کرے اور ان کے لیے دعا کرے۔
    قرآن مجید میں ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

    “اور ہم نے انسان کو اس کے والدین کے ساتھ نیکی کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کی ماں نے اسے کمزوری پر کمزوری سہتے ہوئے پیٹ میں رکھا اور دو سال میں اس کا دودھ چھڑانا ہوا۔ (لہٰذا) میرا اور اپنے والدین کا شکر ادا کرو۔ (سورۃ لقمان: 14)

    یہ آیت واضح کرتی ہے کہ والدین کی خدمت اور ان کے ساتھ حسن سلوک اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ایک لازمی عمل ہے۔ نبی کریم ﷺ نے بھی بارہا والدین کی عزت و احترام پر زور دیا اور فرمایا کہ:

    “والدین کی رضا میں اللہ کی رضا ہے اور والدین کی ناراضگی میں اللہ کی ناراضگی ہے۔” (ترمذی)

    اخلاقی و معاشرتی پہلو
    والدین کا احترام صرف مذہبی فریضہ نہیں بلکہ اخلاقی اور معاشرتی ذمہ داری بھی ہے۔ ایک اچھا معاشرہ وہی ہوتا ہے جہاں والدین کو عزت دی جاتی ہے، ان کی ضروریات کا خیال رکھا جاتا ہے اور ان کے بڑھاپے میں انہیں سہارا دیا جاتا ہے۔ والدین کی دعائیں اولاد کے لیے کامیابی کا سبب بنتی ہیں اور ان کی ناراضگی بدبختی لا سکتی ہے۔

    والدین کی خدمت کیسے کی جائے؟
    1. نرم مزاجی اور ادب: والدین سے بات کرتے وقت نرم لہجہ اپنانا اور ادب و احترام سے پیش آنا بہت ضروری ہے۔

    2. حاجات کا خیال رکھنا: ان کی ضروریات کو پورا کرنا اور ان کے آرام کا خیال رکھنا چاہیے۔

    3. دعائیں لینا: ان کی خوشی اور دعاؤں کو اپنی زندگی کا سرمایہ بنانا چاہیے۔

    4. فیصلوں میں ان کی رائے: اہم فیصلوں میں ان کی مشاورت اور رضامندی حاصل کرنی چاہیے۔

    5. وقت دینا: والدین کو تنہائی محسوس نہ ہونے دینا اور ان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارنا چاہیے۔

    6. بڑھاپے میں دیکھ بھال: جب والدین بوڑھے ہو جائیں اور کمزور ہو جائیں تو ان کی زیادہ خدمت کرنی چاہیے اور ان کے جذبات کو مجروح کرنے سے بچنا چاہیے۔

    7. مالی مدد فراہم کرنا: اگر والدین کو مالی مشکلات درپیش ہوں تو انہیں سہارا دینا اولاد کا فرض ہے۔

    8. ان کی باتوں کو تحمل سے سننا: والدین کی باتوں کو غور سے سننا اور ان کی رائے کی قدر کرنا ضروری ہے۔

    9. خدمت کے مواقع تلاش کرنا: ایسے مواقع تلاش کریں جہاں آپ والدین کی مدد کر سکیں، جیسے کہ ان کے کاموں میں ہاتھ بٹانا۔

    والدین کی نافرمانی کے نقصانات
    والدین کی نافرمانی اور ان کے ساتھ بدسلوکی کے بہت سے نقصانات ہیں:

    اللہ کی ناراضگی اور برکتوں کا خاتمہ
    معاشرتی بے سکونی اور بد نظمی
    اولاد کے لیے مشکلات اور پریشانیاں
    آخرت میں سخت سزا کا سامنا
    عزت اور مقام کی کمی
    ذہنی سکون اور خوشحالی کا خاتمہ

    والدین کا احترام مختلف ادوار میں
    والدین کا احترام صرف بچپن میں ہی ضروری نہیں بلکہ زندگی کے ہر مرحلے میں اہم ہوتا ہے۔
    1. بچپن میں: بچے کو سکھایا جائے کہ والدین کی عزت کرنا ضروری ہے۔

    2. جوانی میں: جب اولاد اپنی ذمہ داریوں میں مصروف ہو جائے، تب بھی والدین کو وقت دینا نہایت اہم ہے۔

    3. بڑھاپے میں: جب والدین کمزور ہو جائیں تو ان کی خدمت مزید ضروری ہو جاتی ہے۔

    والدین کا احترام ایک ایسا عمل ہے جو نہ صرف دنیا میں کامیابی کا ذریعہ بنتا ہے بلکہ آخرت میں بھی نجات کا سبب ہے۔ اس لیے دنا اور آخرت کی کامیابی چاہتے ہو تو والدین کی خدمت کرو کیونکہ جو لوگ اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہیں، انہیں دنیا میں عزت، برکت اور خوشحالی نصیب ہوتی ہے اور آخرت میں بھی ان کے لیے جنت کی خوشخبری ہے۔ جو شخص والدین کی عزت نہیں کرتا، وہ اللہ کی ناراضی مول لیتا ہے، اور اس کی زندگی مشکلات سے بھر جاتی ہے۔ ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ شفقت اور محبت کا برتاؤ کرے۔ ہمیں چاہیے کہ والدین کی خدمت کو اپنی زندگی کا مقصد بنائیں اور ان کی رضا کو اپنے لیے کامیابی کی کنجی سمجھیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں اپنے والدین کا فرمانبردار بنائے اور ان کے لیے صدقہ جاریہ بنائے آمین

  • عورت کہانی – ڈاکٹر صائمہ

    عورت کہانی – ڈاکٹر صائمہ

    عورت کی فطرت ایک ایسی ندی کی مانند ہے جو اپنی روانی میں نرمی اور شدت، دونوں کو سموئے رکھتی ہے۔ وہ جتنی بڑی ہو جائے، جتنے تجربات سے گزرے، اس کے اندر کا بچپن کبھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوتا۔ اسے محبت اور توجہ خوشی دیتی ہے، اور بے اعتنائی اس کے دل کو زخمی کر دیتی ہے۔

    ایک ہنستی کھیلتی عورت کے چہرے کے پیچھے اکثر وہ معصوم سی بچی چھپی ہوتی ہے جو چاہتی ہے کہ کوئی اسے سمجھے، اس کی قدر کرے، اس کی اہمیت کو تسلیم کرے۔ عورت پر دباؤ ڈالنے کی کوشش مت کریں، کیونکہ جب عورت بغاوت پر آتی ہے تو وہ اپنے ہی نہیں، دوسروں کے وجود کو بھی ہلا کر رکھ دیتی ہے۔ اس کی برداشت کی ایک حد ہوتی ہے، اور جب وہ حد پار ہو جائے، تو اس کی نرمی ایک طوفان میں بدل جاتی ہے۔ وہ صبر کرتی ہے، لیکن ظلم سہنے کے لیے پیدا نہیں ہوئی۔ وہ چاہتی ہے کہ اسے عزت دی جائے، اس کے جذبات کی قدر کی جائے، اور اسے ایک مکمل انسان سمجھا جائے، نہ کہ کوئی کمزور مخلوق جسے زیر کرنے کی ضرورت ہو۔

    اگر عورت کو محبت، عزت، اور حسنِ سلوک دیا جائے تو وہ نرم گھاس کی طرح جھک جاتی ہے، ہر رشتے میں اپنی وفا کا رنگ بھرتی ہے، ہر تعلق میں اپنی محبت کا لمس شامل کر دیتی ہے۔ جو اسے سمجھ لے، اس کے لیے وہ سب سے آسان اور خوبصورت حقیقت ہے، لیکن جو اسے قابو میں کرنے کی کوشش کرے، اس کے لیے وہ ایک ایسی پہیلی بن جاتی ہے جسے حل کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی اس کا پیار چاہتا ہے، تو اس کے احساسات کی قدر کرے۔ اگر کوئی چاہتا ہے کہ وہ ہمیشہ ساتھ رہے، تو اس کی عزت کو اپنا فخر سمجھے۔

    شیکسپیئر کا ایک خوبصورت قول ہے کہ غصے سے بھری ہوئی عورت سے بحث کرنا ایسا ہی ہے جیسے طوفان میں اخبار کے صفحات پلٹنے کی کوشش کرنا۔ ایسی عورت کو دلیلوں سے نہیں، محبت سے جیتا جا سکتا ہے۔ جب وہ جذبات میں بہک جائے، جب اس کے الفاظ تلخ ہو جائیں، جب وہ خود کو ثابت کرنے پر آ جائے، تو اسے روکنے کے بجائے، اسے گلے لگا لیں، وہ خود ہی پرسکون ہو جائے گی۔ مرد اگر عورت کی چھوٹی غلطیوں کو معاف کرنا نہ سیکھے، تو وہ اس کی بڑی خوبیوں سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔ عورت کامل نہیں، جیسے کہ کوئی بھی انسان نہیں ہوتا۔

    اگر کوئی اس سے محبت کرتا ہے تو اسے اس کی خامیوں سمیت قبول کرے، نہ کہ صرف اس کی خوبیوں کی وجہ سے۔ محبت کا اصل امتحان یہی ہے کہ ہم کسی کو اس کی خامیوں کے باوجود اپنائیں، اسے سنوارنے کی کوشش کریں، لیکن اسے توڑنے کی نہیں۔ عورت مرد کے سائے میں جینا چاہتی ہے، لیکن وہ اس کے ظلم کے نیچے دب کر مرنا نہیں چاہتی۔ وہ محبت کے نرم لمس کو چاہتی ہے، نہ کہ زبردستی اور سختی کو۔ اسے طاقت سے نہیں، احساس سے جیتا جا سکتا ہے۔ وہ ایک پسلی سے پیدا کی گئی ہے، اور پسلی ہمیشہ دل کے قریب ہوتی ہے۔ وہ محبت، نرمی، اور ہمدردی سے بنی ہے، اور اسی کی مستحق بھی ہے۔

    اگر عورت کا دماغ اور دل مرجھا جائیں، اگر اس کی سوچیں بے رنگ ہو جائیں، تو صرف ایک فرد ہی نہیں، بلکہ پوری نسل متاثر ہوتی ہے۔ ایک باشعور عورت ایک پوری نسل کو باشعور بناتی ہے، اور ایک ٹوٹی ہوئی عورت کئی نسلوں کے بکھرنے کا سبب بن سکتی ہے۔ عورت اس مرد سے محبت کرتی ہے جو اس کا صرف عاشق نہیں، بلکہ اس کا دوست، اس کا سہارا، اور اس کا ساتھی ہو۔ وہ مرد جو اس کی عقل کا احترام کرے، اس کی شخصیت کو سراہے، اس کے خوابوں کی قدر کرے۔ عورت کو بنایا ہی محبت کے لیے گیا ہے، اسے صرف سمجھنے کی کوشش میں الجھنے کے بجائے، بس اس پر محبت نچھاور کر دی جائے تو وہ خود سب کچھ آسان کر دیتی ہے۔

    وہ مرد جو عورت کے اندر کی اس معصوم بچی کو زندہ رکھ سکے، جو اس کی بے تکلفی اور ہنسی کو ہمیشہ برقرار رکھے، وہی عورت کے دل میں ہمیشہ رہ سکتا ہے۔ وہ ایک ساز کی مانند ہے، جو اپنی بہترین دھنیں صرف اسی کے لیے بجاتی ہے، جو اس کے نازک تاروں کو بجانے کا ہنر جانتا ہو۔ عورت ایک سمندر کی طرح ہے—اوپر سے خوبصورت اور پُرسکون، لیکن جب غصے میں آئے تو ایک طوفان، اور اندرونی طور پر اتنی گہری کہ اس کی تہہ تک پہنچنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ جو اسے سطحی نظر سے دیکھے گا، وہ اسے سمجھ نہیں پائے گا، اور جو اس کے اندر جھانکے گا، وہ حیران رہ جائے گا کہ وہ کتنی گہری اور کتنی پراسرار ہے۔

    عورت کے لیے مرد وہ ہے جو اسے خوشی دے، اسے مضبوط کرے، اور نصیحت کرنے سے پہلے اسے سہارا فراہم کرے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ عورت آپ کا ساتھ دے، تو اس کے لیے ایک مضبوط دیوار بنیں، لیکن اس دیوار کا سایہ اس پر اتنا بھاری نہ ہو کہ وہ خود کو قید محسوس کرنے لگے۔ اپنی عورت کے لیے مرد بنیں، اس پر مردانگی مت جتائیں۔ اسے اپنائیں، اسے عزت دیں، اور اسے وہ مقام دیں جو اس کا حق ہے۔

  • جہاں بچپن ختم ہو، تربیت شروع ہو – ادیب احمد راؤ

    جہاں بچپن ختم ہو، تربیت شروع ہو – ادیب احمد راؤ

    جب اولاد عمر کی اس دہلیز پر قدم رکھتی ہے جہاں بچپن کے سادہ خواب، جوانی کے پُرآشوب لمحات میں ڈھلنے لگتے ہیں، تو والدین کے لیے لازم ہو جاتا ہے کہ وہ فقط نگرانِ جسم نہ رہیں بلکہ محافظِ روح بھی بنیں۔ بلوغت، محض حیض یا احتلام کا آغاز نہیں، بلکہ شعور کی آنکھ کھلنے کی گھڑی ہے۔ اس لمحے کو اگر شفقتِ والدین، علم کی روشنی، اور حکمتِ تربیت سے نہ سنوارا جائے تو یہی ساعتیں اولاد کو یا تو بلندی کی طرف لے جاتی ہیں یا پستی کے گڑھے میں دھکیل دیتی ہیں۔

    ماؤں کو چاہیے کہ اپنی بیٹیوں سے رازدارانہ تعلق استوار کریں۔ جب وہ جسمانی تبدیلیوں سے دوچار ہوں، تو اُن کے دلوں سے شرمندگی کا غبار محبت کی چادر سے جھاڑیں۔ اُنہیں حیض کے ماہانہ نظام کو صرف ایک حیاتیاتی عمل نہ سمجھائیں بلکہ اِسے پاکیزگی، نسوانیت اور رحمت کی علامت سمجھنے کا شعور دیں۔ اُنہیں طہارت، عبادات کے وقوف، لباس کی نزاکت، اور کردار کی سچائی سکھائیں۔ حیاء کو قید نہ بنائیں بلکہ آزادی کی وہ زنجیر بنائیں جس میں وقار بھی ہو، اختیار بھی۔

    باپ، جو اکثر خاموش مشاہدہ کرنے کو تربیت سمجھتا ہے، اُسے چاہیے کہ اپنے بیٹے کے اندر پیدا ہونے والے بے نام سوالات کو خاموشی کی دیوار سے نہ ٹکرائے۔ اُس کی بدلتی آواز، ابھرتی مونچھ، اور نیند کے اندھیرے میں آتے احتلام کے لمحات، اُسے غیروں سے پہلے اپنوں سے سمجھنے کا موقع دیں۔ اُسے مردانگی کا مفہوم فقط جسمانی قوت نہیں بلکہ ضبطِ نفس، نگاہ کی حفاظت اور زبان کی لطافت سے متعارف کرائیں۔

    والدین دونوں مل کر اپنی اولاد کے لیے گھر کو ایسا گوشہ بنائیں جہاں سوال بےباک ہو سکیں، اور جوابات باوقار۔ جہاں بلوغت کے مراحل پر پردہ نہیں ڈالا جاتا بلکہ اُن پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔ جہاں بچے ماں باپ کو اپنا سب سے پہلا مرشد سمجھیں، اور فتنوں کی اس دنیا میں اُن کی شفقت کو واحد رہنما مانیں۔یاد رکھیں، حیاء کا تقاضا یہ نہیں کہ اولاد کی تربیت میں لب سِل جائیں، بلکہ حیاء تو یہی ہے کہ جس مقام پر بچہ سوال کرے، والدین جواب میں کردار، علم اور محبت کا چراغ جلائیں۔ یہی تربیت ہے، یہی محبت ہے، یہی عبادت ہے۔