ہوم << اسپارٹا، ایک بہادر ، مگر ظالم قوم - عرفان علی عزیز

اسپارٹا، ایک بہادر ، مگر ظالم قوم - عرفان علی عزیز

یونانیوں کا اساطیری دور مائی سینین کانسی کا زمانہ ‏(Mycenaean Bronze Age) بھی کہلاتا ہے۔ اسے یونانی ہیروؤں کا زمانہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس دور کی ایک اساطیری کہانی ہیلین کی داستان ہے جو عظیم یونانی شاعر ہومر کی شاعری میں بیان کی گئی ۔ یونانی ریاست سپارٹا کے بادشاہ ٹنڈاریوس کی بیٹی ہیلین کا حسن و جمال بے مثال تھا۔ بادشاہ شہزادے اور امراء اس کے خواستگار تھے لہذا شاہ ٹنڈاریوس نے ہیلن کی شادی کے لیے مقابلے کا اہتمام کیا۔ تمام امیدوار بڑے بڑے قیمتی تحائف لے کر آئے۔ ان سب سے حلف لیا گیا کہ وہ کامیاب امیدوار سے کوئی عناد نہیں رکھیں گے۔ مقابلے میں یوں مینیلوس کو ہیلن کا شوہر چن لیا گیا۔ پھر منڈاریوس تخت سے دست بردار ہو گیا اور مینیلوس اور ہیلن سپارٹا پر حکومت کرنے لگے۔ دریں اثنار یاست ٹرائے ( ایشیائے کو چک ) کا شہزادہ پیرس ایک سفارتی وفد میں شامل ہو کر سپارٹا پہنچا اور ہیروڈوٹس کے بقول ہیلن کو اغوا کر کے ٹرائے لے گیا۔ لیکن سافو لکھتا ہے کہ ہیلین اپنی مرضی سے اپنے شوہر اور 9 برس کی بیٹی ہرمیون کو چھوڑ کر پیرس کے ساتھ چلی گئی۔ اس واردات پر بسپارٹا اور ٹرائے میں جنگ چھڑ گئی۔ یونانی بحری بیڑا ٹرائے پر حملہ آور ہوا۔ مختلف جانباز اس معرکے میں شریک ہوئے جن میں شاہ مینیلوس کا بھائی ایمیون سپارٹا کا شہ زورا یکی لیز اور ٹرائے کے بادشاہ پرام کا بیٹا بیکٹر شامل تھے۔ ٹرائے کے محاصرے نے طول کھینچا تو یونانیوں نے ایک بہت بڑا چوبی گھوڑا ٹرائے کا گھوڑا ( ٹروجن ہارس ) تیار کیا۔ یونانی جنابجو اس چوبی گھوڑے میں چھپ کر حملہ آور ہوئے ۔ ایکی لیز نے ہیکٹر کو قتل کر دیا اور یوں برائے فتح ہو گیا۔ یونانیوں نے پھر ٹرائے کا قلعہ مسمار کر دیا۔ آج ترکی کے شمال مغربی ساحل پر ٹرائے کے آثار ملتے ہیں۔

سپارٹا
یونان کی کئی ریاستوں میں اسپارٹا بھی ایک ریاست تھی جو اس وجہ سے مشہور ہوئی کہ وہاں شہریوں پر ایک سخت نظام تربیت نافذ تھا۔ دوسری وجہ شہرت دوشیزہ ہیلن کی کہانی ہے جس کی وجہ سے ٹرائے کے شہر کو تہس نہس کردیا ۔ دراصل یہ نظام ان کو ریاست کا فدائی بنانے کے لیے قائم کیا گیا تھا اور اس کا واحد مقصد نہایت تندرست ، بہادر اور وطن پر جاں نثار کرنے والی قوم پیدا کرنا تھا ۔ اسپارٹا (Sparta) دراصل لیکونیا (Laconia) ریاست کا دار الحکومت تھا ۔ اسپارٹا کے معنی ہیں منتشر کے ۔ چونکہ اسپارٹا پانچ مختلف گاؤں پر مشتمل تھا لہذا اس کا یہ نام پڑا ۔ اپنے عروج کے زمانے میں اس کی آبادی ستر ہزار تھی۔۔

لیکونیا کے معاشرہ میں تین طبقے تھے سب اسے اوپر مکران ڈورین تھے ۔ ان کے قبضے میں ریاست کی ساری زمینیں تھیں ، وہ خود دار الحکومت میں رہتے اور ان کی زمینوں کو ان کے غلام لگان پر لے کر فصلیں اگاتے ۔ ریاست کی تین لاکھ چھتر ہزار کی آبادی میں سے غلاموں کی تعداد دو لاکھ جوبیسں ہزار تھی ۔ بتیس ہزار حکمران اور ان کے بیوی بچے تھے ۔ بقیہ ایک لاکھ بیس ہزار وہ آزاد لوگ تھے جن پر تجارت ، صنعت و حرفت وغیرہ کا دارومدار تھا ، جن سے ٹیکس اور فوجی خدمت لی جاتی تھی مگر جو نہ نظام حکومت میں کوئی حصہ لے سکتے تھے اور نہ حکمران طبقے کی شادی بیاہ کے رشتے قائم کر سکتے تھے ۔ غلام ہیٹس (Helots) کے نام سے موسوم تھے ۔

غلام معینہ لگان دینے کے پابند تھے ۔ ان کا وجود زمین سے وابستہ کر دیا گیا تھا ۔ نہ وہ بیچے جا سکتے تھے نہ ان کی زمین ۔ البتہ ان میں سے کچھ شہریوں کے خانگی ملازم کی حیثیت سے کام کر سکتے تھے ۔ ضرورت کے وقت ان سے فوجی خدمت کی جا سکتی تھی اور عمدہ کارکردگی پر کبھی کبھی آزاد بھی کر دیے جاتے تھے ۔ ان کی بہت بڑی تعداد ہونے کی وجہ سے ان سے مستقل خطرہ رہتا اور پولیس ان کی خفیہ نگرانی کرتی تھی ۔ پولیس کو اختیار تھا کہ بغیر مقدمہ چلانے اور بغیر وجہ جانے جس غلام کو چاہے مار ڈالے ۔ پیلو پونیشیا (Peloponnesia) سے آٹھ سال کی جنگ کے درمیان لیکونیا کے غلام بڑی بہادری سے لڑے ۔ حکومت کی طرف سے اعلان ہوا کہ غلام خود ایسے غلاموں کی فہرست مرتب کریں جو اس لڑائی میں بہت بہادری سے لڑے تھے تا کہ انہیں آزاد کر دیا جائے ۔ حکومت کا اصل مقصد یہ تھا کہ سب سے زیادہ من چلے اور دلیر غلاموں کی نشاندہی خود ان کی قوم کر دے تاکہ حکومت ایسے لوگوں کی نگرانی پر خاص توجہ کر سکے اور انہیں بغاوت کرنے کا موقع نہ دے ۔ دو ہزار بہادروں کی فہرست حکومت کو دی گئی اور منتخب شدہ لوگوں نے خوب خوشیاں منائیں ۔ یہ دو ہزار حکومت کی نگاہ میں سب سے زیادہ خطر ناک ٹھہرے اور تھوڑے عرصے ہی میں وہ سب کے سب مروا ڈالے گئے۔

یونانی مورخین متفق ہیں کہ اسپارٹا کے قوانین لائی کرگس (Lycurgus) نے مرتب کیے تھے ، وہ کب ہو گزرا ہے اس میں اختلاف ہے ۔ 900 ق م سے 600 قوم کے درمیان اس کے پانے جانے کی مختلف روایتیں ملتی ہیں ۔ لائی کرگس پلوٹارک اور ہومر کا ہم عصر بتایا جاتا ہے۔ وہ بادشاہ چار یلوسی (Charilausi) کا چچا اور ولی تھا ۔ اس نے اپنے قوانین کو دوام بخشنے کے لیے انوکھا طریقہ اختیار کیا ۔ اس نے شہریوں کو جمع کر کے ان سے حلف لیا کہ جب تک وہ ڈلفی (Delphi) کے دار الاستخارہ سے واپس نہ آجائے اس کا بنایا ہوا کوئی قانون نہ بدلا جائے ۔ وہ ذلفی سے کبھی نہیں لوٹا بلکہ اس نے کھانے پینے سے احتراز کر کے اپنے قوانین کو دائمی بنانے کی غرض سے بھوکوں مرنا گوارا کیا۔ ان قوانین میں سے کچھ یہ تھے:
1. بیک وقت دو بادشاہ ہوں گے جو مجلس عامد (Senate) کے تابع ہوں گے ۔
2. لڑائی میں فوج کی سپہ سالاری کریں گے اور عدالتی انتظام ان کے سپرد ہو گا ۔
3. سرکاری مذہب میں جو قربانیاں کرنا ضروری تھیں وہ ان کے اہتمام میں کی جائیں گی۔
مجلس عمائد کے ارکان کی تعداد اٹھائیں مقرر کی گئی تھی ۔ ساٹھ برس سے کم عمر کے لوگ رکنیت کے لیے موزوں نہیں سمجھے جاتے تھے ۔ یہ مجلس قانون بناتی ، حکومت کی پالیسی متعین کرتی اور بڑے جرائم کے فیصلے کرتی ۔

اسمبلی آٹھ ہزار افراد پر مشتمل تھی ۔ اسے اپیلا (Apolla) کہتے تھے ۔ اس کی رکنیت کے لیے تیس سال کی عمر کی قید تھی ۔ کوئی قانون اسمبلی کی منظوری کے بغیر قابل نفاذ نہ سمجھا جاتا ۔ تمام اہم معاملات میں اسمبلی کا فیصلہ حرف آخر کی حیثیت رکھتا تھا ۔ مگر لائی کرکس نے مجلس عمائد کو یہ اختیار دے دیا کہ اگر وہ اسمبلی کے کسی فیصلے کو غیر متدین (Crooked) سمجھے تو نہ مانے ۔ اس طرح بالادستی اسمبلی کے بجائے مجلس عمائد کو منتقل ہو گئی ۔ اسمبلی مجلس عمائد کے ارکان کا انتخاب بھی کرتی تھی ۔ اس کا طریقہ یہ تھا کہ سب امیدوار ایک ایک کر کے اسمبلی کے سامنے سے گزرتے تھے جس کے گزرنے پر اسمبلی سب سے زیادہ شور کرتی وہ رکن بن جاتا۔ ساری زمینیں حکمران طبقے کی ملکیت تھیں ۔ ذرتھا کہ تجارت پیشہ لوگ غیر ملکوں سے دولت کما کر لائیں گے اور حکمران طبقے کی زمینیں خرید لیں گے ۔ لائی کرگس نے اس کا تدارک کیا کہ ملک میں باہر سے سونا چاندی لانا ممنوع ٹھہرایا اور صرف لوہے کے سکے کو خرید و فروخت کے لیے جائز قرار دیا �

بیس برس کی عمر سے ساٹھ سال کی عمر تک ہر شہری پر فوجی خدمت لازم تھی ۔ باپ کو اختیار تھا کہ وہ اپنے چھوٹے بچوں کو مار ڈالے۔ اسے ہر بچہ انسکیڑوں کی کونسل کے سامنے پیش کیا جاتا ۔ جو کمزور ہوتا یا اس میں کوئی نقص ملتا اسے پہاڑ کی چوٹی سے گرا کر ہلاک کر دیا جاتا ۔ شوہروں سے توقع کی جاتی تھی کہ وہ اپنی بیویوں کو غیر معمولی جسمانی قوت رکھنے والے مردوں کے پاس بھیجیں گے تاکہ بہت تنو مند بچے پیدا ہوں ۔ بیمار اور ضعیف شوہروں کا یہ فرض سمجھا جاتا تھا کہ وہ اپنی بیویوں کو بہتر نسل کشی کی غرض سے نوجوانوں سے ملائیں ۔ جب لڑکا سات برس کا ہو جائے تو حکومت اسے اس کے ماں باپ سے لے کر تربیت دیتی ۔ بڑی عمر والے چھوٹوں کو جان بوجھ کر لڑاتے تاکہ کوئی کسی کے مقابلہ سے جی نہ چرائے ۔ اگر کوئی بزدلی دکھاتا تو اسے حقارت سے دیکھتے۔

ہر سال ایک خاص مقام پر لڑکوں کے بینتیں ماری جاتیں یہاں تک کہ جسم سے خون پکنے لگتا ۔ جب بارہ برس کی عمر ہوتی تو لڑکوں کو اندرونی کپڑوں سے محروم کر دیا جاتا اور وہ پورے سال صرف ایک کپڑا پہنتے ۔ زیادہ نہانے کی ممانعت تھی کیونکہ نہانے سے جسم نرم پڑ جاتا ہے ۔ گرمی ہو یا جاڑا لڑکوں کو سینٹھوں کے بستر پر کھلے میدان میں سلایا جاتا ۔ کھیل بالکل ننگا کر کے کھلائے جاتے اور مرد عورت سب ننگے کھلاڑیوں کے کھیل دیکھتے ۔ تیس سال کی عمر تک جوانوں کو فوجی بارکوں میں رکھا جاتا جہاں پر مشقت زندگی گزارنی پڑتی۔

تعلیم صرف اتنی کافی سمجھی جاتی تھی کہ لکھنا پڑھنا آجائے ۔ ذہنی نشوونما کی کوئی اہمیت نہیں تھی ۔ 23 سال کی تربیت پوری کر کے جب تیس سال کی عمر ہوتی تو ان نوجوانوں کو شہری حقوق ملتے اور وہ اپنے بزرگوں کے ساتھ کھانا کھانے سے مستحق ٹھہرتے ۔

لڑکیوں کی تربیت کا انتظام والدین کرتے ۔ کھیل کود ، دوڑ ، کشتی وغیرہ میں انہیں مشغول رکھا جاتا کہ وہ تندرست و توانا ہو کر صحت مند اولاد پیدا کریں ۔ ان کے لیے لازمی تھا کہ جب ناچنے جائیں تو بالکل ننگی ہو کر جائیں ۔ جب ان کے جلوس نکلتے اس وقت بھی انہیں برہنہ ہو نا ضروری تھا ۔ مقصد یہ تھا کہ وہ اپنے جسموں کو متوازن اور دیدہ زیب بنائیں ۔ لڑکیوں کے لیے تعلیم بالکل غیر ضروری سمجھی جاتی تھی ۔

محبت کے معاملے میں بہت آزادی تھی ۔ مرد لڑکوں سے بے تکلف صحبت کرتے تھے ۔ قریب قریب ہر شخص ایک لڑکا رکھتا تھا اور اس کی تربیت کرتا تھا ۔ مردوں کے لیے شادی کرنے کی عمر تیس سال اور عورتوں کے لیے بیس سال مقرر تھی ۔ جو شہری شادی نہیں کرتا تھا وہ حق رائے دہی سے محروم کر دیا جاتا اور وہ ان جلوسوں میں شرکت سے باز رکھا جاتا جن میں مرد عورت ننگے جاتے تھے ۔ جو شادی سے گریز کرنے پر اصرار کرتے تھے ان کو زدو کوب اور بے عزت کرنے کے لیے عورتوں کی ٹولیاں مقرر کی جاتیں جو راہ چلتے انہیں ذلیل کرتیں ۔ جن مردوں کے بچے نہ ہوتے وہ بھی نہایت حقارت سے دیکھے جاتے۔

شادی والدین طے کرتے ۔ شادی طے ہونے کے بعد دلہن کو زبردستی اٹھا لانا دولہا کا فرض تھا اور دلہن سے توقع کی جاتی تھی کہ وہ حتی المقدور مزاحمت کرے ۔ ایک طریقہ شادی کا یہ بھی تھا کہ مردوں اور عورتوں کو برابر تعداد میں لا کر اندھیرے گھر میں چھوڑ دیا جاتا اور اندھیرے گھر میں وہ اپنی شادیاں طے کرتے ۔ شادی کے بعد بھی دستور کے مطابق دلہن کو اس کے ماں باپ کے گھر کچھ مدت رکھا جاتا، اس کا شوہر اپنی بارک سے چوری چھپے آ کر ملتا ۔ ایسا بھی کبھی کبھی ہوتا کہ یہاں کئی بچوں کا باپ بن جاتا اور اسے روشنی میں اپنی بیوی کا چہرہ دیکھنا نصیب نہ ہوتا ۔ شوہر اپنے بھائیوں کو بھی اپنی بیوی سے جنسی تعلق قائم کرنے کی اجازت دے دیتا تھا ۔ اگر کوئی اپنی بیوی کو چھوڑ کر کسی زیادہ خوبصورت عورت سے شادی کرنا چاہتا تو وہ مورد تعزیر ہوتا ۔ طلاق کا رواج قریب قریب نہ ہونے کے برابر تھا۔ عورتیں تر کہ پائیں اور دوسروں کے حق میں وصیت کر سکتی تھیں۔

قانون کی رو سے تیس سال سے ساٹھ سال کی عمر کے لوگوں کو عمومی مطعم ‏(Public Dining Hall) میں کھانا کھانا لازم تھا ، جہاں بہت سادہ کھانا دیا جاتا اور اس کی مقدار ذرا کم رکھی جاتی تھی ۔ چونکہ ساٹھ برس کی عمر تک لوگوں سے فوجی خدمت کی جاتی تھی ، اس لیے انہیں تن پروری کا موقع نہیں دیا جاتا تھا۔ ہر شہری کے لیے ضروری تھا کہ وہ عمومی مطعم کو اپنے حصے کی جنس وغیرہ معینہ میعاد کے اندر پہنچاتا رہے اور نہ اس کے حقوق حریت ضبط کر لیے جاتے تھے ۔ اگر کسی کا پیٹ بڑھ جاتا تو حکومت اس کو تنبیہ کرتی اور تنبیہہ کارگر نہ ہوتی تو جلاوطن کر دیتی۔ ان تمام احتیاطوں کے باوجود طمع کا مکمل انسداد نہ ہو سکا ۔ بادشاہ سینیٹر ، جرنیل سفیر سب ہی خریدے جا سکتے تھے ۔

اسپارٹا میں مہمان نوازی کا رواج نہ تھا ۔ غیر ملکی لوگوں کو جلد از جلد اسپارٹا چھوڑنے کی ترغیب دی جاتی تھی اور خود اسپارٹا والوں کے لیے بغیر حکومت کی اجازت کے ملک سےباہر جانا ممنوع تھا ۔ ان کو ایسا خود پسند اور برخود غلط بنا دیا گیا تھا کہ وہ اپنے آپ کو دنیا بھر سے بہتر و برتر سمجھتے تھے ۔ اسپارٹا کا معاشرہ ایسا مصنوعی تھا کہ دوسرے معاشروں سے اتصال کے بعد اس کا قائم رہنا ممکن نہ تھا ۔ جہاں نہ تعلیم ہو ، نہ فون ہوں ، نہ آزادی ہو نہ آرام و راحت وہاں بیرونی اثرات کے پہنچتے ہی معاشرے کی مصنوعی عمارت کا منہدم ہو جانا یقینی تھا ۔ مزید برآں ملک میں دو تہائی سے زیادہ غلام تھے ۔ انہیں دبانے رکھنے کے لیے آزادی کے بجائے طاقت کی ضرورت تھی۔ طاقت کے زور پر ہی اسپارٹا اپنی برتری قائم رکھ سکا، مگر اس کی اسے بھاری قیمت دینی پڑی ۔ خود غرضی ، سرد مہری اور بے رحمی قومی مزاج میں سرایت کر گئیں ۔ لوگ ذہنی و اخلاقی پستی میں جا گرے اور اچھے انسان نہ بن سکے صرف اچھے سپاہی بن کر رہ گئے ۔

جب اسپارٹا والوں کو شکست ہوئی تو اس پر حیرت کرنے والے تو بہت تھے مگر آنسو بہانے والا کوئی نہ تھا ۔ یہ شکست انہیں 425 ق م میں جزیرہ سفاک ٹیریا ‏(Sphacteria) میں ہوئی جہاں ان کی فوج کو ایتھنز کے بیڑے نے ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا ۔ آج اسپارٹا کے کھنڈروں میں ایسی ایک چیز بھی نہیں ملتی جو ان کی عظمت کی شہادت دے سکے۔

Comments

Avatar photo

عرفان علی عزیز

عرفان علی عزیز بہاولپور سے تعلق رکھتے ہیں۔ افسانہ و ناول نگاری اور شاعری سے شغف ہے۔ ترجمہ نگاری میں مہارت رکھتے ہیں۔ مختلف رسائل و جرائد میں افسانے اور جاسوسی کہانیاں ناول شائع ہوتے ہیں۔ سیرت سید الانبیاء ﷺ پر سید البشر خیر البشر، انوکھا پتھر، ستارہ داؤدی کی تلاش نامی کتب شائع ہو چکی ہیں۔ شاعری پر مشتمل کتاب زیرطبع ہے

Click here to post a comment