Category: نقطہ نظر

  • پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریاں  – میر افسرامان

    پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریاں – میر افسرامان

    بارشیں تو ہر سال مون سون کے موسم کے دوران میں پاکستان میں ہوتیں ہیں۔ مگر اس سال اپنے ساتھ تبائیاں لے کر آئیں۔ یہ لوگوں کی نافرمانیوں کی وجہ سے ایک قسم کا عذاب بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے:
    “اُس بڑے عذاب سے پہلے ہم اِسی دنیا میں (کسی نہ کسی چھوٹے) عذاب کا مزا اِنھیں چکھاتے رہیں گے شاہد کہ یہ(اپنی باغیانہ روش سے)باز آجائیں”.(السجدۃ)

    حدیث شریف کامفہوم ہے کہ جب کبھی آسمان کالے گہرے بادل آتے تو رسول اللہ دعا کرتے کہ اللہ ان کو رحمت بنانا۔ یہ بادل،بارشیں، پانی،ہوائیں وغیرہ اللہ کے لشکر ہیں۔کبھی ان سے اپنی مخلوق کو فائدہ پہنچاتا ہے اور اگر لوگ باغیانا روش اختیار کریں تو سزا بھی دیتا ہے۔ ہمیں اللہ سے ہمیشہ رحمت کی ہی اُمید رکھنا چاہے اور اپنی زندگی اللہ کی اطاعت میں گزارنی چاہیے۔ مشہور شاعراکبر الہ آبادی کا ایک شعر ہے:

    [poetry] مصیبت میں بھی یاد خدا آتی نہیں ان کو
    دعا منہ سے نہ نکلی پاکٹوں سے عرضیاں نکلیں [/poetry]

    ملک پاکستان میں یہ ایک قسم کا عذاب ہے۔ جو سیلاب کی صورت میں ہم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے۔ ہمیں بحیثیت مسلمان قوم اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنی چاہیے۔ تاکہ اللہ تعالیٰ ہمیں معاف کر دے۔پاکستان کے صوبے پختونخوا، کشمیر، گلگت،چترال میں بارش سے سیلاب نے تباہی پھیلا دی۔ اموات چار سو پہنچ تک گئیں۔ایک سو پچاس افراد تک زخمی ہوئے ہیں۔حکومت خیبر پختونخوا نے ریسکو اور ریلیف کے لیے تین ارب روپے جاری کیے ہیں۔ ریسکو آپریشن جاری ہے۔ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے سیلاب س متاثرہ علاقوں کا دورا کیا ہے۔

    بونیر، باجوڑ،سوات،شانگلہ، اور بٹ گرام کو آفت زدہ علاقے قرار دے دیے گئے ہیں۔آٹھ متاثرہ اضلاع میں ایمر جنسی نافذکر دی گئی ہے۔گیارا مکانات تباہ اورتریسٹھ جزوی طور پر متاثر ہوئے ہیں۔ پاک فوج فورناً متاثرہ علاقوں میں پہنچ گئی تھی۔ اب مزیدد ستے بھی بھیج دیے گیے ہیں۔ امدادی سرگرمیوں کے لیے جانے والاخیبرپختونخوا حکومت کاہیلی کاپٹر گر کر تباہ ہو گیا ہے۔ اس میں سوار پانچ آدمیوں سمیت دو پائلٹ بھی شہید ہو گئے۔خیبر پختونخوا حکومت نے سوگ کا اعلان بھی کیا۔محکمہ موسمیات نے اکیس اگست تک شدید بارشوں کی پیشن گوئی کی گئی ہے۔ بارشوں سے لینڈ سلائیڈنگ کی خدشے سے سیاحوں کو سفر سے منع کیا گیا ہے۔

    پنجاب میں بھی شدید بارش کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ دریاؤں میں پانی کی سطح بلند ہو گئی ہے۔دریاؤں میں نچلے درجے کا سیلاب محسوس کیا گیا ہے۔ اگر بڑے ڈیموں کی بات کیجائے، تو خیبر پختونخوا میں تربیلا ڈیم میں اٹھانویں پرسنٹ پانی بھر گیا ہے اور آزاد کشمیر منگلا ڈیم میں اڑسٹھ پر سنٹ پانی بھر گیا ہے۔ حکومت کی طرف سے الرٹ جاری کیا گیاہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے، نواز شریف سے ملاقات کر کے پاکستان میں سیلابی صورت حال سے آگاہ کیا۔ مرکز اور صوبہ پنجاب ریلف سرگرمیوں میں پھر پو ر انداز شریک ہے۔ نوازشریف نے امدادی کاموں کو مزید بڑھانے کی ہدایات دیں۔

    اگر سیاستدانوں کی بات کیجائے تو جماعت اسلامی کے امیر انجینئر حافظ نعیم الرحمان نے پاکستان کے وزیر اعظم جناب شہباز شریف سے ٹیلیفونک رابطہ کر کے پاکستان میں سیلاب کی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا۔ امیر جماعت اسلامی نے وزیر اعظم پاکستان کو بھر پور تعاون کا یقین دلایا، شہباز شریف نے امدادی سرگرمیوں پر جماعت اسلامی کا شکریہ ادا کیا۔ حسب معمول جماعت اسلامی کی الخدمت فاؤنڈیشن کے کارکن سب سے پہلے اپنے پاکستانی بھائیوں کی مشکل کی گھڑی میں امداد پہنچانے ان کے گھروں تک پہنچے۔امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے ساری مصروفیا ترک کر سیلاب زدہ علاقہ آج بونیر جا رہے ہیں۔

    الخدت فاؤنڈیشن نے بونیر کے متاثرہ علاقوں میں فری میڈیکل کیمپس قائم کیا ہے۔ ڈاکٹرز پیرامیڈیکل عملے کی بڑی تعداد، پچیس ایمبولنس، تین ہیلتھ یونٹس خدمت کرنے میں مصروف ہیں۔جماعت اسلامی کے نائب امیر ڈاکٹر عطالرحمان نے متاثرہ علاقوں کا کادورا کیا اور ریلف کے کام کو دیکھا۔جماعت اسلامی پاکستان خواتین ونگ کی جنرل سیکر ٹیری ڈاکٹرحمیرا طارق نے خیبرپختوخوا میں جانی مالی نقصانات پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہارکیا۔جماعت اسلامی سندھ کے امیر کاشف سعید شیخ نے خیبرپختوخوا سمیت آزاد کشمیت گلگت میں آسمانی بجلی، باد ل پھٹے اورسیلابی تباہی سے ہونے والے جانی مالی نقصانات پر دلی دکھ کاظہار کیا۔

    حافظ طاہرمجید امیر جماعت اسلامی ضلع حیدر اآباد نے سیلاب سے تباہی پر دکھ کا اظہار کیا۔ابوالخیرزبیر صدر ملی یکجہتی کونسل نے حکومت خیبرپختونخوا میں ریسکو آپریشن تیزکرنے کا کہاہے۔سیلاب میں بہادری کامظاہرہ کرنے والے نوجوان محمد بلال اور عصمت علی کو دس دس لاکھ روپے انعام کے طور پر خیبر پختونخوا نون لیگ کے صدر امیر مقام نے پیش کئے. بیرونی دنیا میں دوست ملکوں کی بات کی جائے تو جاپان،آسٹریلیا، سعودی عرب، ایران، کویت کی طرف سے طوفان بارشوں کی وجہ سے پاکستان میں جانی اور مالی نقصانات اظہار افسوس کیا ہے۔ روس کے صدر پیوٹن نے ایک خط کے ذریعے صدر پاکستان آصف علی زرداری کو سیلاب سے جانی نقصان پر دکھ کا اظہار کیاہے۔

    مشکل کی اس گھڑی میں اسلامیہ جمہوریہ پاکستان مثل مدینہ ریاست کے تمام شہری اپنے پاکستانی بھائیوں کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں۔ مختلف فلاحی ادارے سیلاب زدگان کی اپنے اپنے طور پر مدد کر رہے ہیں۔اللہ ہمارے پیارے اسلامی پاکستان کواپنی حفاظت میں کھے. آمین۔

  • آپ کی طاقت خود کو بدلنے میں ہے یا خود کو سمجھنے اور ماننے میں – عبدالعلام زیدی

    آپ کی طاقت خود کو بدلنے میں ہے یا خود کو سمجھنے اور ماننے میں – عبدالعلام زیدی

    یہ دو الگ الگ دنیا ہیں ۔ ایک دنیا وہ ہے جو آپ کو بدلنے کی طرف بلاتی ہے ، خود کو بدلو ۔ ( یاد رہے کہ یہاں بدلنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نئے علوم سیکھے جائیں ، یا اگر آپ اسلام کے کسی حکم کی خلاف ورزی کر رہے ہیں تو اس سے خود کو روکیں۔ ہم اس حوالے سے بات نہیں کر رہے ۔ )

    بدلنے کا مطلب ہے کہ اپنی شخصیت کو بدل دو ، اگر آپ حساس دل انسان ہو تو بھائی خود پر مضبوطی کا خول چڑھا لو اور ایموشنلی طاقتور دکھائی دو ، یا اگر آپ لوجیکل انسان ہو ، جسے جذبات زیادہ متاثر نہیں کرتے تو آپ خود کو ایموشنل بنا لو ۔
    تو ایک دنیا آپ کو اس تبدیلی کی دعوت دیتی ہے ، کیونکہ اسے لگتا ہے کہ یہ چیز آپ کے آگے بڑھنے میں روکاوٹ ہے ، پیسے کمانے میں ، فوکس کرنے میں ، پلاننگ کرنے میں اور قدم اٹھانے کی ہمت کرنے میں، آپ کا ایموشنل ہو کر سوچنا روکاوٹ ہے ۔ لہذا خود کو مضبوط کرو ، یعنی اس شخصیت سے نکل کر ایک دوسری پرسنٹلی بن جاو ۔

    جبکہ دوسرا ماڈل یہ ہے کہ ، نہیں بھائی ، آپ جیسے ہو ، ویسے ہی رہو ، ہاں زندگی کی سکلز سیکھو ، ایموشنز سے ڈیل کرنا سیکھو، خود کو بہتر کرو ۔ مگر آپ جیسے ہو ، وہی آپ کی طاقت ہے ، وہی آپ کے لیے راستے کھولے گا ۔ یہ ماڈل فطرت کے بہت قریب ہے ۔ اور سیرت النبی ﷺ بھی اسی کو سپورٹ کرتی ہے ۔نبی کریم ﷺ کے صحابہ میں بعض عمر رضی اللہ عنہ والی طبیعت رکھتے تھے ، تو بعض ابو بکر اور بعض عثمان غنی ، تو بعض علی رضی اللہ عنہ جیسا مزاج رکھتے تھے ۔ ہر ایک الگ الگ تھا ۔ آپ ﷺ نے ان کی پرسنلٹی کو نہیں بدلا ، وہ جیسے تھے وہ آخر تک ویسے رہے ۔ اس وجہ سے ان کے انداز اور طریقہ کار الگ الگ ہوئے ، اختلافات بھی ہوئے ، مگر انہیں جیسے وہ تھے ویسا قبول کیا گیا ۔

    اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ دنیا بہت ملٹی دائیمنشن ہے ، یہاں خدا کی رنگ برنگی مخلوقات ، اسباب اور مسائل ہیں ۔ آگے بڑھنے ، قیادت کرنے ، انسانوں کو چلانے ، سسٹم بنانے اور سنبھالنے کے لئے آپ کو بھی مختلف میدانوں اور انداز سے کام کرنا پڑتا ہے ، اسی لیے اللہ نے مختلف طبیعتیں اور مزاج بنائے ہیں ۔ جن میں ہر ایک کے لیے آگے بڑھنے کے لیے اللہ نے دروازے رکھے ہیں ۔ جو دروازہ ایک ایموشنل بندہ کھول سکتا ہے وہ ایک لوجیکل مائنڈ نہیں کھول سکتا ، اور جسے لوجیکل کھول سکتا ہے اس تک ایموشنل اپروچ نہیں کر سکتا . اس لیے آپ جیسے ہیں ، اس پر خوش اور مطمئن رہیں اور اپنے بارے میں کسی قسم کے گلٹ کا شکار نہ ہوں ، اس وقت اگر آپ تکلیف میں ہیں تو یقین رکھیں یہ تکلیف ختم ہو جائے گی اور جلد آسانی ہو گی ۔ اپنی شخصیت کو ہی اپنی قوت سمجھیں ۔

    اللہ کی نعمت محسوس کریں اور اللہ کا شکر ادا کریں ۔ آپ جس عمر میں ہیں ، جس رنگ میں ہیں ،جس ملک اور قوم میں ہیں. جن حالات میں ہیں ، وہی آپ کے لیے طاقت اور آگے بڑھنے کے لیے ایندھن کا کام کریں گے ۔ اپنے آپ کو بدلنے کی فکر میں مبتلا ہونے والا ، اپنے آپ سے ناخوش اور ناراض انسان ایک تو اللہ کی نعمت کے احساس اور شکر گزاری سے محروم رہتا ہے. اور دوسرا وہ ان دروازوں کو نہیں دیکھ پاتا کہ جو خدا نے اس کے لیے خیر اور بھلائی پانے کے لیے رکھے ہیں ۔ یقیناً اللہ نے ہمیں جس حال میں رکھا ہے ، وہیں سے اس میں ہمیں زمین میں قوت ، خوشی ، راحت اور سب سے بڑھ کر دنیا کی بھلائیوں کے ساتھ آخرت میں جنت پانے کا راستہ بھی رکھا ہے۔

    تو آئیں مل ایک دوسرے کو احساس دلائیں کہ تم صحیح ہو ، تم خیر پر ہو ، تم بھلائی پر ہو ، آج کے دور میں یہ ایک بہت بڑی نیکی ہے ۔ آئیے خیر کے اس سفر میں ہمارے ہم سفر بنیں ، ہمیں جوائن کریں ۔ تاکہ خود سے مطمئن رہیں اور اللہ کی رحمت سے آگے بڑھنے کے دروازوں کی بڑھیں !

  • ہم کہاں کھڑے ہیں؟ 78 سال بعد کا محاسبہ – سمیع الحق ایبٹ آبادی

    ہم کہاں کھڑے ہیں؟ 78 سال بعد کا محاسبہ – سمیع الحق ایبٹ آبادی

    78 سال کا طویل عرصہ پاکستان بننے کو ہوچکا. آزادی کی نعمت بہت بڑی نعمت ہے. اس پر اللہ رب العزت کا جس قدر شکر ادا کیا جائے کم ہے، لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ جن مقاصد کے لیے ہم نے ملک پاکستان حاصل کیا تھا .ہم ہمیشہ ان مقاصد کے حصول میں ناکام رہے اور آج بھی ناکام ہیں .

    اسلام ایک کامل اور مکمل دین ہے اور یہی دین ایک انسان کے لیے مکمل ضابطہ حیات ہے. اور قرآن پاک کی رو سے حضور نبی اکرم علیہ السلام کی ذات اقدس ہر مسلمان کے لیے نمونہ اور آئیڈیل کی حیثیت رکھتی ہے. ایک مسلمان کی کامیابی کا راز اسی میں مخفی ہے کہ وہ قول و فعل میں مکمل اتباع نبوی کرے .چاہے وہ جس شعبہ سے بھی متعلق ہو سب سے عظیم مدبر اور منصف لیڈر خود حضور نبی اکرم علیہ السلام کی ذات ہے. اور پھر آپ کے بعد ایک مثالیی دور آپ ہی کی منتخب کردہ قیادت” خلفاء راشدین “کی ہے.

    لہذا ایک حکمران اور لیڈر کی کامیابی اسی میں ہے کہ وہ سیاست میں حضور نبی اکرم علیہ السلام اور آپ کی منتخب کردہ جماعت کی مکمل پیروی کی. جن مقاصد کے حصول کو انہوں نے سر فہرست رکھا اسے سرفہرست رکھنے میں ہی ہماری کامیابی ہے. یہی وجہ ہے کہ جب سے ہم نے اتباع نبوی کو پس پشت ڈالا تو ذلالت اور ناکامی ہمارا مقدر بنی آج ظالم کے خلاف اور مظلوم کے حق میں آواز اٹھانا ہمارے لیے مشکل ہے. حالانکہ حضور نبی اکرم علیہ السلام اور خلافت راشدہ کے بابرکت دور کے بیسیوں واقعات اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ انہوں نے ہر فورم پر ظالم سے مظلوم کا حق دلوایا .

    لیکن افسوس اس بات پر ہے کہ اتباع نبوی تو دور کی بات ہم نے تو بانیان پاکستان کے مقاصد کو بھی پس پشت ڈال دیا اور معاملہ اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ ظالم کے خلاف آواز اٹھانے کے بجائے ہم مظلوم کے خلاف کھڑے نظر آتے ہیں .

    کیا تحریک آزادی سے بانیان پاکستان کا مقصد شعائر اسلام کی توہین تھا؟
    کیا تحریک آزادی سے بانیان پاکستان کا مقصد مظلوم کے حق میں اور ظالم کے خلاف خاموشی اختیار کرنا تھا؟
    کیا تحریک آزادی سے بانیاں پاکستان کا مقصد نفاذ اسلام نہیں تھا؟
    کیا اندرونی اور بین الاقوامی سطح پر ظلم کا خاتمہ اور امن کی فراہمی بانیاں پاکستان کا مقصد نہیں تھا؟
    اگر ان مقاصد کے حصول میں ہم ناکام رہے اور یقینا ناکام رہے تو پھر علامہ اقبال کے اس شعر کا مصداق ہم ہی ہیں .

    [poetry]تھے تو آباء وہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو
    ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو [/poetry]

    78 سال بعد ملک پاکستان کی اس گھمبیر حالت کو دیکھ کر بے اختیار زبان سے یہ الفاظ نکلتے ہیں:

    [poetry]میں تو ہر طرح سے اسباب ہلاکت دیکھوں
    اے وطن کاش تجھے اب کے سلامت دیکھوں
    وہ جو بے ظرف تھے اب صاحب میخانہ ہوئے
    اب بمشکل کوئی دستار سلامت دیکھوں
    اس راہ میں جو سب پہ گزرتی ہے وہ گزری
    تنہا پس زنداں کبھی رسوا سربازار
    گرجے ہیں بہت شیخ سرگوشہ ممبر
    کڑکے ہیں بہت اہل ستم برسردربار
    چھوڑی نہیں غیروں نے کوئی ناوک دشنام
    چھوٹی نہیں اپنوں سے کوئی طرز ملامت
    اس عشق نہ اس عشق پہ نادم ہے مگر دل
    ہر داغ ہے اس دل میں بجز داغ ندامت[/poetry]

    بہرحال اللہ پاک ملک پاکستان کو سلامت رکھے اور ظالم و جابر حکمرانوں سے اس ملک کی حفاظت فرمائے اور ملک پاکستان کی جانب میلی نگاہ سے دیکھنے والوں کو ہدایت عطاء فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین۔ پاکستان زندہ باد!

  • پاکستان، اللہ کی نشانی ہے – عبدالجبار سلہری

    پاکستان، اللہ کی نشانی ہے – عبدالجبار سلہری

    تاریخ میں کئی ریاستیں معرضِ وجود میں آئیں، مگر دنیا میں دو ریاستیں ایسی قائم ہوئیں جن کی بنیاد خالص دینی نظریات پر رکھی گئی. ایک اسرائیل اور دوسری پاکستان….

    پاکستان جس کی اساس لا الٰہ الا اللہ پر رکھی گئی. نہ تو صرف سیاسی جدو جہد کا نتیجہ تھا، نہ ہی کسی جغرافیائی تقسیم کا اتفاق. بلکہ یہ تو دعائے مظلوم، اشکِ مجاہد اور نعرۂ تکبیر کا وہ معجزہ تھا جو صدیوں کے جبر کے بعد تقدیر کی کتاب سے ابھرا۔ قائد اعظم کے فرمان کے مطابق پاکستان اسی روز قائم ہو گیا تھا جب برصغیر میں پہلے شخص نے کلمہ شہادت پڑھا تھا۔ تب سے اب تک توحید کے ہر پروانے کے دل میں محبت پاکستان کی شمع روشن ہے۔ الکھ نگری صفحہ 968 پر ممتاز مفتی لکھتے ہیں کہ 1857ء میں جب ہندوستان میں پہلی جنگِ آزادی لڑی گئی، نے فرنگی عہد کا نام و نشان مٹا دیا۔ تب حضرت مہاجر مکّیؒ نے ایک علاقے پر قبضہ کرکے وہاں اسلامی حکومت قائم کر لی۔

    یہ اسلامی حکومت کچھ عرصہ قائم رہی پھر انگریزوں نے اپنا لشکر روانہ کرکے فرنگی فوج، توپ، بندوق، اسلحہ، کیمپ اور نفری منگوائی اور ہر ممکن کوشش کرکے اس حکومت کا خاتمہ کرنے کی کوشش شروع کر دی۔ انہوں نے حضرت مہاجر مکّیؒ کی اسلامی ریاست کا خاتمہ کر دیا۔ گولا باری کی اور اس میں شدت بڑھا لی، حضور مہاجر مکّیؒ کو گرفتار کر لیا گیا۔ حضرت مہاجر مکّیؒ کا مسلمانوں میں بڑا اثر و رسوخ تھا، یہاں تک کہ غیر مسلم بھی ان کا احترام کرتے تھے۔ انگریز ڈرتا تھا کہ حضور کی گرفتاری پر حالات خراب نہ ہو جائیں، ساتھ ہی وہ اپنا وقار قائم رکھنے کے لیے ضروری سمجھتا تھا کہ ان کی بے توقیری کرے، لہٰذا انگریز نے حضور کے ہاتھ باندھ دیے اور بر سرِ عام ان کا جلوس نکالا۔

    ایک لحیم شحیم مجذوب نے جلوس کے راستے کو روک لیا، وہ حضور سے مخاطب ہوا:
    ”دیکھ یہ نا سمجھیو کہ تمہاری کوشش ناکام گئی جو بیج تو نے بویا ہے، نوے سال بعد اس میں سے کونپل پُھوٹے گی۔“
    نوے سال بعد قیامِ پاکستان عمل میں آیا۔ حضرت مہاجر مکّیؒ کے آخری مرید جناب حاجی عبدالمجید نے جن کا سال ہی میں اسلام آباد میں انتقال ہوا، یہ چمکتا ایک تارا ہوا، انہوں نے اس واقعے کی تصدیق کی۔ جب 23 مارچ 1940 کو لاہور کے منٹو پارک میں قائداعظم محمد علی جناحؒ نے علیحدہ ریاست کی بات کی، تو بہت سوں نے اسے خام خیالی سمجھا۔ مگر یاد رکھو، بقول شاعر:

    [poetry] جو کر رہا ہے فلک، نقش پاۓ تقدیر
    وہ خاک کیا جانے، خاک میں کیا چھپا ہے؟[/poetry]

    قیامِ پاکستان، درحقیقت، ایک مظلوم قوم کی اجتماعی دعاؤں کا ایسا قبول شدہ لمحہ تھا، جو اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نمایاں نشانی بن کر ابھرا۔ سورہ آل عمران آیت 160 میں اللہ فرماتا ہے:
    ”اگر اللہ تمہاری مدد کرے، تو کوئی تم پر غالب نہیں آ سکتا۔“

    کیا یہ آیت پاکستان کے قیام پر صادق نہیں آتی؟ برطانیہ جیسی سلطنت، ہندو اکثریت کی سازشیں، سکھوں کی عداوت، اور داخلی کمزوریاں ان سب کے باوجود ایک ایسی ریاست کا وجود میں آ جانا جو کلمہ گو افراد کی پناہ گاہ ہو، یہ خود ربّ کی مدد کی دلیل نہیں تو اور کیا ہے؟ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے نمرود کی سلطنت کو للکارا، تو آگ کو پھولوں کا بستر بنا دیا گیا۔ بعینہٖ، جب برصغیر کے مسلمان اپنی شناخت کے لیے اٹھے، تو انگریز کی سیاست، ہندو کی معیشت اور سکھ کی بندوق، تینوں نے مل کر مخالفت کی۔ مگر قدرتِ خداوندی کا فیصلہ کچھ اور تھا بقول شاعر :

    [poetry]جلا کے رکھ دیا ظلمت کو جس چراغ نے
    وہ ایک ننھا سا شعلہ، پاکستان ہے![/poetry]

    پاکستان ایک نظریہ ہے، زمین کا ٹکڑا نہیں۔ یہ نظریہ اسلام کے آفاقی اصولوں پر مبنی ہے۔ مساوات، عدل، اخوت، اور حریتِ فکر۔ لیکن افسوس، آج ہم نے اس نظریے کو فقط یومِ آزادی کی تقریروں تک محدود کر دیا ہے۔ جب نظریہ کمزور ہو تو زمین خطرے میں آ جاتی ہے۔ پاکستان کا مطلب، لا الہ الا اللہ، صرف ایک نعرہ نہیں تھا بلکہ ایک عہد تھا کہ ہم اس ملک کو قرآن و سنت کے مطابق چلائیں گے۔ مگر کیا آج کا پاکستان اس عہد پر قائم ہے؟ یہ سوال ہمیں روزانہ اپنے ضمیر سے پوچھنا ہوگا۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے 28 مارچ 1941 کو دہلی میں فرمایا:

    ”پاکستان کا مطلب صرف ایک ریاست حاصل کرنا نہیں، بلکہ اسلام کے اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی ہے۔“ (خطباتِ قائداعظم، مطبوعہ نیشنل بک فاؤنڈیشن)
    اسی طرح علامہ اقبال نے اپنے خطبہ الہٰ آباد 1930 میں فرمایا تھا:
    ”میں مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ ریاست چاہتا ہوں جہاں وہ آزادانہ اسلامی اقدار کے مطابق اپنی زندگی گزار سکیں۔“
    ( Speeches and Writings of Iqbal, edited by Latif Ahmad Sherwani)

    اللہ کی نشانی کیا ہوتی ہے؟ سورہ حم سجدہ آیت 53 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
    ”ہم انہیں اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور ان کے اندر بھی، یہاں تک کہ ان پر واضح ہو جائے کہ یہ (اسلام) ہی حق ہے۔“
    کیا پاکستان ایک ایسی نشانی نہیں جو آفاقی طور پر اسلام کی حقانیت، مسلمانوں کی بقا اور اللہ کی قدرت کا مظہر و کرشمہ ہے؟

    یاد رکھو!
    یہ سرزمینِ پاک محض ایک نقشہ نہیں، یہ ایک عہدِ خداوندی ہے۔ یہاں غداری محض جرم نہیں، قانونِ قدرت کی ضد ہے اور جو بھی اس ضد پر ڈٹا، وقت نے اُسے عبرت کا نشان بنا کر تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا۔
    لیاقت علی خان نے جب ریاست کے نظریے پر پہلا سمجھوتہ کیا، گولی نے فیصلہ سنا دیا۔ سکندر مرزا نے آئین کی قبر کھودی، لندن کے ہوٹلوں میں برتن دھو کر کفارہ ادا کیا۔ ایوب خان نے جمہوریت کا گلا گھونٹا، انجام گوشۂ گمنامی میں رُلنا لکھا گیا۔

    یحییٰ خان نے ملک توڑا، مے کشی میں برباد ہوا، کوئی فاتحہ خوانی کو نہ آیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے قوم کو نعرے بیچے، اسی تختۂ دار پر جھولے جہاں انصاف پکار رہا تھا۔بینظیر بھٹو نے بیرونی ایجنڈے کی گود میں پناہ لی، تو اُسے ایک جلسے میں گولی نے خاموش کر دیا۔ پرویز مشرف نے آئین روند کر ”سب سے پہلے پاکستان“ کہا، اللہ نے اُس پر ایسی بیماری مسلط کی کہ کف افسوس ملتا رہا۔ نواز شریف نے سودی نظام کو پاکستان میں لایا اللہ کو چیلنج کیا، تو تخت سے فرش تک کا منظر نامہ رقم ہو گیا۔زرداری نے ملکی دولت کو اپنی جاگیر سمجھا، تو عوام نے اُسے مسکراہٹوں میں دفن کر دیا۔ عمران خان نے ریاست مدینہ کا نام لے کر فتنہ کھڑا کیا، تو آج وہ تنہائی، رسوائی اور بند دروازوں کا قیدی ہے۔

    جس نے بھی اس مٹی کے نظریے سے کھلواڑ کیا، اللہ نے اُسے زمین پر رسوا اور آسمان پر لعنت زدہ کر دیا۔یہ صرف سیاسی تاریخ نہیں، یہ ربِ ذوالجلال کا نظامِ عدل ہے، جو ہر فرعون کے لیے ایک موسیٰ رکھتا ہے، ہر نمرود کے لیے ایک ابراہیم، اور ہر ابو جہل کے لیے ایک بدر۔ پاکستان اللہ کے نام پر بنا ہے، جو بھی اس کے خلاف چلا، وہ یا تو گولی سے مارا گیا، یا بیماری سے، یا ذلت سے، یا خاموش موت سے۔ سب نشانِ عبرت بنے، سب کی قبریں گواہ ہیں۔ یہ رب کی زمین ہے. یہاں غداروں کے لیے جگہ نہیں۔ یاد رکھو! تاریخ خاموش نہیں، ہر چوراہے پر دہائی دیتی ہے:
    ”جس نے پاکستان کے ساتھ غداری کی، وہ آج نشانِ عبرت ہے!“

    پاکستان کو فقط زندہ قومیں ہی سنبھال سکتی ہیں۔ وہ قومیں جو ماضی کو آئینہ بنائیں، حال کو چراغ، اور مستقبل کو مقصد۔ ہمیں اپنے دلوں میں یہ ایمان تازہ کرنا ہوگا کہ پاکستان فقط ہمارا وطن نہیں، یہ اللہ کا انعام ہے۔ ایک نشانی، ایک امانت۔ بقول شاعر:

    [poetry] یہ خاکِ پاک جسے خون سے تم نے سیراب کیا
    یہ ہے وہ باغ جسے رب نے عطا کیا![/poetry]

    آئیے، دعا کریں کہ ہم اس نشانی کے محافظ بن سکیں۔ نہ صرف زبان سے ”پاکستان زندہ باد“ کہیں، بلکہ عمل سے ”اسلام زندہ باد“ ثابت کریں کیونکہ یہی پاکستان کی اصل روح ہے، یہی اس کی پہچان، اور یہی اس کی بقا۔

  • جشنِ آزادی کا حاصل، شور یا شعور؟ –  زید محسن

    جشنِ آزادی کا حاصل، شور یا شعور؟ – زید محسن

    شعور کی دنیا لا شعوری کی دنیا سے بڑی عجیب تر ہوتی ہے اور ہماری دنیا میں جس شعور کے ساتھ لا شعوری قوم میں ڈالی جاتی ہے اگر اس کا شعور کسی کو مل جائے تو اس کیلئے بیٹھنا تک محال ہو جائے۔ اگر ذرا غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ شعور اور شور میں صرف ایک “ع” کا فرق رہ جاتا ہے، لیکن یہ “ع” ہی عین وہ چیز ہے جو شعور کو شور سے ممتاز کرتا ہے۔

    اس کو آپ “علم” کا “ع” سمجھ لیں، کیونکہ جہاں علم وعرفان نہ ہو وہاں صرف بے ترتیبی ہوتی ہے، اور بے ترتیبی کا نتیجہ عدمِ توازن نکلتا ہے جس کی وجہ شعور نہ ہونا ہے۔ اگر شعور سے یہ “ع” نکال دیا جائے تو بغیر علم کے کھوکھلا پن رہ جاتا ہے، گویا کے کوئی ڈھول ہو اور صرف شور ہی شور ہو۔ پاکستان کی آزادی کو اسّی سال ہونے کو ہیں، آٹھ دہائیوں پر محیط عمر اس ملک کی ہونے والی ہے، کوئی تیسری نسل ہے جو اس ملک کو کھلی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے، لیکن ذرا مڑ کر دیکھا جائے تو لگتا ہے سالوں کے فاصلوں اور دہائیوں کے سفر کو طے کرتے کرتے آزادی کا حقیقی شعور ہمارے لئے متاعِ گم گشتہ ہو چکا ہے اور ہم ہر سال شعور کی سیڑھیاں چڑھنے کے بجائے شور کی منازل طے کر رہے ہیں۔

    ہم اپنے آزادی کے مقاصد کو بھلا کر اور ان مقاصد کی تکمیل کیلئے کوشش کرنے کے بجائے روز بروز آلات ضرب و طرب میں آگے بڑھتے جا رہے ہیں ، اور شعور کی جگہ شور کو دئے چلے جا رہے ہیں۔ سس قوم کی کر ہر نئی پود آزادی کے لیے دی گئی قربانیوں کو بھلا کر اور اس سے اسباق و شعور حاصل کرنے کے بجائے بس آزادی کا شور و غوغا مچانے، گلچھڑے اڑانے اور ناچنے، گانے میں مصروف ہیں۔

    مجھے تو بارہا منٹو کے افسانے کی وہ مائی یاد آ جاتی ہے جس کا سب کچھ آزادی کی راہ میں لٹ چکا تھا، مال و دولت کی فراوانی چھن چکی تھی، پھر جب اس نے نئی نسل کو آزادی کی بے قدری کرتے دیکھا اور اس آزادی سے فائدہ اٹھا کر بجائے با شعور بننے کے بے ہنگم سے شور کو بپا کرتے دیکھا تو تڑپ کر کہا:
    “خدا تمہیں ایک بار پھر آزادی کی جد وجہد سے گزارے تو تمہیں بھی معلوم چلے کہ آزادی نعمت کتنی بڑی ہے، اور اس نعمت کے حصول میں کلفت کتنی زیادہ ہے”

    آمدم بر سرِ موضوع!
    بات یہ ہے کہ ہم بحیثیتِ مجموعی ایک طرح کے دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں جسے لا شعوری کا دلدل کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ اور جب کوئی معاشرہ لا شعوری کے مرض میں مبتلا ہو جائے تو اس کو بہت سے امراض از خود آ گھیر لیتے ہیں، جیسے خود فریبی، اخلاقی پستی، سیاسی بے ہنگمی اور بہت کچھ، ان سب کا لازمی نتیجہ جو نکلتا ہے جسے “شور” سے تعبیر کیا جاتا ہے، کیونکہ صحیح غلط میں تمیز کرنے کا شعور تو ہوتا نہیں تو پھر ہر چیز کا شور ہی شور ہوتا ہے۔

    جاپان کے حوالے سے ایک بات بڑی مشہور ہے کہ آزادی کے بعد سے ایک عرصہ تک ان کا یہ معمول رہا کہ جب بھی ان کا یومِ آزادی آتا تو وہ اس روز دو گنا کام کرتے اور اپنے اندر اگر کہیں لا شعوری کا مرض پایا بھی جانے لگتا تو اس کو اس روز خوب محنت کر کے مٹاتے، یوں ایک بار پھر وہ اپنی آزادی کی قدر وقیمت کو سمجھ پاتے، اور اپنے مقاصد کے شعور کو اجاگر کر پاتے، جس کا نتیجہ آج ایک با شعور معاشرے کا وجود ہے۔

    لیکن ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ہر چیز کو سیلیبریٹ کرنے لگتے اور ہر موقع کا جشن منانے لگتے ہیں، اوپر سے جشن بھی کچھ اس انداز سے مناتے ہیں کہ جس سے شور تو بہت ہو، لیکن شعور کا وجود ہی مسخ ہو جائے۔۔۔۔اور یہیں سے ہم نے یومِ آزادی کو بھی صرف یومِ جشن بنانے کی رسم ڈال لی ہے کہ اس دن ہم شعور سے بالا اور شور پر مبنی ہر طرح کی سرگرمیاں کرتے ہیں اور یومِ آزادی کے حقیقی تصور کو مسخ کرتے چلے جاتے ہیں۔

    لیکن ایک سچ یہ بھی ہے کہ جس طرح کچھ لوگ مکمل شعور کے ساتھ لا شعوری کو بڑھانے اور پھیلانے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں، اگر اسی طرح کچھ لوگ خالص ہو کر اس لا شعوری کو مٹانے اور با شعور معاشرہ پیدا کرنے کی کوشش کریں تو یقینا کوششیں رائگاں نہیں جایا کرتیں، بلکہ محنتیں رنگ لاتی ہیں اور کاوشیں منزل پاتی ہیں۔ اس لئے آج ہی عزم کریں کہ ہم نے بے ہنگم سے شور میں شعور کو جگہ دینی ہے، اور ایک مثبت معاشرے کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کرنا ہے، اس یقین کے ساتھ کہ:

    ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

  • سعودی عرب، سیاحت کی دنیا کا نیا مرکز – کامران اشرف

    سعودی عرب، سیاحت کی دنیا کا نیا مرکز – کامران اشرف

    2025 کی پہلی سہ ماہی میں سعودی عرب نے عالمی سیاحت کے نقشے پر ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ اقوامِ متحدہ کی سیاحت کی تنظیم (UNWTO) کی حالیہ رپورٹ کے مطابق مملکتِ سعودی عرب بین الاقوامی سیاحتی آمدنی میں دنیا بھر میں پہلے نمبر پر آ چکا ہے، جب کہ سیاحوں کی تعداد میں 102 فیصد اضافہ ریکارڈ ہوا ہے، جو عالمی سطح پر تیسری بڑی شرح ہے۔ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ سعودی عرب عالمی سیاحت کا مرکز بننے کی طرف گامزن ہے۔

    یہ کامیابی اچانک حاصل نہیں ہوئی بلکہ وژن 2030 کے تحت کئی سالوں سے جاری مربوط حکمت عملی، پالیسی اقدامات، اور سرمایہ کاری کا نتیجہ ہے۔ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی قیادت میں سعودی عرب نے روایتی معیشت سے ہٹ کر سیاحت، تفریح، اور ثقافتی ترقی کے شعبوں میں ایک نیا راستہ چنا، جو آج اپنی کامیابیوں سے دنیا کو حیران کر رہا ہے۔ سعودی عرب نے صرف جدید انفراسٹرکچر اور آسان ویزا پالیسیوں پر انحصار نہیں کیا بلکہ اس نے اپنے تاریخی مقامات کو محفوظ بنایا، جدید طرز پر ترقی دی اور دنیا کو وہ چہرہ دکھایا جو طویل عرصے سے پس پردہ تھا۔

    نیوم، العلا، البحر الاحمر اور دیگر میگا پراجیکٹس نہ صرف سعودی عرب کی اقتصادی قوت کی علامت ہیں بلکہ اس کے ثقافتی فخر کی تصویر بھی ہیں۔ مملکت نے قدیم ورثے اور جدید تقاضوں کے امتزاج سے ایک ایسا سیاحتی ماڈل پیش کیا ہے جو باقی دنیا کے لیے ایک مثال بنتا جا رہا ہے۔اس وقت جب دنیا کی بیشتر سیاحتی معیشتیں کووڈ کے اثرات سے سنبھل رہی ہیں، سعودی عرب نے جس رفتار اور تیاری کے ساتھ دنیا بھر سے سیاحوں کو متوجہ کیا ہے، وہ غیر معمولی ہے۔ یہ نہ صرف آمدنی میں اضافے کا سبب بن رہا ہے بلکہ نوجوانوں کے لیے ملازمتوں کے مواقع، مقامی صنعتوں کی بحالی، اور عالمی سطح پر سعودی ساکھ کو بہتر بنانے میں بھی کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔

    وزارتِ سیاحت کا نعرہ “ہمارا ملک، ان کی پسندیدہ منزل” اب صرف ایک تشہیری جملہ نہیں رہا بلکہ ایک حقیقت میں بدل چکا ہے۔ سعودی عرب کو اب صرف سیاحتی نقشے پر ایک مقام نہیں ملا، بلکہ اسے عالمی اعتماد، ثقافتی وقار اور معاشی خود انحصاری کا ایک نیا حوالہ بھی حاصل ہو گیا ہے۔یہ کامیابی سعودی قوم کے لیے باعثِ فخر ہے، لیکن اس کے ساتھ یہ ذمہ داری بھی لاتی ہے کہ معیار برقرار رکھا جائے، ترقی کی رفتار کم نہ ہو، اور آنے والے برسوں میں سعودی عرب دنیا کا وہ ملک بنے جسے سیاحت، ثقافت اور مہمان نوازی کے حقیقی مرکز کے طور پر پہچانا جائے۔

  • زندگی کا اصل مقصد کیا ہے؟ – نقطۂ نظر

    زندگی کا اصل مقصد کیا ہے؟ – نقطۂ نظر

    ہم روز صبح بیدار ہوتے ہیں، اپنے دن کے معمولات میں مصروف ہو جاتے ہیں. ناشتہ، دفتر یا تعلیمی ادارہ، واپسی، کھانا، اور پھر رات کو سونا۔ اسی چکر میں ہفتے، مہینے اور سال گزر جاتے ہیں۔ لیکن کیا کبھی ہم نے رُک کر یہ سوچا کہ ہم یہ سب کچھ کیوں کر رہے ہیں؟
    ہماری زندگی کا اصل مقصد کیا ہے؟
    کیا ہم صرف وقت کاٹ رہے ہیں یا کسی بڑے مقصد کے لیے جی رہے ہیں؟

    زندگی ایک بےترتیب اتفاق نہیں، بلکہ ایک سنجیدہ تحفہ ہے۔ اور ہر تحفے کی ایک ذمہ داری ہوتی ہے۔ جب تک انسان اپنی زندگی کے معنی تلاش نہیں کرتا، وہ محض ایک کٹھ پتلی کی مانند جیتا ہے، جو دوسروں کے فیصلوں، توقعات اور حالات کے دھارے میں بہتا چلا جاتا ہے۔دنیا کی تمام بڑی شخصیات ، چاہے وہ پیغمبر ہوں، مصلحین، سائنسدان، مصور، ادیب یا دانشور ، ان سب کی زندگیوں میں ایک قدر مشترک تھی: وہ جانتے تھے کہ وہ کیوں جی رہے ہیں۔ اُن کے پاس ایک واضح مقصد تھا جس کے لیے وہ ہر دن جیتے، جدوجہد کرتے، تکلیفیں برداشت کرتے اور کبھی ہار نہیں مانتے۔

    زندگی کا مقصد ہمیشہ کوئی عظیم کام کرنا نہیں ہوتا۔ بعض اوقات صرف کسی ایک انسان کی زندگی میں مثبت تبدیلی لانا بھی ایک بڑا مقصد ہوتا ہے۔ اگر ایک استاد اپنے شاگرد کو بہتر انسان بنا دے، اگر ایک ماں اپنے بچوں کی تربیت اخلاص سے کرے، اگر ایک فرد کسی بے سہارا کے لیے سہارا بن جائے — تو یہ سب بھی بامقصد زندگی کی مثالیں ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے، آج کا انسان مصروف بہت ہے مگر مربوط نہیں۔ وہ کام تو بہت کرتا ہے، مگر اسے معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کیا حاصل کرنا چاہتا ہے۔

    وہ دوسروں کی کامیابیوں کو دیکھ کر اپنے آپ سے سوال کرتا ہے، مگر اندر سے خالی محسوس کرتا ہے۔ اس خلا کو بھرنے کے لیے یا تو وہ مادی اشیاء جمع کرتا ہے یا سوشل میڈیا پر مصروف رہتا ہے، مگر یہ سب وقتی خوشی دیتے ہیں، اصل سکون نہیں۔ زندگی کا مقصد تلاش کرنے کے لیے سب سے پہلے ضروری ہے کہ انسان خود کو سمجھے۔ اپنی فطرت، اپنی صلاحیتیں، اپنے رجحانات، اپنی کمزوریاں جب انسان خود سے واقف ہو جاتا ہے، تو دنیا کی ہر آواز سے زیادہ اس کی اپنی آواز اسے واضح سنائی دیتی ہے۔ پھر وہ دوسروں کی تقلید نہیں کرتا، بلکہ اپنی راہ خود بناتا ہے۔

    یاد رکھیں، مقصد وہی ہوتا ہے جو انسان کو دھوپ میں بھی حوصلہ دے، تنہائی میں بھی یقین دے اور ناکامی میں بھی امید دے۔ یہ مقصد ہمیشہ بلند اور انسانی بھلائی سے جڑا ہوا ہوتا ہے۔تو آئیے، آج ہم خود سے ایک دیانت دار سوال کریں:
    “میں کیوں جی رہا ہوں/ رہی ہوں؟ میرے جینے کا فائدہ اس دنیا کو کیا ہے؟ اگر میں آج دنیا سے چلا جاؤں تو میرے جانے کے بعد کیا یاد رکھا جائے گا؟”

    اگر اس سوال کا جواب واضح نہیں، تو کوئی بات نہیں — زندگی کی اصل خوبصورتی ہی یہی ہے کہ ہم اسے روز نئے انداز سے جینے کی کوشش کریں، روز کچھ نیا سیکھیں، اور ایک دن ایسا آئے جب ہم کہہ سکیں:
    “ہاں، میں جانتا ہوں کہ میں کیوں آیا تھا — اور میں نے اپنا حق ادا کیا۔”

  • میں ایک نیا استاد ہوں – سعید مسعود ساوند

    میں ایک نیا استاد ہوں – سعید مسعود ساوند

    ویسے تو ایک طالب علم ہوں روز کچھ نا کچھ سیکھنے کی کوشش کرتا ہوں، لیکن ان دنوں ایک جگہ استاد کی حیثیت سے براجمان ہوں، اب اپنے آپ کو کتنا ہی طالب علم سمجھوں، یہاں تو ہر طالب علم مجھے استاذ ہی سمجھے گا نا!

    تو میں استاذ کو کون سی ایسی مراعات میسر ہوتی جو پہلے ان کا خواب ہوتی ہیں کا مشاہدہ کر رہا ہوں، اور خود کا محاسبہ بھی۔
    زمانہ طالب علمی میں کوئی بندہ ہم سے نہ جلے، ہم جو کہیں ہو جائے کی ضد ہوتی تھی، تھی تو بے وقوفانہ حرکت مگر ہوتی تھی، وہ اب پوری ہورہی ہے، ایک بیل بجانے پر دو دو طالب علم آکر “جی استاد جی” کہہ کر شرمندہ کر جارہے ہیں۔ ہم ہی سب سے نمایاں ہوں، اگرچہ کارنامہ کچھ نہ ہو بس لوگ ہمیں ہی تکتے رہیں، مگر تب “ایں خیال محال است” تھا، نالائق ہم عصر ہم ہی پر جملے کستے، اور ہم ہی مورد عتاب ہوتے، اب جب کہیں سے گزر ہورہا ہے “یہ ہمارا نیا استاد ہے” کے جملے کانوں میں رس گھول رہے ہیں، سکون اور راحت مل رہی ہے، خدا جانے ان چند لفظوں کے پیچھے ہماری کیا محنت اور خدا کا کتنا فضل پنہاں ہے!

    وہ لب و لہجہ جو اب سے پانچ دن قبل تھا، یکسر بدل گیا ہے، میں بھی خوش نہیں اس سے، میرا مزاج بے تکلفانہ اور دوستانہ ہے، میں بڑوں ہی کے سامنے تھوڑا تکلف کرتا ہوں ، اپنے ہم عمر اور چھوٹوں سے اس طرح رویہ رکھتا ہوں کہ وہ مجھ سے تنگ نہ ہوں۔ اتفاقاً ایک طالب علم سے مسکرا کر بات کر رہا تھا، تو محبوب دوست، جو خود ایک جگہ استاد ہیں، کہنے لگے طلبہ سے اس طرح بات کرکے خود کو آزمائش میں نہ ڈالو، یہ بہت مچلے ہوجاتے ہیں، پھر سیکھنے سکھانے کا عمل رک جاتا ہے۔ ہائے ربا، اب کہاں جائیں ؟ اپنی جبلت اور مزاج کو کہاں دفنائیں؟ کہاں کریں ہم اب لطیفانہ مزاج کا اظہار، کون ہوگا جن سے بے خوف ہوکر ہوگی اب بات؟

    کیا اب یہ تمام تر عادتیں ترک کرنا پڑیں گی ؟ کیا عمر بھر اب مدرسے میں رہ کر مزاح اور شوخیاں نہیں ہوں گی؟ہم تو مدرسے میں بے تکلف اور شائستہ مذاق سے مشہور تھے، ہم تو ہر دوست کو خود سے بے تکلف کرکے ان کے تیکھے میٹھے جملے سنتے تھے، کبھی کوئی دوست مہذب انداز میں بات کرے تو ناراضی کے ڈر سے مارے پھرتے تھے، چائے کے بہانے ان سے عتاب کی وجہ پوچھتے تھے، یہاں تو سب ہی مہذب بلکہ با ادب کھڑے ہیں، ہمارے گزرتے ہی احتراماً پہلے آپ کا نعرہ بلند ہوتا ہے۔ سامنے سے کوئی مذاق کر بھی رہا ہے، تو ڈر کے مارے کہیں استاد کو تکلیف نہ آئے۔ ہماری خاطر تواضع ہورہی ہے جو ہمیں بالکل بھی پسند نہیں ہے۔

    ہائے، کیا رنگ ہیں زمانے کے!
    بہر حال میں ایک استاد ہوں اب بحیثیت استاد میں کیا کرسکتا ہوں۔ میں اپنے طالب علم ساتھیوں کو اپنا چھوٹا بھائی یا بیٹا سمجھ کر ان کی علمی ترقیات میں اضافہ کرسکتا ہوں۔ ہر مشکل موڑ جس میں اسے رہنمائی کی ضرورت ہو بلاجھجک ایک والد اور بڑے بھائی کی مانند تعاون کرسکتا ہوں۔ یہ میری ایک امانت ہیں، امانت میں خیانت جرم ہے، میں ایک امین کی حیثیت سے ان سے برتاؤ کروں گا، تیکھیا میٹھا جہان اگرچہ ہے مگر میں انہیں ان کے مزاج کے مطابق چلاؤں گا.

    مجھے میرا اساتذہ نے ہمدردی محبت اور احساس سکھایا ہے. اب وقت آیا ہے کہ اپنا پڑھا ہوا سبق دوبارہ دہرانے کی کوشش کروں. اپنے اساتذہ کے مزاج میں ڈھل کر وہ حسین و جمیل مزاج ان ننہے منے شہزادوں میں منتقل کروں. خدا مجھے میرے تمام اساتذہ ساتھیوں کو اس روش چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

  • پاک افغان تعلقات اور سہہ ملکی ریلوے لائن  – ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

    پاک افغان تعلقات اور سہہ ملکی ریلوے لائن – ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

    دیر سویر کا کہنا تو ممکن نہیں لیکن خطے کے چند پڑوسی ممالک بتدریج قریب تر ہو رہے ہیں۔ میرے اسلامی جمہوریہ عجم کے خیال پر متعدد آرا موصول ہوئیں۔ سب سے پہلا اور معلومات افزا فون تنظیم اسلامی کے محبی ڈاکٹر ضمیر صاحب کا تھا۔

    ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ افغانستان، ایران اور پاکستان کے ابتدائی اتحاد کا تصور ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ مدتوں قبل پیش کر چکے تھے۔ وہ اسے پی آئی اے (PIA) سے موسوم کیا کرتے تھے. پاکستان (پی) ایران (ائی) افغانستان (اے) کے اس متحدہ یونٹ کا تصور ساتھ لیے ڈاکٹر صاحب مرحوم دنیا سے رخصت ہوگئے۔ اس اتحاد کی عملی شکل ہم میں سے کوئی تو دیکھے گا کہ یہی نوشتہ دیوار ہے۔ دیر سویر کا کسی کو علم نہیں۔ اب یہی نوشتہ دیوار عوامی سطح پر ملاحظہ ہو۔ 1999 میں دوسری نواز شریف حکومت ختم کی گئی تو چند دن بعد جی ٹی روڈ پر ایک پٹھان ٹرک ڈرائیور میز پر مکے مار کر پرویز مشرف کو کوستے ہوئے یہ کچھ کہہ رہا تھا:

    “بھائی صیب! ہمارے ٹرک نے طورخم سے آگے تاشقند کا تیاری کر رکھا تھا۔ بابا، ہم سے پوچھو، ہم جانتا ہے۔ اس موٹر وے نے کیا پیخور میں رک جانا تھا؟ اس نے تو ہمیں ماسکو سے جوڑنا تھا۔ خدا اس جرنیل کا بیڑا غرق کرے۔ ظالم نے یہ کیا”۔ نوشتہ دیوار مٹانا وقت سے پنجہ آزمائی ہے۔ یہ وقت کی وہ انگڑائی ہے جو کسی عہد نو کا سندیسہ ہوا کرتی ہے۔ کل ہی کی خبر ملاحظہ ہو۔ پاکستانی وزیر خارجہ کا دورہ کابل، عبوری افغان وزیراعظم، وزیر خارجہ اور وزیر داخلہ سے ملاقاتیں، پاکستان، ازبکستان، افغانستان ریلوے لائن بچھانے کے معاہدے پر دستخط۔

    تقریبا چھ سو کلومیٹر طویل یہ ریلوے لائن اس خطے کو یوں تبدیل کر دے گی جیسے امریکی 11 ستمبر نے دنیا بدل دی۔ کہنے کو یہ لائن تین ملکوں کے مابین ہوگی لیکن فی الاصل اس کی وجہ سے ہم وسطی ایشیائی ممالک، روس، تمام یورپی ممالک اور اسکنڈے نیویائی ممالک سے جڑ جائیں گے۔ تجارت، سیاحت، تعلیم، تزویراتی تعلقات اور متعدد دیگر شعبوں میں بہتری کے باعث عوام کی زندگی آسان ہو جائے گی۔ یہ ریلوے لائن طاقت کے نئے ابھرتے مراکز کی رگوں میں دوڑتے خون کی ایک رگ ہوگی۔ امید ہے کہ تینوں ممالک اس پر ترجیحاً کام کر کے خطے کو نیا رنگ دیں گے۔ معاہدہ ظاہر کرتا ہے کہ خارجہ امور دفتر خارجہ ہی نمٹائے تو پاک افغان تعلقات خوب سے خوب تر ہوتے چلے جائیں گے۔

    دونوں ملکوں کے مابین ویزے کی پابندی اب نہ چاہتے ہوئے بھی قبول کر لی گئی ہے۔ یہ پابندی دونوں طرف کے ان سرحدی قبائل کے لیے بہت پریشان کن ہے جو کبھی کسی سرحد کے عادی نہیں رہے۔ ہر عہد کے لگے بندھے تقاضے انسانی زندگی کو ذرا ادھر نہیں ہونے دیتے۔ انہی میں سے ایک قومی ریاست (national state) کا تصور ہے۔ قومی ریاستی سرحدوں کو بعض لوگ وحدت امت مسلمہ میں دراڑوں جیسا سمجھتے ہیں۔ بلاشبہ یہ بات کسی حد تک کچھ ایسی ہی ہے۔ لیکن اس عالمگیر حقیقت کی نفی نہ تو میری آپ کی خواہش کر سکتی ہے، نہ یہ عالمگیر حد بندیاں میری چند تحریروں سے مٹ سکتی ہیں اور نہ یہ لکیریں تصور وحدت امت کے بالمقابل تا دیر ٹھہر سکیں گی۔

    مسئلہ اس نظم و ضبط کا ہے جس کی خواہش انسانی فطرت ہر لمحہ کرتی ہے۔ امریکہ 50 ممالک کا مجموعہ ہے جن میں کوئی ویزہ نہیں۔ یہی نہیں امریکی اپنے سے کہیں بڑے ملک کینیڈا میں بھی بغیر ویزے کے جاتے آتے ہیں۔ 27 یورپی یونین ممالک کے باشندے بھی بغیر ویزے کے ایک دوسرے کے ہاں آتے جاتے ہیں۔ ہمارے اور ان مذکورہ تمام ممالک میں فرق بس اتنا ہے کہ یہ ممالک تیز رفتار صنعتی ترقی کے باعث زرعی زندگی سے نکل چکے ہیں۔ لیکن بیشتر ایشیائی ممالک نے صنعتی احاطے میں ابھی بمشکل قدم رکھا ہے۔ پاکستان انہی میں سے ایک ہے اور افغانستان تو اس بستی میں ابھی داخل ہی نہیں ہوا۔

    یہی وجہ ہے کہ ویزے کی پابندی کو صنعتی زندگی سے دور دونوں طرف کے سرحدی قبائل ناروا سمجھتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ افغانوں کا پاکستان پر بے پناہ انحصار ہے۔ وقتی مشکلات اور پابندیوں کا یہ عرصہ وقتی رہے گا کہ ہم سب کسی نظم و ضبط کے عادی ہو جائیں۔ پھر یہ سرحدیں، یہ ویزے، یہ ناروا پابندیاں اسی طرح تحلیل ہوں گی جیسے دنیا کے دیگر صنعتی ممالک میں سے ختم ہو چکی ہیں۔ وحدت امت مسلمہ پر اندھا ایمان رکھنے والوں کو یہ معمولی سی بات سمجھ لینا چاہیے کہ ملکی سرحدیں تو چھوڑیے، میری خواب گاہ کا بند دروازہ وہ بین الاقوامی سرحد ہے جس کے اندر میرا باپ یا میرا بیٹا بھی مجھ سے ویزا لیے بغیر داخل نہیں ہو سکتے۔

    یہ وحدت امت مسلمہ کا معاملہ نہیں ہے۔ یہی تصور پھیلا کر ملکی سرحدوں تک لے جائیے۔ اب اسی نکتے کا دوسرا رخ ملاحظہ ہو۔ کسی کی خوابگاہ میں اس کے باپ یا بیٹے کا مخصوص اوقات اور حالات میں صرف داخلہ ہی تو ممنوع ہے۔ یہاں باپ بیٹے اور دیگر عزیزوں سے لا تعلقی کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ اسی مکان کی تین چار خواب گاہوں کے تین چار بظاہر لاتعلق جوڑے کسی ڈاکو کے آجانے پر ذرا لا تعلق نہیں رہیں گے۔ اپنی خوابگاہ میں مست یہی لوگ افتاد پڑھتے ہی بنیاد مرصوص بن جائیں گے۔ باپ بیٹے پر قربان ہونے کو تیار تو باپ پر چلائی کسی کی گولی کے آگے بیٹا سینہ تان کر جان دے دے گا۔

    وحدت امت مسلمہ کا تصور بھی بس یہی کچھ ہے جہاں ملکی سرحدیں عہد حاضر کا نوشتہ دیوار ہیں اور آئندہ ہماری یہی سرحدیں یورپی ممالک اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی طرح بے جان اور دھندلی سی ہو جائیں گی۔ یہ بات ہمارے دونوں طرف کے سرحدی قبائل جتنا جلد سمجھ لیں سرحدیں مٹنے کا عمل اتنی جلدی شروع ہو جائے گا۔ حکومت پاکستان کے اس عمل کی بھرپور تائید کی جاتی ہے کہ پاکستان میں مدتوں سے مقیم افغان بھائیوں کو افغانستان واپس بھیجا جائے۔ لیکن افغان بھائیوں کو علاج، تعلیم، تجارت اور شادی بیاہ وغیرہ کے لیے اجرائے ویزا میں رکاوٹوں کو تشویش کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

    دونوں ملکوں کے باشندوں کو یہ وقتی رکاوٹیں برداشت کرنا ہوں گی۔ مذکورہ پاک، افغان، ازبک ریلوے لائن پر خالی ٹرینیں تو نہیں دوڑیں گی۔ تینوں ملکوں کے باشندے شناختی کارڈ دکھا کر ان میں ہنستے مسکراتے سفر کیا کریں گے۔ انشاء اللہ۔

  • پاک افغان تعلقات کی دو بنیادی ضروریات.  ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

    پاک افغان تعلقات کی دو بنیادی ضروریات. ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

    ہزاروں میل دور کے ممالک سے تعلقات قائم کرنا عالمگیریت کے اس دور میں ہر ملک کی ضرورت ہے۔ پاکستان بھی اس ضرورت سے آزاد نہیں ہے۔ تاہم مسئلہ اس توازن کا ہے جسے ہمیشہ سامنے رکھنا ہوتا ہے۔ یہ توازن آج دنیا بھر میں بگڑ چکا ہے۔

    اپنے پاک افغان تعلقات بھی ہمیشہ غیر متوازن دیکھے گئے جہاں عوامی اور ریاستی سطح پر یہ عدم توازن ملتا ہے۔ گزشتہ تحریر میں افغان طلبا کے لیے پاکستانی جامعات میں وظائف کی تجویز دی تو ایک رد عمل یہ تھا: “جناب! افغانوں سے زیادہ طوطا چشم کوئی نہیں. ہم نے عشروں تک انہیں پناہ دی لیکن آج کوئی لا دین نہیں ان کی اپنی امارت شرعیہ بھارت کا ساتھ دے رہی ہے”. ذرائع ابلاغ کے پھیلائے اس بدنما تاثر کو مان لیا جائے تو خود ہمارے پاس کیا اس کا کوئی جواب ہے کہ پاکستان میں متعین افغان سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کو ہماری فوج نے ٹھڈے مار کر امریکیوں کے حوالے کیا تھا تو کیوں؟

    دونوں ممالک کے عوام و حکام یہ نامعقول مناظرے چھوڑیں ایک دوسرے سے معافی تلافی کا مطالبہ کلیتاً ترک کر دیں۔ وہ راہ اختیار کریں جو نئے پاک بنگلہ تعلقات میں اپنائی جا چکی ہے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش ماضی بھول کر مآل پر نظر جمائے ہیں۔ پاکستان کے لیے افغانستان بطور تزویراتی گہرائی ہمارے ترک کرنے کا موضوع تھا۔ پاکستان اس سے تائب ہو چکا ہے۔ ادھر اس مٹھی بھر افغان عنصر کو ڈیورنڈ لائن پر گفتگو ختم کر دینا چاہیے۔ یہ معدودے چند لیکن با اثر پاکستانی اور افغان بازاری مناظروں کو تج کر آئندہ کا سوچیں۔ یہی ڈیورنڈ لائن اتحاد امت مسلمہ کے بالمقابل جلد ہی بے معنی ہو کر رہے گی۔

    ان سفاک اور برہنہ حقائق کو کوئی نہیں جھٹلا سکتا کہ دونوں ممالک پڑوسی ہیں، صدیوں سے تاریخی رشتوں میں بندھے ہیں، بھارت، چین اور ایران جیسوں کے برعکس افغانستان ہمارا وہ واحد پڑوسی ہے جس سے ہمارے دسیوں لاکھ لوگوں کے رشتے ہیں۔ ایران اور بھارت کے برسائے میزائلوں کا جواب تو ہم نے دفعتاً دے دیا تھا۔ پاک افغان جنگ، اللہ نہ کرے، اگر کبھی ہوئی تو کیا کوئی یہ مہم جوئی کر سکے گا؟ اور کرے گا تو بعد میں کس ملک میں زندہ رہ سکے گا؟ دونوں ممالک کے باشندوں کے رشتہ داریاں ذہن میں رکھ کر جواب دیجیے۔ لہذا دونوں جانب کے بد زبان عناصر یہ غیر تعمیری اور سوقیانہ مناظرہ بازی بند کر کے اپنی توانائیاں کسی تعمیری کام میں لگائیں۔

    پاک افغان امور میں غالباً سب سے اہم ایک انسانی مسئلہ وہ ہے جسے دشمن بھی نظر انداز نہیں کر سکتا۔ ادھڑے ہوئے افغانستان میں صحت کی سہولیات پاکستان جیسی نہیں ہیں۔ سرحدی قبائل کو چھوڑیے، خود کابل کے لوگ بھی علاج کے لیے ایک حد تک پاکستان پر انحصار کرتے ہیں۔ رہے سرحدی افغان تو ان کا سہارا ہے ہی پاکستان۔ بےچارگی کا یہ حال کہ گزشتہ بقر عید سے ذرا پہلے ایک ماہ کے بیمار نو مولود کے والدین کو طبی ویزا نہ ملا تو ماں نے اپنا جگر گوشہ اس امید پر ایک اجنبی کو دے دیا کہ پشاور پہنچ کر شاید بچہ بچ جائے۔ وہ نیک دل افغان ایک ماہ کے بچے کو کیسے پشاور لایا؟

    کیسے دودھ پلاتا رہا؟ عین عید کے دن سارے کام چھوڑ کر کیسے پوری توجہ بیمار بچے کو دیتا رہا؟ اس پر ناول لکھا جانا چاہیے، فلم بننا چاہیے، لیکن ان کے پہلو پہلو اس اہم انسانی مسئلے پر حکومت پاکستان کو فوری توجہ دینا ہوگی۔دونوں ملکوں میں داخلے کے راستے تو پانچ ہیں لیکن شہری سہولتوں سے آراستہ اور منظم جگہیں طورخم، چمن، اور خرلاچی (پارہ چنار) وہ تین ہیں جہاں طبی سہولیات بڑھا کر افغان ضروریات پوری ہو سکتی ہیں۔ یہ کام الخدمت، ایدھی اور چھیبا جیسے نیک نام ادارے کر سکتے ہیں۔ افغان جہاد کے دنوں میں جماعت اسلامی نے پشاور میں ایک اچھا افغان سرجیکل اسپتال بنایا تھا، پتا نہیں کس حال میں ہے۔

    الخدمت اور ایدھی کی کوششیں یقینا فلاحی بنیادوں پر ہوں گی۔ لیکن افغانستان میں آسودہ حال طبقے کا حجم ناقابل یقین حد تک وسیع ہے۔ اسے بھی اپنے علاج کے لیے زیادہ تر پاکستان ہی کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ اس طبقے کے لیے پشاور، پارہ چنار، چمن اور کوئٹہ میں جدید سرکاری اسپتال بنانا ضروری ہے۔ اس اشرافیہ کے پاس دولت کے انبار ہیں۔ لیکن علاج کے ضمن میں یہ اشرافیہ بھی بے بس ہے۔ پاک افغان قربت کے پہلو بہ پہلو ہمارے یہ سرکاری اسپتال زر مبادلہ کی صورت میں کمائی کا ذریعہ بھی بن سکتے ہیں۔ قطع نظر ان باتوں کے پاکستان کے کرنے کا کام یہ ہے کہ ہر بیمار افغان اور ایک تیماردار کو بہرحال ویزہ دے دیا جائے۔

    شاید کہا جائے کہ یوں دہشت گرد بھی آ سکتے ہیں۔ بہانہ کچھ بھی ہو، جائز طبی ضرورت پر افغان بہن بھائیوں کو ویزا بہرحال ملنا چاہیے۔ ویزے کا اجرا ایک تہہ در تہہ عمل ہے جس پر ہم عام لوگ کچھ نہیں کہہ سکتے، ہمارا فعال دفتر خارجہ افغانیوں کو طبی ویزے دینے کا کوئی مناسب طریق کار یقینا بنا لے گا۔پاکستان اپنی آبادی، وسائل، رقبے، زراعت اور صنعت وغیرہ کے باعث افغانستان پر فوقیت رکھتا ہے جو اس کی ذمہ داریوں میں بھی اضافہ کرتی ہے۔ ادھر افغانستان کی خوبیاں ایک الگ موضوع ہے۔

    اس جری ملک نے ہماری مدد سے ایک سپر پاور کو ملیا میٹ کر دیا۔ افغانوں نے اپنے گھر اور کھیت کھلیان بے آباد کرا دیے اور چھ مسلم مقبوضات آزاد کرا کر انہیں او آئی سی میں شامل کرایا۔ حکومت پاکستان کو افغانوں کے لیے طبی اور تعلیمی ویزوں میں بالخصوص اضافہ کرنا چاہیے۔ یہ بندوبست طویل المعیاد تو ہوگا لیکن یہی بندوبست بالآخر ڈیورڈ لائن کے مستقل خاتمے کا سبب بنے گا۔ عالمگیر امت مسلمہ کے ابتدائی اتحاد کا آغاز یقیناً یہیں سے ہوگا۔ پاکستان، ایران، افغانستان اور ترکی کو یکجا ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔ نو آزاد مسلم ترکستانی ممالک کے اس اتحاد میں آنے پر تہران بخواہش علامہ اقبال عالم مشرق کا جنیوا ہو گا۔ کرہ ارض کی تقدیر یونہی تبدیل ہوگی۔

    (جنرل انور سعید خان نے میری اس فروگزاشت کی طرف توجہ دلائی کہ امریکی یونین 12 نہیں 13 ریاستوں پر بنی تھی، جزاک اللہ. انور بھائی اپنی انہی باریک بینیوں کے سبب فوج میں “پروفیسر جنرل” کہلاتے ہیں۔ سوچا ایسا کیوں ہوا تو پتا چلا کہ 60 سال سے اوپر کے پروفیسر کے یہاں روا روی میں لکھ دینا کچھ عجب نہیں ہے۔ انور بھائی کا مکرر شکریہ).