Category: کالم

  • کثیراللسانی اور کثیرنسلی ممالک کا سیاسی چیلنج –  عدنان فاروقی

    کثیراللسانی اور کثیرنسلی ممالک کا سیاسی چیلنج – عدنان فاروقی

    دنیا کے اکثر ممالک ایک ہی نسل یا زبان پر مشتمل نہیں ہیں۔ لسانی اور نسلی تنوع ایک حقیقت ہے، جسے نہ تو حکومتی مشینری کے زور پر دبایا جا سکتا ہے اور نہ ہی وقتی نعروں کے ذریعے ختم کیا جا سکتا ہے۔ اصل کامیابی اس وقت آتی ہے جب عوام کے مینڈیٹ سے تشکیل پائی گئی سیاسی قیادت اس تنوع کو قبول کرتے ہوئے عوامی نمائندگی اور شمولیت کے ذریعے سب کو ساتھ لے کر چلتی ہے۔

    کامیاب مثالیں: جب سیاست نے تنوع کو طاقت بنایا
    سوئٹزرلینڈ: چار مختلف زبانیں (جرمن، فرانسیسی، اطالوی اور رومانش) بولنے والی آبادی ایک ہی وفاقی ریاست میں پرامن طور پر رہتی ہے۔ وہاں کا جمہوری نظام اور فیصلہ سازی میں عوامی شمولیت نے تنوع کو بکھرنے کے بجائے ایک طاقت بنا دیا ہے۔

    کینیڈا: انگریزی اور فرانسیسی بولنے والی کمیونٹیز کے درمیان کشیدگی کو جمہوری ڈھانچے، صوبائی خودمختاری اور حقوق کی ضمانت کے ذریعے قابو میں رکھا گیا۔

    بھارت: درجنوں زبانیں اور نسلی گروہ رکھنے والا ملک، جہاں کئی بار داخلی کشیدگی پیدا ہوئی لیکن جمہوریت کے تسلسل نے اسے ایک ساتھ جوڑے رکھا۔ بھارت کا سب سے بڑا سرمایہ یہ ہے کہ عوامی مینڈیٹ سے آنے والے سیاستدان ہی اصل طاقت کا سرچشمہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تمام اختلافات کے باوجود وفاقی ڈھانچہ اب تک قائم ہے۔

    ناکام مثالیں: جب جبر نے تقسیم پیدا کی
    مشرقی تیمور : انڈونیشیا نے فوجی طاقت کے ذریعے مشرقی تیمور کو اپنے ساتھ رکھنے کی کوشش کی، لیکن وہاں کی الگ ثقافت اور شناخت نے علیحدگی کو جنم دیا۔ آخرکار 2002 میں یہ ایک آزاد ملک بن گیا۔

    مشرقی پاکستان : پاکستان کے دو بازوؤں کے درمیان لسانی اور معاشی ناانصافیوں نے ریاستی اتحاد کو توڑ دیا۔ اردو کو واحد قومی زبان بنانے اور بنگالی عوامی مینڈیٹ کو تسلیم نہ کرنے کی پالیسی نے بغاوت کو جنم دیا، جس کا نتیجہ 1971 میں پاکستان کی تقسیم کی صورت میں نکلا۔

    یہ مثالیں واضح کرتی ہیں کہ ریاستی اتحاد صرف جبر سے قائم نہیں رہتا۔ کامیابی وہاں ملتی ہے جہاں سیاسی قیادت عوام کو ساتھ لے کر چلتی ہے اور عوامی رائے کا احترام کرتی ہے۔پاکستان کے موجودہ حالات میں بھی یہی سب سے بڑا چیلنج ہے۔ ملک کو آگے بڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ صوبائی اور لسانی شناختوں کو تسلیم کیا جائے۔تمام گروہوں کو مساوی سیاسی و معاشی مواقع دیے جائیں۔ طاقت کے بجائے آئینی سیاست اور مکالمے کو بنیاد بنایا جائے۔ سب سے بڑھ کر عوامی مینڈیٹ کا احترام کیا جائے۔ جنہیں عوام ووٹ کے ذریعے منتخب کرتے ہیں، انہیں اقتدار دینا ہی سیاسی استحکام کی کنجی ہے۔ حقیقی جمہوریت میں عوامی مینڈیٹ وہی حیثیت رکھتا ہے جو دل کے لیے دھڑکن۔

    کثیرالسانی اور کثیرنسلی ممالک کے تجربات ایک ہی سبق دیتے ہیں- تنوع کو دبانے کے بجائے قبول کریں، جمہوریت اور عوامی نمائندگی کے ذریعے سب کو ساتھ لے کر چلیں۔ یہی وہ راستہ ہے جس سے پاکستان اپنے مسائل پر قابو پا سکتا ہے اور سیاسی استحکام حاصل کر سکتا ہے.

  • بیوروکریسی، پاکستان کی تباہ کن وراثت – اخلاق احمد ساغر ایڈووکیٹ

    بیوروکریسی، پاکستان کی تباہ کن وراثت – اخلاق احمد ساغر ایڈووکیٹ

    پاکستان کے عمومی ترقیاتی اہداف میں رکاوٹ ایک ایسی حقیقت ہے جسے ہماری قومی زندگی میں برسوں سے محسوس کیا جا رہا ہے: ہمارا بیوروکریٹک ڈھانچہ فرسودہ، جامد اور غیر مؤثر ہے۔ انتظامی اور معاشی ترقی محض بیان بازی کا شکار ہے، جب حقیقت زندگی میں مسلسل رکاوٹ کا سبب ہے۔

    ورلڈ بینک کی حالیہ رپورٹ نے ایک ایسی حقیقت کو پھر سامنے رکھ دیا ہے جو ہم سب برسوں سے بھگت رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کا بیوروکریسی پر مبنی نظام پرانا، فرسودہ اور غیر مؤثر ہو چکا ہے۔ اس نظام کی موجودگی میں انتظامی اور معاشی ترقی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ پاکستان میں بیوروکریسی وہی ہے جو انگریز دور میں عوام پر حکمرانی کے لیے بنائی گئی تھی۔ مقصد عوامی خدمت نہیں بلکہ حکمرانوں کے احکام بجا لانا تھا۔ افسوس کہ آزادی کے 77 برس بعد بھی صورت حال نہیں بدلی۔ آج بھی افسر شاہی خود کو عوام سے بالاتر سمجھتی ہے۔

    پولیس، ریونیو اور بلدیاتی ادارے اس فرسودہ نظام کی زندہ مثالیں ہیں۔ پولیس کا کام عوام کو تحفظ دینا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ تھانے عوام کے لیے خوف کی علامت ہیں۔ ایف آئی آر کے اندراج سے انصاف کی فراہمی تک عام آدمی کو سفارش یا رشوت کے بغیر کچھ نہیں ملتا۔ زمین کا ریکارڈ آج بھی پرانے رجسٹروں اور پٹواریوں کے رحم و کرم پر ہے۔ ایک شخص کو اپنی ہی زمین کا انتقال کروانے کے لیے سالوں کی بھاگ دوڑ اور جیب خالی کرنا پڑتی ہے۔ دنیا ای-لینڈ ریکارڈ پر جا چکی ہے مگر ہم آج بھی صدیوں پرانے نظام میں پھنسا ہوا ہیں۔ اسی طرح بلدیاتی ادارے صفائی، پینے کے صاف پانی اور سیوریج جیسے بنیادی مسائل حل کرنے کی بجائے صرف کرسیوں کی سیاست کا شکار ہیں۔

    سوال یہ ہے کہ ایسے نظام کے ساتھ ترقی کیسے ممکن ہے؟ جب سرمایہ کار کو ایک فیکٹری لگانے کے لیے درجنوں محکموں کے چکر کاٹنے پڑیں، جب کسان اپنی ہی زمین کا کاغذ نہ نکلوا سکے اور جب عام شہری پولیس کے پاس جانے سے ڈرے تو معیشت کیسے آگے بڑھ سکتی ہے؟ یہی وجہ ہے کہ ورلڈ بینک نے صاف کہا ہے کہ موجودہ بیوروکریسی کے ساتھ ترقی کے امکانات تقریباً ناممکن ہیں۔اب محض بیانات یا چھوٹے موٹے اقدامات سے بات نہیں بنے گی۔ ملک کو سخت اور بنیادی اصلاحات درکار ہیں۔ تمام محکمے فوری طور پر ڈیجیٹلائز کیے جائیں تاکہ عوام کے مسائل تیزی سے حل ہوں۔

    بھرتیاں اور ترقی صرف میرٹ پر ہوں، سفارش پر نہیں۔ بیوروکریسی کے لیے کارکردگی پر مبنی احتسابی نظام بنایا جائے اور جو افسر عوامی خدمت میں ناکام رہے، اسے برطرف کیا جائے۔ پولیس، ریونیو اور بلدیاتی اداروں کو عوامی خدمت کے اصولوں پر نئے سرے سے ڈھالا جائے تاکہ یہ ادارے عوام کے مسائل حل کرنے میں کردار ادا کریں نہ کہ مشکلات بڑھانے میں۔پاکستان کے مستقبل کا دارومدار اس بات پر ہے کہ ہم بیوروکریسی کے اس فرسودہ ڈھانچے کو کتنا جلد بدلتے ہیں۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ ایک انتباہ ہے۔ اگر اب بھی ہم نے اصلاحات نہ کیں تو آنے والی نسلیں بھی انھی مسائل کی دلدل میں پھنسی رہیں گی۔

  • پاکستان کے معدنی خزانے اور توانائی کی دریافتیں – شبانہ ایاز

    پاکستان کے معدنی خزانے اور توانائی کی دریافتیں – شبانہ ایاز

    14 اگست 1947 پاکستان کی تاریخ کا روشن دن ہے، جب ایک نظریاتی اور خود مختار مملکت کا خواب حقیقت بنا۔ آج 2025 میں، ہم معدنی وسائل اور توانائی کی نئی دریافتوں کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ یہ دریافتیں ملک کو ترقی کی راہ پر ڈال سکتی ہیں، مگر ساتھ ہی بیرونی چالیں، سیاسی کرپشن اور اندرونی کمزوریاں بڑے چیلنجز ہیں۔

    14 اگست 1947 کی صبح برصغیر کے مسلمانوں کی طویل اور تاریخی جدوجہد کا نقطۂ عروج تھی۔ یہ دن صرف ایک سیاسی تبدیلی نہیں بلکہ ایک نظریاتی انقلاب اور مستقبل کی تشکیلِ نو کا وعدہ تھا۔ آج، 2025 میں بھی قومی عزائم اور امیدیں قائم ہیں، لیکن عالمی سیاست اور جغرافیائی حقائق نے ہمیں نئے مواقع اور نئے چیلنجز دونوں دیے ہیں۔ حالیہ برسوں میں معدنی وسائل اور توانائی کی دریافتوں نے ترقی کے امکانات روشن کیے ہیں، مگر ساتھ ہی بیرونی مداخلت، سیاسی کرپشن اور اندرونی کمزوریوں جیسے سنگین خطرات بھی منہ کھولے کھڑے ہیں۔

    1. قدرتی وسائل ،پاکستان کے لئے موقع یا امتحان؟
    پاکستان کے معدنی نقشے میں پچھلے پانچ برسوں میں آنے والی نئی معلومات نے ایک نئے اقتصادی افق کا اشارہ دیا ہے۔ حکومت اور نجی شعبہ PMIF25 (Pakistan Minerals Investment Forum) جیسے اقدامات سے عالمی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے میں سرگرم ہیں۔ ریئر ارتھ منرلز ، جیسے لیتھیم، اینٹیمونی وغیرہ اور قیمتی دھاتوں کے ابتدائی سروے شمالی علاقہ جات اور بلوچستان میں امید افزا امکانات دکھا رہے ہیں۔ Reko Diq جیسے منصوبے، اگر شفافیت اور مقامی مفاد کے تحفظ کے ساتھ مکمل ہوں، تو اربوں ڈالر کی پیداوار اور طویل مدتی روزگار فراہم کر سکتے ہیں۔حکومت کی 2025 کی پالیسی فورمز نے بیرونی سرمایہ کاری کو متوجہ کیا ہے، مگر کامیابی شفافیت، مقامی فائدہ اور ماحولیات کے تحفظ سے مشروط ہے۔

    2. توانائی کی دریافتیں، خودکفالت کا سفر
    توانائی کے شعبے میں بھی خوش آئند پیش رفت سامنے آئی۔ 2024–25 میں OGDCL اور دیگر اداروں نے سندھ اور شمالی علاقہ جات میں تیل و گیس کے نئے ذخائر دریافت کیے۔ مثال کے طور پر Faakir-1 اور Tando Allah Yar کے مقامات پر گیس و تیل کے نئے ذخائر ملے۔یہ دریافتیں وقتی طور پر توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ درآمدی انحصار کم کر سکتی ہیں۔ فی الحال تیل پاکستان کی سب سے بڑی درآمدی شے ہے — 2025 میں اس کی درآمدات 11.3 بلین ڈالر تک پہنچ گئیں، جو کل درآمدی بل کا تقریباً 20٪ بنتا ہے۔ اگر یہ وسائل درست پالیسیوں سے استعمال ہوں تو توانائی میں خودکفالت ممکن ہے.

    3. معدنیات اور توانائی، مواقع کے ساتھ پیچیدگیاں
    عام تاثر یہ ہے کہ معدنی وسائل فوری خوشحالی لاتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ اصل فائدہ تبھی حاصل ہوتا ہے جب:
    شفاف قوانین اور ریونیو شیئرنگ نظام قائم ہو۔
    ماحول اور مقامی آبادی کے تحفظ کے لیے مؤثر میکانزم ہوں۔
    خام مال کی برآمد کے بجائے ویلیو ایڈڈ مصنوعات تیار کی جائیں۔
    سلامتی یقینی بنائی جائے تاکہ سرمایہ کاری خطرات سے محفوظ رہے۔
    Reko Diq جیسے منصوبے تبھی کامیاب ہوں گے جب سیاسی استحکام، مقامی شمولیت اور شفافیت موجود ہو۔

    4. خطرات، بیرونی چالیں اور اندرونی دیمک
    (الف) بیرونی پروپیگنڈہ اور ساکھ کے مسائل: عالمی سطح پر انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کے بیانیے بعض اوقات پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ اس کا توڑ شفاف عدالتی عمل، مضبوط ڈپلومیسی اور ٹھوس شواہد پر مبنی ردعمل ہے۔

    (ب) سماجی قدروں کا تحفظ: مغربی لبرل اقدار کا بڑھتا اثر ہمارے خاندانی ڈھانچے کے لیے چیلنج سمجھا جا رہا ہے۔ اس کا حل جبر نہیں بلکہ تعلیم، عوامی بیداری اور اسلامی سماجی اصولوں میں بنیادی حقوق کی ضمانت ہے۔

    (ج) اندرونی کرپشن اور مافیا کلچر: لینڈ مافیا، شوگر مافیا اور سرکاری خرد برد جیسے مسائل ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ سخت احتساب، آزاد عدالتی نگرانی اور ڈیجیٹل شفافیت ناگزیر ہیں۔

    (د) بلوچستان میں سیکیورٹی اور مقامی مزاحمت: معدنی وسائل والے علاقوں میں سیکیورٹی خدشات اور مقامی مزاحمت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ حکمتِ عملی ایسی ہونی چاہیے جو مقامی مفادات کا تحفظ کرے اور بدامنی کو روکے۔

    5. عملی اور نفاذی سفارشات
    1. قومی معدنی حکمرانی فریم ورک: وفاق، صوبے اور مقامی کمیونٹیز کے مفادات واضح کرنے والی جامع پالیسی۔
    2. شمولیتی ماڈل: بڑے منصوبوں میں مقامی آبادی کو روزگار اور معاشی شمولیت دینا۔
    3. شفافیت اور احتساب: کان کنی کے معاہدوں اور ادائیگیوں کا آن لائن پبلک پورٹل۔
    4. مقامی صنعتی پالیسی: خام مال کی برآمد کے بجائے ویلیو ایڈڈ مصنوعات کی تیاری۔
    5. قانونی اور سماجی تحفظات: مذہبی آزادی اور انسانی حقوق کا تحفظ کرتے ہوئے قوانین کا متوازن نفاذ۔
    6. سیکیورٹی اور ماحولیات کا توازن: بڑے منصوبوں میں سیکیورٹی اور ماحولیات دونوں پر مساوی توجہ۔

    6. میڈیا کا کردار، سچائی اور قومی بیانیہ
    میڈیا کو چاہیے کہ حقائق، اعداد و شمار اور تحقیق پر مبنی رپورٹنگ کرے، جعلی خبریں اور بیرونی پروپیگنڈہ بے نقاب کرے۔ پالیسی مباحث کو عوام تک شفاف انداز میں پہنچانا میڈیا کا فرض ہے۔

    عزیز ہم وطنو!
    چودہ اگست ہمیں یاد دلاتا ہے کہ یہ وطن قربانیوں، اصولوں اور نظریے کی بنیاد پر قائم ہوا تھا۔ معدنی دولت اور توانائی کی دریافتیں ایک سنہرا موقع ہیں، مگر یہ موقع تبھی فائدہ دے گا جب ہم متحد رہیں، شفافیت کو اپنائیں اور قانون کے مطابق چلیں۔ بیرونی سازشوں اور اندرونی کمزوریوں کا مقابلہ مستقل اصلاحات، احتساب اور دانشمندانہ حکمتِ عملی سے ہی ممکن ہے۔اللہ تعالیٰ ہمارے ملک کو ترقی، سلامتی اور استحکام عطا فرمائے۔ آمین۔

  • آج کا پاکستان اور دو قومی نظریہ – حفیظہ بانو

    آج کا پاکستان اور دو قومی نظریہ – حفیظہ بانو

    قیامِ پاکستان کی بنیاد جس نظریے پر رکھی گئی، وہ دو قومی نظریہ ہے۔ یہ نظریہ برصغیر کے مسلمانوں کے اس اجتماعی شعور کی عکاسی کرتا ہے کہ وہ ایک الگ قوم ہیں جن کا مذہب، ثقافت، تہذیب، تاریخ، اور طرزِ زندگی ہندوؤں سے جدا ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح نے اسی نظریے کو بنیاد بنا کر مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن کی جدوجہد کی، جس کا نتیجہ 14 اگست 1947 کو پاکستان کی صورت میں نکلا۔

    جب ہم آج کے پاکستان پر نظر ڈالتے ہیں تو دو قومی نظریہ نہ صرف ہمارے قیام کی بنیاد ہے بلکہ ہماری بقاء اور وحدت کی ضمانت بھی ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ جو رویہ روا رکھا جا رہا ہے، اس سے یہ بات مزید واضح ہو جاتی ہے کہ اگر پاکستان نہ بنتا تو آج مسلمان کس کرب سے گزر رہے ہوتے۔ آج بھارت میں مسلمانوں کو دوسرے درجے کے شہری کی حیثیت دی جا رہی ہے۔ مساجد کو نشانہ بنایا جاتا ہے، مسلم طلبہ کو تعصب کا سامنا ہے، اور “گؤ رکھشا” کے نام پر قتل جیسے واقعات پیش آ چکے ہیں۔

    متنازع شہریت ترمیمی قانون (CAA) اور NRC جیسے اقدامات مسلمانوں کے خلاف واضح تعصب کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ دو قومی نظریے کی سچائی کو آج بھی ثابت کرتا ہے۔ پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانے کا خواب اسی نظریے سے وابستہ ہے۔ لیکن بدقسمتی سے، ہم نے اس نظریے کی اصل روح کو بھلا دیا ہے۔ لسانی، علاقائی، اور فرقہ وارانہ تقسیم نے ہماری قومی وحدت کو کمزور کیا ہے۔ دو قومی نظریہ صرف ہندو اور مسلمان کی تفریق تک محدود نہیں، بلکہ یہ اس سوچ کا نام ہے کہ مسلمان ایک الگ امت ہیں جن کا نظامِ حیات قرآن و سنت پر مبنی ہے۔ ہمیں اپنے تعلیمی، عدالتی، اور معاشی نظام کو اسی نظریے کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔

    آج کے دور میں نوجوان نسل کو دو قومی نظریے کی اصل حقیقت سے روشناس کروانا بے حد ضروری ہے۔ یہ نظریہ صرف تاریخ کا باب نہیں بلکہ ہماری نظریاتی سرحدوں کا محافظ ہے۔ ہمیں اس نظریے کو صرف یومِ آزادی یا یومِ پاکستان تک محدود نہیں رکھنا، بلکہ اسے اپنی سوچ، عمل، اور فیصلوں میں شامل کرنا ہوگا۔ دو قومی نظریہ محض ایک سیاسی نعرہ نہیں، بلکہ ایک زندہ اور متحرک حقیقت ہے۔ وقت نے ثابت کیا ہے کہ یہ نظریہ درست تھا، اور آج بھی پاکستان کی شناخت، سالمیت، اور بقاء اسی نظریے سے جڑی ہوئی ہے۔

    ہمیں فرقہ واریت، نفرت، اور انتہا پسندی سے بالاتر ہو کر اس نظریے کی اصل روح کو اپنانا ہوگا تاکہ پاکستان حقیقی معنوں میں ایک پرامن، مضبوط، اور خوشحال اسلامی ریاست بن سکے۔ “پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ” صرف نعرہ نہیں، ہماری نظریاتی پہچان ہے۔

  • راہول گاندھی کے الزامات: بھارتی انتخابی شفافیت پر بڑھتے سوالات –  اخلاق احمد ساغر ایڈووکیٹ

    راہول گاندھی کے الزامات: بھارتی انتخابی شفافیت پر بڑھتے سوالات – اخلاق احمد ساغر ایڈووکیٹ

    بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے طور پر مشہور ہے، جہاں ہر پانچ سال بعد عام انتخابات کروائے جاتے ہیں۔ اس جمہوری عمل میں شفافیت، غیرجانب داری اور عوامی اعتماد بنیادی ستون ہیں۔ تاہم، حالیہ برسوں میں مختلف سیاسی جماعتوں پر یہ الزامات لگتے رہے ہیں کہ وہ ووٹ بینک مضبوط کرنے کے لیے غیرجمہوری ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہیں۔ راہول گاندھی کی تازہ پریس کانفرنس اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے، جس میں انھوں نے مودی حکومت پر متعدد سنگین الزامات لگائے۔

    راہول گاندھی کا بنیادی مؤقف
    راہول گاندھی نے مودی حکومت کو درج ذیل امور میں ملوث قرار دیا:
    الف) فلاحی اسکیموں کا سیاسی استعمال
    “لاڈلی بہنا” اسکیم: خواتین کی مالی مدد کا یہ پروگرام بظاہر سماجی بہبود کے لیے تھا لیکن راہول گاندھی کے مطابق اسے انتخابی رشوت کے طور پر استعمال کیا گیا۔
    اس طرح کی اسکیموں سے وقتی فائدہ تو عوام کو ملتا ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ پالیسی سازی کا نتیجہ ہے یا محض ووٹ حاصل کرنے کی حکمت عملی؟
    ب) جذباتی مناظر اور مذہبی بیانیہ
    “آپریشن سندور” جیسی کارروائیوں کا مقصد، ان کے بقول، عوامی مذہبی جذبات کو بھڑکا کر ووٹ بینک کو متاثر کرنا تھا۔
    یہ طریقہ کار جمہوریت میں “جذباتی سیاست” (Emotional Politics) کو فروغ دیتا ہے، جو پالیسی پر مبنی سیاست کے برعکس ہے۔
    ج) قومی سلامتی کے سانحات کا انتخابی فائدہ
    پلوامہ حملہ: ایک افسوس ناک واقعہ جس میں بھارتی فوجیوں کی جانیں گئیں۔
    الزام یہ ہے کہ اس سانحے کو انتخابی مہم میں بطور “قومی اتحاد” کا نعرہ بنا کر سیاسی فائدہ اٹھایا گیا۔
    د) ووٹر لسٹ میں دھاندلی
    راہول گاندھی نے 40,009 جعلی اور غلط پتوں کی فہرست پیش کی۔
    اس سے ووٹ ڈالنے کے عمل میں ہیرا پھیری اور دھاندلی کا خدشہ بڑھ جاتا ہے، جو انتخابی نتائج کی ساکھ کو متاثر کر سکتا ہے۔
    3. الزامات کے ممکنہ اثرات
    داخلی سطح پر
    عوام میں انتخابی نظام پر اعتماد کم ہو سکتا ہے۔
    اپوزیشن اور حکومت کے درمیان سیاسی کشیدگی میں اضافہ ہوگا۔
    میڈیا اور سول سوسائٹی پر دباؤ بڑھے گا کہ وہ معاملے کی مزید چھان بین کریں۔
    بین الاقوامی سطح پر
    بھارت کی جمہوری ساکھ پر سوال اٹھ سکتا ہے۔
    غیرملکی میڈیا اور عالمی ادارے انتخابی شفافیت پر رپورٹنگ بڑھا سکتے ہیں۔
    4. قانونی اور ادارہ جاتی پہلو
    الیکشن کمیشن آف انڈیا (ECI) پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان الزامات کی غیرجانب دارانہ تحقیقات کرے۔
    ووٹر لسٹوں کی تصدیق اور آڈٹ کا نظام مزید سخت کیا جائے۔
    فلاحی اسکیموں کے اجراء کے لیے انتخابی ضابطہ اخلاق (Model Code of Conduct) میں مزید واضح شقیں شامل کی جائیں۔
    5. جذباتی سیاست بمقابلہ پالیسی پر مبنی سیاست
    یہ معاملہ اس بڑے سوال کو بھی جنم دیتا ہے کہ کیا سیاست کا مقصد عوامی جذبات کو بھڑکا کر ووٹ حاصل کرنا ہے یا طویل المدتی پالیسیوں کے ذریعے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا؟
    جذباتی سیاست وقتی طور پر کامیاب ہو سکتی ہے مگر یہ سماجی تقسیم اور پالیسی کمزوری کا باعث بنتی ہے۔
    پالیسی پر مبنی سیاست شفافیت، احتساب اور پائیدار ترقی کو فروغ دیتی ہے۔

    مستقبل کے لیے لائحہ عمل
    1. انتخابی فہرستوں کا باقاعدہ آڈٹ: جعلی ووٹروں کی نشان دہی اور ان کے اندراج کی روک تھام۔
    2. سیاسی مہم میں قومی سلامتی کے واقعات پر پابندی: تاکہ حساس معاملات کو ووٹ بینک کے لیے استعمال نہ کیا جا سکے۔
    3. فلاحی اسکیموں کی شفاف منظوری: ان کا آغاز انتخابی سال میں نہ ہو تاکہ سیاسی فائدہ نہ اٹھایا جا سکے۔
    4. میڈیا نگرانی کا سخت نظام: جھوٹے بیانیے اور پروپیگنڈا کو روکنے کے لیے۔

    راہول گاندھی کے الزامات مودی حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہیں۔ اگر یہ الزامات درست ثابت ہوتے ہیں تو یہ بھارت کے جمہوری ڈھانچے کے لیے خطرے کی گھنٹی ہیں۔ دوسری طرف، اگر یہ صرف سیاسی الزام بازی ہے تو اس کا مقصد عوامی رائے کو متاثر کرنا ہو سکتا ہے۔اصل ضرورت ایک آزاد، منصفانہ اور شفاف تحقیقات کی ہے تاکہ نہ صرف حقیقت سامنے آئے بلکہ عوام کا جمہوری نظام پر اعتماد بھی بحال ہو۔

  • محافظ سے شکاری تک، طاقت کی رفاقت کا انجام – عدنان فاروقی

    محافظ سے شکاری تک، طاقت کی رفاقت کا انجام – عدنان فاروقی

    پاکستان کے کبھی سب سے بااثر صنعت کار سمجھے جانے والے ملک ریاض کا زوال اتنا اچانک اور شدید تھا کہ وہ خود اعتراف کرنے پر مجبور ہو گئے کہ اب اپنے ملازمین کو تنخواہیں دینے کی سکت نہیں رکھتے۔ چند ہی ہفتوں میں، بحریہ ٹاؤن جو کبھی معیشت کا ستون اور نجی ترقی کی علامت مانا جاتا تھا ، جہاں رہائش ایک اسٹیٹس سمبل تھا ۔

    ایک وارننگ کی کہانی بن گیا۔ محض تین ماہ پہلے تک یہ ایک مکمل دنیا تھی، جہاں رہائش کے ساتھ اپنی بجلی اور سکیورٹی کا نظام موجود تھا۔ آج اس کا بانی جلاوطن ہے، بینک اکاؤنٹس منجمد ہیں، اور برسوں میں بنائی گئی میراث ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ حکام اسے برسوں سے زیرِ التواء احتساب کا نتیجہ قرار دیتے ہیں، الزامات میں غیر قانونی زمینوں کا حصول، منی لانڈرنگ، اور عدالتی فیصلوں سے انحراف شامل ہے۔ بظاہر یہ قانون کی بالادستی کی فتح لگتی ہے، مگر اس داستان کے پس پردہ تضادات پوشیدہ ہیں۔

    ملک ریاض کا کاروباری ماڈل سیدھا مگر نہایت حسابی تھا: پاکستان میں زمین محض سرمایہ نہیں بلکہ طاقت کا کھیل ہے اور اس کھیل کا سب سے بڑا کھلاڑی فوج ہے۔ ریاض نے بحریہ ٹاؤن کی تعمیر میں بڑے پیمانے پر ریٹائرڈ فوجی افسران کو شامل کیا۔ کمپنی کے اہم انتظامی اور ترقیاتی عہدے گویا عسکری اداروں کے سابق افسروں کا کلب تھے مارکیٹنگ میں جنرلز، منصوبہ بندی میں کرنلز، اور اس فہرست میں سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ ججز بھی شامل تھے جنہیں وہ شاہانہ تنخواہوں اور مراعات کے ساتھ ادارے سے وابستہ رکھتے تھے۔

    ایک ایسے ملک میں جہاں زمین کے ریکارڈ دھندلے ہوں اور قانون کا اطلاق پسند و ناپسند پر ہو، وہاں فوجی و عدالتی تعلقات حفاظتی ڈھال کا درجہ رکھتے ہیں۔ ریاض نے اس ڈھال کو اپنی کمپنی کے ڈھانچے میں اس طرح سمو دیا کہ بحریہ ٹاؤن پر ہاتھ ڈالنا، درجنوں بااثر ریٹائرڈ جرنیلوں اور سابق ججوں کے بعد از ریٹائرمنٹ کیریئر کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف تھا۔یہ فارمولا تین دہائیوں تک بے عیب چلتا رہا۔ ریاض کھلے عام افسران اور ججز کو مراعات دینے کا اعتراف کرتے، گویا یقین تھا کہ سب کو اس بندوبست سے فائدہ پہنچ رہا ہے۔ پھر یہ بندوبست کیوں ٹوٹا؟

    وقت کے ساتھ بحریہ ٹاؤن نے نہ صرف ترقی کی بلکہ اپنے حریفوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ کراچی میں بحریہ کا ایک کنال کا رہائشی پلاٹ پینتالیس لاکھ میں دستیاب تھا جبکہ فوج کے زیرِ انتظام ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی میں یہی پلاٹ ڈھائی کروڑ سے شروع ہوتا ہے۔ لاہور میں بحریہ دو برس میں قبضہ دے دیتا، جب کہ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی میں خریدار کو ایک دہائی انتظار کرنا پڑتا۔ درمیانے طبقے کے لیے یہ کسی نجات دہندہ سے کم نہ تھا۔مگر یہی کامیابی خاموش معاہدے کی خلاف ورزی بن گئی۔ فوج کا دائرۂ اثر اشرافیہ کی رہائش تک محدود تھا اور بحریہ ٹاؤن کا ہدف درمیانہ طبقہ۔ لیکن ریاض نے اعلیٰ متوسط طبقے اور متمول خریداروں کو بھی ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی سے کھینچنا شروع کر دیا۔ یہ براہِ راست فوجی اجارہ داری کو چیلنج کرنا تھا۔

    ملک ریاض کے خلاف موجود ثبوت نئے نہیں تھے ۔ عدالتی ریکارڈ اور مالیاتی شواہد برسوں سے موجود تھے۔ اصل سوال یہ ہے کہ کارروائی اب کیوں ہوئی؟ جواب سادہ ہے: پاکستان میں کامیابی کی بھی ایک حد ہے، خاص طور پر جب وہ کسی ادارہ جاتی مفاد سے ٹکرا جائے۔ریاض کی سب سے بڑی غلطی وفاداری کا غلط مصرف تھا۔ وہ ریٹائرڈ افسران اور سابق ججز جن پر وہ بھروسہ کرتے تھے، دراصل کبھی اپنے اداروں سے الگ نہیں ہوئے تھے۔ وقت آنے پر وہ ادارے کے ساتھ کھڑے ہوئے، نہ کہ اس شخص کے ساتھ جس نے انہیں روزگار دیا تھا۔ جو اثر و رسوخ کبھی بحریہ ٹاؤن کو بچانے کے لیے استعمال ہوتا تھا، وہی اسے گرانے کے لیے بروئے کار لایا گیا۔

    پاکستان کے کاروباری طبقے کے لیے یہ ایک تلخ سبق ہے، اگر ملک ریاض جیسا بااثر اور سرمایہ دار شخص راتوں رات زمین بوس ہو سکتا ہے تو طاقت کے قریب رہنا بھی بقا کی ضمانت نہیں۔ یہ تحفظ ہمیشہ مشروط ہوتا ہے، اور ادارے کو پیچھے چھوڑنے کی قیمت مکمل صفحۂ ہستی سے مٹائے جانے کی صورت میں وصول کی جاتی ہے۔آج ملک ریاض دبئی یا مالٹا میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ شخص جس نے صفر سے شہر بسائے، پردیس سے اپنے ہی تعمیر کردہ شہروں کو بکھرتے دیکھ رہا ہے۔

    ملک ریاض کی کہانی محض ایک کاروباری سلطنت کے زوال کی نہیں بلکہ پاکستان میں طاقت کے ڈھانچے کی علامت ہے۔ یہ اس سچائی کو بے نقاب کرتی ہے کہ نجی محنت اور خوابوں کی پرواز وہاں محدود ہو جاتی ہے جہاں اصل اختیار کسی اور کے ہاتھ میں ہو۔ طاقت کے ایوانوں سے شراکت یقیناً دولت اور اثر دیتی ہے، مگر صرف ان سرحدوں تک جو سختی سے نگرانی میں ہوں۔ ان سرحدوں کو پار کریں تو محافظ شکاری بن جاتے ہیں اور تاریخ کا فیصلہ ہمیشہ شکاری کے حق میں لکھا جاتا ہے، جب تک کہ کوئی نظام طاقت کے بجائے اصول کو محافظ نہ بنا دے۔

    طاقت کی دہلیز پر بچھا قالین سرخ ضرور ہوتا ہے، مگر اس کا رنگ قربانی کے خون سے گہرا ہوتا ہے۔ جو اس پر چلتا ہے، وہ یا تو تخت پر بیٹھتا ہے یا تاریخ کے کٹہرے میں کھڑا ہوتا ہے اور اکثر اوقات، دونوں راستے ایک ہی انجام کی طرف لے جاتے ہیں۔

  • روشن کرداروں کی زندہ روایت – سلمان احمد قریشی

    روشن کرداروں کی زندہ روایت – سلمان احمد قریشی

    اصل ادارے وہی ہوتے ہیں جو محض علم نہیں دیتے، کردار بھی تراشتے ہیں۔ جو صرف سندیں نہیں بانٹتے بلکہ یادیں، وابستگیاں، اور ذمہ داریاں بھی اپنے طلبہ کے دل میں منتقل کرتے ہیں۔اوکاڑہ کی علمی پہچان، گورنمنٹ گریجویٹ کالج اوکاڑہ بھی ایسا ہی ایک ادارہ ہے۔

    وقت کے دھارے پر چلتے ہوئے یہ ادارہ نہ صرف تعلیمی حوالوں سے مضبوط ہوا، بلکہ اس نے ایسے طالب علم پیدا کیے جو دنیا بھر میں اپنے شہر، اپنی مادرِ علمی، اور اپنے ملک کا نام روشن کر رہے ہیں۔انہی سابقہ طلبہ کے باہمی تعلق، جذبہ خدمت اور ادارے سے لازوال محبت نے جس پلیٹ فارم کو جنم دیا، وہ ہے اولڈ باریئنز ایسوسی ایشن۔یہ صرف ایک کالج کی کہانی نہیں یہ کئی نسلوں کی امیدوں، خوابوں، اور محنتوں کی داستان ہے۔ گورنمنٹ گریجویٹ کالج اوکاڑہ نہ صرف شہرِ علم کی علامت ہے بلکہ اس خطے کی تہذیبی شناخت، فکری بالیدگی اور تعلیمی وراثت کا امین بھی ہے۔

    یہاں سے فارغ التحصیل ہونے والے ہزاروں طالب علموں کے دلوں میں اپنے مادرِ علمی سے وابستگی کی قدر مشترک ہے۔اسی جذبہ وابستگی کو ایک منظم شکل میں اولڈ باریئنز ایسوسی ایشن نے اختیار کیا۔ یہ ایسوسی ایشن کسی رسمی بندوبست یا محض یادوں کے البم کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک زندہ اور متحرک تحریک ہے جو ”واپسی، خدمت، اور شکر گزاری” کے جذبے پر قائم ہے۔

    وہ جو بنیاد بنے
    یہ ایسوسی ایشن دراصل ایک خواب کی تعبیر ہے، جس کا بیج پروفیسر ڈاکٹر حمود لکھوی نے بویا اور جسے ثمر آور باغ بنانے میں پروفیسر عبدالروف نے زندگی کی توانائی جھونک دی۔ پروفیسر عبدالروف جو آج بھی ایسوسی ایشن کے صدر کی حیثیت سے متحرک ہیں، ادارے سے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اس مشن سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان کا اخلاص، محنت اور طلبہ کی بہبود کے لیے مسلسل سرگرمی، ایک مثالی باب ہے جو تعلیمی اداروں کے تاریخ دانوں کو ضرور قلمبند کرنا چاہیے۔ادارے سے اپنی روحانی نسبت کو قائم رکھتے ہوئے پروفیسر عبدالروف آج اس تحریک کے روح رواں ہیں۔

    ریٹائرمنٹ کے بعدان کا اوکاڑہ کالج کے لیے کام کرنا، ان کے کردار، عزم، اور احساسِ ذمہ داری کا وہ پہلو ہے جو آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔انہوں نے ایسوسی ایشن کو محض رسمی اجلاسوں یا تصویری تقریبات کا نام نہیں بننے دیا، بلکہ اسے خدمت، رہنمائی اور عملی مدد کا ذریعہ بنایا۔ راقم الحروف اس ایسوسی ایشن کے قیام سے تادمِ تحریر اس کارواں کا ہمسفر ہے، اور ان تمام نشیب و فراز کا چشم دید گواہ رہا ہے جن سے گزر کر یہ کارخیر اپنے قدموں پر کھڑا ہوا۔

    بلاشبہ پروفیسر عبدالروف نے کئی مواقع پر نامساعد حالات، بے حسی اور عملی دشواریوں کا سامنا کیا مگر ان کا عزم، حوصلہ اور مستقل مزاجی کسی چٹان کی مانند ڈٹی رہی۔ہم اولڈ بارینز ایسوسی ایشن گورنمنٹ گریجویٹ کالج اوکاڑہ میں نائب صدر (Vice President) کے طور پر ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔اس ادارے سے جذباتی، فکری، اور نظریاتی نسبت نے ہمیشہ مجھے تحریک دی ہے کہ نہ صرف قلم کے ذریعے بلکہ عملی اقدامات کے ذریعے بھی ادارے، طلبہ، اور اساتذہ کے لیے کچھ کر سکوں۔

    چراغ سے چراغ جلتا ہے
    سال 2025 میں جب فرسٹ ایئر کے داخلے جاری تھے، ایسوسی ایشن کی جانب سے پہلے 30 مستحق طلبہ کی فیس ادا کی گئی۔ یہ کام ایک ایسے مخفی محسن کی مدد سے انجام پایا جنہوں نے شہرت یا تشہیر کی خواہش کے بغیر صرف نیتِ خیر اور احساسِ ذمہ داری سے یہ فریضہ انجام دیا۔ایسے ”گمنام نیک دل” افراد ہی اصل سرمایہ ہیں کسی بھی معاشرے کے، وہ جن کے نام نہیں، مگر مقام سب جانتے ہیں۔سال 2025 میں ایسوسی ایشن نے ایک قابلِ تقلید مثال قائم کی۔ اس نیکی کے پیچھے نہ کوئی اشتہار تھا، نہ تصویری جھلکیاں، بلکہ صرف خلوص، خاموشی، اور نیت کا اجالا تھا۔ یہی وہ روشنی ہے جو نسلوں کو روشن کرتی ہے۔

    سالانہ ڈنر ، زندہ یادیں اورتجدیدتعلق
    اولڈ باریئنز ایسوسی ایشن کا سالانہ ڈنر ایسی ہی یادوں، جذبوں، اور نئے عزم کے ساتھ منعقد ہوتا ہے جوسابقہ طالب علموں کی ملاقاتوں کا ذریعہ بنتا ہے، بلکہ ادارے اور اس کی روایت سے جڑنے کا احیاء بھی کرتا ہے۔ ان تقریبات میں سینکڑوں ممبران شریک ہوتے ہیں۔ ان میں کچھ ایسے کردار بھی شامل ہوتے ہیں جن کی موجودگی خود ایک پیغام، ایک حوصلہ، اور ایک ترغیب ہوتی ہے۔سالانہ ڈنر میں شریک گوہر نایاب خود اپنی پہچان سے بڑھ کر کسی نام کے محتاج نہیں۔ان ہی شخصیات میں سے سلمان غنی ایک درخشندہ نام ہے۔

    ایک تابندہ نام،سلمان غنی
    نامور صحافی، سینئر تجزیہ نگارسلمان غنی( ستارہ امتیاز) ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ شہرت کے شور میں بھی اوکاڑہ کالج کی محبت میں زندہ ہیں۔ملک کے بڑے ادارے انہیں مدعو کرتے ہیں، وہ قومی اور بین الاقوامی سطح کے مکالموں میں شریک ہوتے ہیں مگر جب اوکاڑہ کالج کا نام آتا ہے تو سب کچھ ایک طرف وہ نہ صرف شریک ہوتے ہیں بلکہ سب سے پہلے پہنچنے والوں میں سے ہوتے ہیں۔ان کا طرزِ عمل، ان کی وقت کی پابندی، اور ان کا ادارے سے عشق نوجوانوں کے لیے صرف باتیں نہیں، عملی سبق ہیں۔ وہ اس ادارے کا وہ ہیرا ہیں جس پر ہم سب بجا طور پر فخر کرتے ہیں۔ان کی موجودگی، ان کی گفتگو، اور ان کا طرزِ عمل طلبہ کے لیے صرف ایک موٹیویشن نہیں بلکہ ایک خواب کو حقیقت میں بدلنے کی ترغیب ہے۔ وہ اس ادارے کے ان سابق طالب علموں میں سے ہیں جن پر نہ صرف کالج بلکہ پورا اوکاڑہ فخر کرتا ہے۔

    اولمپیئن سے عالمی سیاست تک ایک قابل فخرنام ، مظہر ساہی
    سابق اولمپیئن مظہر ساہی ایسوسی ایشن کے سرمائے میں گوہرِ نایاب کی صورت شامل ہیں۔ یہ وہ شخصیت ہیں جنہوں نے پاکستان کی نمائندگی بین الاقوامی اولمپکس میں کی اور بعد ازاں امریکہ جیسے ملک میں صدر باراک اوباما اور ہیلری کلنٹن جیسے عالمی رہنماؤں کے ساتھ سیاسی سرگرمیوں میں فعال کردار ادا کیا۔مظہر ساہی نہ صرف کھیل کے میدان کے سپاہی ہیں، بلکہ سیاسی حکمت، سفارتی بصیرت، اور عالمی شعور رکھنے والے ایسے رہنما بھی ہیں جو اوکاڑہ سے واشنگٹن تک کا سفر عزت، وقار، اور خدمت کے جذبے سے طے کر چکے ہیں۔آج بھی وہ اولڈ باریئنز ایسوسی ایشن کا فعال حصہ ہیں، اور نوجوان نسل کے لیے یہ ایک قابلِ رشک بات ہے کہ ان کے ساتھ ایک ایسے کردار کا تعلق جڑا ہے جس نے عالمی سطح پر پاکستان کی نمائندگی کی اور پھر اپنے علمی ادارے کو نہ بھلایا۔

    موجودہ پرنسپل، قیادت میں توازن اور وژن
    ایسوسی ایشن کی فعالیت اور اس کے ساتھ ادارے کی ہم آہنگی کا کریڈٹ موجودہ پرنسپل پروفیسر علی حیدر ڈوگر کو بھی دیا جانا چاہیے۔ وہ نہ صرف انتظامی امور کو سنبھالنے والے قابل منتظم ہیں بلکہ ایک وژنری لیڈر بھی ہیں، جنہوں نے المنائی کی اہمیت کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ اس کا حصہ بن کر اسے فروغ دیا۔ان کی سرپرستی میں اساتذہ، طلبہ اور سابق طلبہ کے درمیان ایک خوشگوار رشتہ استوار ہو چکا ہے، جو کسی بھی تعلیمی ادارے کی ترقی کا بنیادی عنصر ہوتا ہے۔اساتذہ کی فکری رہنمائی، طلبہ کی فلاح اور ادارے کی ترقی یہ تین ستون پروفیسر علی حیدر ڈوگر کی قیادت میں ایک متوازن نظام میں ڈھل چکے ہیں۔

    سیاست اور سماج، ایک مثبت اشتراک
    اوکاڑہ کے سیاسی و سماجی نمائندے بھی اس تعلیمی مشن کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ایم این اے ریاض الحق جج، چوہدری فیاض ظفر، اور ایم پی اے میاں محمد منیر جیسے بااثر افراد نے نہ صرف اظہارِ تحسین کیا بلکہ عملی طور پر تعاون بھی فراہم کیا ہے۔ ان کی موجودگی اس بات کی علامت ہے کہ اگر نیت خالص ہو تو سیاست اور تعلیم ایک دوسرے کے لیے سہارا بن سکتے ہیں۔جب سیاست تعلیم کے شانہ بشانہ چلتی ہے، تو تعلیمی ادارے صرف عمارتیں نہیں رہتے، وہ تبدیلی کے مراکز بن جاتے ہیں۔

    ملک کے دیگر ادارے اور ایک تقابلی روشنی
    لاہور کے بڑے تعلیمی ادارے جیسے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، ایف سی کالج، اور اسلامیہ کالج میں المنائی ایسوسی ایشنز کی کامیابیاں ہمارے لیے روشن مثالیں ہیں۔ مگر یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ اوکاڑہ کالج بھی اب ان اداروں کی صف میں کھڑا ہو چکا ہے، بلکہ کئی لحاظ سے ان سے آگے بڑھنے کا حوصلہ رکھتا ہے ۔

    ہم سب کا سفر، ہم سب کی ذمہ داری
    اولڈ باریئنز ایسوسی ایشن صرف ایک تنظیم نہیں یہ ماضی، حال اور مستقبل کا ربط ہے۔ یہ وہ پُل ہے جو نسلوں کو جوڑتا ہے، خوابوں کو حقیقت میں ڈھالتا ہے، اور وفا کو ذمہ داری میں بدلتا ہے۔یہ وہ چراغ ہے جس سے ہزاروں چراغ جلیں گے۔بس شرط صرف اتنی ہے کہ جذبہ زندہ ہو، دل مخلص ہو، اور وابستگی قائم رہے۔ یہ ایسوسی ایشن، یہ ادارہ، اور ان سے وابستہ ہر شخص ہماری اجتماعی شناخت کا فخر ہے۔آئیں ہم سب مل کر یہ عہد کریں کہ ہم اپنے ادارے، اپنی روایت، اور اپنے فرض سے نہ صرف جڑیں رہیں گے بلکہ ان کی آبیاری بھی کریں گے۔ کیونکہ اصل ترقی صرف ڈگریوں میں نہیں، بلکہ اس احساس میں ہے کہ ہم کس مقام سے اٹھے اور اسے کیا لوٹا سکے۔ اصل کامیابی صرف آگے بڑھنے میں نہیں، بلکہ وہاں لوٹنے میں ہے جہاں سے ہم نے آغاز کیا تھا۔

    سنگ میل کی طرف بڑھتا سفر
    اولڈ باریئنز ایسوسی ایشن کا ہر قدم، ہر سرگرمی، ہر تقریب اپنے مقاصد میں علم کی شمع کو جلائے رکھنا اور اسے پھیلانے کی طرف رواں دواں ہے۔ یہ صرف سابق طلبہ کا نیٹ ورک نہیں، بلکہ ایک نظریہ ہے جو نسل در نسل منتقل ہو رہا ہے۔ اس میں محبت ہے، خدمت ہے، فخر ہے، اور سب سے بڑھ کر اپنی شناخت سے جڑے رہنے کا شعور ہے۔یہ ادارہ، یہ ایسوسی ایشن، اور یہ افراد ہم سب کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ آئیں، ہم سب مل کر اس مشن کا حصہ بنیں۔ کیونکہ اصل کامیابی یہی ہے کہ”جس مٹی سے ہم اُٹھے، اُسی کے لیے کچھ لوٹا سکیں۔”

    ایک زندہ روایت
    اولڈ باریئنز ایسوسی ایشن ایک ایسا چراغ ہے جس سے ہزاروں چراغ جل سکتے ہیں۔ اوکاڑہ کالج، اولڈ باریئنز ایسوسی ایشن، اور ان سے وابستہ کردار یہ سب ایک زندہ، متحرک اور تابندہ روایت کا تسلسل ہیں اور ہم سب اس سلسلے کے امین ہیں۔

  • پڑی بنگلہ واٹر چینل کی المناک داستان –  امیر جان حقانی

    پڑی بنگلہ واٹر چینل کی المناک داستان – امیر جان حقانی

    اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد کیا ہے:
    “وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ”
    ترجمہ: اور ہم نے ہر زندہ چیز کو پانی سے پیدا کیا۔ (سورۃ الانبیاء، آیت 30)

    پانی صرف ایک مائع نہیں، زندگی کا سرچشمہ ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ پانی زندگی بھی ہے اور موت بھی، مگر جب یہی پانی، جو حیات کی علامت ہونا چاہیے، بدنظمی، غفلت اور اجتماعی بے حسی کی علامت بن جائے تو پھر یہ صرف بحران نہیں، ایک اجتماعی گناہ بن جاتا ہے۔ یہی اجتماعی گناہ کئی عشروں سے پڑی بنگلہ کے لوگ بھگت رہے ہیں۔

    بدقسمتی کا عالم یہ ہے کہ ہر آدمی نفسا نفسی کا شکار ہے اور اجتماعی سوچ و فکر اور عمل کا شدید فقدان ہے۔ گلگت شہر سے محض بیس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع پڑی بنگلہ، قدرتی حسن، زرخیزی اور جغرافیائی اہمیت میں اپنی مثال آپ ہے۔ یہی مقام آج واٹر چینل کے بحران کا شکار ہوکر ترقی کی دوڑ میں ایک پیاسا قافلہ بن چکا ہے۔ اور افسوسناک امر یہ ہے کہ یہ پیاس کوئی صحرائی مقدر نہیں بلکہ انسانی بے تدبیری، کرپشن اور مقامی افتراق کا نتیجہ ہے۔

    پڑی بنگلہ کا یہ واٹرچینل کوئی نیا چینل نہیں بلکہ 1930ء میں جب انگریز سرکار نے گلگت اور جگلوٹ کے درمیانی مقام پر ریسٹ ہاؤس اور ڈاک بنگلہ تعمیر کیے، تو پانی کی فراہمی ایک چیلنج تھی۔ چکر کوٹ کے آخری گاؤں جگوٹ (ہرکوکی) سے نمبر دارانِ چھموگڑھ اور مقامی عوام کی مدد سے ایک واٹر چینل کھودا گیا، جو 13 میل (18 کلومیٹر) طویل ہے۔ پانی کا منبع پہوٹ، گاشو، اور بلاس کے برفانی چشمے ہیں، جہاں سے بذریعہ واٹر چینل ہوتے ہوئے پڑی بنگلہ پہنچایا گیا اور پانی کی ضرورت پوری کر دی گئی۔

    پھر پڑی بنگلہ میں لوگ آباد ہوتے گئے اور پھر یہ واٹر چینل صرف سرکاری ریسٹ ہاؤس تک محدود نہیں رہا بلکہ مقامی آبادی کی ضرورت بھی بن گیا۔ پھر یوں ہوا کہ ڈاک بنگلہ اور ریسٹ ہاؤس قصہ پارینہ بن گئے اور اب اس واٹر چینل کا پانی پورے علاقے کی معیشت، زراعت، نرسریوں، گھریلو زندگی اور پڑی پاور ہاؤس کے لیے ریڑھ کی ہڈی بن چکا ہے۔ پڑی بنگلہ کا پانی پانچ حصوں میں تقسیم کیا گیا اور پھر ہر حصہ دار نے اپنا پانی فروخت کرتا گیا، اب سینکڑوں لوگ، کوئی کم کوئی زیادہ پانی کا مالک ہے۔

    گزشتہ دہائی میں پڑی بنگلہ میں سینکڑوں نرسریاں قائم ہو چکی ہیں، جہاں سے ہر سال کروڈوں پودے گلگت بلتستان کے مختلف اضلاع کو سپلائی کیے جاتے ہیں۔ یہ خطہ درختوں کی پیداوار، بیجوں، اور نرسری صنعت کا مرکز بن چکا ہے، جس سے لوگوں کو روزگار بھی مل رہا ہے۔ لیکن یہ سب کچھ اسی پانی کے چینل سے جڑا ہوا ہے، جو آج ہر ماہ کسی نہ کسی جگہ سے ٹوٹ جاتا ہے۔

    اس چینل کے ٹوٹنے کے وجوہات میں بارش، لینڈ سلائیڈنگ، انسانی مداخلت، اور بدترین غفلت شامل ہیں۔ بعض افراد اس چینل سے غیر قانونی طور پر تعمیراتی لکڑی کی بلیک کرتے ہیں، جس سے چینل کی ساخت متاثر ہوتی ہے۔ جب بھی چینل ٹوٹتا ہے، لوگ اپنی مدد آپ کے تحت چندہ جمع کرتے ہیں، مزدور لگاتے ہیں، پانی بحال کرتے ہیں اور پھر کچھ دن بعد وہی افسوسناک کہانی دہرا دی جاتی ہے۔

    اس چینل کی نگرانی و مرمت کے لیے 60 کے قریب سرکاری ملازمین تعینات ہیں، مگر مقامی لوگ ان کی ڈیوٹی سے نالاں ہیں۔ پڑی بنگلہ کے لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ مقامی سطح پر ایک واٹر کمیٹی بھی موجود ہے جو کبھی کبھار متحرک نظر آتی ہے، خاص طور پر جب کسی سرکاری فنڈ کی خوشبو آتی ہے۔ پڑی بنگلہ کے لوگ بظاہر اس کمیٹی سے مطمئن دکھائی نہیں دیتے، سنا ہے کہ ایک جنرل کمیٹی بھی ہے لیکن اس کمیٹی کے درمیان بھی اختلافات، گروہ بندیاں اور خلط ملط کی صورتحال ہے، جس سے اجتماعی نظم ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔

    اللہ کے رسول کا ارشاد ہے کہ
    “کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِهِ”
    ترجمہ: تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں بازپرس ہوگی۔ (صحیح بخاری: 893)

    وہ افراد جو عوام کے اعتماد سے کمیٹیوں، نمائندگی یا نگرانی کے مناصب پر فائز ہیں اور اس کے باوجود اپنے فرائض کو دیانتداری سے ادا نہیں کرتے، وہ صرف ناکام نہیں بلکہ اخروی بازپرس کے بھی مستحق ہیں۔ پڑی بنگلہ کے عمائدین، اور باشعور لوگوں سے طویل مکالمہ کے بعد تین معقول تجاویز سامنے آئی ہیں ان کو یہاں عرض کر دیتے ہیں تاکہ بہتری کی کوئی سبیل نکل آئے۔

    1. زیر زمین ٹنل کی تعمیر
    پڑی بنگلہ کے وسط سے سربند تک ٹنل کے ذریعے پانی لنک کیا جائے، کئی احباب سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں اس ٹنل کا سروے بھی ہوا، لیکن کسی نے پروا نہیں کی۔ اگر آج کوئی سنجیدہ اور بااختیار حکمران ہو تو سربند سے براہِ راست پانی لانے کے لیے یہ ٹنل نکال کر اس دیرینہ مسئلے کا مستقل حل نکالا جا سکتا ہے۔

    2. 24 انچ پائپ لائن منصوبہ
    عوامی سطح پر یہ تجویز بھی موجود ہے کہ اگر چینل کو 24 انچ یا اس سے بھی بڑا جدید پائپ لائن میں تبدیل کر دیا جائے تو نہ صرف پانی محفوظ رہے گا بلکہ مرمت کی بار بار ضرورت بھی ختم ہو جائے گی۔ یہ بھی انتہائی معقول تجویز ہے ۔

    3. جزوی پائپنگ اور سلائیڈنگ روک تھام
    پڑی بنگلہ کے معروف عالم دین، مفتی لطف الرحمان کی تجویز ہے کہ اگر پہلی اور دوسری تجویز پر سردست کام نہیں ہوسکتا تو فی الحال جہاں لینڈ سلائیڈنگ سے چینل ٹوٹنے کا خطرہ ہے، وہاں مخصوص حصوں کو پائپ، سیمنٹ، اور سلیب سے محفوظ کر دیا جائے۔

    یہ فوری، کم خرچ اور پائیدار حل ہو سکتا ہے، بشرطیکہ درست نیت سے آغاز کیاجائے۔ بہرحال مفتی صاحب کی تجویز بھی سنجیدگی سے غور کیا جائے تو کافی اچھے نتائج حاصل ہوسکتے ہیں ۔یہ بات مسلم ہے کہ ان تجاویز پر عمل کرنے کے لیے ایک مربوط اور سنجیدہ ریاستی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ حکومت گلگت بلتستان کے لیے یہ ایک امتحان بھی ہے اور موقع بھی۔ محکمہ آبپاشی، تعمیرات و توانائی اگر سنجیدگی سے اس منصوبے کو اپنائیں تو ہزاروں افراد کی زندگی سنور سکتی ہے۔ساتھ ہی رفاہی ادارے، خاص طور پر AKRSP (آغا خان رورل سپورٹ پروگرام)، اگر اس معاملے کو ایک ماحولیاتی اور دیہی ترقیاتی ایمرجنسی کے طور پر اپنائیں، تو پڑی بنگلہ کا چینل ایک ماڈل پروجیکٹ بن سکتا ہے۔

    تاہم، افسوس کا پہلو یہ ہے کہ پڑی بنگلہ کے اندر بھی اتفاق و اتحاد کا شدید فقدان ہے۔ مقامی اختلافات، قومیتی تقسیم، اور قیادت کی کمزوری نے مسئلے کو پیچیدہ کر دیا ہے۔ اگر یہاں کے عمائدین، نوجوان، علمائے کرام اور باشعور افراد ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ منتخب نمائندے اس اہم مسئلے پر توجہ نہ دیں۔اس کے ساتھ ساتھ پڑی بنگلہ کو درپیش دیگر بڑے مسائل بھی حکومت کی توجہ چاہتے ہیں۔واٹر سپلائی اسکیم کئی بار منظور ہوئی، مگر کچھ غیر ذمہ دار عناصر نے اسے سبوتاژ کر دیا۔ اب تک یہاں لڑکیوں کے لیے پرائمری سکول ہے،گرلز ہائی اسکول کی عمارت بھی بنی ہے مگر اب تک بچیاں مڈل کے لیے ترس رہی ہیں، لیکن ان پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔

    یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ پانی کا بحران دراصل قیادت کا بحران ہے۔ اگر نیت صاف ہو، وژن واضح ہو، اور مقصد عوامی فلاح ہو، تو کچھ بھی ناممکن نہیں. یہاں واٹر چینل کا مسئلہ ہو یا واٹر سپلائی اسکیم، ہر بار مقامی غیر ذمہ دار عناصر میدان میں آتے ہیں، فنڈز کا رخ موڑا جاتا ہے، اور اسکیمیں فائلوں میں دفن ہو جاتی ہیں۔ یہ معاشرتی بے حسی کا آئینہ ہے۔ پانی کا بہاؤ محض فطرت کا کرشمہ نہیں، یہ اجتماعی شعور، نیت اور جدوجہد کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ پڑی بنگلہ کا واٹر چینل ایک سوال بن کر ہمارے ضمیر پر دستک دے رہا ہے۔ کیا ہم اس دستک کو سننے کے لیے تیار ہیں؟

    اگر نہیں تو یاد رکھیں!
    آنے والی نسلیں ہمیں پانی کی بوند بوند کو ترستی نگاہوں سے دیکھ کر بددعائیں دیں گی۔ اور اگر ہاں، تو آج سے، ابھی سے، آواز اٹھائیے، تاکہ پانی کا یہ زخم ناسور نہ بنے، بلکہ شفا کا چشمہ بن جائے۔ جو لوگ اجتماعی معاملات میں بدنظمی، خلط ملط، اور بددیانتی کرتے ہیں، ان کے متعلق خدا وند قدوس کا ارشاد ملاحظہ کیجیے :

    “وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا ۚ إِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ”
    ترجمہ: زمین میں اصلاح کے بعد فساد نہ پھیلاؤ۔ بے شک اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ (سورۃ الاعراف، آیت 56)

    لہٰذا ضرورت ہے کہ حکومت، این جی اوز، مقامی قیادت اور عوام مل کر اس چینل کو بچائیں۔ یہ صرف پانی نہیں، یہ زندگی کی لکیر ہے۔ آج نہ جاگے، تو کل دیر ہو جائے گی!

  • وقت کی تقسیم کے پانچ رہنما اصول – ابو الحسن نعیم

    وقت کی تقسیم کے پانچ رہنما اصول – ابو الحسن نعیم

    وقت کے بارے میں ایک حقیقت جان لیجیے کہ یہ کوئی صندوق نہیں کہ جس میں جو جی چاہے ڈال دیا جائے۔ بلکہ یہ ایک ایسا جیتا جاگتا شاہکار ہے جو ہمیں ترقی کے زینوں کی سیر کرواتا ہے یا ذلت کی کھائی میں دھکیل دیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وقت کی تقسیم کی بہت ضروری ہے۔ جو شخص اپنے “دن” کو صحیح طریقے سے نہیں گزار سکتا وہ کبھی ترقی کے زینے کی پہلی سیڑھی پر قدم نہیں رکھ سکتا۔ ترقی کی پہلی سیڑھی ہی اپنے اوقات کی درست تقسیم ہے۔

    چنانچہ میں وقت کی تقسیم کے متعلق پانچ اصول آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں تاکہ ہم ترقی کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھ سکیں۔
    1. اپنے دن کا آغاز ایک ایسے کام سے کریں جو آپ کو آپ کے مقصد اور کاز پر ثابت قدم رکھنے میں معاون ثابت ہو۔ مثلاً آپ نے اپنے مقصد کے حصول کے لیے جو اہداف متعین کیے ہیں وہ کون کون سے ہیں؟ ایک نظر انہیں دیکھ لیا جائے۔ اپنا عزم تازہ کیا جائے یا ذکر و اذکار کا اہتمام کیا جائے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی لازم ہے کہ ایسے کاموں سے گریز کیا جائے جو آپ کو منزل سے بھٹکنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔

    جیسے صبح اٹھتے ہی موبائل دیکھنا ، اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے نوٹیفکیشن دیکھنا ، تازہ خبروں پر نگاہ ڈالنا وغیرہ یہ وہ کام ہیں جو آپ کے اصل کام میں رکاوٹ تو بن سکتے ہیں معاونت نہیں کر سکتے۔ اسی کے ساتھ یہ بھی لازماً یاد رکھنا چاہیے کہ اپنے دن کا آغاز دوسروں کی خبروں یا باتوں سے نہ کریں بلکہ آپ کی ابتدائی توجہ اپنے آپ پر اور آپ کے اپنے کاز اور مشن پر ہونی چاہیے۔

    2. اپنے وقت کو چھوٹے چھوٹے کاموں میں تقسیم کریں۔ یہ تقسیم ایسے ہونی چاہیے کہ جیسے ہم دیوار بناتے ہوئے کرتے ہیں۔ سب سے پہلے سارے پتھر جمع کر لیتے ہیں اور اس کے بعد ان پتھروں کو آرام سے اور ترتیب سے یکجا کرتے ہیں تو دیوار بن جاتی ہے۔ بعینہ اپنے بڑے بڑے منصوبوں کو چھوٹے چھوٹے کاموں میں تقسیم کر دو۔ ہر بڑے کام کو مختلف چھوٹے چھوٹے کاموں میں تقسیم کرنے سے کام کا بوجھ بھی نہیں رہے گا اور کام بھی بآسانی ہو جائے گا۔ اس کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں۔

    جیسے “میں کتاب لکھوں گا” کی بجائے یہ کہو “میں آج ایک پیراگراف لکھوں گا” یہ ایک پیراگراف صفحہ بنے گا اور پھر صفحات مل کر کتاب بن جائیں گے۔ “میں ورزش کروں گا” کے بجائے یہ کہو “میں آج سے ہی دوڑ شروع کرتا ہوں” چنانچہ اپنے کاموں میں تاخیر اس وجہ سے بھی ہوتی ہے کہ ہم سارا کام ایک ہی وقت میں کرنا چاہتے ہیں جبکہ اگر ہم اسی کام کو مختلف حصوں میں تقسیم کر دیں تو بآسانی ہو جائے گا۔

    3. تیسرا اہم اصول یہ ہے کہ ہر کام کے لیے وقت کا تعین کریں۔ وقت کا تعین اور تخصیص کام کی تکمیل کا ایک لازمی جزو ہے۔ آپ جب تک کسی کام کے لیے وقت متعین نہیں کریں گے وہ کام کبھی پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچے گا۔ کیوں کہ وہ کام آپ کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ جو کام ترجیحات میں شامل ہوتا ہے بندہ اس کے لیے خصوصی وقت نکالتا ہے۔

    اور یہ وقت چاہے جتنا بھی کم ہو لیکن وہ وقت متعین ہو۔ اگرچہ ایک بڑا کام ہے اور آپ اس کے لیے 20 منٹ روزانہ مختص کر دیتے ہیں تو وہ کام آہستہ آہستہ تکمیل کی جانب بڑھتا رہے گا . اور جو کام فرصت کے لمحات میں کرنے کے لیے چھوڑا جائے وہ کبھی تکمیل کی سرحد عبور نہیں کر سکتا۔ چنانچہ ضروری ہے کہ آپ اس خاص کام کے لیے خاص وقت بھی متعین کریں۔

    4. چوتھا اہم اصول یہ ہے کہ خود احتسابی کہ عادت اپنائیں۔ اپنے یومیہ احتساب کرنے کی عادت بنا لیں۔ آپ رات کو سونے سے قبل اپنے آپ سے یہ تین سوال لازماً کریں۔
    میں نے آج کون سا کام مکمل کیا؟
    کن چیزوں میں مجھے رکاوٹ پیش آئی؟
    کل میں ان رکاوٹوں سے کیسے بچوں گا؟

    جب آپ روزانہ اپنا احتساب کریں گے تو آپ دن بدن اپنے اندر تبدیلی محسوس کریں گے جو کہ آپ کو ترقی کی جانب گامزن دکھائی دے گی۔ خود احتسابی وہ واحد عمل ہے جو آپ کو عمل پر مجبور کرتا ہے اور پھر یہ عمل بہترین نتائج کے پھل لا کر آپ کی گود میں رکھتا ہے۔

    5. پانچواں اور آخری اصول یہ ہے کہ اپنے موبائل کو اپنا سربراہ بنانے سے گریز کریں۔ اپنے کاموں کی فہرست کاغذ پر بنانے کی عادت اپنائیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب آپ موبائل پر ہی نوٹ کرتے ہیں تو وہ دماغ میں کہیں اسے وہ وُقت اور اہمیت نہیں حاصل ہو سکتی جو کاغذ پر لکھے پلان کو حاصل ہوتی ہے۔ آپ کا وقت بہت قیمتی ہے اسے موبائل کی نذر کر کے اپنے آپ کو نقصان پہنچانے سے بچائیں۔

    وقت کی تقسیم کا یہ طریق کار اگر آپ اپناتے ہیں اور اس کے مطابق اپنے شب و روز ترتیب دینے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ وقت دور نہیں جب آپ ترقی کی راہ میں سبک رفتاری سے دوڑ رہیں ہوں گے۔ یاد رکھیں کہ وقت کا بہترین استعمال سیکھیں۔ جو شخص وقت کو بہترین طریقے سے استعمال نہیں کرتا وہ کہیں نا کہیں ٹھوکر کھا کر گر پڑتا ہے۔ اور وقت کا بہترین استعمال یہ نہیں ہے کہ آپ بہت سارے کام کریں بلکہ درست استعمال یہ ہے کہ آپ “صحیح کام کا انتخاب” کریں۔

    اور یہ شکوہ بھی ترک کر دیں کہ “آپ کے پاس وقت نہیں ہے”۔ یہ شکوہ دراصل اپنے آپ کو جھوٹی تسلی دینے کے سوا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اگر آپ اپنی ذات کو دھوکہ دینے سے باز رکھنا چاہتے ہیں تو یہ کہنا چھوڑ دیجیے کہ آپ کے پاس وقت نہیں۔ بلکہ یہ کہیں کہ “آپ نے وقت کی درست تقسیم نہیں کی”۔

  • دینی مدارس کے طلبہ اور فکری ارتداد: اسباب، مسائل اور اصلاح کی راہیں – عادل لطیف

    دینی مدارس کے طلبہ اور فکری ارتداد: اسباب، مسائل اور اصلاح کی راہیں – عادل لطیف

    دینی مدارس کے طلبہ کا فکری ارتداد ایک ایسا المیہ ہے، جو اس زمانے کی فکری اور تعلیمی زوال کی گہرائیوں میں جڑ پکڑ چکا ہے۔ یہ طلبہ جب اپنی علمی پیاس بجھانے سے پہلے ایک مخصوص جماعت یا مکتبِ فکر کی فکری بیڑیوں میں جکڑے جاتے ہیں، تو ان کی ذہنی پرواز محدود ہو کر رہ جاتی ہے اور ان کے فہم کی وسعتیں، فکری پرندے کے ٹوٹے پر کی مانند کبھی آسمان کی بلندیوں کو نہیں چھو پاتیں۔

    یہ طلبہ جنہیں کبھی علم کے روشن دیے سے اپنے گرد پھیلے اندھیروں کو چیرنا تھا خود اپنے ہی خیالوں کے جال میں اسیر ہو جاتے ہیں۔ ان کا زاویہ نگاہ ایک تنگ گلی کی طرح ہوتا ہے، جہاں روشنی تو موجود ہوتی ہے، مگر افق کی وسعتوں کا کوئی تصور نہیں ہوتا۔ وہ دنیا کو اسی چھوٹی سی گلی میں دیکھتے ہیں، جہاں فرقہ واریت اور تنگ نظری کے سایے ان کے دماغ پر یوں چھا جاتے ہیں جیسے سر پر منڈلاتے بادل۔ ان کی فکر کی سرزمین بنجر ہو جاتی ہے اور علم کی بہار وہاں کبھی نہیں اُترتی۔

    یہ وہی طلبہ ہیں، جو فکری یتیمی کا شکار ہو کر ایسے افراد کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں، جو انہیں اپنے مقاصد کی آگ میں جھونکنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ ان کی طبیعت کی سختی اور شدت پسندی انہیں اختلاف رائے کو برداشت کرنے کے قابل نہیں چھوڑتی۔ وہ اپنے مخالفین کو دشمنوں کی صف میں کھڑا کرتے ہیں اور ذرا سی اختلافی بات پر لوگوں کو گمراہ، بدعتی یا کافر قرار دینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔

    اگر ہم چاہتے ہیں کہ یہ طلبہ فکری ارتداد کی دلدل سے باہر آئیں، تو ضروری ہے کہ وہ اپنی تعلیمی ترقی پر بھرپور توجہ دیں۔ علم کا سمندر ان کے لیے کشادہ ہو، جہاں وہ صرف ایک مخصوص مکتب فکر کی کشتیاں نہیں چلائیں، بلکہ مختلف علوم وفنون کے بحری جہازوں میں سفر کریں۔ ان کی نظریاتی تربیت ان اساتذہ کے زیر سایہ ہو جن کی فکر کا دامن وسیع ہو، جن کے علم کی گہرائی سمندر کی مانند ہو اور جن کی بصیرت کے چراغ میں حکمت کا تیل جلتا ہو۔

    اساتذہ کی پاکیزہ صحبت وہ چمن ہے، جہاں سے علم وحلم کے پھول کھلتے ہیں، جہاں فکر کی روشنی دل ودماغ کو روشن کرتی ہے۔ ان کی صحبت طلبہ کو نہ صرف علمی وسعت عطا کرتی ہے، بلکہ ان کی شخصیت کو بھی نرمی، محبت اور تحمل سے آراستہ کرتی ہے۔ ایسے اساتذہ کی تربیت میں پروان چڑھنے والے طلبہ فکری پختگی اور دوراندیشی کی راہوں پر چلتے ہیں، جہاں اختلاف رائے ایک علمی گفت وشنید کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور ذاتی دشمنی کی گلیوں سے دور ہو جاتا ہے۔

    یہی فکری وسعت اور دوراندیشی طلبہ کو دنیا کے بدلتے ہوئے حالات و واقعات کا درست تجزیہ کرنے کے قابل بناتی ہے۔ جب یہ طلبہ اپنے ماحول کی نبض پر ہاتھ رکھنا سیکھ لیتے ہیں، تو وہ کبھی بھی کسی فرقہ پرست یا تنگ نظر فرد کے آلہ کار نہیں بنتے، بلکہ خود اپنی راہ متعین کرتے ہیں۔ یہی وہ وقت ہوتا ہے جب باطل اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود ان کے دل و دماغ پر قبضہ نہیں کر پاتا۔