ہوم << تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کا تنازع، تاریخ، طاقت اور ثالثی کی تلاش - سلمان احمد قریشی

تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کا تنازع، تاریخ، طاقت اور ثالثی کی تلاش - سلمان احمد قریشی

جنوب مشرقی ایشیا کے دو ہمسایہ ممالک تھائی لینڈ اور کمبوڈیا ایک بار پھر سرحدی کشیدگی کی لپیٹ میں ہیں۔ یہ تنازعہ بظاہر زمین کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے پر جھگڑا معلوم ہوتا ہے مگر درحقیقت اس کے پیچھے صدیوں پر محیط تاریخی تناؤ، نوآبادیاتی دور کی سرحدی لکیر، مذہبی ورثے پر ملکیتی دعوے اور عالمی طاقتوں کے مفادات کا گہرا عمل دخل ہے۔

یہ معاملہ اب صرف علاقائی نہیں رہا بلکہ عالمی سفارت کاری اور تزویراتی توازن کے تناظر میں اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ دونوں ممالک کی آبادی اور رقبے کے لحاظ سے بھی ایک واضح فرق موجود ہے۔ تھائی لینڈ تقریباً سات کروڑ نفوس پر مشتمل ایک بڑا ملک ہے، جس کا رقبہ پانچ لاکھ مربع کلومیٹر کے قریب ہے، جبکہ کمبوڈیا کی آبادی صرف ایک کروڑ ستر لاکھ کے لگ بھگ اور رقبہ تقریباً ایک لاکھ اسی ہزار مربع کلومیٹر ہے۔ ان اعداد و شمار سے دونوں ممالک کے وسائل، آبادی کے دباؤ، اور انتظامی ڈھانچے کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

معاشی لحاظ سے تھائی لینڈ ایک نسبتاً ترقی یافتہ معیشت رکھتا ہے، جس کی مجموعی قومی پیداوار (GDP) تقریباً 550 ارب ڈالر کے قریب ہے، جبکہ کمبوڈیا کی معیشت محض 30 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ تھائی لینڈ کی معیشت صنعتی پیداوار، سیاحت، زرعی برآمدات اور خدمات کے شعبوں پر استوار ہے، جب کہ کمبوڈیا کی معیشت زیادہ تر زرعی پیداوار اور غیر رسمی شعبے پر انحصار کرتی ہے۔ تھائی لینڈ میں سرمایہ کاری، بینکنگ، انفراسٹرکچر اور بین الاقوامی تجارت کے بہتر مواقع موجود ہیں، جبکہ کمبوڈیا میں غربت، بیروزگاری اور غیر مستحکم معاشی ڈھانچہ اس کی ترقی میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔

معاشی عدم توازن دونوں ممالک کے درمیان قوت کے فرق کا ایک اور ثبوت ہے، جو کسی بھی عسکری یا سیاسی جھڑپ میں تھائی لینڈ کو نسبتاً مضبوط پوزیشن دیتا ہے۔عسکری طاقت کے اعتبار سے بھی دونوں ممالک میں نمایاں تفاوت ہے۔ تھائی لینڈ کی فوج نہ صرف تعداد میں بڑی ہے بلکہ تکنیکی لحاظ سے بھی جدید تر ہے۔ اس کے پاس تین لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد فعال فوجی اہلکار، ایک فعال فضائیہ، بحریہ، ٹینک، راکٹ لانچر اور جدید میزائل سسٹم موجود ہیں، جو اسے خطے میں ایک مؤثر فوجی طاقت بناتے ہیں۔ امریکہ کے ساتھ اس کے دیرینہ فوجی تعلقات، دفاعی معاہدے، اور مشقیں اس کی پیشہ ورانہ مہارت اور ٹیکنالوجی کو مزید تقویت دیتی ہیں۔

اس کے برعکس کمبوڈیا کی افواج کی تعداد تقریباً ایک لاکھ پچیس ہزار کے لگ بھگ ہے، جس میں سے اکثریت نیم فوجی فورسز پر مشتمل ہے، جن کی توجہ اندرونی سیکیورٹی پر مرکوز ہے۔ کمبوڈیا کا دفاعی بجٹ تھائی لینڈ کے مقابلے میں انتہائی محدود ہے اور اس کی عسکری تنصیبات، سازوسامان، اور فضائی و بحری صلاحیتیں جدید تقاضوں سے بہت پیچھے ہیں۔
تاریخ ہمیشہ خود کو دہراتی ہے، مگر کچھ خطے ایسے ہیں جہاں تاریخ بار بار لہو میں نہاتی ہے۔جنوب مشرقی ایشیا کی زمین پرایک بار پھر جنگ کے بادل چھاچکے ہیں۔تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کے مابین برسوں پرانا سرحدی تنازع ایک بار پھر کھل کر سامنے آ گیا ہے۔

اب کی بار صرف بارودی سرنگیں نہیں پھٹیں، بلکہ پورا خطہ سیاسی، فوجی اور انسانی سطح پر لرز گیا ہے۔ سرحد کے دونوں پار دھماکے ہیں، آنکھوں میں آنسو، اور ذہنوں میں سوال ہے کہ یہ جنگ کیوں اور یہ رکے گی کیسے؟ یہ تنازع نیا نہیں،تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کی سرحد پر اٹھنے والی حالیہ جنگی دھواں اسی پرانے زخم کو تازہ کر رہا ہے جو برسوں پہلے فرانسیسی نوآبادیاتی نظام نے نقش کیا تھا۔1907 میں جب فرانس نے تھائی لینڈ (تب سیام) کے ساتھ سرحدی معاہدہ کیا تو Preah Vihear جیسے مندروں کا قبضہ کمبوڈیا کے سپرد کیا گیا۔ تاہم تھائی لینڈ آج تک ان علاقوں پر دعویٰ کرتا رہا ہے۔

1962 میں عالمی عدالت نے یہ مندر کمبوڈیا کے حوالے کیا، مگر اس فیصلے کو تھائی قوم پرست حلقوں نے آج تک تسلیم نہیں کیا۔ 2008 میں جب یہ مندر UNESCO ورلڈ ہیریٹیج میں شامل ہوا، تھائی قوم پرستی بھڑک اٹھی۔ تب سے جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔ Shinawatra خاندان کا Hun Sen سے سابقہ تعلق اور افواہوں نے کشیدگی کو بڑھایا۔ کمبوڈیامیں Hun Manet نے قومی وقار کے تناظر میں جنگی موقف اختیار کیا۔ حالیہ کشیدگی کی شروعات مئی 2025 میں کمبوڈین فوجی کی بارودی سرنگ دھماکے میں ہلاکت نے پرانی آگ کو پھر سے بھڑکایا۔ جون میں سرحدی گشت کے دوران دونوں فوجوں میں جھڑپیں ہوئیں، جو جولائی میں مکمل فوجی تصادم میں بدل گئیں۔

Ta Muen Thom جیسے سرحدی مندر اور اس کے آس پاس کے دیہات میدانِ جنگ بن چکے ہیں۔ جولائی میں تھائی لڑاکا طیاروں نے جوابی کارروائی کی۔ ہزاروں افراد بے گھر ہو گئے، اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ سرحدی علاقوں میں جنگی کیفیت ہے۔موجودہ صورتِ حال (24 جولائی 2025 کے بعد)جنجالی علاقہ میں Ta Muen Thom کے قریب فائرنگ سے شروعات ہوئی جہاں دونوں جانب سے ماورائے روایتی ہتھیار جیسے BM-21 راکٹ اور بارود استعمال کیا گیا۔تھائی لینڈنے جوابی فضائی کارروائی کیF-16 لڑاکا طیاروں سے کمبوڈیا میں فوجی مراکز پر بمباری کی گئی اور جنگی آپریشن ''Operation Yuttha Bodin'' کا آغاز بھی ہوا۔

سخت سفارتی اقدامات کرتے ہوئے دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے سفیروں کو نکال دیا، سرحدی راستوں کو بند کیا، اور ASEAN کے توسط سے ثالثی کے آفرز قبول کرنے یا نہ کرنے کے بیانات دیے۔اس تصادم کے نتیجے میں، تقریباً 100,000 سے 140,000 افراد بے گھر ہوئے تھائی لینڈ میں 58,000، جبکہ کمبوڈیا میں 4,000 سے زیادہ evacuees رپورٹ ہوئے۔ کم سے کم 15-16 ہلاکتیں رپورٹ ہوئی ہیں، جن میں زیادہ تر تھائی شہری شامل تھے۔ سنگین زخمیوں اور انفراسٹرکچر کے نقصان کی اطلاعات بھی موصول ہیں۔

یہ تنازع صرف دو ملکوں کے درمیان نہیں، بلکہ پورے جنوب مشرقی ایشیائی خطے کی سلامتی کو چیلنج کرتا ہے اور اسی وجہ سے عالمی قوتیں بھی خاموش تماشائی نہیں رہ سکتیں۔ عالمی کرداروں کا ممکنہ تجزیہ کیا جا ئے توامریکہ ASEAN اتحادیوں (جس میں تھائی لینڈ بھی شامل ہے) کے ساتھ Mutual Defense Treaties کا حامل ہے۔ واشنگٹن سرحدی کشیدگی کو کم کرنے پر زور دے رہا ہے، مگر اس کی اصل دلچسپی چین کی جنوبی ایشیا میں بڑھتی فوجی سرگرمیوں کا توازن رکھنے میں ہے۔ امریکہ تھائی لینڈ کو خفیہ معلومات، اسلحہ اور ڈپلومیٹک کور فراہم کر سکتا ہے، لیکن براہِ راست مداخلت سے فی الحال گریز کر رہا ہے۔

دوسری طرف چین کا کمبوڈیا کے ساتھ دہائیوں پرانا اقتصادی اور عسکری رشتہ ہے۔ بیجنگ نے حالیہ برسوں میں کمبوڈیا میں بندرگاہیں، شاہراہیں اور فوجی تنصیبات بنائی ہیں۔ موجودہ تنازع میں چین کمبوڈیا کی اخلاقی اور اقتصادی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے، اور بعض اطلاعات کے مطابق، اس نے کمبوڈین فوج کو ڈرون اور نگرانی کے آلات فراہم کیے ہیں۔ مگر چین کھلے عام عسکری شراکت سے گریز کر رہا ہے تاکہ تھائی لینڈ کو مکمل طور پر مخالف نہ بنائے۔روس خاموشی سے اس خطے میں اپنے اثر و رسوخ میں اضافہ چاہتا ہے، خاص طور پر اسلحے کی فروخت کے ذریعے۔

ماسکو نے دونوں ممالک کو دفاعی معاہدے پیش کیے ہیں، اور ممکنہ طور پر کمبوڈیا کو کچھ اسلحہ فراہم کیا ہے۔ تاہم روس فی الحال کسی ایک فریق کا کھلم کھلا ساتھ دینے سے اجتناب کر رہا ہے۔بھارت کے تھائی لینڈ کے ساتھ اقتصادی اور نیول تعاون موجود ہے، جبکہ کمبوڈیا میں چین کی موجودگی کو روکنے کے لیے بھارت سفارتی سرگرمیوں میں بھی متحرک ہے۔ بھارت ممکنہ طور پر تھائی مؤقف کی حمایت کرے گا، خصوصاً اگر چین کھل کر کمبوڈیا کی حمایت کرے۔ بھارت اپنی Look East Policy کے تحت اس تنازع پر نظر رکھے ہوئے ہے۔

پاکستان اس تنازع میں براہِ راست کوئی فریق نہیں، مگر چین اور کمبوڈیا کے درمیان قریبی رشتے، اور تھائی لینڈ و بھارت کے بڑھتے عسکری روابط، پاکستان کو بالواسطہ دلچسپی دلاتے ہیں۔ سفارتی طور پر پاکستان چین کے مؤقف کی طرف جھکاؤ رکھتا ہے، مگر ابھی تک کوئی واضح بیان سامنے نہیں آیا۔انڈونیشیا ASEAN کی سب سے بڑی ریاست انڈونیشیا، بطور عبوری ثالثی قوت کے ابھری ہے۔ جکارتہ نے جنگ بندی کی اپیل کی ہے اور مشترکہ امن کانفرنس کی میزبانی کی پیشکش کی ہے۔ اگر یہ جنگ طول پکڑتی ہے تو انڈونیشیا ایک ثالثی قوت کے طور پر نمایاں ہو سکتا ہے۔

تھائی لینڈ،کمبوڈیا جنگ کا میں ممکنہ ثالث کون بنے گااور امن کا پیامبرکون ہوسکتا ہے تو اس سوال کا جواب ہے،چین متنازع ثالث ہے کمبوڈیا کا حامی ہونے کے باعث تھائی لینڈ اسے قبول نہیں کرے گا۔ انڈونیشیا ASEAN کی سب سے بڑی اور غیرجانبدار قوت ہونے کے ناطے ثالثی کرواسکتا ہے۔انڈونیشیا ASEAN میں سب سے متوازن ریاست ہے اور ثالثی کی پیشکش کر چکی ہے۔ جکارتہ میں امن کانفرنس کی تجویز زیرِ غور ہے۔ملائیشیاخطے میں قابل قبول حیثیت رکھتا ہے، مگر داخلی سیاسی بحران ثالثی میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔اقوام متحدہ اگر مقامی ثالثی میں ناکام ہوئی تو عالمی فورم پر معا ملہ جا سکتا ہے۔

یہ کشیدگی اگر نہ رکی تو پورا ASEAN بلاک متاثر ہوگا، چینی اثر و رسوخ مزید بڑھے گا، امریکہ کی موجودگی گہری ہو سکتی ہے، اور بالآخر یہ تنازع بحرالکاہل کی نئی سرد جنگ کا شاخسانہ بن سکتا ہے۔ ساتھ ہی انسانی جانوں کا نقصان، لاکھوں کی ہجرت، اور علاقائی اقتصادی زوال ایک الگ بحران کو جنم دے گا۔یہ جنگ مکمل عسکری فتح سے زیادہ نرم جنگ (Hybrid Warfare) میں ڈھلنے کا امکان رکھتی ہے۔ تھائی لینڈ فوری فتح چاہتا ہے، مگر کمبوڈیا طویل مدتی مزاحمت کی تیاری میں ہے۔

اگر ثالثی کامیاب نہ ہوئی تو یہ تنازع بحرالکاہل میں ایک نئے جغرافیائی تصادم کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کے درمیان یہ جنگ کسی جغرافیائی لکیر کی نہیں، بلکہ دو الگ ریاستی شناختوں، عزت نفس اور عالمی بلاکوں کے تصادم کی غماز ہے۔ یہ تصادم محض سرحدی مخالفت نہیں، بلکہ سیاسی مداری، ذاتی جعلی تعلقات، اور قومی شناخت کا مسئلہ بھی ہے۔ فوجی طاقت میں تھائی لینڈ واضح برتری رکھتا ہے، جبکہ کمبوڈیا نموئے شہرت اور ساختی نقصان کے باوجود غیر متناسب (asymmetric) حربوں پر انحصار کر رہا ہے۔

جنگ کا خطرہ محدود حد تک مؤثر ہے، مگر انسانی نقصان، ہجرت اور سیاسی بحران کے اثرات طویل عرصے جاری رہنے کا خدشہ ہے۔ اصل سوال یہ نہیں کہ جنگ کون جیتے گا، بلکہ یہ ہے کہ کیا کوئی بھی بچ سکے گا؟یہ صرف بارڈر کا جھگڑا نہیں، یہ ایک وسیع تر جیوپولیٹیکل شطرنج کی چال ہے۔ جہاں ہر چال کے پیچھے کوئی سپر پاور، کوئی مفاد، اور کہیں نہ کہیں انسانیت پس رہی ہے۔

سوال صرف یہ ہے کیا ASEAN کا پرامن خواب اس بار بھی بارود میں دفن ہو جائے گا؟۔ اگر سفارت کاری، حقیقت پسندی، اور امن کے جذبے کو ترجیح دی گئی، تو نہ صرف یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے بلکہ پورے خطے میں پائیدار امن کی بنیاد بھی رکھی جا سکتی ہے۔

Comments

Avatar photo

سلمان احمد قریشی

سلمان احمد قریشی اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی، کالم نگار، مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ تین دہائیوں سے صحافت کے میدان میں سرگرم ہیں۔ 25 برس سے "اوکاڑہ ٹاک" کے نام سے اخبار شائع کر رہے ہیں۔ نہ صرف حالاتِ حاضرہ پر گہری نظر رکھتے ہیں بلکہ اپنے تجربے و بصیرت سے سماجی و سیاسی امور پر منفرد زاویہ پیش کرکے قارئین کو نئی فکر سے روشناس کراتے ہیں۔ تحقیق، تجزیے اور فکر انگیز مباحث پر مبنی چار کتب شائع ہو چکی ہیں

Click here to post a comment