میرے سلطان کا فاطمہ گل سے عشق ممنوع، یہ عنوان ہے کراچی آرٹس کونسل میں جاری تھیٹر کا جو کہ تین مشہور ترکش ڈراموں کے ناموں کو ملا کر بنایا گیا ہے اور اس کی خاص بات ہے، ان کرداروں کو ادا کرنی والی شخصیات جو ادا کارنہیں بلکہ سیاستدان ہیں۔ آخر سیاستدانوں کو کیا ضرورت پیش آئی اداکاری کرنے کی وہ بھی تھیٹر میں۔ کیونکہ یہ کہانی ہے مستقبل 2030ء کی جب ایک بار پھرمارشل لاء لگا دیا جاتا ہے۔
تھیٹر کے آغاز میں کہا جاتا ہے کہ اس ملک کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں اور یہ کہا نی ہے BNANISTAN کی جہاں مارشل لا لگادیا جاتا ہے، تمام میڈیا پر پابندی لگادی جاتی ہے، صرف تھیٹر کیا جارہا ہوتا ہے، سیاستدانوں کو کچھ کام تو آتا نہیں ہے کرنے کو تو سب فارغ ہوتے ہیں اور وہ تھیٹر کے لیے آڈیشن دینے پہنچ جاتے ہیں۔ تھیٹر کے اس ڈرامے کی کہانی پر کچھ خاص محنت نہیں کی گئی البتہ کرداروں کے درمیان ہونے والے طنزیہ جملے قابل تعریف ہیں جیسے ایک جملہ ہے کہ لڑکا رہتا لندن میں ہے اور کماتا پاکستان سے ہے۔ حنا ربانی کھر (فاطمہ گل ) کے والد نوازشریف اور سوتیلی ماں کشمالہ طارق بنی ہیں۔ والدین حنا ربانی کھر کی شادی الطاف حسین سے کرانا چاہتے ہیں جبکہ حنا ربانی کھر کا قائم علی شاہ سے افیئر دکھایا جاتاہے جس سے عمران خان کو شدید جیلیسی ہوتی ہے۔ ایک موقع پر نواز شریف الطاف حسین سے حنا ربانی کی شادی کرانا چاہتے ہیں لیکن نکاح خواں نہیں مل رہا ہوتا تو الطاف حسین کہتا ہے کہ نکاح خواں نہیں تو کیا ہوا، سات پھیرے لے لو، اتنے میں عمران خان کہتا ہے کہ میں عیسائی طریقے سے شادی کرا دیتا ہوں، ایسے میں مولانا فضل الرحمن اپنی خدمات کی پیشکش کرتے ہیں کہ میں نکاح پڑھا دیتا ہوں اور پھر مولانا فضل الرحمن ہمیشہ کی طرح موقع کا فائدہ اُٹھاتے ہیں اور نکاح پڑھاتے وقت دولہا کے بدلے اپنا نام لکھ لیتے ہیں. مولانا فضل الرحمن کا کردار ادا کرنے والے مصطفی چوہدری اور الطاف حسین کا کردار ادا کرنے والے ثاقب سمیر نے عمران خان کا کردار ادا کرنے والے داور محمود کی اس تھیٹر کے اسکرپٹ لکھنے میں بھی مدد کی ہے۔ قائم علی شاہ کا کردار بھی بہترین طریقے سے ادا کیاگیا ہے۔ قائم علی شاہ با بار کہتا ہے کہ تم سب نے تو مرجانا ہے میں تو مراد علی شاہ کے مرنے کے بیس سال بعد دوبارہ وزیراعلی بن جاؤں گا۔
پاکستان میں تھیٹر کو وہ مقام حاصل نہیں جو دنیا بھر میں حاصل ہے۔ پاکستان میں تھیٹر غیر مہذب غیر اخلاقی جملوں اور بےسروپا کہانیوں پر مبنی ڈراموں اور اس کے دوران پیش کیے جانے والے بےہودہ رقص و موسیقی کے سبب تھیٹر جانا بھی معیوب سمجھا جاتا تھا مگر اب کچھ برسوں سے تھیٹر نے پڑھے لکھے اور نوجوان طبقے کو اپنی جانب متوجہ کیا ہے اور لوگوں کا اب اپنے اہل خانہ کے ساتھ تھیٹر جانے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے اور اس کا سبب انور مقصود اور داور محمود کی محنت شامل حال ہے جنھوں نے ملکی موضوعات اور سیاست کو مزاحیہ انداز میں تھیٹر کی زینت بنایا۔
KopyKats Productions کے کامیاب اسٹیج ڈرامہ آنگن ٹیڑھا، سیاچن ، پونے چودہ اگست، سوا چودہ اگست کے بعد BNANISTAN ایک اچھی کاوش ہے، اگرچہ کہانی متاثر کن نہیں لیکن ڈائیلاگ اور مزاحیہ جملے جاندار ہیں۔ اس تھیٹر میں نہ صرف سیاست دکھائی گئی ہے بلکہ تھیٹر کی اندرونی سیاست کی عکاسی کو نمایاں کیا گیا ہے۔ پروڈیسر، ڈائریکٹر اور فائنانسر کے درمیان جاری چپقلش اور مشکلات کا بھی تذکرہ ہے۔ اس سے قبل انور مقصود کے گذشتہ تھیٹر پونے چودہ اگست، سوا چودہ اگست، آنگن ٹیڑھا اور دھرنا کی مقبولیت کے بعد سیاچن نے بھی کافی شہرت حاصل کی۔
سیاچن کئی پہلووں کے اعتبار سے انفرادیت کا حامل رہا، سب سے پہلے اس کی کہانی بڑے افسروں کے بجائے عام سپاہیوں کی زندگی پر مبنی تھی جو مادر وطن کی خاطر جان کی بازی لگاتے ہوئے برف پوش پہاڑوں پر اپنے پیاروں سے دور فرائض انجام دے رہے ہیں۔ انور مقصود کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں جو بھی فلمیں، ڈاکیو مینٹریز اور ٹیلیوژن نشریات ہیں، ان میں صرف فوجی افسران کا ذکر ہوتا ہے مگر میدان جنگ میں سپاہی سب سے آگے ہوتے ہیں اور فوجی افسران پیچھے اور میں نے یہ ڈرامہ اس لیے لکھا کیونکہ سپاہیوں سے میرا رشتہ بہت پرانا ہے۔ جب انور مقصود سے دریافت کیا گیا کہ سپاہیوں کی یہ کہانی لکھنے میں اتنے سال کیوں لگ گئے تو کہا اجازت نہیں تھی آئی ایس پی آر کی، اب اجازت دی اور اب لکھ ڈالا۔ اس تھیٹر کے دوران حاظرین نے تمام مناظر محسوس کیے اور ان سے محظوظ بھی ہوئے، اس میں قہقہے، خاموشی، جذبات،احساسات اور آنسو سب ہی شامل تھے اور اگر ٹیکنیکل حوالے سے بات کی جائے تو وہ بھی لاجواب رہی. تھیٹر کے آغاز سے اختتام تک لائٹنگ اور سائونڈ ایفیکٹ نے ایسا ماحول بنایا کہ گویا حاضر ین کو لگا جیسے وہ سیاچن کے گیلشیئر پر ہی موجود ہیں اور پاکستانی فوج اور دشمن کی فوج کے درمیان صورت حال کو محسوس کر رہے ہیں. سیاچن کے موسم کی مناسبت سے اس دوران تھیٹر کا درجہ حرارت بھی کم رکھا گیا تاکہ حاضرین سیاچن کے موسم کی سختی کو بھی محسوس کرسکیں کہ وہاں ہمارے فوجیوں کی دشمن کے ساتھ ساتھ موسم کے محاذ پر بھی نبرد آزما ہونا پڑتا ہے۔ اس تھیٹر میں فوج کے سپاہیوں کے کردار ادا کرنے والے افراد اور ٹیم کے باقی ممبرز کو آئی ایس پی آر کے تعاون سے 120 دن تک فوجی تربیت دی گئی تاکہ ان کی اداکاری میں حقیقی جھلک کی عکاسی ہوسکے جس کے بعد پندرہ روز تک سیاچن میں ایک اگلو (برف کے گھر) میں رکھا گیا جہاں انھیں وردیاں، اسلحہ اور فوجی تربیت دی گئی۔ سیاچن دنیا کا بلند ترین محاذ جنگ ہے جہاں گذشتہ تیس برسوں میں اب تک پاکستان اور بھارت کے آٹھ ہزار سے زائد فوجی اپنی جان کی بازی ہار چکے ہیں اور ان 8000 میں سے صرف 400 گولی یا اسلحہ سے جاں بحق ہوئے، باقی تمام ساڑھے سات ہزار شدید سرد موسم کی نذر ہوئے۔
ایک اور قابل ذکر تھیٹر انور مقصود کا دھرنا تھا جس میں سیاسی طنز ومزاح پر مبنی ملکی صورت حال کی عکاسی کی گئی تھی جو عوام میں کافی مقبول رہا۔ اس میں عمران خان، مولانا فضل الرحمن، الطاف حسین، خواجہ سعد رفیق اور بلاول کے کردار قابل ذکر تھے۔ دھرنا کے بارے میں انور مقصود کا کہنا تھا کہ موجودہ ملکی صورتحال میں قلم کے ذریعے ہی ایوان بالا تک اپنی شکایات پہنچائی جاسکتی ہیں. مجھے تو یہ بھی لگتا ہے کہ ملک میں ابھی تک آمریت کا ہی دور ہے، جمہوریت کے بارے میں ہمارے سیاستدانوں کو شاید زیادہ معلومات ہی نہیں، آمریت کے دور میں کم از کم ایک آدمی کی سننی پڑتی ہے مگر جمہوریت میں ہر آدمی آمر ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ چودہ اگست کے حوالے سے لکھے گئے انور مقصود کے دو تھیٹر پونے چودہ اگست اور سوا چودہ اگست نے بھی کافی شہرت حاصل کی جس کے بعد اب ساڑھے چودہ اگست بنانے کا بھی یہ ٹیم اردہ رکھتی ہے۔
سوا چودہ اگست پاکستان کی سیاست اور ملک کی بنتی بگڑتی صورتحال کے تناظر میں لکھا گیا تھا۔ اس تھیٹر کے مرکزی کردار قائداعظم محمد علی جناح، ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاالحق تھے جو موجودہ دور میں پاکستان واپس آئے تاکہ دیکھ سکیں کہ آج کل ان کے بعد پاکستان میں کیا ہو رہا ہے، اس کے ہدایتکار داور محمود تھے جو اس سے پہلے پونے جودہ اگست کے بھی ہدایتکار تھے۔ پونے جودہ اگست میں تحریک پاکستان اور بانیان پاکستان کی جدوجہد کو اجاگر کیا گیا تھا اور بہت خوبصورت انداز میں ماضی کو حال سے جوڑا گیا۔ پونے چودہ اگست میں قائداعظم محمد علی جناح، علامہ اقبال اور مولانا شوکت علی کو ایک ساتھ دکھایا گیا تھا، اس میں کام کرنے والے اداکاروں کا کہنا تھا کہ پونے چودہ اگست نئی نسل کو ملکی مسائل سے آگاہی اور ان سے نمٹنے کے لیے مثبت کردار ادا کرے گا جبکہ پونے جودہ اگست کو لکھنے والے انور مقصود کا کہنا تھا کہ یہ ڈرامہ ملک کے نوجوانوں کے لیے لکھا ہے جو ملک کا مستقبل ہیں۔
تھیٹر جسے اُردو میں جلوہ گاہ کہتے ہیں کی ابتداء قبل مسیح میں ہوئی، یونان میں محفوظ اپیی ڈرو کے کھنڈرات میں تھیٹر کے آثار دریافت کیے گئے تھے جو آج بھی موجود ہے۔جلوہ گاہ ایسی عمارت کو کہا جاتا ہے جہاں تماشائی جمع ہوکر ڈرامہ یا ناٹک دیکھیں اور ہندوستان میں تو زمانہ قدیم سے ناٹک اور نو ٹنکیوں کی تاریخ موجود ہے اور اگر انگلستان کا تذکرہ کیا جائے تو لندن میں مستقل تھیٹر ملکہ برطانیہ کے دور میں بنا، اس سے قبل انگلستان میں کلیساؤں کو تھیٹر کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا جس میں انجیل مقدس کی کہانیوں کو ڈرامے کی صورت میں لوگوں کو بتایا جاتا تھا اور ناٹک اور ڈرامے مذہب اور عبادت کی تبلیغ کے لیے استعمال کیے جاتے تھے۔ جلوہ گاہ میں کی جانے والی اداکاری کو جلوہ کاری کہا جاتا تھا اور وقت کے ساتھ ساتھ اس میں تبدیلیاں بھی آتی گئیں. جب پہیہ ایجاد ہوا تو پہیے والی گاڑیوں پر ناٹک دکھائے جانے لگے اور کچھ لوگ اس پیشے سے وابستہ ہونے لگے جو مختلف شہروں اور قصبوں اورمضافات میں جاکر اپنے فن کا مظاہرہ کرنے لگے اور لوگ ان سرایوں میں جاکر ناٹک دیکھنے لگے جو دائرہ کی شکل میں ہوتی تھیں. پھر شیکسپیئر کے زمانے میں ان دائرہ نما تھیٹروں نے مربع کی شکل اختیار کرلی اور اس میں اسٹیج بھی بنائے جانے لگے جو موجودہ دور کے تھیٹر کی شکل ہے۔ تھیٹر اپنی بات لوگوں تک پہنچانے کا ایک بہترین ذریعہ ہے، یہاں لوگ زیادہ توجہ سے بات سنتے ہیں کیونکہ وہ اپنا وقت اور وسائل خرچ کرکے یہاں تک پہنچتے ہیں. اس دوران وہ کوئی دوسرا کام نہیں کرتے، ساری توجہ صرف ایک ہی جگہ مرکوز ہوتی ہے. تھیٹر پر دیگر ذرائع ابلاغ کی طرح سنسر شپ یا قانونی گرفت بھی سخت نہیں ہوتی اس لیے اس میں حقیقت کی عکاسی کی جا سکتی ہے۔
تبصرہ لکھیے