جوائنٹ فیملی سسٹم جو کہ ہمارے ہاں راںٔج ہے اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے یا ہندوانہ معاشرت کا اثر ہے؟
یا کہ سنگل فیملی سسٹم جو کہ مغرب میں پایا جاتا ہے وہ اسلام کے قریب تر ہے؟
مسلمانوں کو کونسا فیملی سسٹم اختیار چاہییے؟
اس بارے میں مختلف آراء جذباتی لگاؤ اور معاشرتی تناؤ کے تناظر میں سامنے آرہی ہیں۔ جوائنٹ فیملی سسٹم کی خوبیوں کو دیکھتے ہوۓ اسے اسلام کے مطابق کہا جا رہا ہے جبکہ اس میں پائی جانے والی بعض بے اعتدالیوں اور ناانصافیوں کی وجہ سے اس کو ہندؤانہ و ظالمانہ خاندانی نظام قرار دیا جا رہا ہے۔ حقیقت حال تک پہونچنے کیلیے اسلام کے نظام خاندان کو جاننا نہایت ضروری ہے۔ اسلام میں خاندان کی اہمیت کا اندازہ اس سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے حضرت شاہ ولی اللہ رحمت اللہ علیہ نے معاشرت و خاندان سے متعلق آیات کو قرآن کریم کا ایک مستقل مضمون قرار دیا ہے جسے وہ “تدبیر منزل “کے عنوان سے تعبیر کرتے ہیں۔
قرآن و سنت میں خاندان کے متعلقہ احکام اور حقوق و ذمہ داریوں کو تفصیل سے بیان کیاگیا ہے۔ اسلام کی روح و مزاج انسانیت کی فلاح و بہبود ہے،اسلام بے جا پابندیاں عاںٔد نہیں کرتا بلکہ معاملات میں وسعت و آسانی مہیا کرتا ہےچنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے”الدین یسر”دین اسلام آسان و سہل ہے،ہر زمانہ میں نہایت آسانی و سہولت
کے ساتھ اس پر عمل کیا جاسکتا ہے۔ اسلام کے پیش نظر محض صورت نہیں بلکہ حقیقت اور مقاصد ہوتے ہیں چنانچہ اسلام نے کوئی خاص خاندانی نظام متعین نہیں کیا تاکہ معاملات و معاشرت میں کوئی تنگی یا مشکل پیش نہ آۓ.
بلکہ کچھ بنیادی اصول و ضوابط بیان کںیے ہیں جو اصول جس بھی فیملی سسٹم میں پاۓ جاںٔیں وہ اسلامک فیملی سسٹم ہوگا۔ خاندان کے متعلق اسلامی اصول:
خوف خدا:
کسی بھی تعلق و رشتہ داری کو نبھانے اور اس کے حقوق ادا کرنے میں اللہ کا ڈر اور خوف اہم کردار ادا کرتا ہےچنانچہ اللہ تعالی نسبی و ازدواجی رشتہ داریوں کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں
“اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نےتمہیں ایک شخص سے پیدا کیا اس سے اس کا جوڑا بنایا،پھر ان دونوں سے کثرت سے مرد عورت پھیلا دئے،اور خدا سے ڈرو جس کے نام کو تم اپنی حاجت براری کا ذریعہ بناتے ہو، اور رشتہ داریوں کو توڑنے سے ڈرو” .(سورہ نساء۔آیت1)
اللہ کے نام کی یہ برکت اور اثر ہے کہ وہ عورت جو پہلے تمہارے لیے حرام تھی اب تمہاری زوجہ و رفیقہ ٔحیات بنا دی گںٔی لہذا اللہ کا خوف اور ڈر دل میں پیدا کرو اور اس کے حقوق ادا کرو۔ اور پہلے سے جو تمہارے رشتہ دار بہن،بھائی ،والدین اور دیگر اقارب ہیں ان کے حقوق بھی ادا کرو۔
مرد خاندان کا سربراہ
خاندان کے اہم امور میں فیصلہ کا اختیار مرد کو حاصل ہوگا. اللہ تعالی فرماتے ہیں:
“مردوں کو عورتوں پر برتری حاصل ہے۔” ( سورہ نساء۔آیت34)
کسی بھی اہم کام کے متعلق حتمی فیصلہ ایک مشکل کام ہے اس لیے یہ ذمہ داری مرد کے اوپر رکھی گںٔی ہے البتہ دوسرے مقام پر عورتوں کی راۓ لینے کی ترغیب دی گںٔی ہے۔
مرد عورت کا کفیل:
عورت کی جملہ ضروریات کھانا،پینا،لباس و رہاںٔش کو پورا کرنا مرد کے ذمہ لازم ہے۔ البتہ یہ تمام اخراجات مرد کی مالی استطاعت کے مطابق لازم ہوں گے. (سورہ بقرہ۔آیت 233)
تربیت اولاد:
والدین کے ذمہ شرعا لازم ہے کہ وہ اپنی اولاد کی تعلیم وتربیت شرعی اصولوں کے مطابق کریں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس کے ہاں بچہ پیدا ہو تو اس کا اچھا نام رکھے اور اچھی تربیت کرے اور جب بالغ ہو جاۓ تو اس کی شادی کرادے اور اگر بالغ ہونے کے بعد شادی نہیں کروایٔ اور وہ کسی گناہ میں مبتلا ہوا تو اس کا گناہ اس کے والد پر ہوگا .
گھر والوں کے ساتھ بھلائی کرنا:
قرآن کریم میں اللہ سبحانہ وتعالی نے عورتوں کے ساتھ بھلائی اورخیرخواہی کا بطور خاص حکم دیا اور ان کے متعلقہ احکام کو کںٔی مقامات پر بیان فرمایا اللہ تعالی فرماتے ہیں :
“وعاشروھن بالمعروف۔عورتوں کے ساتھ بھلایٔ سے پیش آؤ۔”(سورہ نساء۔آیت 20)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔ تم میں سے سب سے بہتر وہ ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ بھلایٔ والا معاملہ کرے اور میں تم میں سے سب سے زیادہ اپنی بیویوں کے ساتھ بھلایٔ کرتا ہوں۔
والدین کے ساتھ حسن سلوک۔
اسلام میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کی بہت زیادہ تاکید کی گںٔی ہے
اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالی نے بکثرت جہاں توحید کا حکم دیا وہیں والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
اللہ کی رضا والدین کی رضامندی میں ہے اور اللہ کی ناراضگی والدین کی ناراضگی میں ہے۔
والدین کے حقوق میں سے یہ ہے کہ ان کے ساتھ حسن سلوک کرے،ان کی دیکھ بھال کرے اور اگر ان کی ضرورت ہو تو ان کے تمام اخراجات ادا کرے۔
مذکورہ تفصیل سے یہ بات واضح ہوتی ہے
کہ اسلامی نظام خاندان کا مقصود تمام افراد والدین،میاں بیوی اولاد اور دیگر رشتہ داروں کے حقوق و فراںٔض کی اداںٔیگی اور ان سے حسن سلوک ہے۔
اگر کویٔ شخص صرف اپنے گھرانے بیوی بچوں کے ساتھ رہتا ہو تو اس کیلیۓ ان شرعی احکام پر عمل کرنا ضروری ہوگا
جبکہ جواںٔنٹ فیملی سسٹم میں رہنے کی
صورت میں دیگر احکام معاشرت پر عمل کرنا بھی ضروری ہوگا مثلا غض بصر یعنی نظریں جھکا کر رکھنا اس طرح کہ قصدا کسی غیرمحرم پر نظر نہ پڑے،اور نہ ہی کسی
غیرمحرم کے ساتھ تنہایٔ پایٔ جاۓ۔
نیز گھر میں داخل ہوتے وقت اور بالخصوص کسی کی خلوت گاہ اور خاص کمرہ میں جانے کیلیۓ اجازت لینا ضروری ہے چاہے وہ محرم ہی کیوں نہ ہو۔
ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یارسول اللہ!کیا میں اپنی ماں سے ان کے پاس جاتے وقت اجازت لوں؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہاں۔
اس شخص نے عرض کیا میں ماں کے ساتھ ہی گھر میں رہتا ہوں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اجازت لے کر ہی جاؤ۔
اس شخص نے عرض کیا کہ میں ہی ان کاخادم ہوں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اجازت لے کر ہی جاؤ،کیا تمہیں اپنی ماں کو برہنہ حالت میں دیکھنا پسند ہے؟
اس شخص نے عرض کیا نہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تو پھر اجازت لے کر ہی جاؤ۔
(موطا امام مالک)
اس حدیث سے معلوم ہوا کسی بھی شخص کے پاس چاہے وہ محرم ہو یاکہ غیرمحرم اس کے پاس اجازت لے کر جانا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ اگر جواںٔنٹ فیملی میں سب کا کھانا پینا بھی ایک ساتھ ہے تو پھر گھر کےاخراجات بھی سب بھاںٔیوں پر مشترک طور پر لازم ہوں گے۔ اسلام کی نظر ظاہری صورت پر نہیں بلکہ حقیقت و مقاصد پر ہے لہذا ان حقوق کی رعایت اور فراںٔض و ذمہ داریوں کی اداںٔیگی جہاں پر بحسن وخوبی کی جاسکے اسی فیملی سسٹم کو اختیار کرنا شرعا ضروری ہوگا۔ چنانچہ افراد،حالات اور مواقع کے اعتبار سے خاندانی صورت مختلف ہوسکتی ہے۔
مثلا ایک بھائی نے اپنے بیوی بچوں کی تعلیم و تربیت شرعی اصولوں کے مطابق کی ہے تو ظاہر ہے ایسی جواںٔنٹ فیملی میں رہنے کی وجہ سے دیگر بھاںٔیوں کے بیوی بچوں پر اچھے اثرات مرتب ہونگے جبکہ اس کے برعکس صورت میں منفی اثرات ہوں گے۔ لہذا ہر فرد کے ذمہ لازم ہے کہ وہ اپنے خاندان کیلیۓ ایسی صورت اپناۓ جہاں وہ شرعی احکام کی پابندی کرسکے۔
جوائنٹ فیملی سسٹم غیر اسلامی نہیں:
جوائنٹ فیملی سسٹم غیر اسلامی نہیں بلکہ ایک مشرقی روایت ہےالبتہ روایت چونکہ ظاہری صورت و ہیںٔت کا نام ہے جس کا التزام بعض مرتبہ تنگی اور مشکل کا باعث بن جاتا ہےچنانچہ ہم اپنے معاشرہ میں دیکھتے ہیں کہ بعض اوقات کسی جواںٔنٹ فیملی میں رہتے ہوۓ کںٔی خرابیاں اور زیادتیاں پیش آتی ہیں لیکن اس کے باوجود معاشرتی دباؤ کی وجہ سے اپنی روایت کے خلاف نہیں کیا جاتا اور یوں سمجھتے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے کہ انہوں نے الگ الگ رہناشروع کردیا حالانکہ ایسی صورت میں الگ ہو کر رہنا شرعا ضروری ہو جاتا ہے۔ جوائنٹ فیملی سسٹم میں پایٔ جانے والی ہماری کوتاہیاں۔ جوائنٹ فیملی سسٹم بذات خود اسلام کے مخالف نہیں،البتہ اس میں نظر آنے والی خرابیاں اس سسٹم کی نہیں بلکہ ہمارے معاشرتی رویہ کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔
روایات سے جذباتی تعلق:
ہمارا معاشرہ اپنی روایات سے کبھی بھی دستبردار نہیں ہوتا چاہے ان روایات میں شرعی احکام کی پابندی نہ ہوسکے۔
چنانچہ بعض اوقات بیٹے کا والدین کے ساتھ یا بھاںٔیوں کے ساتھ مل کر رہنا اور اس میں شرعی احکامات کی پابندی کرنا مشکل ہوتا ہے مثلا باہمی مزاج نہیں ملتے. اور وہ ادب و احترام اور محبت و شاںٔستگی کے ساتھ ایک ساتھ نہیں رہ سکتے لیکن اس کے باوجود والدین کی طرف مجبور کیا جاتا ہے تو پھر ایک دوسرے کے ساتھ زیادتیاں اور لڑائی جھگڑے پیش آتے ہیں۔
بے پردگی و اختلاط:
غیر محرم سے پردہ کرنا عورت پر شرعا لازم ہے اور حدیث میں دیور کے بارے میں فرمایا کہ یہ تو موت ہے یعنی اس سے پردہ کا بہت زیادہ اہتمام کرنا چاہیے۔ جوائننٹ فیملی سسٹم میں عموما شرعی پردہ نہیں کیا جاتا حتی کہ غیر محارم میں باہمی بےتکلفی بھی پایٔ جاتی ہے جو کہ شرعا درست نہیں۔ شریعت کا حکم پردہ کرنے کا ہے اور وہ جواںٔنٹ فیملی میں رہ کر بھی کیا جاسکتا ہے۔
حق تلفی:
جواںٔنٹ فیملی سسٹم میں رہتے ہوۓ بعض اوقات والد اپنے کاروبار میں اپنے بیٹوں کو بھی شامل کر لیتے ہیں چنانچہ بڑا بیٹا ایک عرصہ تک بغیر کسی مالی فاںٔدہ کے کاروبار میں اپنے والد کا تعاون کرتا ہے تو جب والد کا انتقال ہوتا ہے تو وہ کاروبار میں صرف اپنا استحقاق سمجھتے ہوۓ اس پر قبضہ کر لیتا ہے یا زیادہ حق کا دعوی کرتا ہےتو یوں ورثاء کے باہمی جھگڑے اور لڑاںٔیاں شروع ہوجاتے ہیں۔حالانکہ اگر کاروبار میں وہ ملازم کی حیثیت سے کام کرتا اور اسے اپنے کام کا معقول معاوضہ ملتا تو یہ نوبت نہ آتی۔
تقسیم وراثت میں تاخیر:
جوائنٹ فیملی سسٹم میں بعض اوقات والد کے انتقال کے بعد تمام ورثاء ایک ساتھ ہی رہتے ہیں اور والد کی وراثت کو تقسیم نہیں کرتے حالانکہ اسے تقسیم کیا جاسکتا ہے. لیکن بلاوجہ تاخیر کرتے ہیں پھر ایک عرصہ بعد جب تقسیم کا ارادہ کرتے ہیں تو جو وارث مالی طور پر کمزور ہوتا ہے وہ زیادہ حصہ لینا چاہتا ہے جس کی اولاد نہیں ہوتی اسے کم دینا چاہتے ہیں بہنوں کو بالکل ہی محروم کرنا چاہتے ہیں حالانکہ وراثت کا استحقاق غربت و مالداری کی بناء پہ نہیں بلکہ رشتہ داری کی بناء پر ہوتا ہے اور اس میں سب برابر ہیں۔ وراثت کی بروقت تقسیم نہ کرنے کی وجہ سے یہ پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں جو کہ بعد میں باہمی اختلافات و نزاع کا باعث بنتی ہیں۔ ہمارے ہاں جو مذکورہ خرابیاں پائی جاتی ہیں. یہ جوائنٹ فیملی سسٹم کی وجہ سے نہیں بلکہ ہمارے معاشرتی رویوں،شرعی احکام کو نہ جاننے اور ان پر عمل پیرا نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔
اگر جوائنٹ فیملی سسٹم کے علاوہ چارہ نہ ہو تو پھر کیا کرے؟
اگر ایسی صورت پیش آجاۓ کہ صرف جواںٔنٹ فیملی میں ہی رہنا ضرورت اور مجبوری بن جاۓ مثلا والد کا انتقال ہو جاۓ بڑا بھایٔ شادی شدہ ہے جبکہ دیگر بہن بھایٔ چھوٹے ہیں ان کیلیۓ علیحدہ گھر کا انتظام نہ ہو سکے تو ایسی صورت میں والدہ اور بہن بھاںٔیوں کی دیکھ بھال کیلیۓ اسے سب کے ساتھ رہنا ہوگا کیونکہ وہ سب کا ولی اور سرپرست ہے۔
ایسا کرنے کی وجہ سے نہ تو اس پر ظلم ہو رہا ہے اور نہ ہی وہ احسان وایثار کر رہا ہے بلکہ وہ اپنی شرعی ذمہ داری نبھا رہا ہے۔
اگر والد نے وراثت میں کاروبار یا اتنا مال چھوڑا ہے کہ جس سے بہن بھاںٔیوں اور والدہ کے اخراجات ادا کئےجاسکیں تو انہی کا مال ان پر خرچ کیا جاۓگا. بصورت دیگر بھاںٔیوں کے بالغ ہونے تک اور بہنوں کی شادی تک ان کے اخراجات بڑے بھائی پر لازم ہیں۔ جہاں تک چھوٹے بھاںٔیوں کی اعلی تعلیم اور کرئیر کا تعلق ہے تو اس کے اخراجات اگر بھائی کی استطاعت ہو تو وہ ایثار و احسان کرتے ہوۓخود ادا کرے. اور اگر مالی حالات اجازت نہیں دیتے تو وہ اپنے زکوہ وصدقات سے ان کی معاونت کرسکتا ہے،والدین اور بیوی بچوں کے علاوہ رشتہ داروں کو زکوہ دینا نہ صرف جائزبلکہ افضل ہے.
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
” نادار پر صدقہ کرنا صرف صدقہ ہے جبکہ رشتہ دار پر صدقہ کرنے کی وجہ سے صدقہ اور صلہ رحمی دونوں کا ثواب ملتاہے”. ترمذی
البتہ انہیں نہ بتاۓ کہ یہ زکوہ و صدقات ہے تاکہ انہیں کویٔ شرمندگی محسوس نہ ہو۔اور اگر یہ صورت بھی نہ ہو سکے تو پھر بطور قرض اس کے اخراجات ادا کرے اور مستقبل میں اگر چھوٹے بھایٔ کو اچھی جاب مل جاۓ تو بڑابھایٔ تھوڑا تھوڑا کرکے اس سے اپنا قرضہ وصول کر لے۔ تو بڑا بھائی خاندان کا سرپرست ہونے کی حیثیت سے چھوٹے بھاںٔیوں کے تعلیمی اخراجات کیلیے ایثار،انفاق یا قرض میں سے کویٔ بھی صورت اختیار کر سکتا ہے۔ البتہ بڑے بھائی کو خاندان سے متعلقہ ذمہ داریوں کو نبھانے کیلیۓ اپنی خواہشات و ضروریات کو قربان کرنا پڑے گا چنانچہ دور رسالت میں اس کی ایک مثال ملتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی شادی کے متعلق جب معلوم ہوا تو دریافت فرمایا کہ:
کنواری سے شادی کی یا کہ پہلے اس کی شادی ہو چکی تھی؟ تو انہوں نے عرض کیا کہ ایسی عورت سے شادی کی کہ پہلے اس کی شادی ہو چکی تھی تو آپ نے فرمایا کہ کنواری سے شادی کیوں نہ کی تاکہ وہ زیادہ محبت کا باعث بنتی؟ تو حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے عرض کی یارسول اللہ میری سات بہنیں ہیں. اگر کنواری سے شادی کرتا تو وہ زیادہ معاملہ فہم اور سمجھدار نہ ہوتی بلکہ میری بہنوں کی طرح ہوتی. اس لۓ اپنی بہنوں کی دیکھ بھال اور معاونت کے لۓ ایسی عورت سے شادی کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیر و برکت کی دعا فرمائی۔بخاری
خلاصہ یہ ہے کہ اسلام نے نظام خاندان کیلیۓ کسی خاص صورت کی بجاۓ کچھ اصول بتاۓ ہیں وہ جہاں پاۓ جاںٔیں تو وہ ایک اسلامی خاندان ہوگا۔ جوائنٹ فیملی سسٹم غیر اسلامی نہیں بلکہ ایک مشرقی روایت ہے اگر اس میں رہتے ہوۓ شرعی احکام کو پورا کیا جاۓ تو یہ بھی ایک اسلامی خاندان کہلاۓ گا۔









