دھوپ ہے کہ ڈھلتی نہیں۔ آسماں مگرروتا رہا ہے۔ موت کے گھاٹ اپنے ہی اترے ہیں۔ دشمن تو خوش ہوتا رہا ہے۔ معصوم کے سینے پر گولیاں اڑائی ہیں۔ دردندوں کو تم نے آزاد کیا ہے۔ بے گناہ نے کاٹی ہے ناحق سزا۔ گناہ گار کو تم نے رہا کیا ہے۔ اپنوں کی جانوں کے دشمن ہو تم۔ دشمن تو خوش ہوتا رہا ہے۔ یہاں اندھا قانون ہے...